وعدہ خلافی کی مذمّت و ممانعت

افسوس اخلاقی انحطاط اور پستی کی وجہ سے آج سماج میں وعدہ خلافی کی نوع بہ نوع صورتیں مروّج ہوگئی ہیں۔

افسوس اخلاقی انحطاط اور پستی کی وجہ سے آج سماج میں وعدہ خلافی کی نوع بہ نوع صورتیں مروّج ہوگئی ہیں۔ فوٹو: فائل

ﷲ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے آخرت کا نظام یہ رکھا ہے کہ چیزوں کا مہیا ہونا انسان کی خواہشات کے تابع ہوگا، انسان جو چاہے گا فوراً اس کے لیے وہ چیز فراہم ہو جائے گی۔ لیکن دنیا کا معاملہ اس سے مختلف ہے، یہاں انسان ایک چیز کی خواہش کرتا ہے، لیکن وہ اسے بروقت پورا نہیں کرسکتا، وہ ایک چیز کا ضرورت مند ہوتا ہے، لیکن وہ چیز اسے بروقت مہیا نہیں ہوتی۔

اسی لیے انسان ایک دوسرے سے لین دین کا محتاج ہوتا ہے، اس لین دین میں اکثر عہد و پیمان کی نوبت آتی ہے، اس لیے شاید ہی کوئی انسان ہو جس کو زندگی کے مختلف مراحل میں خود وعدہ کرنے یا دوسروں کے وعدے پر بھروسا کرنے کی نوبت نہ آتی ہو۔ وعدہ کرنے والے پر دوسرا شخص بھروسا اور اعتماد کرتا ہے اور بعض دفعہ اس اعتماد پر خود بہت سے معاملات طے کر گزرتا ہے، اس لیے وعدے کی بڑی اہمیت ہے۔

اسی لیے اسلام میں بڑی تاکید کے ساتھ عہد کو پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور عہد شکنی کی مذمت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، مفہوم : '' عہد کو پورا کرو، کیوں کہ قیامت کے دن عہد کے بارے میں انسان جواب دہ ہوگا۔'' قرآن نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے، جو وعدے کو پورا کرتے ہوں اور ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو اپنے وعدے کا پاس و لحاظ رکھتے ہوں۔ خود اللہ تعالیٰ نے اپنی اس صفت کا بار بار ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات کے ذریعے بھی ایفائے عہد کی اہمیت اور وعدہ خلافی کی بُرائی کو بیان فرمایا ہے۔

آپؐ نے فرمایا : '' جس میں تین باتیں پائی جاتی ہوں وہ منافق ہے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، اگر اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔'' (بخاری) نفاق، کفر کی ایک قسم ہے اور وعدہ خلافی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفاق قرار دیا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وعدہ خلافی کس قدر مذموم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعے ایفائے عہد کی ایسی مثال قائم کی ہے کہ اس کی نظیر ملنا دشوار ہے۔ عبداللہ بن ابی الحمساء سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خرید و فروخت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ چیزیں باقی رہ گئیں، میں نے وعدہ کیا کہ میں یہ چیزیں یہاں لے کر آتا ہوں، میں بُھول گیا، یہاں تک کہ آج اور آئندہ کل کا دن گزر گیا، تیسرے دن میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ پر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اس قدر فرمایا: '' تم نے مجھے مشقت میں ڈال دیا، میں یہاں تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔'' (ابوداؤد )

وعدے کی پابندی اور ایفائے عہد کا یہی سبق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپؐ کے رفقاء نے پڑھا، اور اپنی عملی زندگی میں اسے برت کر دکھایا۔ چناں چہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی وفات کا وقت آیا، تو فرمایا کہ قریش کے ایک شخص نے میری بیٹی کے لیے نکاح کا پیغام دیا تھا اور میں نے اس سے کچھ ایسی بات کہی تھی جو وعدے سے ملتی جلتی ہے، تو میں ایک تہائی نفاق یعنی نفاق کی تین میں سے ایک علامت کے ساتھ اللہ سے ملنا نہیں چاہتا، اس لیے میں تم لوگوں کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اس سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا۔ (احیاء العلوم)

ان واقعات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ کی نگاہ میں وعدے کو پورا کرنے کی کس قدر اہمیت تھی! دوست ہو یا دشمن، اپنا ہو یا بیگانا اور مسلمان ہو یا غیر مسلم، ہر ایک کے ساتھ عہد کی پابندی ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ سے جوں ہی فارغ ہوئے حضرت ابوجندلؓ خون میں لہولہان اور پاؤں میں بیڑیاں لگی ہوئی تشریف لے آئے، اور مسلمانوں سے عرض کناں ہوئے کہ انہیں مدینہ لے جایا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کو راضی کرنے کی کوشش کی کہ اس دفعہ سے جو مکہ سے مسلمان ہوکر مدینہ جانے والوں کو واپس کرنے کے سلسلہ میں ہے، اس سے ابوجندلؓ کو مستثنیٰ رکھا جائے، لیکن اہل مکہ نے نہیں مانا۔ چناں چہ بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں واپس فرما دیا۔ اسی طرح جن غیر مسلم قبائل سے آپؐ کے معاہدات ہوئے، آپؐ نے ان معاہدات کا پورا خیال رکھا۔ بل کہ بعض مرتبہ مخالفین کی عہد شکنی کو برداشت کرتے ہوئے بھی آپؐ اپنے عہد پر قائم رہے۔

