سمندروں کے پاسبان

میں پاکستان نیوی ڈے کے موقعے پر اپنے پروگرام ’’گرفت‘‘ کی ریکارڈنگ کے لیے نیوی ڈاکیارڈ پہنچا تھا۔

خوشی یا کسی بھی تہوارکے موقعے پر جب گھر والوں سے دور ہوتے ہو تو دکھ نہیں ہوتا ؟ یہ سوال میں نے اس نوجوان سے کیا جو پاک بحریہ کا بے داغ یونیفارم زیب تن کیے، پی این ایس طارق ڈسٹرائر فریگیٹ شپ کے عرشے پر ڈیوٹی انجام دے رہا تھا۔قد آور نوجوان نے مسکرا کر میری جانب دیکھا ، اس کی آنکھوں میں عجب سی چمک تھی۔ نیوی میں کمیشن حاصل کرنے کے بعد میری اولین ترجیح ملک کی حفاظت ہے اور باقی ہر رشتے اور خواہش بے معنی ہے ۔ سب لیفٹیننٹ فہد کے اس جذبے کو دیکھ کر طمانیت کا احساس ہوا کہ جس ملک کے پاسبانوں کا جذبہ ایسا ہو بھلا اسے کون شکست دے سکتا ہے۔

میں پاکستان نیوی ڈے کے موقعے پر اپنے پروگرام ''گرفت'' کی ریکارڈنگ کے لیے نیوی ڈاکیارڈ پہنچا تھا۔آٹھ ستمبر وہ تاریخی دن ہے جب پاکستان نیوی نے سات اورآٹھ کی درمیانی شب بھارتی علاقے میں گھس کر ''دوارکا'' کے اہم ساحلی مرکزکی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی ۔ سات ستمبرکے روز پاک بحریہ کے جہاز حفاظتی گشت پر تھے کہ انھیں جنوبی دوارکا سے ایک سو بیس کلومیٹر آگے بڑھ کر پوزیشن سنبھالنے کی ہدایت ملی ۔ شام چھ بجے تک پوزیشن سنبھال کر ریڈاراسٹیشن کو بمباری کا ہدف دیا گیا ۔ پاک بحریہ کے سات جہاز جو ستائیس گنوں سے لیس تھے وہ نصف شب تک پوزیشن سنبھال چکے تھے ۔

بابر نامی کروزکے پاس پانچ اعشاریہ دو پانچ ٹورٹس، پی این ایس خیبرکے پاس چاراعشاریہ پانچ ٹورٹس، دو جنگی ڈسٹرائرز ، تین چوکرکلاس چار اعشاریہ پانچ مونٹگنز اور ایک فریگیٹ ٹیپو کے پاس چار مونٹگنز تھیں۔ جہازوں نے شمال مغرب کی جانب رخ کرتے ہوئے بیک وقت فائرنگ کا آغاز کیا۔ توپوں کے دھانے اندھیری رات میں شعلے اگل رہے تھے۔ تاریکی کے باعث ریڈار کی مدد سے ٹارگٹ کا تعین کیا جا رہا تھا اور آگ کے گولے دشمن پر عذاب بن کر نازل ہو رہے تھے ۔

دشمن کے گمان میں بھی نہ تھا کہ پاک بحریہ ان کی حدود میں گھس کر انھیں تہس نہس کرکے رکھ دے گی ۔ اس حملے میں ''دوارکا'' کا نام ونشان مٹ گیا۔بھارتی بحریہ کے دو افسر اور تیرہ سیلرز مارے گئے۔ پاک بحریہ کی بہترین جنگی حکمت عملی کام آئی کیونکہ دوسری جانب پاک بحریہ ممبئی سے بھارتی بیڑہ کو باہر لانے میں کامیاب ہوئی ۔ بھارتی بحریہ وکرانت نامی طیارہ بردار جہاز سے لیس ہونے کے ساتھ جنگی اعتبار سے سبقت رکھتی تھی لیکن وقت نے ثابت کیا کہ جنگیں حوصلے اور دلیری سے جیتی جاتی ہیں ۔

پاک بحریہ کی واحد آبدوز غازی نے بھارت کا بیڑہ غرق کر دیا اور یوں پاک بحریہ نے تاریخ میں اپنا نام رقم کر لیا۔بھارتی میڈیا کی جانب سے مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان میں گھس کر مارا جائے لیکن وہ ناکام رہے اور ہماری نیوی نے کئی سال پہلے ایسا کر دکھایا ۔ میں نے پی این ایس طارق کے کمانڈر وسیم سے سوال کیا کہ آخر ایسا چٹانی حوصلہ کیسے ہے ہماری افواج میں؟ جواب میں انھوں نے کہا کہ ہم امن پسند ملک ہیں لیکن اگرکوئی ہماری جانب آنکھ اٹھا کر دیکھے تو اسے بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آٹھ ستمبر انیس سو پینسٹھ میں بھی بھارت کو جواب دینا ہماری مجبوری تھا کیونکہ وہ کراچی پر حملے کی مکمل منصوبہ بندی کرچکے تھے ۔


انھوں نے پاکستان نیوی کی گرانقدر خدمات کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ اس وقت جس شپ پر موجود ہیں ، سن دو ہزارچار میں یہ شپ مالدیپ کے ساحل پر لنگر انداز تھا۔ اس وقت بھی اس شپ پر خدمات انجام دے رہا تھاکہ اچانک سونامی طوفان آگیا ۔ دارالحکومت مالے سے ایک سو ناٹیکل میل دور جنوب میں واقع جزیرے میمو اٹول پر پھنسے تین سو سڑسٹھ لوگوں کو ہم نے اسی جہازکی مدد سے بچایا ۔ پاک بحریہ نے بغیرکسی رنگ ، نسل ومذہب جانے سب کی مدد کی اور انھیں پاکستان لایا گیا جہاں سے طبی امداد کے بعد انھیں ان کے ممالک روانہ کیا گیا ۔ بچائے جانے والوں میں فرانس کے ایک منسٹر بھی شامل تھے۔ کمانڈر وسیم کیونکہ خود اس مشن میں شامل تھے،اس لیے ان کی زبانی تفصیلات جاننے میں لطف آیا ۔

دریں اثناء چائے کا وقفہ ہوا ۔ پی این ایس سلطان کے کیپٹن ملاقات کے منتظر تھے۔ میں اپنے ساتھی مرتضیٰ کے ساتھ ان کے کیبن میں داخل ہوا ۔ پرتپاک انداز میں ملے ۔اس دوران سیر حاصل گفتگو ہوتی رہی۔ وقت کی کمی کے باعث جلد اجازت چاہی اور دوبارہ پروگرام شوٹ میں مصروف ہوگئے۔ ڈیک پر پہنچے جہاں کمانڈر وسیم دوبارہ منتظر تھے۔ انھوں نے آگاہ کیا کہ کس طرح جہازکی روانگی سے قبل تیاریاں کی جاتی ہیں ۔ توپوں اورگنز سمیت ہر طریقے سے جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔

پانی کے نیچے موجود جہاز کے حصے کو چیک کرنا اہم ہے مبادہ کوئی پانی کا فائدہ اٹھا کر دھماکا خیز مواد ہی نہ نصب کرگیا ہو ۔ اس ساری صورتحال کو فلمبند کرنے کے لیے میں کیمرہ مین اور ٹیم کے ساتھ جی آر پی بوٹ میں سوار ہوا ۔ احتیاط کے پیش نظر ہم نے لائف جیکٹس پہن رکھی تھیں ۔ جہاز سے کچھ دور آنے کے بعد ہمارے سامنے عملی مظاہرہ کیا گیا۔ دو ڈائیور مکمل لباس کے ساتھ جہاز سے پانی میں کودے اور انھوں نے پانی میں شپ کا موثر جائزہ لیا ۔

اسی دوران اگر کوئی پانی میں گر جائے تو اسے کیسے بچانا ہے یہ مظاہرہ بھی پیش کیا گیا ۔ ایک جوان کو پانی میں گرنے کے بعد ڈائیور نے اس کے چہرے کو مخصوص پوزیشن میں پانی سے باہر رکھتے ہوئے کشتی تک پہنچایا ۔ میں نے دیکھا کہ پاک بحریہ میرینزکی ہاربر بوٹس سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے مستقل پٹرولنگ میں مصروف تھیں جب کہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے پورے علاقے کی نگرانی کا عمل جاری تھا ۔ پاک بحریہ کی زولو بوٹس بھی اطراف دکھائی دے رہی تھیں ۔ پی این ایس طارق کے ساتھ پی این ایس شاہجہاں بھی موجود تھا ۔

جہازکے عرشے پر واپس پہنچے تو ایک سیلرکی نیم پلیٹ دیکھ کا اندازہ ہوا کہ ہندو مت سے تعلق رکھتا ہے ۔ میں اس کی جانب بڑھا اور مائیک اس کے سامنے کرکے سوال کر ڈالا۔ پاک بحریہ کے اس جوان نے پر جوش انداز میں جواب دیا کہ پاکستان میرا وطن ہے اور اس کی حفاظت کے لیے اپنی اور بچوں کی جان بھی دینا پڑی توگریز نہ کروں گا۔اسے گلے لگا کر اس کے جذبے کی داد دی۔ واقعی ہمارے وطن کے جوانوں کا مذہب خواہ کوئی بھی ہو وطن کی حفاظت کے لیے جان دینا بھی اعزاز سمجھتے ہیں ۔

اس کے بعد کمانڈر وسیم برج کنٹرول روم لے گئے جہاں بتایا کہ کس طرح جہازکو آپریٹ کیا جاتا ہے۔ شپ کے کیپٹن اپنی سیٹ پر بیٹھ کر ہدایات جاری کرتے ہیں ۔کوارٹر ماسٹر ہدایات پر عمل کرتے شپ کو چلاتا ہے۔ اس دوران معلوم ہوا کہ جہاز میں بوقت ضرورت مختلف طرح کے الارم بجائے جاتے ہیں جس سے جوان واقف ہوتے ہیں اور مخصوص الارم سن کر انھیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ ایمرجنسی کی نوعیت کیا ہے۔ نماز کے وقت جہاز میں اذان کی آواز گونجنے لگی اور افسر و جوان عرشے پر باجماعت نماز میں مشغول ہوگئے۔ نماز کے بعد کیونکہ عرشے پر جوان جمع تھے تو خاص جذبے کے تحت میں نے '' پاکستان زندہ باد'' کا نعرہ لگا ڈالا ، پرجوش انداز میں بھر پور جواب آیا اور '' پاکستان زندہ باد'' کی صدائیں سمندرکا سینہ چیرتی فضاء میں گونجنے لگی ۔
Load Next Story