سردار صاحب کا عبرت انگیز قصہ

سردار صاحب کی کہانی کوئی افسانہ نہیں بلکہ سچج واقعہ ہے، صرف اصل نام ظاہر نہیں کیے گئے ہیں

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی اولاد آپ کےلیے رحمت، نعمت اور صدقۂ جاریہ ہو تو ان کےلیے جائیدادیں بنانے کے بجائے ان کے کردار بنانے پر توجہ دیجیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سردار صاحب کی کہانی کوئی افسانہ نہیں بلکہ ایک سچا واقعہ ہے۔ صرف اصل نام ظاہر نہیں کیے گئے ہیں۔

سردار صاحب کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔ شاندار کاروبار تھا۔ فیکٹریاں، پلازے، فارم ہاؤس، مرسیڈیز اور لمبے چوڑے بینک بیلنس سمیت لاتعداد جائیدادیں ان کے نام تھیں۔ سردار صاحب نے یہ پیسہ بہت محنت سے کمایا تھا۔ اس میں حلال محنت بھی شامل تھی اور حرام محنت بھی۔ تنکا تنکا جوڑ کر اور لوگوں کا حق مار مار کر جائیدادیں بنانے کے پیچھے ان کا ایک ہی مقصد تھا کہ میں اپنی اولاد کےلیے کچھ چھوڑ جاؤں۔ وہ متکبر لحجے میں فخر سے بتاتے تھے کہ میں یہ سب کچھ اپنی اولاد کےلیے کر رہا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ انہیں زندگی میں کوئی تکلیف نہ ہو۔ وہ شاہانہ زندگی گزاریں۔ میرے بڑھاپے کا سہارا بنیں۔ میرے مرنے کے بعد میری مغفرت کی دعا کریں اور لوگ میری اولاد کو دیکھ کر رشک کریں کہ سردار صاحب کی اولاد صاحب حیثیت، نیک اور فرمانبردار ہے۔

وقت گزرتا گیا۔ اولاد کی تعلیم مکمل ہوئی۔ تین بیٹیوں کی شادی بیرون ملک کردی جبکہ ایک بیٹی کی شادی پاکستان میں ایک جج سے کردی۔ ایک بیٹے کو اچھی ملازمت دلوائی، دو بیٹوں کو کاروبار میں شامل کیا۔ انہیں بھی حلال اور حرام محنت کے گُر سکھائے اور خود مطمئن ہو کر گھر بیٹھ گئے۔

اب تک سب کچھ سردار صاحب کی مرضی اور سوچ کے مطابق چل رہا تھا لیکن اب وقت بدلنے کا موسم شروع ہونے والا تھا۔ سردار صاحب نے جو مال جمع کیا تھا اس کا حساب دینے کا وقت آ گیا تھا۔ حرام محنت کے بوئے ہوئے بیجوں نے پھل دینا شروع کردیا تھا۔ لہذا وقت نے کروٹ لی اور دو بیٹوں کا جائیداد اور کاروبار کی تقسیم پر جھگڑا شروع ہو گیا۔ اختلافات عروج پر پہنچے اور ایک بیٹے نے دوسرے بیٹے کو لاہور کے مشہور چوک میں گولی مار کر قتل کر دیا۔

پولیس دوسرے بیٹے کو تھانے لے گئی۔ 302 کا مقدمہ بنایا اور جان چھوڑنے کےلیے رشوت کا مطالبہ کر دیا۔ حرام محنت سے کمائے گئے پیسوں کا حرام استعمال ہونے کا وقت شروع ہو چکا تھا۔ سردار صاحب نے پولیس کو منہ مانگی رقم دی اور بیٹا جان چھڑا کر گھر واپس آ گیا۔ بیٹا خوش تھا کہ اب جائیداد میرے لیے ہے اور جب تک زندہ رہوں گا، خوب عیاشی کروں گا۔ لیکن اللہ کے انصاف کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اگلے دن بیٹا اسی چوک سے گزر رہا تھا جہاں اس نے اپنے بھائی کو گولی مار کر قتل کیا تھا کہ اچانک صحت مند نوجوان بیٹے کو دل کا دورہ پڑا اور وہ اسی چوک میں مرگیا جہاں اس نے اپنے بھائی کو قتل کیا تھا۔ سردار صاحب یہ صدمہ برداشت نہ کر سکے اور انہیں فالج کا اٹیک ہو گیا۔ اب ان کے پاس آخری امید تیسرا بیٹا تھا۔