افسوس اخلاقی انحطاط اور پستی کی وجہ سے آج سماج میں وعدہ خلافی کی نوع بہ نوع صورتیں مروّج ہوگئی ہیں اور لوگوں کے ذہن میں اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ قرض وغیرہ کے لین دین ہی سے وعدے کا تعلق ہے، حالاں کہ ہم زندگی کے تمام مراحل میں عہد و پیماں سے گزرتے ہیں۔ معاملات جتنے بھی ہیں، نکاح، خرید و فروخت، شراکت داری، دو طرفہ وعدے ہی سے عبارت ہے، اسی لیے معاملات کو عربی میں عقد کہا جاتا ہے، عقد کے معنی دو طرفہ وعدے اور معاہدے کے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ایک سے زیادہ مواقع پر ایفائے عقود کی طرف متوجہ فرمایا ہے۔ نکاح کے ذریعے مرد عورت کے ساتھ حسن سلوک اور اس کے اخراجات کی ادائی کا عہد کرتا ہے اور عورت جائز باتوں میں شوہر کی فرماں برداری کا وعدہ کرتی ہے، لہٰذا اگر شوہر بیوی کی حق تلفی کرے یا بیوی شوہر کی حکم عدولی تو نہ صرف حق تلفی اور عدول حکمی کا گناہ ہوگا، بل کہ وہ وعدہ خلافی کے بھی گناہ گار ہوں گے۔ بیچنے والا گاہک سے مال کے صحیح ہونے اور قیمت کے مناسب ہونے کا وعدہ کرتا ہے، اگر وہ گاہک سے عیب چھپا کر سامان بیچے یا قیمت میں معمول سے زیادہ نفع وصول کرلے اور گاہک کو جتائے کہ اس نے معمولی نفع پر سامان فروخت کیا ہے، تو یہ عقد تجارت کے ذریعے فریقین ایک دوسرے کے ساتھ جو عہد کرتے ہیں۔


اس کی خلاف ورزی ہے۔ جب آپ کہیں ملازمت کرتے ہیں تو سرکاری یا غیر سرکاری ادارے میں جو اوقات کار متعین ہوں، آپ ان اوقات میں اپنی ڈیوٹی پر حاضر رہنے کا عہد کرتے ہیں، اگر آپ ان اوقات کی پابندی نہ کریں، دیر سے دفتر پہنچیں، پہلے دفتر سے نکل جائیں، یا درمیان میں دفتر چھوڑ دیں، یا دفتر کے اوقات میں مفوضہ کاموں کو انجام دینے کے بہ جائے اپنے ذاتی کام کرنے لگیں، تو یہ بھی وعدے کی خلاف ورزی میں شامل ہے۔

بعض شعبوں میں ملازمین کو خصوصی الاؤنس دیا جاتا ہے کہ وہ پرائیویٹ طور پر کوئی اور کام نہ کریں، خاص کر طبی شعبے میں گورنمنٹ چاہتی ہے کہ ڈاکٹر کی پوری صلاحیت سرکاری دواخانے میں آنے والے مریضوں پر خرچ ہو، کیوں کہ انسان کی قوت کار محدود ہے، اور جو شخص اسپتال میں آنے سے پہلے اپنی قوت ڈھیر سارے مریضوں کو دیکھنے پر صرف کرچکا ہو، یقینا اب جو مریض اس کے سامنے آئیں گے، وہ کماحقہ اس کی تشخیص نہیں کرسکے گا، اب اگر کوئی شخص حکومت سے الاؤنس بھی حاصل کرے اور نجی کلینک اور نرسنگ ہوم بھی چلائے تو یہ وعدہ خلافی ہی کے زمرے میں آئے گا۔ اور یہ بات تو ستم بالائے ستم ہوگی کہ جب کوئی مریض سرکاری دواخانے میں آئے، تو معالج اس سے ایسی بے اعتنائی برتے کہ وہ اس کے نجی دواخانے سے رجوع ہونے پر مجبور ہو جائے۔ یہ وعدہ خلافی کے ساتھ ساتھ عوام پر کھلا ظلم بھی ہے۔

آج کل بعض سواریوں کے لیے حکومت کی طرف سے میٹر لگے ہوئے ہیں، اس میٹر میں فریقین کی رعایت ملحوظ ہے، لیکن ہوتا یہ ہے کہ مسافر کی مجبوری اور ضرورت کو دیکھتے ہوئے میٹر سے زیادہ پیسے طلب کیے جاتے ہیں، یہ بھی وعدہ خلافی کے زمرے میں داخل ہے۔ کیوں کہ حکومت کا لائسینس ٹیکس کے قواعد و ضوابط کے ساتھ مربوط ہے، گویا لائسینس لینے والا اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ حکومت کی ہدایت کے مطابق ہی پیسے وصول کرے گا، لوگوں کی مجبوری کو دیکھتے ہوئے زاید پیسوں کا طلب گار ہونا اس عہد کی خلاف ورزی ہے۔

