12اکتوبر 1999ء کا ضمیمہ
ادھر دھماکوں کی اطلاع پہنچی اُدھر پریس نے چلنا شروع کیا اور ضمیمہ چند منٹ کے اندر لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ گیا.
KARACHI:
12اکتوبر 1999ء کی شام نیوز روم میں داخل ہوا تو ایک ضمیمہ تیار ہو چکا تھا۔ اسے کسی بھی لمحے پرنٹنگ کے لیے پریس بھجوایا جانا تھا۔ نیوز ایڈیٹر صاحب کو ایک فون آیا اور ضمیمے کو پریس جاتے جاتے روک لیا گیا۔ اڑتی اڑتی ایک خبر آرہی تھی' خبر ایسی تھی کہ رسک نہیں لیا جا سکتا تھا۔ فیصلہ ہوا کہ ابھی اسے پریس نہ بھجوایا جائے۔
ضمیمے کی زینت پرنٹ میڈیا کی بریکنگ نیوز ہوا کرتی تھی مگر اس دن کی خبر بریکنگ نیوز سے بھی بڑھ کر تھی۔ آٹھ کالم سرخی کچھ یوں تھی ''وزیراعظم نواز شریف نے جنرل مشرف کو برطرف کر کے ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف بنا دیا۔'' اس ضمیمے کی تیاری سے تقریباً ڈیڑھ سال پہلے ایک اور ضمیمہ بھی ترتیب دیا گیا تھا۔ مئی کی 28 تاریخ تھی اور سال 1998ء۔ اس ضمیمے کو روکنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی کیونکہ پاکستان نے انڈیا کے جواب میں ایٹمی دھماکے کیے تھے۔
وہ ضمیمہ دھماکے ہونے سے پہلے ہی تیار تھا، ادھر دھماکوں کی اطلاع پہنچی اُدھر پریس نے چلنا شروع کیا اور ضمیمہ چند منٹ کے اندر لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ گیا لیکن اس بار کہانی میں نیا موڑ آگیا تھا... وزیر اعظم نے جب کمانڈو جرنیل اور آرمی چیف کو برطرف کیا، وہ اس وقت ہزاروں فٹ کی بلندی پر محوپرواز تھا۔ جنرل مشرف کے مسافر طیارے نے سری لنکا سے اُڑان بھری اور وطن واپسی کی راہ لی۔ آرمی چیف خود فضاؤں میں تھے مگر زمین پر ان کے ساتھی کور کمانڈر پوری طرح تیار تھے۔ آرمی چیف کی برطرفی کا حکم ماننے سے انکار کر دیا گیا۔
اس کہانی میں آگے کیا ہوا اس کو بیان کرنے سے پہلے آج کی نوجوان نسل کو یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ ضمیمہ کیا بلا ہوتی تھی۔ تب ٹی وی چینلز کی بھرمار تھی نہ بریکنگ نیوز کی یلغار۔ بس یوں سمجھ لیں کہ ضمیمہ ہی نیوز بریک کرنے کا واحد ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ اور یہ بریکنگ نیوز بھی کبھی کبھار ہی سامنے آتی تھی۔ ٹی وی صرف سرکاری ہوتا تھا اور اس میں بریکنگ نیوز کا تصور سرے سے نہیں تھا۔ ایک صفحے کا خصوصی اخبار ضمیمہ کہلاتا تھا۔ پھر نجی ٹی وی چینل آئے اور ضمیمے کی ضرورت ہی ختم ہو گئی۔ میں سوچتا ہوں کہ بریکنگ نیوز کا جو معیار اب ہے وہ اس وقت بھی ہوتا تو ہم اخبار والے ضمیمے چھاپ چھاپ کر پاگل ہو جاتے۔
کہانی کی طرف واپس آتے ہیں۔ نواز شریف کو بطور وزیر اعظم یہ آئینی اختیار تھا کہ وہ آرمی چیف کو برطرف کرسکتے تھے، یہ اختیار وہ ایک بار استعمال کر چکے تھے جب جنرل جہانگیر کرامت کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ جہانگیر کرامت کا ''جرم'' معمولی تھا۔ انھوں نے نیول وار کالج لاہور میں خطاب کرتے ہوئے نیشنل سیکیورٹی کونسل کے قیام کی تجویز دی تھی۔ میاں صاحب کو وہ تجویز پسند نہیں آئی اور ایک آرمی چیف کو گھر جانا پڑا۔ جنرل مشرف کا قصور بہت بڑا تھا۔ انھوں نے وزیر اعظم کو اعتماد میں لیے بغیر کارگل کا ''معرکہ'' برپا کر دیا تھا۔
میاں صاحب کو امریکا جا کر صدر کلنٹن کی منت سماجت کر کے پاکستان کی جان بخشی کرانی پڑی تھی۔ اس واقعے کے بعد دلوں میں گرہ پڑ چکی تھی۔ ڈراپ سین ہوا تو قوم نے دیکھا آئین کی طاقت بندوق کی طاقت کے سامنے ڈھیر ہو گئی۔ وزیر اعظم کو پرائم منسٹر ہاؤس سے گرفتار کرکے سیف ہاؤس میں رکھا گیا اور پھر اٹک جیل میں بند کر دیا گیا۔
