چینی وزیراعظم کا دورہ پاکستان
دنیا کا ہر ملک دوسرے ملکوں سے دوستی قومی مفادات کی روشنی میں استوار کرتا ہے۔
ہندوستان کے تین روزہ دورے کے بعد چینی وزیراعظم پاکستان کے دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے، اس دورے کے دوران صدر زرداری نے ایک ظہرانے کا اہتمام کیا اور نگراں وزیراعظم نے چینی وزیراعظم کے لیے ایک عشائیے کا اہتمام کیا جس میں مسلح افواج کے سربراہوں کے علاوہ بڑی تعداد میں سیاستدانوں نے شرکت کی چونکہ نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ باضابطہ طور پر نہیں سنبھالا تھا اس لیے وہ میزبانی کی ذمے داری باضابطہ طور پر ادا نہ کرسکے لیکن انھوں نے چینی وزیراعظم سے طویل ملاقات کی جس میں دونوں رہنماؤں نے آیندہ دونوں ملکوں کے تعلقات کا جائزہ لیا۔
چینی وزیراعظم نے سینیٹ کے اجلاس سے بھی خطاب کیا۔ ان کے دورے کا بنیادی مقصد معاہدے کے مطابق گوادر کی بندرگاہ کو اپنی انتظامی تحویل میں لینا تھا یہ کام خیرخوبی سے مکمل ہوا۔ بعض طاقتوں کو گوادر کی بندرگاہ چین کے حوالے کرنے پر تحفظات ہیں جس کی وجہ اس رسمی تقریب میں ممکنہ گڑبڑ کا خطرہ تھا اور غالباً کچھ گڑبڑ کی کوشش کی گئی جو ناکام رہی لیکن اسی روز کوئٹہ میں پولیس بس پر حملہ کیا گیا، غالباً مخالف قوتوں کی طرف سے چین کو گوادر کی بندرگاہ دینے کے خلاف یہ اظہار ناراضگی تھا جس میں 13 بے گناہ انسانوں کی جان گئی اور 17 لوگ زخمی ہوئے۔
اس دورے کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان کئی معاہدوں پر دستخط ہوئے جس میں اقتصادی راہداری کا معاہدہ نمایاں حیثیت کا حامل ہے، اس معاہدے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں غیر معمولی اضافہ ہوگا۔ چینی وزیراعظم نے سینیٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''کسی دباؤ کے بغیر پاکستان کے ساتھ تعلقات جاری رہیں گے، ہمیں پاکستان سے دوستی پر فخر بھی ہے ناز بھی، ہم سونا پھینک سکتے ہیں لیکن پاکستان سے دوستی نیہں چھوڑسکتے''۔ چینی وزیراعظم کے ان خیالات سے پاکستان سے چین کی دوستی کی گہرائی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ نواز شریف نے چینی وزیر اعظم سے اپنی ملاقات میں توانائی کے شعبے میں چین کی امداد کی شدید ضرورت سے انھیں آگاہ کیا اور یہ امید بھی ظاہر کی کہ چین سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے شعبے میں پاکستان کی مدد کرے۔
پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کی تاریخ بہت پرانی ہے، دنیا کا ہر ملک دوسرے ملکوں سے دوستی قومی مفادات کی روشنی میں استوار کرتا ہے۔ ایشیا میں بھارت اور چین ایک دوسرے کے حریف رہے ہیں، اس کی ایک منطقی وجہ یہ ہے کہ بھارت چین کے مقابلے میں ایشیا کی منی سپر پاور بننا چاہتا ہے اور بھارت کی اس کوشش کو چین اپنے مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بھارت تبت کو اپنا علاقہ سمجھتا رہا اور چین نے تبت سے دلائی لامہ کو نکال کر تبت پر قبضہ کرلیا۔ چین کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ تبت تاریخی طور سے چین کا حصہ رہا ہے، دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا جب 1962 میں دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی جنگ ہوئی، اس جنگ میں بھارت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور بھارت کے بقول چین نے بھارت کے کچھ سرحدی علاقوں پر قبضہ کرلیا۔
