سرکاری ملازمین اور آمدہ بجٹ…
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سرکاری ملازمین سے کام لیا جائے اور اس طرح لیا جائے جیسا کہ قانون اور آئین کا فرمان ہے۔
حلقہ انتخاب سے ایک پارٹی کے کامیاب ہونے والے امیدوار کو جیتنے کے بعد خوشی کے سمندر میں غوطہ زن ہونا چاہیے تھا لیکن موصوف کے چہرے پر پریشانی اور فکرمندی نے ڈیرے ڈال رکھے تھے، ملاقات میں چھوٹتے ہی بولے کہ سرکاری ملازمین اور تنخواہ دار طبقے کے ووٹ مجھے نہ برابر ملے ہیں، آخر ملازمت پیشہ لوگوں کی اکثریت ہماری پارٹی سے کیوں ناراض ہے۔ اس پارٹی کے ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک جملے میں نو منتخب ایم این اے کو ہم نے جواب سے نوازا۔
گزشتہ بجٹ پی پی حکومت کا آخری بجٹ تھا، چنانچہ وفاق میں بیٹھی پی پی حکومت سرکاری ملازمین اور تنخواہ دار طبقے کو 50 فیصد تک دوبارہ ریلیف دینا چاہتی تھی لیکن اس پارٹی کے کرتا دھرتا دو افراد نے مرکز کو اس اہم ترین معاملے میں ''ناں'' کردی، یوں بیس فیصد اضافہ کرکے سرکاری ملازمین اور تنخواہ دار طبقے کی معاشی کسمپرسی پر نمک پاشی کی گئی اور نچلے طبقے کے مسائل سے صرف نظر کیا گیا، اسی طرح جب پی پی حکومت نے پہلی بار تنخواہ دار طبقے کو پچاس فیصد کا ریلیف دیا تھا تو اس پر بھی اس پارٹی کیایک عہدیدار قومی اسمبلی میں خوب گرجے تھے اور اندرون خانہدوسرے صاحب نے بھی ملازم پیشہ طبقے کی تنخواہوں میں اضافے پر اظہار ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔
نومنتخب ایم این اے ہماری عرض سن کر اقرار میں سر ہلانے لگے، گویا وہ ملازم پیشہ افراد کی اپنی پارٹی سے دوری کے نکتے کو سمجھ گئے تھے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سرکاری ملازمین سے کام لیا جائے اور اس طرح لیا جائے جیسا کہ قانون اور آئین کا فرمان ہے۔ سرکاری ملازمین سے ایمان داری سے کام لینا ریاست اور حکومت کا فرض ہے لیکن؟ خواہ مخواہ قسم کے ڈراوے اور ہر وقت سرکاری ملازمین پر تلوار لٹکانے کی سبیل، شاید یہ وہ محرکات ہیں جن کی وجہ سے سرکاری ملازمین کی اکثریت حکومتوں سے نالاں دکھائی دیتی ہے۔ فرائض سے غفلت کسی بھی صورت اور کوئی بھی برداشت نہیں کرتا۔ اس لیے حکمراں سرکاری ملازمین سے صحیح طرح کام لیں لیکن ان سرکاری ملازمین کے جائز مفادات اور ضرویات کو پورا کرنا اور انھیں یقینی بنانا بھی حکومت کا فرض ہے۔
شنید ہے کہ تنخواہ دار طبقے کی تنخواہوں میں محض بیس فیصد اضافے کی تجویز ہے۔ گزشتہ برسوں میں مہنگائی کا گراف کہاں تک پہنچا ہے؟ پھر بے روز گاری کی وجہ سے ایک ایک گھر میں دو، دو اور تین، تین بے روزگار بیٹھے ہیں جن کی گزر اوقات محض ایک تنخواہ لا نے والے پر ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے ایک تنخواہ لانے والا گھر کو کیسے چلائے؟ وہ بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرے، وہ اس قلیل تنخواہ میں بجلی اور گیس کے بل ادا کرے یا گھر کے زیر کفالت افراد کی روزی روٹی کا بندوبست کرے۔ محض 20 فیصد کے اضافے سے گریڈ سولہ سے نیچے ملازمین کا کچھ نہیں بننے والا۔ حکمرانوں کو ڈرائنگ روم کی سیاست اور پالیسیوں سے نکل کر عوامی مفاد اور عوامی مشکلات کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنے ہوں گے۔
سیاسی منشور دیتے وقت سیاسی جماعتوں نے واضح طور پر روزگار کے وسیلے فراہم کرنے کے وعدے کیے تھے اور تنخواہ دار طبقے کی تنخواہوں میں مہنگائی اور عہد حاضر کے حالات کے تحت اضافہ کرنے کے وعدے کیے تھے۔ روزگار اور لوڈ شیڈنگ کے بارے میں سیاستدانوں کے قول کو حلف اٹھانے کے بعد تولا جائے گا لیکن بجٹ کی آمد آمد ہے اور سیاسی لیڈر معاشی ماہرین بجٹ کی تیاری میں حلف اٹھانے سے پہلے ہی سرگرم عمل ہیں، سو سرکاری ملازمین کا مدعا ان کے گوش گزار کرنے کا وقت یہی ہے، نئی حکومت نے آمدہ اور اپنے پہلے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی اور معاشی ابتری کو سامنے رکھتے ہوئے اضافہ نہ کیا تو سرکاری ملازمین کی جانب سے نئی حکومت کو ٹف ٹائم ملنے کا پورا پورا یقین کیا جاسکتا ہے۔
متوسط اور تنخواہ دار طبقہ کس انداز اور کیسے زندگی کی گاڑی دھکیل رہا ہے، حکمران طبقہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اب حکومت کو معاشرے کے تمام طبقات خاص طور پر پسے ہوئے طبقات کو بجٹ میں خاص ریلیف دینا ہوگا کہ جس سے متوسط اور ملازمت پیشہ طبقہ کم از کم سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے زندگی گزارنے کے قابل ہوسکے۔ اگر حکومت نے آمدہ بجٹ میں متوسط اور ملازمت پیشہ طبقے کو مراعات نہ دیں، اس سے تنخواہ دار طبقے میں جو بے چینی پہلے سے ہلچل مچائے ہوئے ہے اس میں شدت کے ساتھ اضافہ ہونے کا قوی امکان ہے۔
انفرادی معاشی ابتری سے ہر سرکاری ملازم اور متوسط طبقے کا فرد نفسیاتی مریض بن چکا ہے، اگر عوام کی خدمت کے دعوے دار حکمران اپنے ممبران اور چہیتوں کو نوازنے میں سرگرم رہے اور عام طبقات کو نظر انداز کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہے، پھر انھیں حکومت کرنے میں قدم قدم پر دشواریوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ سرکاری ملازمین میں پھیلی بے چینی کو دور کرنے کا بہترین موقع آمدہ بجٹ ہے، جس میں حکومت ملازمت پیشہ افراد کو مراعات دے کر انھیں اپنا ہمنوا بناسکتی ہے۔ کیا الیکشن جیتنے والے سیاستدانوں کو اپنے منشور کے نکات اور انتخابی جلسوں میں کی جانے والی تقاریر یاد ہیں؟ اس کا اندازہ آنے والے بجٹ سے عوام الناس لگائیں گے۔
گزشتہ بجٹ پی پی حکومت کا آخری بجٹ تھا، چنانچہ وفاق میں بیٹھی پی پی حکومت سرکاری ملازمین اور تنخواہ دار طبقے کو 50 فیصد تک دوبارہ ریلیف دینا چاہتی تھی لیکن اس پارٹی کے کرتا دھرتا دو افراد نے مرکز کو اس اہم ترین معاملے میں ''ناں'' کردی، یوں بیس فیصد اضافہ کرکے سرکاری ملازمین اور تنخواہ دار طبقے کی معاشی کسمپرسی پر نمک پاشی کی گئی اور نچلے طبقے کے مسائل سے صرف نظر کیا گیا، اسی طرح جب پی پی حکومت نے پہلی بار تنخواہ دار طبقے کو پچاس فیصد کا ریلیف دیا تھا تو اس پر بھی اس پارٹی کیایک عہدیدار قومی اسمبلی میں خوب گرجے تھے اور اندرون خانہدوسرے صاحب نے بھی ملازم پیشہ طبقے کی تنخواہوں میں اضافے پر اظہار ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔
نومنتخب ایم این اے ہماری عرض سن کر اقرار میں سر ہلانے لگے، گویا وہ ملازم پیشہ افراد کی اپنی پارٹی سے دوری کے نکتے کو سمجھ گئے تھے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سرکاری ملازمین سے کام لیا جائے اور اس طرح لیا جائے جیسا کہ قانون اور آئین کا فرمان ہے۔ سرکاری ملازمین سے ایمان داری سے کام لینا ریاست اور حکومت کا فرض ہے لیکن؟ خواہ مخواہ قسم کے ڈراوے اور ہر وقت سرکاری ملازمین پر تلوار لٹکانے کی سبیل، شاید یہ وہ محرکات ہیں جن کی وجہ سے سرکاری ملازمین کی اکثریت حکومتوں سے نالاں دکھائی دیتی ہے۔ فرائض سے غفلت کسی بھی صورت اور کوئی بھی برداشت نہیں کرتا۔ اس لیے حکمراں سرکاری ملازمین سے صحیح طرح کام لیں لیکن ان سرکاری ملازمین کے جائز مفادات اور ضرویات کو پورا کرنا اور انھیں یقینی بنانا بھی حکومت کا فرض ہے۔
شنید ہے کہ تنخواہ دار طبقے کی تنخواہوں میں محض بیس فیصد اضافے کی تجویز ہے۔ گزشتہ برسوں میں مہنگائی کا گراف کہاں تک پہنچا ہے؟ پھر بے روز گاری کی وجہ سے ایک ایک گھر میں دو، دو اور تین، تین بے روزگار بیٹھے ہیں جن کی گزر اوقات محض ایک تنخواہ لا نے والے پر ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے ایک تنخواہ لانے والا گھر کو کیسے چلائے؟ وہ بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرے، وہ اس قلیل تنخواہ میں بجلی اور گیس کے بل ادا کرے یا گھر کے زیر کفالت افراد کی روزی روٹی کا بندوبست کرے۔ محض 20 فیصد کے اضافے سے گریڈ سولہ سے نیچے ملازمین کا کچھ نہیں بننے والا۔ حکمرانوں کو ڈرائنگ روم کی سیاست اور پالیسیوں سے نکل کر عوامی مفاد اور عوامی مشکلات کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنے ہوں گے۔
سیاسی منشور دیتے وقت سیاسی جماعتوں نے واضح طور پر روزگار کے وسیلے فراہم کرنے کے وعدے کیے تھے اور تنخواہ دار طبقے کی تنخواہوں میں مہنگائی اور عہد حاضر کے حالات کے تحت اضافہ کرنے کے وعدے کیے تھے۔ روزگار اور لوڈ شیڈنگ کے بارے میں سیاستدانوں کے قول کو حلف اٹھانے کے بعد تولا جائے گا لیکن بجٹ کی آمد آمد ہے اور سیاسی لیڈر معاشی ماہرین بجٹ کی تیاری میں حلف اٹھانے سے پہلے ہی سرگرم عمل ہیں، سو سرکاری ملازمین کا مدعا ان کے گوش گزار کرنے کا وقت یہی ہے، نئی حکومت نے آمدہ اور اپنے پہلے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی اور معاشی ابتری کو سامنے رکھتے ہوئے اضافہ نہ کیا تو سرکاری ملازمین کی جانب سے نئی حکومت کو ٹف ٹائم ملنے کا پورا پورا یقین کیا جاسکتا ہے۔
متوسط اور تنخواہ دار طبقہ کس انداز اور کیسے زندگی کی گاڑی دھکیل رہا ہے، حکمران طبقہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اب حکومت کو معاشرے کے تمام طبقات خاص طور پر پسے ہوئے طبقات کو بجٹ میں خاص ریلیف دینا ہوگا کہ جس سے متوسط اور ملازمت پیشہ طبقہ کم از کم سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے زندگی گزارنے کے قابل ہوسکے۔ اگر حکومت نے آمدہ بجٹ میں متوسط اور ملازمت پیشہ طبقے کو مراعات نہ دیں، اس سے تنخواہ دار طبقے میں جو بے چینی پہلے سے ہلچل مچائے ہوئے ہے اس میں شدت کے ساتھ اضافہ ہونے کا قوی امکان ہے۔
انفرادی معاشی ابتری سے ہر سرکاری ملازم اور متوسط طبقے کا فرد نفسیاتی مریض بن چکا ہے، اگر عوام کی خدمت کے دعوے دار حکمران اپنے ممبران اور چہیتوں کو نوازنے میں سرگرم رہے اور عام طبقات کو نظر انداز کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہے، پھر انھیں حکومت کرنے میں قدم قدم پر دشواریوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ سرکاری ملازمین میں پھیلی بے چینی کو دور کرنے کا بہترین موقع آمدہ بجٹ ہے، جس میں حکومت ملازمت پیشہ افراد کو مراعات دے کر انھیں اپنا ہمنوا بناسکتی ہے۔ کیا الیکشن جیتنے والے سیاستدانوں کو اپنے منشور کے نکات اور انتخابی جلسوں میں کی جانے والی تقاریر یاد ہیں؟ اس کا اندازہ آنے والے بجٹ سے عوام الناس لگائیں گے۔