سیدالاحرار حسرت موہانی ؒ

برصغیر کی سیاسی تاریخ کا ایک ایسا دور مولانا کے حصے میں آیا تھا جو ہر لحاظ سے اہم ہے۔


Doctor Nasir Mustehsan May 31, 2013

سیدالاحرار مولانا حسرت موہانی کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جاچکا ہے، مولانا ہندوپاک کی ادبی و سیاسی تاریخ کا ایک بے مثال کردار ہیں، انھوں نے استعماری قوتوں کے خلاف جو کہنہ مشق اور صبر آزما جدوجہد کی اس سے ان کے بلند حوصلے کا پتہ چلتا ہے، وہ اول و آخر ایک انقلابی تھے اور اس اعتبار سے ان کی زندگی ایک جہد مسلسل سے عبارت تھی، وہ حد درجہ بااصول آدمی تھے اور ان کے فلسفہ آزادی میں رتی برابر میں فرق نا آسکا، لہٰذا ان کی شاعری میں بھی ہمیں مسلسل مزاحمت ملتی ہے۔

وہ 1881 میں لکھنو اور کانپور سے متصل ایک قصبے موہان میں پیدا ہوئے، ان کے والدین نے ان کا نام سید فضل الحسن رکھا لیکن سن بلوغت کو پار کرتے ہی انھوں نے حسرت موہانی جیسے قلمی نام سے شہرت پائی، ان کے ساتھیوں میں مولانا شوکت علی اور سجاد حیدر یلدرم تھے۔ انھوں نے اس وقت سیاست کے تپتے ریگزاروں میں قدم رکھا جب اس وقت کے مسلمان جو انگریزوں کے ساتھ اپنی وفاداریاں نبھا رہے تھے، انھوں نے نوجوانوں کو یہ باور کروایا کہ وہ اپنی تہذیب و ثقافت کو فراموش نہ کریں ۔ انگریزوں کے ساتھ میل ملاپ جیسی روش کو ترک کریں اور اپنی قوم و ملک کے لیے اپنا حصہ ڈالیں۔

حسرت مالی طور پر تنگدست تھے لیکن خودداری کا ایسا مرقع تھے کہ باوجود لاکھ کوششوں کے انھوں نے کبھی اپنے دوستوں سے بھی سوال نہیں کیا یہاں تک کہ ان کی بیگم نشاط النساء نے غالباً پونا کے مسلمانوں کی مالی معاونت کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اگر آپ مولانا کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو ان کی کتابیں خرید لیں۔ برصغیر کی سیاسی تاریخ کا ایک ایسا دور مولانا کے حصے میں آیا تھا جو ہر لحاظ سے اہم ہے۔ مولانا بنیادی طور پر آزادی کامل کے خواہاں تھے، وہ استعماری قوتوں کے خلاف اور اس سے نجات حاصل کرنے کو اس وقت کی سب سے بنیادی ضرورت اور خدمت سمجھتے تھے۔

حسرت انگریزوں سے نفرت، سامراجیت سے دشمنی اور آزادی کا ایک جذبہ لیے ہوئے تھے، سیدھے سچے اور مخلص انسان کا جذبہ، جس کے نزدیک سیاسی مسلک، مصلحت کی کوئی حیثیت اور حقیقت نہیں تھی، اس لیے وہ جہاں جو محسوس کرتے کھل کر اس کی موافقت کرتے اور جہاں مخالفت کرنا ہوتی وہاں وہ کرتے۔ ایک دلچسپ واقعہ کہ جب فروری 28 کو سائمن کمیشن ہندوستان آیا، کانگریس اور مسلم لیگ دونوں جماعتوں نے اس کا بائیکاٹ کیا لیکن حسرت بائیکاٹ کے خلاف تھے، انھوں نے متعدد بار ''سائمن گو بیک'' کی جگہ ''گاندھی گو بیک'' کے نعرے لگوائے، یہ بلاشبہ حسرت جیسے جری اور بے باک شخص کا ہی کام تھا، بقول جوش صاحب:

''یہ حسرت ہی تھے جنہوں نے کانگریس کے پلیٹ فارم سے سب سے پہلے آزادی کامل کا نعرہ بلند کیا تھا اور یہ وہ وقت تھا کہ آزادی کامل کے تصور سے عوام تو عوام، خواص تک کانپ اٹھتے تھے''۔

آپ یہاں حضرت جوش کی متعدد نظموں کو پڑھ کر دیکھ لیں ان کی نظموں میں آپ کو استعماری اور طاغوتی قوتوں کے خلاف برسرپیکار شخصیتوں سے پیار کا اظہار ملے گا اور جوش ان نابغہ روزگار ہستیوں کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے ملیں گے، اس لیے جوش کا حسرت کے لیے پیار پھر واجب ہوجاتا ہے۔

حسرت موہانی بیک وقت صحافی، سیاستدان، مجاہد آزادی اور شاعر تھے، انھوں نے اپنی سیاست، شاعری اور انگریزوں کے خلاف جہاد کے لیے صحافت ہی کو وسیلہ بنایا۔ انھوں نے بلاشبہ اپنی صحافت سے اردو ادب کی آبیاری کی ہے، وہیں رزم حق و باطل میں فولاد بھی رہے، قیدوبند کی صعوبتوں سے وہ بھی نکھر کر سامنے آئے، ان کا شمار آزادی سے قبل ان معدودے چند صحافیوں میں ہوتا تھا جن کے لیے اصول ہی سب کچھ تھے اور وہ ہماری تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھے جائیں گے۔