بھارت سے کشیدہ تعلقات کے پس منظر میں چین کی پاکستان سے دوستی ایک منطقی اور مفادات باہمی کی ضرورت بنی۔ پاک چین دوستی میں استحکام اس وقت آیا جب پاکستان نے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے امریکا اور چین کے درمیان تعلقات استوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1971 کے المیے کے دوران بھی چین نے پاکستان کی ممکنہ اخلاقی مدد کی اور اس کے بعد بھی ضرورت کے ہر موقع پر چین نے پاکستان کی ہر ممکنہ مدد کی۔
پاکستان اور چین کی دوستی میں ایک بالکل نئے اور دوررس تعلقات کا آغاز اس وقت ہوا جب پاکستان نے گوادر کی بندرگاہ کو چین کے زیر انتظام دینے کا معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ ایشیا کی سیاست میں بڑے گہرے مضمرات کا حامل ہے۔ کیونکہ امریکا گوادر کی بندرگاہ چین کے حوالے کرنے کے حق میں نہیں تھا اور مستقبل میں اس معاہدے کے بڑے دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔ گوادر کی بندرگاہ کو رسمی طور پر چین کے حوالے کرنے کا مسئلہ درپیش تھا سو اس کام کے لیے چین کے وزیراعظم نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے ساتھ منسلک کردیا۔
چینی وزیراعظم نے پاکستان آنے سے قبل بھارت کا تین روزہ دورہ کیا اور اس دورے کے بارے میں کہا گیا کہ چینی وزیراعظم نے اپنی سیاسی بصیرت سے اس دورے کو نہایت کامیاب بنایا۔ بعض حلقوں نے یہ بھی کہا کہ 1962 سے پہلے ہندی چینی بھائی بھائی کی جو فضا بنی تھی چینی وزیراعظم کے حالیہ دورے کے بعد ایک بار پھر وہی فضا بننے جارہی ہے۔ اس قسم کی باتیں ویسے تو بڑی خوش کن ہیں لیکن پس پردہ حقائق کچھ اور نظر آتے ہیں۔
کلدیپ نائر کا شمار بھارت کے دانشوروں میں ہوتا ہے، موصوف کے بارے میں یہ تصور عام ہے کہ وہ قومی اور بین الاقوامی مسائل میں غیر جانبدار رہتے ہیں۔ کلدیپ جی کا کالم ایکسپریس میں پابندی سے شایع ہوتا ہے جس میں وہ علاقائی مسائل کے علاوہ بین الاقوامی مسائل پر بھی اپنی ''غیرجانبدارانہ'' رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ چینی وزیراعظم کے دورہ بھارت کے بعد موصوف نے چینی وزیراعظم کے دورے کا جائزہ لیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ''بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے چینی وزیراعظم کے سامنے سرحدی مسئلہ اٹھایا تھا لیکن چین چونکہ 1962 کی جنگ کا فاتح ہے لہٰذا چینی وزیراعظم نے من موہن سنگھ کی باتوں کو سنا ضرور لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی وہ بدستور ہوا کے گھوڑے پر سوار رہے، ان کا موقف یہ رہا کہ جب حالات معمول پر آجائیں گے تو سرحدی تنازعہ حل ہوجائے گا، جن کا مطلب یہ ہوا کہ چین بدستور ہمارے علاقوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے جو علاقے اس نے بزور طاقت بھارت سے چھین لیے تھے۔ من موہن کا یہ موقف درست ہے کہ سرحد کا مسئلہ طے ہوئے بغیر امن وامان کا قیام ممکن نہیں۔
چین نے 1962 میں یکطرفہ طور پر جنگ بندی کی اور لائن آف کنٹرول ہی کو دونوں ملکوں کے درمیان سرحد قرار دے دیا۔'' کلدیپ کا کہنا ہے کہ چین جن علاقوں پر قابض ہے وہ علاقے بھارت کے ہیں جن پر چین طاقت کے بل پر قابض رہنا چاہتا ہے اور دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ طاقت کے زور پر بھارتی علاقوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے جس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔ کلدیپ نائر کے اس کالم میں اور بھی بہت سارے مسائل کا ذکر ہے جن کا تعلق چین سے ہے جن میں تبت لداخ، ارونا چل پردیش وغیرہ شامل ہیں۔
مجھے حیرت ہے کہ بھارت کے انتہائی غیر جانبدار کالم نگار کلدیپ جی کو چین کی جارحیت اور بھارت کے سرحدی علاقوں پر طاقت کے زور پر چین کا قبضہ تو جارحیت نظر آتا ہے لیکن کشمیر پر 6 لاکھ فوج کے ذریعے بھارت کے قبضے کو موصوف نے ہمیشہ بھارت کا داخلی مسئلہ قرار دیا اور پاکستان پر الزام لگاتے رہے کہ وہ کشمیر میں مجاہدین کے ذریعے مداخلت کر رہا ہے۔ حالانکہ چین بھارت سرحدی علاقوں کا مسئلہ صرف دو ملکوں کا مسئلہ ہے جب کہ مسئلہ کشمیر کے مضمرات اس قدر گہرے ہیں کہ اسی مسئلے کی وجہ سے جنوبی ایشیا مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور یہ انتہاپسندی اب پھیلتے ہوئے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔
بھارت کا چین کے ساتھ سرحدی اور تبت کا تنازعہ ہے، بھارت کو یہ خوف لاحق ہے کہ چین پاکستان سے تعلقات بڑھا کر کشمیر کے سرحدی علاقوں میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر اور پانی کا مسئلہ تنازع کی بڑی وجہ ہے، کشمیر پر طاقت کے ذریعے بھارت اس طرح قابض ہے جیسے چین بھارت کے سرحدی علاقوں پر قابض ہے۔
انسان کو اشرف المخلوقات اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ عقل و فہم کے ذریعے ہر مسئلے کا حل تلاش کرسکتا ہے لیکن دنیا کے ہر علاقے میں علاقائی مسائل جنگ کا سبب بن رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کا مہذب انسان قومی مفاد اور جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کے نام پر پوری انسانی برادری کو ایسے سنگین خطرات کی طرف دھکیل رہا ہے جس کا نتیجہ قتل و غارت جنگوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ بھارت، چین اور پاکستان اپنے تمام متنازعہ مسائل بات چیت کے ذریعے پرامن طریقوں سے حل کرکے اس خطے میں آباد لگ بھگ دنیا کی نصف آبادی کو امن اور خوشحالی سے زندگی گزارنے کا موقع دیں اور ہندی چینی اور پاکستانی بھائی بھائی کے کلچر کو فروغ دے کر اس خطے سے جنگوں کے امکانات کو ختم کردیں؟
چینی وزیراعظم نے سینیٹ کے اجلاس سے بھی خطاب کیا۔ ان کے دورے کا بنیادی مقصد معاہدے کے مطابق گوادر کی بندرگاہ کو اپنی انتظامی تحویل میں لینا تھا یہ کام خیرخوبی سے مکمل ہوا۔ بعض طاقتوں کو گوادر کی بندرگاہ چین کے حوالے کرنے پر تحفظات ہیں جس کی وجہ اس رسمی تقریب میں ممکنہ گڑبڑ کا خطرہ تھا اور غالباً کچھ گڑبڑ کی کوشش کی گئی جو ناکام رہی لیکن اسی روز کوئٹہ میں پولیس بس پر حملہ کیا گیا، غالباً مخالف قوتوں کی طرف سے چین کو گوادر کی بندرگاہ دینے کے خلاف یہ اظہار ناراضگی تھا جس میں 13 بے گناہ انسانوں کی جان گئی اور 17 لوگ زخمی ہوئے۔
اس دورے کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان کئی معاہدوں پر دستخط ہوئے جس میں اقتصادی راہداری کا معاہدہ نمایاں حیثیت کا حامل ہے، اس معاہدے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں غیر معمولی اضافہ ہوگا۔ چینی وزیراعظم نے سینیٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''کسی دباؤ کے بغیر پاکستان کے ساتھ تعلقات جاری رہیں گے، ہمیں پاکستان سے دوستی پر فخر بھی ہے ناز بھی، ہم سونا پھینک سکتے ہیں لیکن پاکستان سے دوستی نیہں چھوڑسکتے''۔ چینی وزیراعظم کے ان خیالات سے پاکستان سے چین کی دوستی کی گہرائی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ نواز شریف نے چینی وزیر اعظم سے اپنی ملاقات میں توانائی کے شعبے میں چین کی امداد کی شدید ضرورت سے انھیں آگاہ کیا اور یہ امید بھی ظاہر کی کہ چین سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے شعبے میں پاکستان کی مدد کرے۔
پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کی تاریخ بہت پرانی ہے، دنیا کا ہر ملک دوسرے ملکوں سے دوستی قومی مفادات کی روشنی میں استوار کرتا ہے۔ ایشیا میں بھارت اور چین ایک دوسرے کے حریف رہے ہیں، اس کی ایک منطقی وجہ یہ ہے کہ بھارت چین کے مقابلے میں ایشیا کی منی سپر پاور بننا چاہتا ہے اور بھارت کی اس کوشش کو چین اپنے مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بھارت تبت کو اپنا علاقہ سمجھتا رہا اور چین نے تبت سے دلائی لامہ کو نکال کر تبت پر قبضہ کرلیا۔ چین کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ تبت تاریخی طور سے چین کا حصہ رہا ہے، دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا جب 1962 میں دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی جنگ ہوئی، اس جنگ میں بھارت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور بھارت کے بقول چین نے بھارت کے کچھ سرحدی علاقوں پر قبضہ کرلیا۔
بھارت سے کشیدہ تعلقات کے پس منظر میں چین کی پاکستان سے دوستی ایک منطقی اور مفادات باہمی کی ضرورت بنی۔ پاک چین دوستی میں استحکام اس وقت آیا جب پاکستان نے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے امریکا اور چین کے درمیان تعلقات استوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1971 کے المیے کے دوران بھی چین نے پاکستان کی ممکنہ اخلاقی مدد کی اور اس کے بعد بھی ضرورت کے ہر موقع پر چین نے پاکستان کی ہر ممکنہ مدد کی۔
پاکستان اور چین کی دوستی میں ایک بالکل نئے اور دوررس تعلقات کا آغاز اس وقت ہوا جب پاکستان نے گوادر کی بندرگاہ کو چین کے زیر انتظام دینے کا معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ ایشیا کی سیاست میں بڑے گہرے مضمرات کا حامل ہے۔ کیونکہ امریکا گوادر کی بندرگاہ چین کے حوالے کرنے کے حق میں نہیں تھا اور مستقبل میں اس معاہدے کے بڑے دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔ گوادر کی بندرگاہ کو رسمی طور پر چین کے حوالے کرنے کا مسئلہ درپیش تھا سو اس کام کے لیے چین کے وزیراعظم نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے ساتھ منسلک کردیا۔
چینی وزیراعظم نے پاکستان آنے سے قبل بھارت کا تین روزہ دورہ کیا اور اس دورے کے بارے میں کہا گیا کہ چینی وزیراعظم نے اپنی سیاسی بصیرت سے اس دورے کو نہایت کامیاب بنایا۔ بعض حلقوں نے یہ بھی کہا کہ 1962 سے پہلے ہندی چینی بھائی بھائی کی جو فضا بنی تھی چینی وزیراعظم کے حالیہ دورے کے بعد ایک بار پھر وہی فضا بننے جارہی ہے۔ اس قسم کی باتیں ویسے تو بڑی خوش کن ہیں لیکن پس پردہ حقائق کچھ اور نظر آتے ہیں۔
کلدیپ نائر کا شمار بھارت کے دانشوروں میں ہوتا ہے، موصوف کے بارے میں یہ تصور عام ہے کہ وہ قومی اور بین الاقوامی مسائل میں غیر جانبدار رہتے ہیں۔ کلدیپ جی کا کالم ایکسپریس میں پابندی سے شایع ہوتا ہے جس میں وہ علاقائی مسائل کے علاوہ بین الاقوامی مسائل پر بھی اپنی ''غیرجانبدارانہ'' رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ چینی وزیراعظم کے دورہ بھارت کے بعد موصوف نے چینی وزیراعظم کے دورے کا جائزہ لیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ''بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے چینی وزیراعظم کے سامنے سرحدی مسئلہ اٹھایا تھا لیکن چین چونکہ 1962 کی جنگ کا فاتح ہے لہٰذا چینی وزیراعظم نے من موہن سنگھ کی باتوں کو سنا ضرور لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی وہ بدستور ہوا کے گھوڑے پر سوار رہے، ان کا موقف یہ رہا کہ جب حالات معمول پر آجائیں گے تو سرحدی تنازعہ حل ہوجائے گا، جن کا مطلب یہ ہوا کہ چین بدستور ہمارے علاقوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے جو علاقے اس نے بزور طاقت بھارت سے چھین لیے تھے۔ من موہن کا یہ موقف درست ہے کہ سرحد کا مسئلہ طے ہوئے بغیر امن وامان کا قیام ممکن نہیں۔
چین نے 1962 میں یکطرفہ طور پر جنگ بندی کی اور لائن آف کنٹرول ہی کو دونوں ملکوں کے درمیان سرحد قرار دے دیا۔'' کلدیپ کا کہنا ہے کہ چین جن علاقوں پر قابض ہے وہ علاقے بھارت کے ہیں جن پر چین طاقت کے بل پر قابض رہنا چاہتا ہے اور دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ طاقت کے زور پر بھارتی علاقوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے جس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔ کلدیپ نائر کے اس کالم میں اور بھی بہت سارے مسائل کا ذکر ہے جن کا تعلق چین سے ہے جن میں تبت لداخ، ارونا چل پردیش وغیرہ شامل ہیں۔
مجھے حیرت ہے کہ بھارت کے انتہائی غیر جانبدار کالم نگار کلدیپ جی کو چین کی جارحیت اور بھارت کے سرحدی علاقوں پر طاقت کے زور پر چین کا قبضہ تو جارحیت نظر آتا ہے لیکن کشمیر پر 6 لاکھ فوج کے ذریعے بھارت کے قبضے کو موصوف نے ہمیشہ بھارت کا داخلی مسئلہ قرار دیا اور پاکستان پر الزام لگاتے رہے کہ وہ کشمیر میں مجاہدین کے ذریعے مداخلت کر رہا ہے۔ حالانکہ چین بھارت سرحدی علاقوں کا مسئلہ صرف دو ملکوں کا مسئلہ ہے جب کہ مسئلہ کشمیر کے مضمرات اس قدر گہرے ہیں کہ اسی مسئلے کی وجہ سے جنوبی ایشیا مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور یہ انتہاپسندی اب پھیلتے ہوئے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔
بھارت کا چین کے ساتھ سرحدی اور تبت کا تنازعہ ہے، بھارت کو یہ خوف لاحق ہے کہ چین پاکستان سے تعلقات بڑھا کر کشمیر کے سرحدی علاقوں میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر اور پانی کا مسئلہ تنازع کی بڑی وجہ ہے، کشمیر پر طاقت کے ذریعے بھارت اس طرح قابض ہے جیسے چین بھارت کے سرحدی علاقوں پر قابض ہے۔
انسان کو اشرف المخلوقات اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ عقل و فہم کے ذریعے ہر مسئلے کا حل تلاش کرسکتا ہے لیکن دنیا کے ہر علاقے میں علاقائی مسائل جنگ کا سبب بن رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کا مہذب انسان قومی مفاد اور جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کے نام پر پوری انسانی برادری کو ایسے سنگین خطرات کی طرف دھکیل رہا ہے جس کا نتیجہ قتل و غارت جنگوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ بھارت، چین اور پاکستان اپنے تمام متنازعہ مسائل بات چیت کے ذریعے پرامن طریقوں سے حل کرکے اس خطے میں آباد لگ بھگ دنیا کی نصف آبادی کو امن اور خوشحالی سے زندگی گزارنے کا موقع دیں اور ہندی چینی اور پاکستانی بھائی بھائی کے کلچر کو فروغ دے کر اس خطے سے جنگوں کے امکانات کو ختم کردیں؟