جو چلے توجاں سے گزر گئے
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے لمحے بار بار آتے رہے بھٹو خاندان بھی وقت کے حکمران کا شکار ہوا۔
حکومت نے میاں نواز شریف ان کی بیٹی اور داماد سب کو پیرول پر رہا کر کے غم اور دکھ کے ان نازک لمحات میں بڑا اچھا اور ہمدردانہ فیصلہ کیا ہے۔میاں نواز شریف پہلے ہی اپنی شریک حیات سے دور پاکستان کی جیل میں ایک قیدی کی زندگی گزار رہے ہیں جب کہ ان کی اہلیہ لندن کے ایک اسپتال میں اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہی تھیں۔
کیا بے رحم اور مفاد پرست وقت آگیا ہے کہ جب خاندان کے افراد کو ایک دوسرے کی اشد ضرورت ہوتی ہے تو اس بے رحم وقت میں ہم اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے اپنے پیاروں سے دور ہو جاتے ہیں، زندگی بھر ساتھ نبھانے کی قسمیں اور وعدے ہوا ہو جاتے ہیں اور زندگی بھر کے ساتھی اپنی اپنی جنگ اکیلے لڑنے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔
سکون محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں
بیگم کلثوم نواز مرحومہ کی اگر زندگی کی بات کی جائے تو وہ ایک خالص گھریلو خاتون تھیں اس طرح کی گھریلو خواتین ساری زندگی شوہر کی خدمت میں گزار دیتی ہیں اور محترمہ کلثوم نواز نے بھی اپنی اس ذمے داری کو خوب نبھایا اور آخری دنوں میں جب تک وہ صحت مند رہیں اپنے شوہرنواز شریف کی خدمت میں لگی رہیں۔
میرا محترمہ کلثوم نواز سے کوئی باقاعدہ لمبا چوڑا تعارف تو نہیں رہا ایک دفعہ ان سے سنگا پور میں ملاقات ہوئی جب نواز شریف بطور وزیر اعظم سرکاری دورے پر تھے اور میں بھی بطور اخبار نویس اپنی صحافتی ذمے داریاں ادا کرنے کے لیے ان کے ساتھ تھا ۔ سنگاپور ایک چھوٹا سا ملک بلکہ شہر نما ملک ہے جس کے باشندے نہایت ملنسار اور خوش اخلاق ہیں ۔
سنگاپور میں ایک علاقہ لٹل انڈیا کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور اس کی خاص بات وہاں کا ایک بڑا ڈپارٹمنٹل اسٹور محمد مصطفیٰ شمس الدین کے نام سے معروف ہے اس اسٹور سے دنیا جہاں کی اشیا مل جاتی ہیں اور نسبتاً سستی مل جاتی ہیں لیکن یہ میں آج سے دو دہائیوں سے زائد یا اس سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، کا ذکر کر رہا ہوں، میں بھی اس اسٹور میں حسب توفیق خریداری میں مصروف تھا کہ اچانک میرا سامنا خاتون اول محترمہ کلثوم نواز سے ہو گیا جو اپنی خواتین ساتھیوں کے ہمراہ شاپنگ بیگوں سے لدی پھندی تھیں میری آنکھوں میں سوال پڑھ کر بولیں مریم کی شادی کی شاپنگ کر رہی ہوں آپ بھی کوئی مشورہ دیں۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا مشورہ دیا لیکن یہ میری ان سے پہلی باقاعدہ ملاقات تھی اس کے بعد گاہے بگاہے جب کبھی میاں صاحب نے یاد کیا تو سر راہے بیگم صاحبہ سے بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں ۔
محترمہ کلثوم نواز کا باقاعدہ عوامی تعارف مشرف دور میں ہوا جب وہ اپنے پابند سلاسل خاندان کی رہائی کے لیے تحریک چلانے میں کامیاب ہو گئیں انھوں نے ایک گھریلو عورت ہوتے ہوئے جس طرح مردانہ وار مشرف کی ڈکٹیٹر حکومت کا مقابلہ کیا اس سے وہ پاکستانی سیاست کی تاریخ میں اپنا نام لکھوا گئیں ۔ مجھے آج تک وہ منظر نہیں بھول سکتا جب ان کی گاڑی کو لفٹر نے اٹھایا ہوا تھا اور وہ اندر بیٹھی ہوئی تھیں ۔ان کا تعلق پہلوانوں کے مشہور خاندان رستم زماں گاما پہلوان سے تھا ۔ان کو مشکل وقت میں نواز لیگ کے صدر کی سیاسی ذمے داری سونپی گئی تو انھوں نے نہایت خندہ پیشانی سے ڈکٹیٹر کی حکومت کا مقابلہ کیا اس دور کی وہ کلثوم نواز آج بھی نواز شریف کے متوالوں کے دلوں میں زندہ ہیں ۔
نامساعد حالات میں مضبوطی کے ساتھ سیاسی میدان میں کھڑی رہیں اور اندرون ملک اپنے خاندان کی رہائی کے لیے مشرف حکومت پر سیاسی حکمت عملی سے اس طرح دباؤ ڈالا کہ جب بیرونی دوست مدد کو آئے تب تک رہائی کے راستے ہموار ہو چکے تھے اور یہ سارا کریڈٹ محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کا تھا جوایک روائیتی گھریلوخاتون ہونے کے باوجودایک ڈکٹیٹر کے سامنے ڈٹ گئیں۔ ان کی بیماری کے متعلق طرح طرح کی باتیں بنائی گئیں لیکن جس پر گزر رہی ہوتی ہے وہی اس دکھ کو سمجھ سکتا ہے۔
آج ان کا خاندان بحران کا شکار ہے ستم ظریفی کہئے یا کچھ اور کہ جب میاں نواز شریف کے والد کا انتقال ہوا تو میاں شریف مرحوم کا پوراخاندان سعودی عرب میں جلا وطن تھا اس وقت کے حکمران پرویز مشرف نے والد کی تدفین میں شرکت کے لیے بیٹوں کو اجازت نہیں دی تھی اور اب یہ صورتحال ہے کہ ماں کی تدفین میںبیٹے شریک نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور اگر وہ پاکستان آتے ہیں ان کے خلاف نیب کے کیس موجود ہیں جن میں ان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے لمحے بار بار آتے رہے بھٹو خاندان بھی وقت کے حکمران کا شکار ہوا ذوالفقار علی بھٹو کے جنازے میں درجن بھر ملازمین نے شرکت کی تھی۔ ان کے بیٹے بھی جلاوطن تھے جب کہ ان کی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو اور بیٹی کواسلام کے نام پر جنازے میں شرکت سے روک دیا گیا تھا۔
تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود ہر شخص وسیع قلبی سے اعتراف کر رہا ہے کہ بی بی کلثوم نواز نے پُروقار زندگی گزاری اور حقِ وفا آخری سانس تک زندہ رکھا۔ہماری ثقافتی ومذہبی اقدار کے مطابق بیٹوں کی اپنی والدہ سے محبت کا آخری مظہر اور منظر اُن کو لحد میں اتارنا اور قبر پر مٹی ڈالنا ہوتا ہے ۔افسوس کہ تمام تر معاشی وسائل کی فراوانی کے باوجود یہ بیٹے اس سعادت سے محروم رہیں گے ۔ اس خلش کو شاید دنیا بھر کی نعمتیں تمام عمر ختم نہ کر پائیں گی۔
محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کے انتقال کی خبر سن کر بے ساختہ انا للہ وانا الیہ راجعون کے الفاظ زبان پر آگئے۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اورمیاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کو صبردے۔
جو رکے تو کوہ ِگراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
راہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
کیا بے رحم اور مفاد پرست وقت آگیا ہے کہ جب خاندان کے افراد کو ایک دوسرے کی اشد ضرورت ہوتی ہے تو اس بے رحم وقت میں ہم اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے اپنے پیاروں سے دور ہو جاتے ہیں، زندگی بھر ساتھ نبھانے کی قسمیں اور وعدے ہوا ہو جاتے ہیں اور زندگی بھر کے ساتھی اپنی اپنی جنگ اکیلے لڑنے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔
سکون محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں
بیگم کلثوم نواز مرحومہ کی اگر زندگی کی بات کی جائے تو وہ ایک خالص گھریلو خاتون تھیں اس طرح کی گھریلو خواتین ساری زندگی شوہر کی خدمت میں گزار دیتی ہیں اور محترمہ کلثوم نواز نے بھی اپنی اس ذمے داری کو خوب نبھایا اور آخری دنوں میں جب تک وہ صحت مند رہیں اپنے شوہرنواز شریف کی خدمت میں لگی رہیں۔
میرا محترمہ کلثوم نواز سے کوئی باقاعدہ لمبا چوڑا تعارف تو نہیں رہا ایک دفعہ ان سے سنگا پور میں ملاقات ہوئی جب نواز شریف بطور وزیر اعظم سرکاری دورے پر تھے اور میں بھی بطور اخبار نویس اپنی صحافتی ذمے داریاں ادا کرنے کے لیے ان کے ساتھ تھا ۔ سنگاپور ایک چھوٹا سا ملک بلکہ شہر نما ملک ہے جس کے باشندے نہایت ملنسار اور خوش اخلاق ہیں ۔
