اوجڑی کیمپ کی تباہی کا ذمے دار کون
اوجڑی کیمپ دھماکے کے بارے میں پاکستان کے کسی ریاستی ادارے یا جید صحافی اور مفکر نے اب تک پورا سچ نہیں بتایا ہے۔
جنرل مشرف کو نواز شریف کی دوسری حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اقتدار میں لانے کے لیے اصل کردار اس وقت کے ہمارے تین صالح جرنیلوں، محمود، عزیز اور پھر شاہد عزیز نے ادا کیا تھا۔ مگر ایوانِ صدر کو بھی ہتھیا لینے کے بعد مشرف خود کو Enlightened Moderate کہنا شروع ہوگئے۔
نصابی حوالوں سے فلسفے کا باقاعدہ طالب علم ہونے کے باوجود میں ابھی تک اس اصطلاح کو پوری طرح سمجھ نہیں پایا۔ فوجی آمر بہرحال محاورے والے ہاتھی ہوتے ہیں۔ ''بڑا جانور ہوتے ہوئے ان کی مرضی انڈہ دیں یا بچہ''۔ بہر حال اسی اصطلاح کی روشنی میں ہمارے قومی سلامتی کے اداروں نے یہ بھی دریافت کیا کہ افغان جہاد کے دنوں میں انھوں نے جن لکھاریوں اور دانشوروں کی پشت پناہی کی، وہ اپنے تئیں بڑے خوش حال اور معروف مفکر بن چکے ہیں۔ مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ والے بغداد اور غرناطہ کی کہانیاں ناولوں کے بجائے کالموں کی صورت لکھ کر پاکستانیوں کا لہو گرمائے رکھتے ہیں۔
ان سے جنرل مشرف کا متعارف کردہ چورن فروخت نہیں کرایا جا سکے گا۔ ویسے بھی امریکا کو ایک بار پھر افغانستان ہی کے حوالے سے ایک اور پاکستانی جرنیل کی پشت پناہی مقصود تھی۔ جنرل مشرف کو مسلم دُنیا کا سب سے بڑا روشن خیال ثابت کرنے کے لیے ان دانشوروں اور صحافیوں سے رشتے بنائے جائیں جو انگریزی اخباروں میں باقاعدگی سے لکھتے ہیں اور اکثر مغربی سفارتکاروں کی محفلوں میں بلائے جاتے ہیں۔ صرف انگریزی اخباروں کے لیے برسوں سے رپورٹنگ کرتے ہوئے میرے لیے بھی ان دِنوں میں کچھ امکانات پیدا ہوئے تھے۔ نالائق آدمی ہوں اور کافی سست مزاج بھی۔ کوئی فائدہ نہ اُٹھا پایا۔
بہت سارے ذہین و فطین لوگوں نے البتہ سلامتی اور خارجہ امور کے ماہر ہونے کے رستے بنا لیے۔ ان میں سے کافی لوگ ان ''خود مختار'' انسٹی ٹیوٹس وغیرہ میں بھی چلے گئے جنھیں غیر ملکی سفارتکار اور میرے جیسے عام افراد قومی سلامتی کے اداروں کے Think Tanks سمجھا کرتے ہیں۔ چند لوگوں کی خوش حالی کا باعث بننے والے ان ہی اداروں کو میڈیا کے لیے دھانسو پروگرام اور مضامین وغیرہ لکھوانے کے طریقے بتانا بھی ہے۔ ایسے لوگوں کے نام ان فہرستوں میں بھی نہیں آتے جو وزارتِ اطلاعات اپنے خفیہ فنڈ سے پالے لوگوں کو عدالتوں کے ذریعے بے نقاب کرنے کے لیے پیش کیا کرتی ہے۔ اللہ ان کے دھندے میں مزید برکت دے اور وہ خوش و خرم رہیں۔
گزشتہ دو روز سے البتہ میں یہ سوچ کر اداس ہو رہا ہوں کہ ہمارے قومی سلامتی کے نگہبان کافی سست اور کند ذہن لوگوں کو سفید ہاتھیوں کی طرح پال کر اپنے وسائل برباد کر رہے ہیں۔ ان کا تھوڑا بہت حساب کتاب ہو ہی جانا چاہیے۔ مرتے دم تک میں اپریل 1988ء کا وہ دن نہیں بھول سکتا جب اچانک پورا اسلام آباد دھماکوں سے لرز اُٹھا تھا اور اس کے مکینوں کو ایسے لگا جیسے پاکستان کے دارالحکومت کو کسی دشمن نے چاروں طرف سے گھیر کر اس پر میزائلوں کی بارش شروع کر دی ہے۔
میں ان دنوں بڑا مشقتی رپورٹر ہوا کرتا تھا۔ پاگلوں کی طرح گھر سے نکل کر خبر ڈھونڈنا شروع ہو گیا۔ بہت سے اجنبی راہ گیروں نے مجھے سڑکوں پر دیوانہ وار آتے میزائلوں کی سمت کی طرف جاتے ہوئے چیخ چیخ کر روکنے کی کوشش کی۔ کئی گھنٹوں کی بھاگ دوڑ کے بعد پتہ چلا کہ اسلام آباد پر کسی دشمن نے کوئی حملہ نہیں کیا تھا۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم کے قریب ایک اوجڑی کیمپ تھا۔ سنا تھا وہاں پر افغان مجاہدین کے لیے خطرناک اسلحہ رکھا جاتا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ ایسے ہی اسلحے کی ایک نئی کھیپ آ رہی تھی۔
اسے ٹرک سے اُتارتے ہوئے کچھ گڑ بڑ ہو گئی اور ڈپو میں رکھے میزائل پُھلجڑیوں کی طرح چاروں طرف برسنا شروع ہو گئے۔ 100 سے زیادہ بے گناہ پاکستانی ان کا نشانہ بن کر جان سے چلے گئے۔ محمد خان جونیجو ان دِنوں پاکستان کے وزیر اعظم ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے کابینہ کی ایک کمیٹی بنا کر اس حادثے کے ذمے داروں کا تعین کر کے انھیں سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ اسلم خٹک مگر اس کمیٹی کے سربراہ بن گئے۔ انھوں نے بجائے تحقیقات کرنے کے صدر ضیاء کو بتانا شروع کر دیا کہ وزیر اعظم جونیجو اوجڑی کیمپ کی تحقیقات کے بہانے ان کے دو پسندیدہ جرنیلوں، اختر عبدالرحمٰن اور حمید گل کی چھٹی کرانا چاہ رہے ہیں۔
لہذا کابینہ کمیٹی کی رپورٹ کبھی شایع ہی نہ ہوئی بلکہ جنرل ضیاء نے ایک ماہ بعد جونیجو مرحوم اور ان کی پوری اسمبلی کی چھٹی کر دی۔ اس وقت سے اب تک اسلام آباد کے سازشی ڈرائنگ روموں میں یہ کہانی بڑی مستند مانی جاتی ہے کہ امریکی اوجڑی میں رکھے اسلحے کا حساب کتاب کرنے آ رہے تھے۔ بجائے انھیں حساب دینے کے ہمارے کچھ قومی سلامتی والوں نے اس کیمپ میں دھماکہ کرا دیا۔ بات آئی گئی ہوگئی۔
اوجڑی کیمپ دھماکے کے بارے میں پاکستان کے کسی ریاستی ادارے یا جید صحافی اور مفکر نے اب تک پورا سچ نہیں بتایا ہے۔ ایسے میں ایک نئی کتاب آ گئی ہے۔ Avoiding Armageddon اس کا نام ہے۔ مصنف بروس ریڈل ہیں۔ موصوف کوئی عام لکھاری نہیں۔ برسوں ایک باقاعدہ ملازم کی طرح امریکی قومی سلامتی اداروں کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے یکے بعد دیگرے چار امریکی صدور کی مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء کے ممالک اور معاملات کے ضمن میں معاونت کے فرائض سرانجام دیے۔
آج کل وہ ایک بڑے نام والے امریکی تھنک ٹینک کے Brookings Institution Intelligence Project کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان کی تازہ کتاب کے صفحہ نمبر 107 میں واضح الفاظ میں لکھا گیا ہے: ''2012ء میں مجھے بھارت کے دو سابقہ افسروں نے بتایا کہ ان کے (جاسوسی) ادارے نے (اوجڑی کیمپ والے) اڈے کو تخریب کاری سے تباہ کیا تھا تا کہ پاکستان کو کشمیری اور سکھ باغیوں کی مدد کرنے کی بناء پر سزا دی جا سکے''۔
2013ء کے شروع میں چھپنے والی اس کتاب کا یہ پیرا پڑھنے کے بعد میں بار بار سوچ رہا ہوں کہ ہمارے ہاں ہر دوسرے دن قومی سلامتی کے نام پر ٹی وی اسکرینوں اور اخباری مضامین میں واویلا مچانے والے غیرت مند لکھاری اور مفکر ابھی تک اس کتاب میں کیے ایسے سنسنی خیز انکشاف کے بارے میں اتنے خاموش کیوں ہیں۔ مجھے یقین ہے ان میں سے اکثر نے یہ کتاب ہی نہیں پڑھی ہو گی۔ وہ تو بس شور مچانے کی اُجرت لیتے ہیں۔ کتابیں پڑھنے اور سوچنے کی نہیں۔
نصابی حوالوں سے فلسفے کا باقاعدہ طالب علم ہونے کے باوجود میں ابھی تک اس اصطلاح کو پوری طرح سمجھ نہیں پایا۔ فوجی آمر بہرحال محاورے والے ہاتھی ہوتے ہیں۔ ''بڑا جانور ہوتے ہوئے ان کی مرضی انڈہ دیں یا بچہ''۔ بہر حال اسی اصطلاح کی روشنی میں ہمارے قومی سلامتی کے اداروں نے یہ بھی دریافت کیا کہ افغان جہاد کے دنوں میں انھوں نے جن لکھاریوں اور دانشوروں کی پشت پناہی کی، وہ اپنے تئیں بڑے خوش حال اور معروف مفکر بن چکے ہیں۔ مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ والے بغداد اور غرناطہ کی کہانیاں ناولوں کے بجائے کالموں کی صورت لکھ کر پاکستانیوں کا لہو گرمائے رکھتے ہیں۔
ان سے جنرل مشرف کا متعارف کردہ چورن فروخت نہیں کرایا جا سکے گا۔ ویسے بھی امریکا کو ایک بار پھر افغانستان ہی کے حوالے سے ایک اور پاکستانی جرنیل کی پشت پناہی مقصود تھی۔ جنرل مشرف کو مسلم دُنیا کا سب سے بڑا روشن خیال ثابت کرنے کے لیے ان دانشوروں اور صحافیوں سے رشتے بنائے جائیں جو انگریزی اخباروں میں باقاعدگی سے لکھتے ہیں اور اکثر مغربی سفارتکاروں کی محفلوں میں بلائے جاتے ہیں۔ صرف انگریزی اخباروں کے لیے برسوں سے رپورٹنگ کرتے ہوئے میرے لیے بھی ان دِنوں میں کچھ امکانات پیدا ہوئے تھے۔ نالائق آدمی ہوں اور کافی سست مزاج بھی۔ کوئی فائدہ نہ اُٹھا پایا۔
بہت سارے ذہین و فطین لوگوں نے البتہ سلامتی اور خارجہ امور کے ماہر ہونے کے رستے بنا لیے۔ ان میں سے کافی لوگ ان ''خود مختار'' انسٹی ٹیوٹس وغیرہ میں بھی چلے گئے جنھیں غیر ملکی سفارتکار اور میرے جیسے عام افراد قومی سلامتی کے اداروں کے Think Tanks سمجھا کرتے ہیں۔ چند لوگوں کی خوش حالی کا باعث بننے والے ان ہی اداروں کو میڈیا کے لیے دھانسو پروگرام اور مضامین وغیرہ لکھوانے کے طریقے بتانا بھی ہے۔ ایسے لوگوں کے نام ان فہرستوں میں بھی نہیں آتے جو وزارتِ اطلاعات اپنے خفیہ فنڈ سے پالے لوگوں کو عدالتوں کے ذریعے بے نقاب کرنے کے لیے پیش کیا کرتی ہے۔ اللہ ان کے دھندے میں مزید برکت دے اور وہ خوش و خرم رہیں۔
گزشتہ دو روز سے البتہ میں یہ سوچ کر اداس ہو رہا ہوں کہ ہمارے قومی سلامتی کے نگہبان کافی سست اور کند ذہن لوگوں کو سفید ہاتھیوں کی طرح پال کر اپنے وسائل برباد کر رہے ہیں۔ ان کا تھوڑا بہت حساب کتاب ہو ہی جانا چاہیے۔ مرتے دم تک میں اپریل 1988ء کا وہ دن نہیں بھول سکتا جب اچانک پورا اسلام آباد دھماکوں سے لرز اُٹھا تھا اور اس کے مکینوں کو ایسے لگا جیسے پاکستان کے دارالحکومت کو کسی دشمن نے چاروں طرف سے گھیر کر اس پر میزائلوں کی بارش شروع کر دی ہے۔
میں ان دنوں بڑا مشقتی رپورٹر ہوا کرتا تھا۔ پاگلوں کی طرح گھر سے نکل کر خبر ڈھونڈنا شروع ہو گیا۔ بہت سے اجنبی راہ گیروں نے مجھے سڑکوں پر دیوانہ وار آتے میزائلوں کی سمت کی طرف جاتے ہوئے چیخ چیخ کر روکنے کی کوشش کی۔ کئی گھنٹوں کی بھاگ دوڑ کے بعد پتہ چلا کہ اسلام آباد پر کسی دشمن نے کوئی حملہ نہیں کیا تھا۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم کے قریب ایک اوجڑی کیمپ تھا۔ سنا تھا وہاں پر افغان مجاہدین کے لیے خطرناک اسلحہ رکھا جاتا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ ایسے ہی اسلحے کی ایک نئی کھیپ آ رہی تھی۔
اسے ٹرک سے اُتارتے ہوئے کچھ گڑ بڑ ہو گئی اور ڈپو میں رکھے میزائل پُھلجڑیوں کی طرح چاروں طرف برسنا شروع ہو گئے۔ 100 سے زیادہ بے گناہ پاکستانی ان کا نشانہ بن کر جان سے چلے گئے۔ محمد خان جونیجو ان دِنوں پاکستان کے وزیر اعظم ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے کابینہ کی ایک کمیٹی بنا کر اس حادثے کے ذمے داروں کا تعین کر کے انھیں سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ اسلم خٹک مگر اس کمیٹی کے سربراہ بن گئے۔ انھوں نے بجائے تحقیقات کرنے کے صدر ضیاء کو بتانا شروع کر دیا کہ وزیر اعظم جونیجو اوجڑی کیمپ کی تحقیقات کے بہانے ان کے دو پسندیدہ جرنیلوں، اختر عبدالرحمٰن اور حمید گل کی چھٹی کرانا چاہ رہے ہیں۔
لہذا کابینہ کمیٹی کی رپورٹ کبھی شایع ہی نہ ہوئی بلکہ جنرل ضیاء نے ایک ماہ بعد جونیجو مرحوم اور ان کی پوری اسمبلی کی چھٹی کر دی۔ اس وقت سے اب تک اسلام آباد کے سازشی ڈرائنگ روموں میں یہ کہانی بڑی مستند مانی جاتی ہے کہ امریکی اوجڑی میں رکھے اسلحے کا حساب کتاب کرنے آ رہے تھے۔ بجائے انھیں حساب دینے کے ہمارے کچھ قومی سلامتی والوں نے اس کیمپ میں دھماکہ کرا دیا۔ بات آئی گئی ہوگئی۔
اوجڑی کیمپ دھماکے کے بارے میں پاکستان کے کسی ریاستی ادارے یا جید صحافی اور مفکر نے اب تک پورا سچ نہیں بتایا ہے۔ ایسے میں ایک نئی کتاب آ گئی ہے۔ Avoiding Armageddon اس کا نام ہے۔ مصنف بروس ریڈل ہیں۔ موصوف کوئی عام لکھاری نہیں۔ برسوں ایک باقاعدہ ملازم کی طرح امریکی قومی سلامتی اداروں کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے یکے بعد دیگرے چار امریکی صدور کی مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء کے ممالک اور معاملات کے ضمن میں معاونت کے فرائض سرانجام دیے۔
آج کل وہ ایک بڑے نام والے امریکی تھنک ٹینک کے Brookings Institution Intelligence Project کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان کی تازہ کتاب کے صفحہ نمبر 107 میں واضح الفاظ میں لکھا گیا ہے: ''2012ء میں مجھے بھارت کے دو سابقہ افسروں نے بتایا کہ ان کے (جاسوسی) ادارے نے (اوجڑی کیمپ والے) اڈے کو تخریب کاری سے تباہ کیا تھا تا کہ پاکستان کو کشمیری اور سکھ باغیوں کی مدد کرنے کی بناء پر سزا دی جا سکے''۔
2013ء کے شروع میں چھپنے والی اس کتاب کا یہ پیرا پڑھنے کے بعد میں بار بار سوچ رہا ہوں کہ ہمارے ہاں ہر دوسرے دن قومی سلامتی کے نام پر ٹی وی اسکرینوں اور اخباری مضامین میں واویلا مچانے والے غیرت مند لکھاری اور مفکر ابھی تک اس کتاب میں کیے ایسے سنسنی خیز انکشاف کے بارے میں اتنے خاموش کیوں ہیں۔ مجھے یقین ہے ان میں سے اکثر نے یہ کتاب ہی نہیں پڑھی ہو گی۔ وہ تو بس شور مچانے کی اُجرت لیتے ہیں۔ کتابیں پڑھنے اور سوچنے کی نہیں۔