’’آئندہ چند روزسندھ کے لیے بڑے نازک ہوں گے‘‘
پی پی کا متحدہ کو قائل کرنے کا امکان، الطاف فون پر نواز کو مبارکباد دیں برف پگھل سکتی ہے
متحدہ قومی موومنٹ کا حزب اختلاف میں بیٹھنے کا فیصلہ 85 سالہ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے لیے شاید اچھی خبر نہ ہو، جن کا ٹریک ریکارڈ کمزور منتظم کے طور پر رہا ہے۔
ان کے گزشتہ مکمل دور حکومت میں 5 ہزار افراد مارے گئے ،جن میں سے زیادہ تر کی ہلاکت ٹارگٹ کلنگ یا بم دھماکوں میں ہوئی۔ ایم کیو ایم کے اس فیصلے سے کئی سوال جنم لیتے ہیں کہ کیا انھوں نے طویل عرصے کے لیے حزب اختلاف میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے یا ان کے دروازے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں کے لیے کھلے ہیں۔ رابطہ کمیٹی کا یہ فیصلہ حیران کن ہے کہ گورنر سندھ عشرت العباد کا معاملہ وفاقی حکومت کرے گی حالانکہ یہ فیصلہ صدر آصف زرداری کریں گے۔ تا ہم ایم کیو ایم نے گورنر کو اپنا استعفیٰ صدر کے نام بھجوانے کیلیے نہیں کہا جس سے یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی شاید اپنے پرانے اتحادی کو اتحاد میں شمولیت کیلئے قائم کرنے کی کوشش کرے گی۔
یہ بدستور پراسرار ہے کہ پیپلزپارٹی نے ایم کیو ایم رہنمائوں سے ملنے کی کوشش کیوں نہیں کی حالانکہ 3 رکنی کمیٹی بھی قائم ہو چکی تھی حتیٰ کہ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے فیصلے کے اعلان کے بعد بھی لندن یا نائن زیرو کوئی ٹیلی فون نہیں کیاگیا۔ یہ بھی رپورٹس ہیں کہ ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی کی طرف سے وزارت داخلہ دینے سے انکار اور سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012ء کے مسئلے پر ناراض ہے۔ ابھی تک پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے رہنمائوں کا ایک دوسرے کے خلاف لہجہ جارحانہ نہیں تا ہم دونوں اطراف کا رابطہ بھی نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کی طرف سے حزب اختلاف میں بیٹھنے کے فیصلے سے مسلم لیگ ن اور فنکشنل لیگ بھی مایوس ہوئی ہیں جو قائد حزب اختلاف کیلئے مشترکہ امیدوار لانے پر غور کر رہے تھے۔
یوں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف دونوں سابق حکومتی اتحاد سے تعلق رکھتے ہیں اگرچہ موخر الذکر کیلئے رسمی اعلان ابھی ہونا ہے۔ اگر سیاسی صورتحال خراب ہوئی اور ایم کیو ایم کا موجودہ موقف پولیس اور رینجرز کے حوالے سے جارحانہ ہو گیا تو فضا پیپلزپارٹی مخالف ہو سکتی ہے اور معاملات بے قابو ہو سکتے ہیں،جس کے حوالے سے شاہ صاحب کمزور واقع ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ایم کیو ایم رہنما بابر غوری اور مسلم لیگ ن کے اسحاق ڈار کے درمیان غیر رسمی رابطے کے حوالے سے کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔ الطاف حسین اور لیگی رہنمائوں نوازشریف، شہباز شریف کے درمیان ابھی تک براہ راست رابطہ نہیں ہوا ہے۔ اسحاق ڈار چاہتے ہیں کہ الطاف حسین خود فون کر کے نوازشریف کو انتخابات میں فتح کی مبارکباد دیں۔