سنگاپور میں ایک علاقہ لٹل انڈیا کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور اس کی خاص بات وہاں کا ایک بڑا ڈپارٹمنٹل اسٹور محمد مصطفیٰ شمس الدین کے نام سے معروف ہے اس اسٹور سے دنیا جہاں کی اشیا مل جاتی ہیں اور نسبتاً سستی مل جاتی ہیں لیکن یہ میں آج سے دو دہائیوں سے زائد یا اس سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، کا ذکر کر رہا ہوں، میں بھی اس اسٹور میں حسب توفیق خریداری میں مصروف تھا کہ اچانک میرا سامنا خاتون اول محترمہ کلثوم نواز سے ہو گیا جو اپنی خواتین ساتھیوں کے ہمراہ شاپنگ بیگوں سے لدی پھندی تھیں میری آنکھوں میں سوال پڑھ کر بولیں مریم کی شادی کی شاپنگ کر رہی ہوں آپ بھی کوئی مشورہ دیں۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا مشورہ دیا لیکن یہ میری ان سے پہلی باقاعدہ ملاقات تھی اس کے بعد گاہے بگاہے جب کبھی میاں صاحب نے یاد کیا تو سر راہے بیگم صاحبہ سے بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں ۔
محترمہ کلثوم نواز کا باقاعدہ عوامی تعارف مشرف دور میں ہوا جب وہ اپنے پابند سلاسل خاندان کی رہائی کے لیے تحریک چلانے میں کامیاب ہو گئیں انھوں نے ایک گھریلو عورت ہوتے ہوئے جس طرح مردانہ وار مشرف کی ڈکٹیٹر حکومت کا مقابلہ کیا اس سے وہ پاکستانی سیاست کی تاریخ میں اپنا نام لکھوا گئیں ۔ مجھے آج تک وہ منظر نہیں بھول سکتا جب ان کی گاڑی کو لفٹر نے اٹھایا ہوا تھا اور وہ اندر بیٹھی ہوئی تھیں ۔ان کا تعلق پہلوانوں کے مشہور خاندان رستم زماں گاما پہلوان سے تھا ۔ان کو مشکل وقت میں نواز لیگ کے صدر کی سیاسی ذمے داری سونپی گئی تو انھوں نے نہایت خندہ پیشانی سے ڈکٹیٹر کی حکومت کا مقابلہ کیا اس دور کی وہ کلثوم نواز آج بھی نواز شریف کے متوالوں کے دلوں میں زندہ ہیں ۔
نامساعد حالات میں مضبوطی کے ساتھ سیاسی میدان میں کھڑی رہیں اور اندرون ملک اپنے خاندان کی رہائی کے لیے مشرف حکومت پر سیاسی حکمت عملی سے اس طرح دباؤ ڈالا کہ جب بیرونی دوست مدد کو آئے تب تک رہائی کے راستے ہموار ہو چکے تھے اور یہ سارا کریڈٹ محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کا تھا جوایک روائیتی گھریلوخاتون ہونے کے باوجودایک ڈکٹیٹر کے سامنے ڈٹ گئیں۔ ان کی بیماری کے متعلق طرح طرح کی باتیں بنائی گئیں لیکن جس پر گزر رہی ہوتی ہے وہی اس دکھ کو سمجھ سکتا ہے۔
آج ان کا خاندان بحران کا شکار ہے ستم ظریفی کہئے یا کچھ اور کہ جب میاں نواز شریف کے والد کا انتقال ہوا تو میاں شریف مرحوم کا پوراخاندان سعودی عرب میں جلا وطن تھا اس وقت کے حکمران پرویز مشرف نے والد کی تدفین میں شرکت کے لیے بیٹوں کو اجازت نہیں دی تھی اور اب یہ صورتحال ہے کہ ماں کی تدفین میںبیٹے شریک نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور اگر وہ پاکستان آتے ہیں ان کے خلاف نیب کے کیس موجود ہیں جن میں ان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے لمحے بار بار آتے رہے بھٹو خاندان بھی وقت کے حکمران کا شکار ہوا ذوالفقار علی بھٹو کے جنازے میں درجن بھر ملازمین نے شرکت کی تھی۔ ان کے بیٹے بھی جلاوطن تھے جب کہ ان کی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو اور بیٹی کواسلام کے نام پر جنازے میں شرکت سے روک دیا گیا تھا۔
تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود ہر شخص وسیع قلبی سے اعتراف کر رہا ہے کہ بی بی کلثوم نواز نے پُروقار زندگی گزاری اور حقِ وفا آخری سانس تک زندہ رکھا۔ہماری ثقافتی ومذہبی اقدار کے مطابق بیٹوں کی اپنی والدہ سے محبت کا آخری مظہر اور منظر اُن کو لحد میں اتارنا اور قبر پر مٹی ڈالنا ہوتا ہے ۔افسوس کہ تمام تر معاشی وسائل کی فراوانی کے باوجود یہ بیٹے اس سعادت سے محروم رہیں گے ۔ اس خلش کو شاید دنیا بھر کی نعمتیں تمام عمر ختم نہ کر پائیں گی۔
محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کے انتقال کی خبر سن کر بے ساختہ انا للہ وانا الیہ راجعون کے الفاظ زبان پر آگئے۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اورمیاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کو صبردے۔
جو رکے تو کوہ ِگراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
راہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا