سندھ پیپلز پارٹی
ایک مبصر کی کہی ہوئی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ اب اس کا نام بدل کر سندھ پیپلز پارٹی رکھ دینا چاہیے۔
اپنے روایتی گڑھ سندھ کے سوا، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کا ووٹ بینک ملک بھر، خصوصاً صوبہ پنجاب میں، جو یہ فیصلہ کرتا ہے کہ مرکز میں کون حکمرانی کرے گا، نمایاں کم ہوتا ہوا دیکھا گیا ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون میں اسلام آباد کی ڈیٹ لائن سے شایع ہونے والی عرفان غوری کی رپورٹ کے مطابق حالیہ عام انتخابات کے دوران پی پی پی نے قومی اسمبلی کے لیے جو ووٹ حاصل کیے وہ 16 برس قبل 2002ء کے عام انتخابات میں اس کے حاصل کردہ ووٹوں سے کہیں کم ہیں، جب کہ اس عرصے میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 66.71 ملین سے بڑھ کر 106 ملین ہوگئی ہے۔
25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں پی پی پی نے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں کل 6.9 ملین ووٹ حاصل کیے جب کہ 2002ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے لیے اس کے ٹکٹ یافتہ امیدواروں نے 7.3 ملین ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس عرصے میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد میں تقریباً 40 ملین کا اضافہ ہوا ہے۔ اس تناسب سے دیکھا جائے تو پی پی پی کے ووٹ بینک میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری طرف عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ووٹ بینک میں، جو کبھی فرد واحد کی پارٹی کے طور پر جانی جاتی تھی، نمایاں اضافہ ہوا ہے اور قومی اسمبلی کے لیے 2002ء میں اس کے حاصل کردہ 160,686 ووٹ 2018ء کے عام انتخابات میں بڑھ کر 16.8 ملین ہوگئے۔
2002ء میں ملک میں رجسٹرڈ ووٹروں کی کل تعداد 66.71 ملین تھی۔ 2008ء میں یہ تعداد بڑھ کر 80.79 ملین اور 2013ء میں 86.1 ملین ہوگئی۔ اس سال رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد لگ بھگ 106 ملین تھی۔ پی پی پی جو کبھی وفاقی پارٹی کہلاتی تھی اور جس کے لیے کہا جاتا تھا کہ اس کی جڑیں چاروں صوبوں میں ہیں، سکڑ کر سندھ تک محدود ہوگئی ہے۔
سندھ میں بھی، اگر کل رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد میں ہونے والے اضافے کے تناسب سے دیکھا جائے، تو پارٹی کے ووٹ بینک میں کمی واقع ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے اعدادوشمار کے مطابق، پی پی پی نے انتخابات میں سندھ اسمبلی کے لیے 3.8 ملین ووٹ حاصل کیے جب کہ اس کو 2008ء میں 3.6 ملین اور 2013ء کے عام انتخابات میں 3.2 ملین ووٹ ملے تھے۔ گزشتہ عشرے کے دوران صوبے میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 19.5 ملین سے بڑھ کر 22.3 ملین ہوگئی لیکن پی پی پی کو ملنے والے ووٹوں میں اس تناسب سے معمولی سا اضافہ دیکھنے میں آیا اور 2018ء کے عام انتخابات میں صوبائی قانون ساز اسمبلی کے لیے اس کو ملنے والے ووٹ پہلے سے برائے نام زیادہ تھے۔
پی ٹی آئی نے 2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، جب کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سندھ اسمبلی کے لیے امیدواروں نے 2008ء میں 1.18 ملین ووٹ حاصل کیے تھے۔ سندھ میں مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک 2013ء میں کم ہوکر 0.59 ملین رہ گیا، جو 2018ء کے انتخابات میں مزید سکڑ کر 0.23 ملین رہ گیا ہے۔ سندھ اسمبلی کے لیے پی ٹی آئی کے امیدواروں نے 2013ء میں 0.60 ملین ووٹ لیے تھے، جو 2018ء کے حالیہ عام انتخابات میں بڑھ کر 1.4 ملین ووٹ ہوگئے۔ پنجاب میں پی پی پی کے لیے صورتحال اور بھی زیادہ تشویشناک ہے۔ پچھلے جمہوری عہد میں اس کے ووٹ 5.5 ملین سے کم ہوکر 2.4 ملین رہ گئے۔
25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں وہ پنجاب اسمبلی میں بمشکل 1.7 ملین ووٹ حاصل کرسکی۔ پنجاب میں ووٹروں کی تعداد 2008ء میں 44.5 ملین، 2013ء میں 49.2 ملین اور 2018ء کے انتخابات میں 60.67 ملین تھی۔ مسلم لیگ (ن) نے 2008ء میں پنجاب اسمبلی کے لیے 5.8 ملین ووٹ حاصل کیے تھے، جو 2013ء کے انتخابات میں بڑھ کر 11.3 ملین ہوگئے۔
حالیہ انتخابات میں اس کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد 10.5 ملین تھی۔ دوسری جانب پنجاب میں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک گزشتہ دو انتخابات کے دوران بڑھ کر ڈبل ہو گیا۔ 2013ء میں اس نے پنجاب اسمبلی میں 4.9 ملین ووٹ حاصل کیے تھے جب کہ 2018ء کے انتخابات میں اس کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد 11.1 ملین تھی۔
خیبرپختونخوا میں البتہ پی پی پی کے ووٹ بینک میں 2013ء کے مقابلے میں کچھ اضافہ ہونا نوٹ کیا گیا ہے لیکن اگر ووٹروں کی تعداد میں ہونے والے اضافے کے حساب سے دیکھا جائے تو یہ اضافہ بہت معمولی نظر آئے گا۔ کے پی میں رجسٹرڈ ووٹروں کی کل تعداد 2008ء میں 10.6 ملین تھی، جو 2013ء میں بڑھ کر 12.26 ملین اور 2018ء میں 15.3 ملین ہوگئی۔ کے پی اسمبلی میں پی پی پی نے 2008ء میں 0.56 ملین، 2013ء میں 0.47 ملین ووٹ حاصل کیے تھے، جب کہ 2018ء کے عام انتخابات میں وہ بمشکل 0.59 ملین ووٹ لے سکی۔
اس کی حریف جماعت مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی۔ 2008ء کے انتخابات میں اس نے 0.43 ملین اور 2013ء میں 0.85 ملین ووٹ حاصل کیے تھے۔ حالیہ انتخابات میں اس کے حاصل کردہ ووٹوں کی کل تعداد 0.64 ملین تھی۔ پی ٹی آئی نے 2013ء میں 1.03 ملین ووٹ حاصل کیے تھے، 2018ء میں اس عدد کو تقریباً ڈبل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور حالیہ انتخابات میں اس نے 2.1 ملین ووٹ لیے۔
سب سے زیادہ حیران کن نتائج بلوچستان سے سامنے آئے ہیں، جہاں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) دونوں صوبے کی انتخابی سیاست سے بالکل باہر اور کٹ کر رہ گئی ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے لیے پی پی پی کے امیدواروں نے 2008ء کے عام انتخابات میں 165954 ووٹ حاصل کیے تھے جو 2013ء میں گھٹ کر صرف 51976 رہ گئے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں اس کو کل 57667 ووٹ پڑے ہیں۔ بلوچستان میں ووٹروں کی تعداد 2008ء میں 4.3 ملین، 2013ء میں 3.3 ملین تھی، جو اب بڑھ کر 4.2 ملین ہو گئی ہے۔ صوبے میں مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک میں بھی نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
2008ء میں اس نے صوبے بھر سے 0.44 ملین ووٹ حاصل کیے تھے۔ 2013ء میں یہ تعداد گھٹ کر 0.13 ملین رہ گئی اور اب 25 جولائی کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے لیے اس کے امیدوار صرف 28922 ووٹ حاصل کرسکے۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی ملک کے باقی حصوں میں دکھائی جانے والی اپنی کارکردگی کی طرح بلوچستان میں بھی پیچھے نہیں رہی اور اپنا ووٹ بینک جو 2013ء میں صرف 24030 تھا، 2018ء میں صوبائی اسمبلی کے لیے بڑھا کر 0.10 ملین کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
دریں اثناء برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹر نے انکشاف کیا ہے کہ حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی کو حاصل ہونے والی فتح میں ایک فون ایپ نے فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔ ایپ استعمال کرنے والے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے مطابق ایپ اور ڈیٹا بیس نے انھیں کامیابی دلائی۔ گویا ایک فون ایپ اور 50 ملین سے زیادہ ووٹروں کا ڈیٹا بیس پچھلے مہینے ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی کامیاب مہم کے موثر ترین ہتھیار تھے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے ڈیٹا بیس اور متعلقہ ایپ کو پولنگ سے قبل ووٹروں کو ٹارگٹ کرنے اور پولنگ والے دن اپنے حامیوں کو متحرک کرنے کے لیے بڑی مہارت سے استعمال کیا۔ اس نے 25 جولائی تک اس ٹیکنالوجی کو انتہائی خفیہ رکھا تا کہ مخالفین اس کی نقل نہ کر سکیں، لیکن اس کے کارکنوں نے رائٹر کے سامنے اس کے استعمال کا مظاہرہ کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی، جس نے انتخابی مہم میں انھیں اپنے حریفوں پر برتری دلائی تھی۔
یہ فون ایپ حامیوں کو پولنگ اسٹیشنوں تک لانے میں بڑی مددگار ثابت ہوئی جب کہ حکومت کی اپنی ٹیلی فون انفارمیشن سروس الیکشن والے دن بڑے مسائل کا شکار تھی، جس کا نقصان دوسری پارٹیوں کو اٹھانا پڑا۔
پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ اسی ٹیکنالوجی کی بدولت وہ 208 ملین آبادی کے ملک میں کانٹے کے مقابلے جیتنے میں کامیاب ہوسکی۔ اگرچہ مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو طاقتور فوج کی مدد حاصل تھی لیکن وہ اس کی سختی سے تردید کرتی ہے۔ جہاں تک انتخابات میں پی پی پی کی ناقص کارکردگی کا تعلق ہے، ایک مبصر کی کہی ہوئی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ اب اس کا نام بدل کر سندھ پیپلز پارٹی رکھ دینا چاہیے۔
ایکسپریس ٹریبیون میں اسلام آباد کی ڈیٹ لائن سے شایع ہونے والی عرفان غوری کی رپورٹ کے مطابق حالیہ عام انتخابات کے دوران پی پی پی نے قومی اسمبلی کے لیے جو ووٹ حاصل کیے وہ 16 برس قبل 2002ء کے عام انتخابات میں اس کے حاصل کردہ ووٹوں سے کہیں کم ہیں، جب کہ اس عرصے میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 66.71 ملین سے بڑھ کر 106 ملین ہوگئی ہے۔
25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں پی پی پی نے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں کل 6.9 ملین ووٹ حاصل کیے جب کہ 2002ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے لیے اس کے ٹکٹ یافتہ امیدواروں نے 7.3 ملین ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس عرصے میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد میں تقریباً 40 ملین کا اضافہ ہوا ہے۔ اس تناسب سے دیکھا جائے تو پی پی پی کے ووٹ بینک میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری طرف عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ووٹ بینک میں، جو کبھی فرد واحد کی پارٹی کے طور پر جانی جاتی تھی، نمایاں اضافہ ہوا ہے اور قومی اسمبلی کے لیے 2002ء میں اس کے حاصل کردہ 160,686 ووٹ 2018ء کے عام انتخابات میں بڑھ کر 16.8 ملین ہوگئے۔
2002ء میں ملک میں رجسٹرڈ ووٹروں کی کل تعداد 66.71 ملین تھی۔ 2008ء میں یہ تعداد بڑھ کر 80.79 ملین اور 2013ء میں 86.1 ملین ہوگئی۔ اس سال رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد لگ بھگ 106 ملین تھی۔ پی پی پی جو کبھی وفاقی پارٹی کہلاتی تھی اور جس کے لیے کہا جاتا تھا کہ اس کی جڑیں چاروں صوبوں میں ہیں، سکڑ کر سندھ تک محدود ہوگئی ہے۔
سندھ میں بھی، اگر کل رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد میں ہونے والے اضافے کے تناسب سے دیکھا جائے، تو پارٹی کے ووٹ بینک میں کمی واقع ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے اعدادوشمار کے مطابق، پی پی پی نے انتخابات میں سندھ اسمبلی کے لیے 3.8 ملین ووٹ حاصل کیے جب کہ اس کو 2008ء میں 3.6 ملین اور 2013ء کے عام انتخابات میں 3.2 ملین ووٹ ملے تھے۔ گزشتہ عشرے کے دوران صوبے میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 19.5 ملین سے بڑھ کر 22.3 ملین ہوگئی لیکن پی پی پی کو ملنے والے ووٹوں میں اس تناسب سے معمولی سا اضافہ دیکھنے میں آیا اور 2018ء کے عام انتخابات میں صوبائی قانون ساز اسمبلی کے لیے اس کو ملنے والے ووٹ پہلے سے برائے نام زیادہ تھے۔
پی ٹی آئی نے 2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، جب کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سندھ اسمبلی کے لیے امیدواروں نے 2008ء میں 1.18 ملین ووٹ حاصل کیے تھے۔ سندھ میں مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک 2013ء میں کم ہوکر 0.59 ملین رہ گیا، جو 2018ء کے انتخابات میں مزید سکڑ کر 0.23 ملین رہ گیا ہے۔ سندھ اسمبلی کے لیے پی ٹی آئی کے امیدواروں نے 2013ء میں 0.60 ملین ووٹ لیے تھے، جو 2018ء کے حالیہ عام انتخابات میں بڑھ کر 1.4 ملین ووٹ ہوگئے۔ پنجاب میں پی پی پی کے لیے صورتحال اور بھی زیادہ تشویشناک ہے۔ پچھلے جمہوری عہد میں اس کے ووٹ 5.5 ملین سے کم ہوکر 2.4 ملین رہ گئے۔
25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں وہ پنجاب اسمبلی میں بمشکل 1.7 ملین ووٹ حاصل کرسکی۔ پنجاب میں ووٹروں کی تعداد 2008ء میں 44.5 ملین، 2013ء میں 49.2 ملین اور 2018ء کے انتخابات میں 60.67 ملین تھی۔ مسلم لیگ (ن) نے 2008ء میں پنجاب اسمبلی کے لیے 5.8 ملین ووٹ حاصل کیے تھے، جو 2013ء کے انتخابات میں بڑھ کر 11.3 ملین ہوگئے۔
حالیہ انتخابات میں اس کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد 10.5 ملین تھی۔ دوسری جانب پنجاب میں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک گزشتہ دو انتخابات کے دوران بڑھ کر ڈبل ہو گیا۔ 2013ء میں اس نے پنجاب اسمبلی میں 4.9 ملین ووٹ حاصل کیے تھے جب کہ 2018ء کے انتخابات میں اس کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد 11.1 ملین تھی۔
خیبرپختونخوا میں البتہ پی پی پی کے ووٹ بینک میں 2013ء کے مقابلے میں کچھ اضافہ ہونا نوٹ کیا گیا ہے لیکن اگر ووٹروں کی تعداد میں ہونے والے اضافے کے حساب سے دیکھا جائے تو یہ اضافہ بہت معمولی نظر آئے گا۔ کے پی میں رجسٹرڈ ووٹروں کی کل تعداد 2008ء میں 10.6 ملین تھی، جو 2013ء میں بڑھ کر 12.26 ملین اور 2018ء میں 15.3 ملین ہوگئی۔ کے پی اسمبلی میں پی پی پی نے 2008ء میں 0.56 ملین، 2013ء میں 0.47 ملین ووٹ حاصل کیے تھے، جب کہ 2018ء کے عام انتخابات میں وہ بمشکل 0.59 ملین ووٹ لے سکی۔
اس کی حریف جماعت مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی۔ 2008ء کے انتخابات میں اس نے 0.43 ملین اور 2013ء میں 0.85 ملین ووٹ حاصل کیے تھے۔ حالیہ انتخابات میں اس کے حاصل کردہ ووٹوں کی کل تعداد 0.64 ملین تھی۔ پی ٹی آئی نے 2013ء میں 1.03 ملین ووٹ حاصل کیے تھے، 2018ء میں اس عدد کو تقریباً ڈبل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور حالیہ انتخابات میں اس نے 2.1 ملین ووٹ لیے۔