جس کے بعد نواز،شہباز کی کال سے برف پگھل سکتی ہے تاہم ایسا نہیں ہوا۔ اسی اثناء میں ایم کیو ایم نے اپنے 3 اہم کارکنوں کی مبینہ طور پر ماورائے عدالت قتل اور 9 کی گمشدگی کے متعلق مہم شروع کر رکھی ہے، وہ اندرون و بیرون ملک احتجاج کے حوالے سے پہلے ہی اعلان کر چکی ہے۔ ایم کیو ایم رہنماٹی وی سکرینوں پر اسی اعتماد کے ساتھ پھرنمودار ہونا شروع ہو گئے ہیں تا ہم شریف کیمپ کی طرف سے کسی بیان یا کلمات کے آنے تک مسلم لیگ ن یا نوازشریف کے خلاف جارح نہیں ہوں گے۔ لہٰذا آئندہ چند روز یا شاید دو ہفتے سندھ کے لئے بڑے نازک ہوں گے اور دیکھنا ہو گا کہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت یا وزیر اعلیٰ سندھ کیا فیصلہ کرتے ہیں اور ایم کیو ایم کو مرکز کی طرف سے کیا ردعمل ملتا ہے؟ گزشتہ پانچ برسوں میں امن وامان بہتر نہ کرنے والے شخص سے اس حوالے سے کوئی امید نہیں تا ہم شاہ صاحب کیلیے بہترین موقع ہے کہ وہ تیسری مرتبہ وزیر اعلیٰ بن کر صوبے اور خصوصاً ملکی معیشت کے مرکز کراچی میں امن وامان قائم کر کے تاریخ میں نام بنا سکتے ہیں۔
ایم کیو ایم کیلئے بھی یہ کامیابی یا تباہی کا موقع ہے۔ وہ سندھ یا مرکز میں حکومت میں شامل نہ ہو کر کراچی کو تشدد سے پاک شہر بنانے کیلئے تعمیری اپوزیشن کا کردار ادا کر کے اپنے ناقدین کو غلط ثابت کر سکتی ہے تا ہم اس کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کو سیاسی تنہائی سے بھی بچنا ہو گا کیونکہ مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے ساتھ ان کے پہلے ہی اختلافات ہیں۔ اب اپوزیشن میں بیٹھ کر ان کے پیپلزپارٹی سے بھی اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں۔ ٹھنڈے دماغ والے شاہ نے سابق وزراء اعلیٰ ممتاز بھٹو، جام علی صادق اور حتیٰ کہ ارباب غلام رحیم جیسی صلاحیتوں کا مظاہرہ نہیں کیا۔ صدر آصف زرداری کی طرف سے قائم علی شاہ کے انتخاب کی وجوہات میں سے ایک ان کا ''یس باس'' ہونا ہو سکتا ہے، تا ہم نثار کھوڑو کے علاوہ وہ دوسرے پارٹی رہنما ہیں جو تنازعات میں ملوث نہیں رہے ہیں یا ایسے بیانات نہیں دیتے جن سے تصادم ہو، مشکلات سے دوچار صوبے کو شاہ صاحب سے زیادہ کی ضرورت ہے۔ انہیں خود کو مضبوط منتظم ثابت کرنا ہو گا۔ کیا اگلے 5 سال میں وہ 90 سال کی عمر کو پہنچنے سے قبل یہ کر پائیں گے جب ان کی اگلی میعاد ختم ہو جائے گی۔
ان کے گزشتہ مکمل دور حکومت میں 5 ہزار افراد مارے گئے ،جن میں سے زیادہ تر کی ہلاکت ٹارگٹ کلنگ یا بم دھماکوں میں ہوئی۔ ایم کیو ایم کے اس فیصلے سے کئی سوال جنم لیتے ہیں کہ کیا انھوں نے طویل عرصے کے لیے حزب اختلاف میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے یا ان کے دروازے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں کے لیے کھلے ہیں۔ رابطہ کمیٹی کا یہ فیصلہ حیران کن ہے کہ گورنر سندھ عشرت العباد کا معاملہ وفاقی حکومت کرے گی حالانکہ یہ فیصلہ صدر آصف زرداری کریں گے۔ تا ہم ایم کیو ایم نے گورنر کو اپنا استعفیٰ صدر کے نام بھجوانے کیلیے نہیں کہا جس سے یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی شاید اپنے پرانے اتحادی کو اتحاد میں شمولیت کیلئے قائم کرنے کی کوشش کرے گی۔
یہ بدستور پراسرار ہے کہ پیپلزپارٹی نے ایم کیو ایم رہنمائوں سے ملنے کی کوشش کیوں نہیں کی حالانکہ 3 رکنی کمیٹی بھی قائم ہو چکی تھی حتیٰ کہ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے فیصلے کے اعلان کے بعد بھی لندن یا نائن زیرو کوئی ٹیلی فون نہیں کیاگیا۔ یہ بھی رپورٹس ہیں کہ ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی کی طرف سے وزارت داخلہ دینے سے انکار اور سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012ء کے مسئلے پر ناراض ہے۔ ابھی تک پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے رہنمائوں کا ایک دوسرے کے خلاف لہجہ جارحانہ نہیں تا ہم دونوں اطراف کا رابطہ بھی نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کی طرف سے حزب اختلاف میں بیٹھنے کے فیصلے سے مسلم لیگ ن اور فنکشنل لیگ بھی مایوس ہوئی ہیں جو قائد حزب اختلاف کیلئے مشترکہ امیدوار لانے پر غور کر رہے تھے۔
یوں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف دونوں سابق حکومتی اتحاد سے تعلق رکھتے ہیں اگرچہ موخر الذکر کیلئے رسمی اعلان ابھی ہونا ہے۔ اگر سیاسی صورتحال خراب ہوئی اور ایم کیو ایم کا موجودہ موقف پولیس اور رینجرز کے حوالے سے جارحانہ ہو گیا تو فضا پیپلزپارٹی مخالف ہو سکتی ہے اور معاملات بے قابو ہو سکتے ہیں،جس کے حوالے سے شاہ صاحب کمزور واقع ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ایم کیو ایم رہنما بابر غوری اور مسلم لیگ ن کے اسحاق ڈار کے درمیان غیر رسمی رابطے کے حوالے سے کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔ الطاف حسین اور لیگی رہنمائوں نوازشریف، شہباز شریف کے درمیان ابھی تک براہ راست رابطہ نہیں ہوا ہے۔ اسحاق ڈار چاہتے ہیں کہ الطاف حسین خود فون کر کے نوازشریف کو انتخابات میں فتح کی مبارکباد دیں۔
جس کے بعد نواز،شہباز کی کال سے برف پگھل سکتی ہے تاہم ایسا نہیں ہوا۔ اسی اثناء میں ایم کیو ایم نے اپنے 3 اہم کارکنوں کی مبینہ طور پر ماورائے عدالت قتل اور 9 کی گمشدگی کے متعلق مہم شروع کر رکھی ہے، وہ اندرون و بیرون ملک احتجاج کے حوالے سے پہلے ہی اعلان کر چکی ہے۔ ایم کیو ایم رہنماٹی وی سکرینوں پر اسی اعتماد کے ساتھ پھرنمودار ہونا شروع ہو گئے ہیں تا ہم شریف کیمپ کی طرف سے کسی بیان یا کلمات کے آنے تک مسلم لیگ ن یا نوازشریف کے خلاف جارح نہیں ہوں گے۔ لہٰذا آئندہ چند روز یا شاید دو ہفتے سندھ کے لئے بڑے نازک ہوں گے اور دیکھنا ہو گا کہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت یا وزیر اعلیٰ سندھ کیا فیصلہ کرتے ہیں اور ایم کیو ایم کو مرکز کی طرف سے کیا ردعمل ملتا ہے؟ گزشتہ پانچ برسوں میں امن وامان بہتر نہ کرنے والے شخص سے اس حوالے سے کوئی امید نہیں تا ہم شاہ صاحب کیلیے بہترین موقع ہے کہ وہ تیسری مرتبہ وزیر اعلیٰ بن کر صوبے اور خصوصاً ملکی معیشت کے مرکز کراچی میں امن وامان قائم کر کے تاریخ میں نام بنا سکتے ہیں۔
ایم کیو ایم کیلئے بھی یہ کامیابی یا تباہی کا موقع ہے۔ وہ سندھ یا مرکز میں حکومت میں شامل نہ ہو کر کراچی کو تشدد سے پاک شہر بنانے کیلئے تعمیری اپوزیشن کا کردار ادا کر کے اپنے ناقدین کو غلط ثابت کر سکتی ہے تا ہم اس کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کو سیاسی تنہائی سے بھی بچنا ہو گا کیونکہ مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے ساتھ ان کے پہلے ہی اختلافات ہیں۔ اب اپوزیشن میں بیٹھ کر ان کے پیپلزپارٹی سے بھی اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں۔ ٹھنڈے دماغ والے شاہ نے سابق وزراء اعلیٰ ممتاز بھٹو، جام علی صادق اور حتیٰ کہ ارباب غلام رحیم جیسی صلاحیتوں کا مظاہرہ نہیں کیا۔ صدر آصف زرداری کی طرف سے قائم علی شاہ کے انتخاب کی وجوہات میں سے ایک ان کا ''یس باس'' ہونا ہو سکتا ہے، تا ہم نثار کھوڑو کے علاوہ وہ دوسرے پارٹی رہنما ہیں جو تنازعات میں ملوث نہیں رہے ہیں یا ایسے بیانات نہیں دیتے جن سے تصادم ہو، مشکلات سے دوچار صوبے کو شاہ صاحب سے زیادہ کی ضرورت ہے۔ انہیں خود کو مضبوط منتظم ثابت کرنا ہو گا۔ کیا اگلے 5 سال میں وہ 90 سال کی عمر کو پہنچنے سے قبل یہ کر پائیں گے جب ان کی اگلی میعاد ختم ہو جائے گی۔