آج کل اخبار نکالے جاتے ہیں جن کا بنیادی مقصد اصلاح معاشرہ نہیں بلکہ ان کو تو معاشرتی ناہمواریوں سے بھی کوئی سروکار نہیں لیکن حسرت کے لیے یہ ایک اعلیٰ مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ تھے، ان کی صحافت مقصدی صحافت تھی۔ انھوں نے علی گڑھ سے ''اردوئے معلی ''نکالا، جس کا پہلا شمارہ جولائی 1903 کو شایع ہوا، اردوئے معلی بیک وقت سیاسی و ادبی رسالہ تھا، یہ وہ رسالہ تھا جس میں مختلف نوع مضامین ہوتے تھے جو زندگی کے تمام مکاتب فکر کی ترجمانی کرتے تھے، اردوئے معلی حسرت کی زندگی کا آئینہ تھا۔ اس رسالے نے بڑی بے خوفی اور بے باکی سے جنگ آزادی لڑی، حکومت وقت پر کھل کر تنقید کی جس زمانے میں اردوئے معلی شایع ہوتا تھا اس کے ساتھ ہی عبدالحلیم شرر کا ''دلگداز'' 1887 اور شیخ عبدالقادر کا ''مخزن'' 1901 شایع ہوتا تھا، لیکن مولانا کی شب و روز کی انتھک محنت سے اردوئے معلی اپنے وقت کا مقبول ترین رسالہ بنا۔ 1908 میں حسرت کو جیل ہوئی تو انھوں نے باقاعدہ ایک نظم کہی جس کے چند اشعار پیش کیے جارہے ہیں:

آزادی ہند کی خواہش کو مقبول خاص و عام کیا

دل اہل ستم کے بیٹھ گئے وہ بال تلک نے کام کیا

سب ہند کے گرم اخباروں میں مضمون لکھے کیسے کیسے

جس سے کہ فرنگی ڈرتے تھے اس کام کو سرانجام دیا

بال گنگا دھر تلک کے وہ اس قدر حامی ہوئے کہ انھوں نے ان پر مضمون لکھا جس کی پاداش میں حسرت کو چھ سال جیل ہوئی، حسرت نے تلک کو اپنا پیشوا مان کر اپنی باغیانہ پن کو سرعام ظاہر کردیا۔ حسرت پہلی بار جیل سے لوٹ کر آئے تو لوگوں نے محسوس کیا کہ حسرت کی مخفی سی شخصیت جیل کی چکی کی مشقت کے تلے کچلی گئی ہوگی اس لیے لوگوں نے انھیں اردوئے معلی کو ذرا نرم لہجہ اپنانے کا مشورہ دیا لیکن وہاں حسرت نے طبیعت کو اور بھی تماشہ بنادیا جس کا اعتراف جیل ہی میں اس شعر کے ذریعے کرچکے تھے۔

ہے مشق سخن جاری' چکی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی

مولانا کی شخصیت، ہندو اکثریت کو متنازعہ نظر آتی تھی وہ کانگریس کی ممبری کے زمانے میں بھی تھی اور ان کے کمیونزم کے دور میں بھی رہی اور مسلم لیگ کی لیڈرشپ میں بھی قائم رہی نیز یہ کہ مولانا کی شخصیت متضاد نظریات کا مجموعہ بادی النظر میں نظر آتی تھی ایک طرف وہ مابعد الطبعیات پر باعمل مسلم تھے اور مسلم نشاۃالثانیہ کے وکیل بھی تھے دوسری طرف وہ مادی جدلیاتی فلسفے میں ارتقاء کے فطری اور قدرتی عمل کا دم بھرتے تھے اس ارتقاء میں نباتات و حیوانات سب شامل تھے جو مابعد الطبعیات کے مبادی اور بنیادی نظریے سے متصادم تھا وہ مسلم لیگ میں قائد اعظم سے پہلے، کانگریس میں گاندھی سے پہلے شامل ہوئے۔

انھوں نے بھارت کے نئے دستور پر دستخط کرنے سے انکار کردیا کہ یہ آزادی کامل کے منافی ہے۔ انھوں نے بھارت کے مرد آہن ولبھ بھائی پٹیل کو پارلیمنٹ میں یہ کہہ کر مخاطب کیا ''تم نے وہی کیا جو ہٹلر، ویلزلی، کلائیو نے کیا تھا تم نے اپنی طاقت اور فوجوں کے بل بوتے پر کمزور ریاستوں کی آزادیاں چھینی ہیں میں تم پر اور تمہارے محکمے پر لعنت بھیجتا ہوں'' ۔بھلا چشم فلک نے ایسا رکن پارلیمنٹ کہاں دیکھا ہوگا جو دن میں پوری طرح مصروف رہتا ہو اور رات کو مسجد کی چٹائی پر سوتا ہو اور چند آنوں میں کھانا کھالیتا ہو

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں