قوم کے بچے اورغیرت
عمران خان سے جن کی صحت یابی کے لیے عین ممکن ہے ان بچوں نے بھی دعا کی ہو جو ردعمل آیا وہ موقع کی مناسبت سے تھا یا نہیں۔
www.facebook.com/syedtalathussain.official
کچھ برس گزرے کہ ایک امریکی وکیل نے ہماری قومی غیرت کو للکارا۔ پاکستان سے متعلق بات کرتے ہوئے اس نے یہ الزام لگایا کہ پاکستانی چند ہزار ڈالرز کے عوض اپنی والدہ کا سودا بھی کر سکتے ہیں۔ اس بدتمیزی پر اس وقت بڑا شور برپا ہوا۔ دوسرے غم زدہ صحافیوں کی طرح میں نے بھی اس پر ایک، دو کالم لکھے، اس متکبر امریکی پر ایسے لعن طعن کی اور اس خبر کی تشہیر کرنے پر امریکی ذرایع ابلاغ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ کسی قوم پر اس قسم کا گھٹیا الزام لگانا امریکا میں ایک عام سی بات ہے۔
وہ اپنے دشمنوں کو زیر کرنے اور کمزور قوموں کو مرعوب کرنے کے لیے نفسیاتی طور پر ایک ہی حربہ استعمال کرتے ہیں اور وہ ہے عزت نفس پر حملہ۔ آپ ہالی وڈ کی فلمیں اٹھا کر دیکھیں تو گزشتہ کئی دہائیوں سے مختلف اقوام کی جو تصویر کشی کی جاتی ہے، اس سے اس پالیسی کے تسلسل کے مضبوط شواہد ملتے ہیں۔ کبھی کالوں کو کم ترانسان کے طور پر پیش کیا جاتا تھا اور کبھی جاپانیوں کو سفاک اور قاتل قوم کے طور پر، جرمنوں کے بارے میں بے وقوفی کی داستانیں مشہور کی گئیں اور روسیوں کو اجڈ اور احمق قرار دیا گیا۔ عربوں کو وحشی اور جاہل اور کسی زمانے میں ترکوں کو عیاش قوم کے طور پر پیش کیا گیا۔
آج کل داڑھی پر زور ہے، ہر شخص جو مغربی وضع قطع اختیار نہیں کرتا وہ ماڈرن یا جدید تہذیب سے نا آشنا قرار پاتا ہے اور تو اور چند سال پہلے ہندوستان کے باسیوں کے بارے میں ڈراموں، ناولوں، فلموں اور رپورٹنگ کے ذریعے یہ پیغام پہنچایا جاتا تھا کہ یہ ننگ دھڑنگ لوگ کسی قابل نہیں مگر پھر تاریخ تبدیل ہو گئی اور وہ تمام اقوام جن کو مغربی ذرایع ابلاغ نے بد ترین طریقوں سے بین الاقوامی سطح پر ذلیل کرنے کی کوشش کی اپنے حالات کو تبدیل کر کے اس پراپیگنڈے کا موثر جواب دے پائیں۔ آج کل جاپانی، جرمن، ترکمان، روسی، امریکا میں موجود کالے اور بھورے ہندوستانی اب امریکی میڈیا کے پسندیدہ ہیں۔ دوسرے الفاظ میں پراپیگنڈے سے موثر جواب قوم کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
معاشی ترقی سے قوم کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب حکمران اپنے شہریوں کو اہمیت دینے لگ جاتے ہیں تو باہر سے خاک ڈالنے والے از خود غائب ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں اس امریکی وکیل کے الفاظ بد قسمتی سے ابھی تک کسی موثر جواب کے بغیر ہمار ے سر پر الزام کے طور پر لٹکے ہوئے ہیں، مجھے ان الفاظ کا خیال پچھلے دنوں اس وقت آیا جب میں نے منگووال، گجرات میں ہونے والے وین کے سانحے پر تفصیل سے رپورٹنگ شروع کی۔
اس سانحے میں بچوں کی شہادتیں اور لواحقین کا غم وقتی طور پر قومی غم کی طرح ہر طرف چھا گیا، باوجود اس کے کہ وہ ذرایع ابلاغ کے پہلوان جو ہر اکھاڑے میں بازو چڑھا کر اپنی طاقت کا اظہار کرتے ہیں اور ہر فورم پر خود پرستی سے لبریز اپنے بارے میں تعریف کے جملے بولتے ہیں، اس علاقے کے قریب جانے سے کتراتے رہے۔ ہر کسی کو کراچی اور پشاور میں بننے والی حکومتوں کی پڑی ہوئی تھی۔ کوئی سپریم کورٹ کے پیچھے بھاگ رہا تھا تو کوئی ذاتی عناد کی پتنگ آسمان پر بلند کیے ہوئے یہ نعرہ لگا رہا تھا کہ جیسے اس کے ذاتی مسائل قوم کی تقدیر کے معاملات ہیں۔
سیاستدانوں کی طرف سے بھی رد عمل واجبی سا تھا۔ حمزہ شہباز، مریم نواز اور کیپٹن صفدر تعزیت کے لیے گئے مگر سانحہ کی نوعیت ایسی تھی کہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کو خود یہاں پر جانا چاہیے تھا۔ پرویز الہی نے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ افسوس کم اور الزام کی سیاست زیادہ کی اور نگراں وزیر اعلیٰ کے دورے کا نہ ہی پوچھیے تو بہتر ہے۔ پیپلز پارٹی کے کسی رکن کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ یہ رسم ہی نبھا دیں۔ شاید پنجاب میں پیپلز پارٹی اس قابل ہی نہیں رہی کہ ایسے موقعوں کی مناسبت سے کوئی قدم اٹھا لے اور پاکستان تحریک انصاف؟ پاکستان تحریک انصاف کے سپورٹر خود فیصلہ کریں کہ اس دل دہلا دینے والے واقعے پر ان کی پارٹی کا کیا ردعمل رہا اور کیا عمران خان سے جن کی صحت یابی کے لیے عین ممکن ہے ان بچوں نے بھی دعا کی ہو جو ردعمل آیا وہ موقع کی مناسبت سے تھا یا نہیں۔
اس واقعے کی سامنے آنے والی تفصیلات نے یہ خوفناک حقیقت آشکار کر دی کہ ہم بطور قوم کتنے کھوکھلے ہو چکے ہیں۔ اپنے مستقبل یعنی اپنے بچوں کو کہنے کو تو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں مگر حقیقت میں روزانہ ان کو موت کے فرشتے کے حوالے کر دیتے ہیں۔ سڑکوں پر چلنے والی گاڑیاں اور ٹرانسپورٹ کا وہ تمام نظام جس کے ذریعے قوم کے لاکھوں لاڈلے اسکولوں کی طرف جاتے اور وہاں سے لائے جاتے ہیں حقیقت میں کسی خودکش حملہ آور سے کم نہیں۔ لڑکھڑاتی ہوئی لاغر بسیں، ٹوٹے پھوٹے شیشے، بند دروازے' لٹکتے ہوئے تار اور اس کے اندر چھلکتا ہوا پٹرول اور یہ بڑ ے بڑے گیس کے دو نمبر سلنڈر، اسٹیرنگ سنبھالنے والے ڈرائیوروں کی اکثریت ایسی کی جو جو رات بھر نشہ کرتی ہے اور صبح نام نہاد ڈیوٹی پر حاضر ہو کر بچے گھروں سے اسکول تک پہنچانے کا نازک کام سر انجام دیتی ہے۔
یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے اور ہم اس وقت تک اس پر فریاد بلند نہیں کرتے جب تک بیچ سڑک چار سال سے گیارہ سال کی عمر کے سترہ بچے اور ایک ٹیچر سیکڑوں لوگوں کی موجودگی میں جل کر راکھ نہیں ہو جاتے۔ جو بچے گاڑیوں کے ذریعے اسکول نہیں جاتے ان کو آپ ٹرکوں سے لدی ہوئی شاہراہوں کے ارد گرد آر پار گزرتے ہوئے روزانہ دیکھ سکتے ہیں۔
تعلیم کے شعبے سے ہٹ کر بچوں پر نظر دوڑائیں تو طبیعت مزید دل خراش ہو جاتی ہے۔ نومولود بچوں کی شرح اموات بلند ترین سطح پر ہے' طبی سہولیات سب سے کم بچوں تک پہنچتی ہیں' ملاوٹ والی اشیائے خور و نوش سب سے زیادہ بچے استعمال کرتے ہیں۔ جنسی اور جسمانی تشدد عام ہے ہر بڑے شہر کی ہر سڑک کے ہر موڑ پر بھیک مانگنے والے بچے ہیں۔ گھروں میں نوکر، فیکٹریوں میں چھوٹے اور معاشرے میں سب سے کمزور طبقہ بچوں کاہے۔ انتخابات اور نعروں کے باوجود سیاسی جماعتوں کے منشور میں بچوں سے متعلق کوئی واضح پالیسی نظر نہیںآتی۔
ہاں بچوں کو دنیا میں لانے کا اہتمام ہم نے خوب کیا ہوا ہے۔ ا ن تمام حقائق کے باوجود ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ گجرات جیسے سانحے پر وقتی ماتم کے بعد ہم خاموش ہو جاتے ہیں جس قسم کی تفتیش اس وقت کی جا رہی ہے اس سے کسی کو بہتری کی کوئی بڑی امید نہیں ہے۔ ڈرائیور اور اسکول کے مالکان کو پکڑ لیا گیا ہے مگر وہ بڑے مگر مچھ جنہوں نے بچوں کے تحفظ کا اہتمام کرنا تھا دندناتے پھر رہے ہیں۔
توانائی کے بحران نے ان خاندانوں میں جو کہرام برپا کیا ہے اس پر کوئی نہیں سوچتا، کوئی ان بد عنوان ذمے داروں سے نہیں پوچھتا جنہوں نے خود کو فربہ تو کر لیا ہے مگر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال جو منگووال میں دیکھی گئی اس کی ذمے داری اٹھانے پر تیار نہیں ہیں۔ دنیا کی طرف سے ہماری عزت نفس پر جو زخم لگائے جاتے ہیں اس پر تلملانا جائز ہے۔ اس کے پیچھے ایک پراپیگنڈا ہے' بدنیتی ہے مگر جو کچھ ہم اپنے بچوں کے ساتھ کر رہے ہیں کیا ان حقائق کے آئینے میں اپنی شکل کو دیکھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک غیرت مند قوم ہیں۔