لیکن سردار صاحب کی یہ امید بھی جلد ہی ٹوٹ گئی جب اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں آپ کی خدمت نہیں کرسکتا۔ اب چوہدری صاحب نے جس دن کےلیے جائیدادیں اور کاروبار بنائے تھے، وہ دن گزر رہے تھے اور چوہدری صاحب معذور، لاچار اور بے بس ہوکر بنگلے کے ایک کونے میں پڑے ہوئے تھے۔ انہیں بینک اور ڈاکٹروں کے پاس آنے جانے کےلیے بھی نوکروں کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ تیسرا بیٹا جب بھی آتا تو کسی جائیداد کا سودا کرتا، باپ کے انگوٹھے لگواتا اور جائیداد بیچ دیتا۔ جائیداد تیزی سے ختم ہونے لگی۔ کسی بینک مینیجر کی منت سماجت کر کے بچا کچھا پیسہ قومی بچت بینک میں رکھوایا اور زندگی کا روٹی پانی چلتا رہا۔

چوہدری صاحب کی تمام جائیدادوں میں سے ایک فیکٹری بچی تھی، ایک گھر بچا تھا اور تھوڑا بہت بینک بیلنس رہ گیا تھا۔ جس بیٹی کا شوہر ایک جج تھا، اس کی نظر فیکٹری پر تھی۔ لہذا اس نے ساز باز کرکے فیکٹری بیچ دی۔ نازک حالات کو دیکھتے ہوئے چوہدری صاحب نے بینک بیلنس بیوی کے نام کردیا۔ گھر بیوی کے نام کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ بربادی کا یہ سلسلہ ابھی چل ہی رہا تھا کہ جائز، ناجائز طریقوں سے اربوں روپوں کی جائیدادیں بنانے والے سردار صاحب خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہوگئے۔

دنیا کے کتوں نے گھر بیچ دیا۔ بیٹے نے ماں کو اپنے گھر رکھنے سے انکار کر دیا۔ ماں نے بیٹی سے گزارش کی کہ مجھے اپنے گھر میں رکھ لو۔ بیٹی نے شرط رکھی کہ آپ کو میرے گھر کے سارے اخراجات اٹھانے ہوں گے۔ جس بیٹی نے یہ شرط رکھی اس کا شوہر ہائی کورٹ کا جج تھا اور سسر کی فیکٹری بیچ کر پہلے ہی ہڑپ کرچکا تھا۔

ماں کو قومی بچت سے کچھ پیسے آتے تھے۔ ماں نے ان پیسوں سے بیٹی کے گھر کے سارے اخراجات اٹھانے کی ہامی بھری اور بیٹی اس کے بدلے ماں کو دو وقت کی روٹی دے دیتی تھی۔ ماں دُکھی تھی۔ وہ جب منافع لینے جاتی تو بینک مینیجر کو اپنا دکھ سناتی اور گھنٹوں روتی رہتی۔ جب وہ کسی رکشے میں بیٹھتی تو رکشے والے کو اپنی اولاد کی نافرمانیاں گنواتی اور روتی رہتی۔ جب وہ کسی رشتے دار سے ملتی تو اس کے سامنے بھی اپنے دکھوں کی گٹھڑی کھول کر رکھ دیتی۔ ماں بیمار ہوئی تو کسی کے پاس اسے ہسپتال لے جانے کےلیے وقت نہیں تھا۔ وہ اکثر بینک مینیجر سے درخواست کرتی اور وہ خدا ترسی میں انہیں بٹھا کر ڈاکٹر کے پاس لے جاتا۔ ڈاکٹر نے دل کی بیماری کی تشخیص کی اور آپریشن کروانے کا مشورہ دیا۔ پاکستان میں موجود اس کی بیٹی اور بیٹے نے علاج کروانے سے انکار کردیا جو باپ کی اربوں روپوں کی جائیداد بیچ کر ہضم کر چکے تھے۔


