پاک چین تعاون اور توانائی کا بحران

پاکستان چین کا ہمسایہ ملک ہے، دوستی اور بھائی چارے کے جذبات دونوں ہی جانب موجزن ہیں۔

چین کے وزیراعظم لی کی چیانگ نے واضح کیا ہے کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں پاک چین دوستی پائیدار رہے گی۔ اسلام آباد آمد کے موقع پر چینی وزیراعظم نے پاکستان کو توانائی کے بحران کے حل میں مدد کی پیشکش بھی کی اور کہا کہ دونوں ممالک کو ترجیحی بنیادوں پر بجلی کی پیداوار کے مشترکہ منصوبوں پر کام کرنا چاہیے۔ چین کی حیران کن ترقی سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین نے یہ ترقی ایک دن میں نہیں کرلی، اس ترقی کی بنیاد مائوزے تنگ اور چو این لائی کا ابتدائی دور ہے جب وہ کوریا کے ساتھ جنگ میں مصروف تھے۔

ژینگ یانگ کے انقلاب میں چینی حکومت نے اپنے ملک میں وسیع پیمانے پر کاٹیج انڈسٹری متعارف کروائی اور لوگوں نے اس میں آزادانہ سرمایہ کاری شروع کردی، اس عمل کی بدولت کاٹیج انڈسٹری کا ڈھانچہ اس قدر مضبوط و مستحکم ہوگیا کہ اس وقت چین کی تقریبا ساڑھے سات سو کمپنیاں ملک سے باہر کاروبار کررہی ہیں اور دنیا کی ہر وہ بڑی فرم جو دیوالیہ ہونے لگتی ہے، چینی باشندے اسے خرید لیتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس وقت تقریباً بارہ سو بین الاقوامی کمپنیاں چین میں سرمایہ کاری کررہی ہیں۔

چینیوں کی ایک بڑی خوبی جو انھیں باقی دوسری قوموں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے پچھلے برسوں میں جو خواب دیکھے ان کی تعبیر آنے والی قلیل مدت میں حاصل کرلی، مثلاً انھوں نے ارادہ کیا کہ ہم سو فیصد شرح خواندگی حاصل کرلیں گے اور انھوں نے حاصل کرلی۔ اسی طرح انھوں نے صنعتی ترقی کا خواب دیکھا اور اس کی تعبیر بھی پالی۔ چین میں ابھی بھی تقریباً 269 نسلی گروہ ہیں جن کی زبانیں اور رہن سہن الگ الگ ہیں لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنا چینی تشخص مضبوط بنیادوں پر استوار کررکھا ہے ۔ چینی خود کو مختلف قومیتوں سے نہیں بلکہ صرف چینی قوم کے طور پر متعارف کرانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

پاکستان چین کا ہمسایہ ملک ہے، دوستی اور بھائی چارے کے جذبات دونوں ہی جانب موجزن ہیں۔ چین نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعاون پر اتفاق کیا ہے جب کہ دوسری طرف ایک اور ہمسایہ ملک بھارت بھی پاکستان کو توانائی کے بحران پر قابو پانے اور سستی بجلی فراہم کرنے کی پیشکش کرتا آرہا ہے، تاہم بھارت کا اصل چہرہ کچھ اور ہے۔ درحقیقت بھارت پاکستان کی منڈیوں تک رسائی حاصل کرکے تجارتی تعلقات کو فروغ دے کر صرف مالی مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے، بھارت کی نیت میں کھوٹ ہے کیونکہ دوسری طرف اس نے یورپی منڈیوں تک پاکستانی مصنوعات کی رسائی پر طرح طرح کے تحفظات اور اعتراضات کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔

یہی نہیں کئی خلیجی ریاستوں میں بھارت اپنی ناقص مصنوعات پر پاکستان کا لیبل لگا کر انھیں مارکیٹ میں فروخت کرکے پاکستان کی مصنوعاتکی ان ریاستوں تک رسائی کو ناممکن بنانا چاہتا ہے، اس کے برخلاف معیاری پاکستانی مصنوعات پر بھارتی لیبل لگا کر انھیں مارکیٹ میں فروخت کرکے تجارت کو فروغ دینے اور مارکیٹ پر قبضے کرنے کی کوشش کررہا ہے۔


بھارت کشمیر جیسے تنازعہ اور معاہدہ سندھ طاس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی دریائوں کا پانی روک کر پاکستان کو بنجر بنانے کی مذموم کوششوں میں سرگرداں رہتا ہے، اس لیے توانائی کا بحران حل کرنے میں بجلی کی فراہمی کی پیشکش بھارت کی جانب سے محض تجارتی مفادات حاصل کرنے کی ایک کوشش اخذ کی جاسکتی ہے، جس سے پاکستان کو اجتناب کرتے ہوئے جلد از جلد چین کی پیشکش سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ چین کا ماضی پاکستان کے حوالے سے کسی بھی قسم کی جارحیت سے مکمل پاک ہے۔ پاکستان کو بھی چین میں قدرومنزلت کا خاص مقام حاصل ہے کیونکہ پاکستان ان ملکوں میں امتیازی حیثیت رکھتا ہے جنہوں نے تائیوان کے بجائے چین کو سب سے پہلے تسلیم کیا۔ توانائی کا بحران ایک دن کی پیداوار نہیں بلکہ گزشتہ کئی برسوں سے سابق حکومتوں کی ناقص منصوبہ بندیوں کے زیر اثر پروان چڑھا ہے۔

مشرف حکومت کا ناقابل معافی جرم یہ ہے کہ برقی رو، جس سے کارخانے چلتے ہیں، ٹیوب ویل زمینوں کو سیراب کرتے ہیں، گھر، دفاتر اور کاروباری مراکز آباد رہتے ہیں، اسے مستقل طور پر جاری و ساری رکھنے کی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ مشرف کے بعد پیپلز پارٹی کے وزیر گھڑیوں کو ایک گھنٹہ آگے کرکے یہ سمجھ بیٹھے کہ انتہائی حساس مسئلہ حل کرلیا گیا ہے۔ آج لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بارہ سے چودہ گھنٹوں پر محیط ہوچکا ہے۔ لوگ موسم کی حدت سے بلبلا رہے ہیں، کاروبار ٹھپ ہوچکے ہیں، بجلی کے جو بل عوام کو بھیجے جارہے ہیں ان میں کئی گنا من مانا اضافہ کردیا گیا ہے۔ میاں صاحب کو سب سے پہلے تو یہ تعین کرنا ہوگا کہ توانائی کا بحران جو اس قدر شدت اختیار کرگیا ہے، اس کے حقیقی اسباب کیا ہیں اور سائنسی بنیادوں پر ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا مداوا کس طرح ممکن ہے۔

ارزاں نرخوں پر فرنس آئل کی فراہمی، آئی پی پیز کے واجبات کی ادائیگی اور توانائی کے شعبے بالخصوص ہائیڈل پاور جنریشن میں بھر پور سرمایہ کاری سے بحران کا ایک مستقل حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ ہائیڈل پاور جنریشن کے مراحل طے کرنے میں وقت یقیناً زیادہ لگتا ہے مگر ہمیں عالمی منڈیوں میں اپنی برآمدات کے لیے جگہ بنانے کی خاطر کم لاگت بجلی کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس ہورہی ہے۔ یہ ضرورت اسی طرح پوری کی جاسکتی ہے کہ ان وسیع و عریض خزانوں کو بروئے کار لایا جائے جو قدرت نے ہمیں ودیعت کیے ہیں۔ ایٹمی پاور ہائوس بنانے پر ایک بار زیادہ اخراجات اٹھتے ہیں مگر بجلی کے ایک یونٹ کی لاگت چند آنے رہ جائے گی۔

میاں صاحب کو قوم نے بھرپور مینڈیٹ دیا ہے اور وہ قوم کی خدمت پوری دیانتداری سے کریں گے تو کچھ بعید نہیں کہ قوم اگلی بار بھی ان کو ہی منتخب کرے۔ پاکستان میں ایٹمی ری ایکٹر لگائے جائیں اور ملک کے گوشے گوشے میں بجلی پہنچائی جائے۔ زرداری صاحب خود چین کے دورے پر دو ایٹمی ری ایکٹرزکی تنصیب کا معاہدہ کرکے آئے تھے جس کے نتیجے میں 650 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی تھی۔ عالمی بینک کیناری (Kinari) منڈا (Munda) اور کرم ٹینگی (Kuram tangi) جیسے ہائیڈل پاور منصوبوں کے لیے مالی وسائل فراہم کرنے کی منظوری دے چکا تھا۔ اگرچہ یہ نسبتاً چھوٹے ڈیم ہیں جن سے 1624 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی تھی مگر یہ سب منصوبے پروپیگنڈے سے آگے نہیں جاسکے۔

ملک کو درپیش توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کبھی کی ہی نہیں گئیں۔ اس سے قبل بھاشا ڈیم کی فزیبلٹی کا جائزہ لینے کے لیے چینی انجینئرز اور سرمایہ کار پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں، یہ ڈیم ہزاروں میگا واٹ بجلی پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا تھا مگر اس کی تکمیل پر ایک طویل وقت درکار تھا جس کے باعث یہ منصوبہ بھی التوا کا شکار ہوگیا۔ لوڈ شیڈنگ اور اوور بلنگ کے خلاف پورے ملک میں جو ہیجانی کیفیت پائی جارہی ہے وہ متعلقہ اداروں اور وزارتوں کی سہل انگاری اور ذہنی افلاس کا شاخسانہ دکھائی دیتا ہے۔ بجلی کی رسد اور طلب میں پانچ سے چھ ہزار میگا واٹ کا فرق ہے جس کے اثرات پر حسن انتظام سے قابو پایا جاسکتا تھا۔ پورے ملک کو اندھیروں میں دھکیلنے کے بجائے ایک ایسی حکمت عملی وضع کی جاسکتی تھی جس میں عام شہری کو کم سے کم تکلیف پہنچتی۔

ایئرکنڈیشننگ پر اوسطاً پانچ ہزار میگا واٹ بجلی استعمال ہوتی ہے۔ اگر صدر، وزیراعظم، تمام گورنر اور وزرائے اعلیٰ اپنے ہائوسز اور دفاتر کے ایئر کنڈیشنر بند کردیتے اور کاروباری حلقوں، پوش گھرانوں سے اپیل کرتے کہ وہ ایک ماہ کے لیے ملک اور عوامی بہبود کی خاطر ایئر کنڈیشنرز کا استعمال بند کردیں تو کوئی طوفان اٹھتا نہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بارہ چودہ گھنٹوں پر محیط ہوتا۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں بجلی کے اسراف پر پابندی لگائی جاسکتی تھی اور قوم کو بجلی کے کم استعمال کا خوگر بنانے کی تحریک چلائی جاسکتی تھی مگر فیصلہ ساز شخصیتوں اور بالادست طبقوں نے اپنے آرام و آسائش کی خاطر عوام کوشدید مشکلات میں دھکیل دیا۔ اب آنے والی حکومتی مدت میں حکومت کو اس کڑے سوال کا جواب دینا ہے کہ قوم کو توانائی کے بحران میں طویل مدت سے کیوں مبتلا رکھا گیا ہے؟
Load Next Story