سب سے زیادہ حیران کن نتائج بلوچستان سے سامنے آئے ہیں، جہاں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) دونوں صوبے کی انتخابی سیاست سے بالکل باہر اور کٹ کر رہ گئی ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے لیے پی پی پی کے امیدواروں نے 2008ء کے عام انتخابات میں 165954 ووٹ حاصل کیے تھے جو 2013ء میں گھٹ کر صرف 51976 رہ گئے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں اس کو کل 57667 ووٹ پڑے ہیں۔ بلوچستان میں ووٹروں کی تعداد 2008ء میں 4.3 ملین، 2013ء میں 3.3 ملین تھی، جو اب بڑھ کر 4.2 ملین ہو گئی ہے۔ صوبے میں مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک میں بھی نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
2008ء میں اس نے صوبے بھر سے 0.44 ملین ووٹ حاصل کیے تھے۔ 2013ء میں یہ تعداد گھٹ کر 0.13 ملین رہ گئی اور اب 25 جولائی کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے لیے اس کے امیدوار صرف 28922 ووٹ حاصل کرسکے۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی ملک کے باقی حصوں میں دکھائی جانے والی اپنی کارکردگی کی طرح بلوچستان میں بھی پیچھے نہیں رہی اور اپنا ووٹ بینک جو 2013ء میں صرف 24030 تھا، 2018ء میں صوبائی اسمبلی کے لیے بڑھا کر 0.10 ملین کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
دریں اثناء برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹر نے انکشاف کیا ہے کہ حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی کو حاصل ہونے والی فتح میں ایک فون ایپ نے فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔ ایپ استعمال کرنے والے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے مطابق ایپ اور ڈیٹا بیس نے انھیں کامیابی دلائی۔ گویا ایک فون ایپ اور 50 ملین سے زیادہ ووٹروں کا ڈیٹا بیس پچھلے مہینے ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی کامیاب مہم کے موثر ترین ہتھیار تھے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے ڈیٹا بیس اور متعلقہ ایپ کو پولنگ سے قبل ووٹروں کو ٹارگٹ کرنے اور پولنگ والے دن اپنے حامیوں کو متحرک کرنے کے لیے بڑی مہارت سے استعمال کیا۔ اس نے 25 جولائی تک اس ٹیکنالوجی کو انتہائی خفیہ رکھا تا کہ مخالفین اس کی نقل نہ کر سکیں، لیکن اس کے کارکنوں نے رائٹر کے سامنے اس کے استعمال کا مظاہرہ کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی، جس نے انتخابی مہم میں انھیں اپنے حریفوں پر برتری دلائی تھی۔
یہ فون ایپ حامیوں کو پولنگ اسٹیشنوں تک لانے میں بڑی مددگار ثابت ہوئی جب کہ حکومت کی اپنی ٹیلی فون انفارمیشن سروس الیکشن والے دن بڑے مسائل کا شکار تھی، جس کا نقصان دوسری پارٹیوں کو اٹھانا پڑا۔
پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ اسی ٹیکنالوجی کی بدولت وہ 208 ملین آبادی کے ملک میں کانٹے کے مقابلے جیتنے میں کامیاب ہوسکی۔ اگرچہ مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو طاقتور فوج کی مدد حاصل تھی لیکن وہ اس کی سختی سے تردید کرتی ہے۔ جہاں تک انتخابات میں پی پی پی کی ناقص کارکردگی کا تعلق ہے، ایک مبصر کی کہی ہوئی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ اب اس کا نام بدل کر سندھ پیپلز پارٹی رکھ دینا چاہیے۔