بیرون ملک مقیم ایک بیٹی کے دل میں رحم آیا اور اس نے ماں کو علاج کےلیے برطانیہ بلا لیا۔ وہاں دوران آپریشن ماں کا انتقال ہوگیا۔ انتقال ہوتے ہی بیٹی نے پاکستان میں موجود اپنے بہن بھائیوں کو اطلاع دی اور تدفین کے بارے میں پوچھا۔ اولاد نے ایک لمحہ انتظار کیے بغیر کہا کہ مائی کو وہیں برطانیہ میں دفنا دو۔ پاکستان لاکر ہم پر بوجھ نہ ڈالو۔ فون بند ہوتے ہی بیٹے نے بینک مینیجر کو فون ملایا اور کہا کہ مائی مرگئی ہے، اس کے اکاؤنٹ میں کتنے پیسے پڑے ہیں؟ جیسے ہی بیٹے کا فون بند ہوا تو مینیجر کو بیٹی اور داماد کا فون آیا کہ مائی کا ابھی پندرہ منٹ پہلے برطانیہ میں انتقال ہوگیا ہے، ہمیں بتائیے کہ اس کے اکاؤنٹ میں کتنا پیسہ پڑا ہے۔ بینک مینیجر نے کہا کہ آپ نے تو ماں کے دفن ہونے کا بھی انتظار نہیں کیا۔ لیکن اولاد شرمندہ نہ ہوئی اور چند دنوں میں پیسہ بینک سے نکلوا کر دنیا کو یہ پیغام دے دیا کہ اولاد کےلیے حرام حلال دولت جمع کرنے کو کامیابی سمجھنے والے دنیا میں ذلیل ہوجاتے ہیں اور دنیا ان کی کہانی کو عبرت کے طور پر یاد رکھتی ہے۔

جس ماں کے سات بچے تھے، اسے مرتے وقت کسی ایک کا کندھا بھی نصیب نہیں ہوا۔ اسے غیر مسلموں نے سماجی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اور انسانیت کے ناتے دفنا دیا۔ ہمیں کس چیز کا مان ہے؟ ہم کس بات پر اتراتے ہیں؟ ہمیں کس طاقت کا گھمنڈ ہے؟ جنہیں ہم ساری زندگی اپنی طاقت سمجھتے رہتے ہیں، وہی ہماری ذلت و رسوائی کی وجہ بن جاتے ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سردار صاحب کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ دراصل سرادر صاحب اولاد کی صحیح تربیت نہیں کر پائے تھے۔ وہ اولاد کو یہ احساس دلانے میں ناکام ہو گئے تھے کہ دولت سے زیادہ ماں باپ اور رشتے اہم ہوتے ہیں۔ وہ انہیں دین میں والدین کی اہمیت کے بارے میں تربیت دینے میں بھی ناکام رہے تھے۔ وہ انہیں یہ احساس دلانے میں بھی ناکام ہو گئے تھے کہ کیوں اللہ کے نبیﷺ اپنی دائی ماں کے آنے پر تکریم میں کھڑے ہو جاتے تھے۔ سردار صاحب نے دولت کو رشتوں سمیت زندگی کی ہر چیز پر ترجیح دی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ان کی دولت ان کے خاندان کےلیے ناسور بن گئی۔

ہم میں سے اکثر لوگ پیسہ کمانے کی دوڑ میں مصروف ہیں۔ اس دوڑ میں جیتنے کےلیے ہر جائز و ناجائز کام کر جاتے ہیں۔ ہم جھوٹ بولتے ہیں، بیواؤں کے سر سے چھت چھین لیتے ہیں۔ یتیموں کا حق کھا جاتے ہیں۔ دن رات کرپشن کرتے ہیں۔ پیسہ لوٹنے کے نئے نئے طریقے استعمال کرتے ہیں اور جب ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ بھئی آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ تو ہم بھی سردار صاحب کی طرح فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم یہ سب کچھ اپنی اولاد کےلیے کر رہے ہیں۔