مقدمہ بنایا اور چلایا گیا۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج رحمت حسین جعفری نے ''ملزم'' کے لیے سزائے موت کا حکم نہیں مانا اور عمر قید کی سزا سنا دی۔ چند ماہ پہلے صدر آصف زرداری نے یہ کریڈٹ لیا کہ جج کو انھوں نے پیغام پہنچایا تھا کہ نواز شریف کو سزائے موت نہ سنائی جائے۔ معزول وزیر اعظم کو قید خانے سے جدہ جلاوطن کر دیا گیا۔ دوسری طرف کمانڈو کا طیارہ ایک زبردست ڈرامے کے بعد کراچی میں لینڈ کر گیا اور وہ باہر نکلتے ہی ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا۔ نظریہ ضرورت والوں نے کمال فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے تین سال میں آئین کا حلیہ اپنی مرضی کے مطابق بگاڑنے کا بھرپور اختیار دے دیا۔
ملک میں پہلی بار مارشل لاء نہیں لگا تھا۔ کمانڈو جرنیل نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بننے کے بجائے چیف ایگزیکٹو کہلوانا پسند کیا۔ یہ کسی وزیر اعظم کی گرفتاری کا پہلا واقعہ بھی نہیں تھا۔ قوم جنرل ایوب، جنرل یحییٰ اور جنرل ضیاء کو بھگت چکی تھی۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سوئے دار تک پہنچایا جا چکا تھا۔ کمانڈو کی خوبی یہ تھی کہ اس نے مارشل لاء کا نفاذ کر کے بھی اسے مارشل لاء کا نام نہیں دیا۔ مجھے یاد ہے میری ہوش میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ سرکاری ٹی وی سے رات 9 بجے کا خبرنامہ نشر نہیں ہوا تھا۔
میرے عزیز ہموطنو کی آواز سننے کے لیے قوم کو علی الصبح تک انتظار کرنا پڑا تھا۔ کمانڈو کی حکمرانی شروع ہو گئی اور راوی صرف چین لکھتا رہا۔ دنیا نے یہ عجیب تماشا بھی دیکھا کہ ووٹ کے ذریعے قائم ہونے والے اس ملک میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تو کوئی آنکھ اشک بار نہیں ہوئی۔ وزیر اعظم کے اپنے شہر لاہور میں مٹھائیاں بانٹی گئیں۔ ''قدم بڑھاؤ نواز شریف، ہم تمہارے ساتھ ہیں'' کا نعرہ لگانے والے کہیں اندھیروں میں گم ہو گئے۔ لیڈر نے مڑ کے دیکھا تو پیچھے کوئی بھی نہیں تھا۔ اس دوران جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ دس سال کی جلاوطنی آٹھ سال میں ختم ہو گئی۔ 99ء میں معزول ہونے والا وزیر اعظم 2007ء میں واپس آ گیا۔ مشکل سے ایک سال ہی گزرا ہو گا کہ کمانڈو صدارتی کیمپ آفس سے نکلا اور اس نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی۔
کہانی نے نیا موڑ لیا اور جمہوری حکومت نے پہلی بار اپنی ٹرم پوری کر لی۔ یہ الگ بات ہے کہ جمہوری حکومت کے قیام کے آغاز پر ہیرو بننے والے اس کے ختم ہوتے ہوتے ولن بن گئے۔ قوم کو یقین ہی نہیں تھا کہ الیکشن ہو جائیں گے۔ الیکشن کی فضا بنتی بگڑتی رہی۔ طاہر القادری نے بھی اپنا کردار بخوبی نبھایا۔ سارے خدشات کے باوجود الیکشن کا اعلان ہو گیا۔ کمانڈو نے بھی اپنی خودساختہ جلا وطنی کو تیاگ دیا۔ وہ واپس آیا تو کراچی ایئر پورٹ پر درجنوں افراد کا ''جم غفیر'' استقبال کے لیے پہنچ گیا۔ پہلے الیکشن لڑنے کا خواب چکنا چور ہوا پھر مقدمات کے شکنجے کس دیے گئے۔ بڑے ارمانوں سے تعمیر کیا گیا چک شہزاد کا فارم ہاؤس ہی جیل بن گیا۔ عدالتوں میں دھکے الگ سے کھانے پڑے۔ الیکشن کا نتیجہ آیا تو 99ء میں پرائم منسٹر ہاؤس سے گرفتار کر کے جلا وطن کیا جانے والا وزیر اعظم اپنی پارٹی کو وکٹری اسٹینڈ تک لے گیا۔
بندوق کی طاقت سے اقتدار پر قبضہ کرنے والا جنرل مشرف آج اپنے ہی گھر کی جیل میں قید ہے۔ آئین کی طاقت والا نواز شریف چار دن بعد پھر وزیراعظم کا حلف اٹھا رہا ہے۔ ریکارڈ تیسری بار وزیراعظم... کیا اسے جمہوریت کی فتح کہا جا سکتا ہے؟ جمہوریت کی حقیقی فتح۔ میں یہ بتانا بھول ہی گیا کہ وہ ضمیمہ پریس میں نہیں جا سکا تھا، اس کی جگہ ایک اور ضمیمہ پرنٹنگ کے لیے پریس گیا تھا۔ اس کی بریکنگ نیوز کچھ یوں تھی۔ ''وزیر اعظم نواز شریف کو معزول کر کے گرفتار کر لیا گیا۔''