وعدہ کا تعلق ہماری تقریبات، جلسوں اور دعوتوں سے بھی ہے، مثلاً دعوت نامے میں لکھا گیا کہ نکاح عصر کے بعد ہوگا، لیکن جب تقریب میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ نوشہ میاں اپنی شانِ خاص کے ساتھ عشاء کے بعد تشریف لائے۔ دعوت نامے میں لکھا گیا کہ طعام ولیمہ آٹھ بجے شب میں ہے لیکن حقیقت معنوں میں دعوت کی ابتدا دس بجے شب سے ہوئی، کیا یہ وعدے کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ غور کیجیے کہ لوگ ایسی تقریبات میں شرکت اپنے تعلقات کی پاس داری میں کرتے ہیں۔ کسی کے ہاں بیماری ہے، کوئی خود بیمار ہے، کسی نے تقریب کے وقت کے لحاظ سے آئندہ پروگرام بنا رکھا ہے، ایسے مواقع پر یہ تاخیر ان کے لیے کس قدر گراں گزرتی ہے۔

افسوس کہ دینی جلسوں اور پروگراموں میں بھی ہم اس کی رعایت ملحوظ نہیں رکھتے۔ اعلان ہوا کہ نمازِ عشاء کے فوراً بعد جلسہ شروع ہوگا، لیکن عملاً مزید دو گھنٹے تاخیر سے جلسے کا آغاز ہوا۔ دعوت نامے میں صبح نو بجے سے جلسے کا اعلان کیا گیا، لیکن جلسے کا آغاز ہی گیارہ بجے کے بعد ہوا، یہ وعدہ خلافی بھی ہے اور وقت کی ناقدری بھی۔ کچھ یہی حال بعض مقررین کا ہوتا ہے، مقرر صاحب کو وقت بیس منٹ کا دیا گیا لیکن جب مائک ان کے ہاتھ میں آیا تو انہوں نے یہ جانا کہ اس پروگرام میں ان کے سوا کسی اور کو تقریر کا حق نہیں، اور اس طرح دوسرے مقررین کے لیے یا تو وقت نہیں بچا، یا سامعین کے صبر کا امتحان ہوتا رہا۔

اسلام نے تمام عبادتوں کو وقت کے ساتھ مربوط رکھا ہے۔ نماز کے لیے اوقات مقرر ہیں، وقت گزر جائے تو نماز قضاء ہو جائے گی، وقت سے پہلے پڑھ لی جائے تو نماز ادا ہی نہ ہوگی۔ روزہ بھی وقت سے متعلق ہے، دو منٹ پہلے افطار کر لے تو روزہ درست نہیں ہوگا، دو منٹ بعد سحری کھائیں تب بھی روزہ فاسد ہو جائے گا۔ حج بھی مقررہ ایام میں کیا جاتا ہے اور حج کے تمام افعال کے لیے ایام و اوقات مقرر ہیں۔ زکوٰۃ کا تعلق بھی مال پر سال گزرنے سے ہے۔ عجیب بات ہے کہ جس دین میں وقت کا اتنا پاس و لحاظ ہو، اسی دین کے ماننے والوں میں وقت کی اس درجے ناقدری، یہ سب باتیں وعدہ خلافی میں داخل ہیں!

ہم جب کسی ملک کی شہریت اختیار کریں تو یہ اس ملک کے قوانین پر عمل کرنے کا عہد کرنا ہے، لہٰذا جب تک وہ قوانین اسلامی تعلیمات کے خلاف نہ ہوں یا صریحاً ظلم پر مبنی نہ ہوں ان قوانین کا پابند رہنا ہم پر واجب ہے اور اس کی رعایت نہ کرنا ملک کے ساتھ کیے ہوئے عہد کی خلاف ورزی ہے۔

اس لیے اس سے بچنا ضروری ہے۔ غرض، سماجی زندگی میں ہم ہر جگہ ایک عہد کے پابند ہیں، بعض عہد ہم اپنی زبان سے کرتے ہیں، بعض عہد ملک کے شہری ہونے کے لحاظ سے از خود ہم سے متعلق ہوجاتا ہے، بعض عہد کسی معاملے کی وجہ سے شرعاً ہمارے ذمے ہوتا ہے اور بعض سماج کے رواج کی بنیاد پر بھی ہمارے لیے واجب العمل ہوتا ہے۔ ہم پر ان سب کی پاس داری ضروری ہے، مگر زندگی کے کتنے ہی مراحل میں ہم اپنے عہد و پیمان توڑتے ہیں اور وعدے وفا نہیں کرتے، اس پر دقت ِنظر کے ساتھ غور کرنے اور وعدہ خلافی و بدعہدی کے گناہ سے بچنے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story