لیکن ہم اس وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ حرام کے بیجوں سے حلال کی کونپلیں نہیں پھوٹتیں۔ بددعاؤں کے بادلوں کے سائے میں کمائی گئی دولت سے کبھی رحمت کی بارش نہیں برستی۔ حق داروں کے سر کچل کر ان کی کھوپڑیوں سے بنائی گئی کامیابی کی عمارت کبھی پائیدار نہیں ہو سکتی۔ کرپشن سے کمائی گئی دولت کے ڈھیر پر کھڑا ہونے سے آپ کا قد ہمیشہ اونچا نہیں رہ سکتا۔ زندگی میں بولے گئے بڑے بول قبر کی دیواروں تک آپ کا پیچھا کرتے ہیں۔ جس دولت کو کمانے کےلیے ہم کسی کا بھی سر دھڑ سے جدا کر جانے کو تیار ہوتے ہیں، وہ دولت آخر میں ہمارے کسی کام نہیں آتی بلکہ ہماری قبر کا بوجھ بن جاتی ہے۔ ہماری وہ دولت دنیا کے کتے کھا جاتے ہیں اور ہم اس دولت کا بوجھ جہنم کی سزا پانے تک اٹھاتے رہتے ہیں۔

آئیے آج ہم یہ عہد کریں کہ اپنی اولاد کی تربیت کو دولت کمانے ہر فوقیت دیں گے۔ ہماری ذمہ داری ان کی صحیح پرورش کرنا ہے، انہیں تعلیم دلوانا ہے، ان میں اچھے اور برے شعور پیدا کرنا ہے۔ ان کےلیے دولت جمع کرنا ہماری ذمہ داری نہیں۔ ان کےلیے بنگلے اور جائیدادیں بنانا ہماری ذمہ داری نہیں۔ آپ ان کےلیے صرف اتنا چھوڑ کر جائیے کہ جس سے وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور نہ ہوں۔ مرنے سے پہلے اپنی تمام جائیداد کسی ٹرسٹ کے نام کر جائیے۔ پیسہ وہی آپ کا ہے جو آپ نے اپنی ذات پر خرچ کرلیا، جو پیسہ آپ آنے والی نسلوں کےلیے جوڑا وہ آپ کا نہیں؛ لیکن اس کے صحیح اور غلط استعمال کے ذمہ دار آپ ہی ہوں گے۔

ہم کبھی نہیں سوچتے کہ ہم اربوں روپے کما کر ان کا کیا کریں گے؛ حالانکہ ہماری ضرورتیں محدود ہیں۔ آپ کبھی اپنی زندگی کا مشاہدہ کریں تو آپ کو اس نتیجے ہر پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ ہم زندگی میں جو بھی کماتے ہیں اس کا صرف دس فیصد اپنی ذات پر خرچ کرتے ہیں؛ باقی کا نوّے فیصد ہم اپنی اولاد، بیوی، ماں باپ، بہن بھائیوں اور رشتے داروں پر خرچ کردیتے ہیں۔ ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ اگر میری ضرورت دس فیصد تو میں سو فیصد کیوں کمانا چاہتا ہوں؟

اولاد، رشتے دار اور ماں باپ بھی یقیناً آپ کی ذمہ داری ہیں لیکن آپ ان کےلیے خود کی قبر کیوں بھاری کر رہے ہیں؟ آپ اولاد کی تربیت کیجیے، انہیں حلال کمانے کا درس دیجیے۔ انہیں بتائیے کہ کس طرح اللہ کے نبیﷺ اور صحابہؓ اپنے والدین کی عزت کرتے تھے۔ ان کی نظر میں والدین کا کیا درجہ اور احترام تھا؛ اور اسلام سمیت دنیا کے تمام مذاہب والدین کی عزت اور احترام کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنی زندگی کےلیے خود ذمہ دار ہیں، آپ نہیں۔

سردار صاحب کی کہانی جیسی سینکڑوں کہانیاں ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی ہیں جنہیں ہم روز سنتے اور دیکھتے ہیں۔ لیکن ہم میں سے کامیاب وہی ٹھہرتے ہیں جو ان کہانیوں سے سبق سیکھتے ہیں اور اپنی زندگیوں کو اس سبق کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی اولاد آپ کےلیے رحمت، نعمت اور صدقۂ جاریہ ہو تو ان کےلیے جائیدادیں بنانے کے بجائے ان کے کردار بنانے پر توجہ دیجیے۔ یہی آخری حل ہے ورنہ آپ کی کہانی بھی سردار صاحب کی کہانی جیسی ہوگی اور دنیا آپ پر رشک کرنے کے بجائے آپ سے عبرت حاصل کرے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story