فرانس میں سائیکل کلچر کے فروغ کے لیے مزید اقدامات

سائیکل چلانے والوں کی تعداد میں سالانہ 50 لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔

سائیکل چلانے والوں کی تعداد میں سالانہ 50 لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ فوٹو؛ فائل

بعض یورپی ممالک میں سائیکل چلانے کے لیے خصوصی سہولتیں دی جاتی ہیں اور سائیکلوں کے لیے ہائی ویز کے ساتھ خصوصی لینز بھی بنائی جاتی ہیں۔ اب فرانس کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ سائیکل چلانے والوں کے لیے خاص سہولتوں کے ساتھ سائیکل چوری کی وارداتوں کو روکنے کے لیے بھی خصوصی انتظامات کیے جائیں گے۔

ان ملکوں کے اعلیٰ حکام بھی سائیکل چلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں جس سے نہ صرف یہ کہ عام لوگوں کی اس حوالے سے حوصلہ افزائی ہوتی ہے بلکہ سائیکل چلانے کے ساتھ یہ جو احساس جڑا ہوتا ہے کہ یہ گھٹیا سواری ہے حالانکہ اگر دیکھا جائے تو سائیکل چلانا اس قدر اعلیٰ کام ہے کہ اس سے نہ صرف یہ کہ پٹرول کی بچت ہوتی ہے، ٹریفک کا رش کم ہوتا، سائیکل چلانے والے کی صحت بھی گاڑیوں میں گھومنے والے کی نسبت کہیں زیادہ بہتر رہتی ہے اورفضائی آلودگی بھی نہیں ہوتی۔


فرانس کے وزیراعظم ایڈورڈ فلیپی نے اعلان کیا ہے کہ ریاست سائیکلنگ کو فروغ دینے کی خاطر 350 ملین (35 کروڑ یورو) یعنی 41 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی اور اس سرمایہ کاری کا دورانیہ سات سال پر محیط ہو گا جس دوران سائیکلنگ کا انفرااسٹرکچر زیادہ سے زیادہ بہتر بنایا جائیگا۔

وزیراعظم نے بتایا کہ اس خطیر سرمایہ کاری سے نہ صرف یہ کہ سائیکل لائنز کو زیادہ بہتر بنایا جائیگا بلکہ خطرناک موڑوں کو بھی درست کیا جائے گا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سائیکل کی لین بنانا لوکل گورنمنٹ (میونسپلٹی )کی ذمے داری ہے۔ سائیکلنگ ایسوسی ایشن کافی عرصہ سے کہہ رہی ہیں کہ سائیکل چلانے کی لین اتنی طویل بنائی جائے جس پر بغیر تعطل کے سائیکل چلائی جا سکے کیونکہ میونسپٹلی جو لین بناتی ہے ان کی طوالت محدود ہوتی ہے لیکن اب حکومت انھیں لامحدود طوالت دینے کا فیصلہ کر رہی ہے۔

فرنچ بائیک بورڈز فیڈریشن کے سربراہ اولیور شینیدر نے کہا ہے کہ صدر ایمانویل میکرونز نے اپنی انتخابی مہم کے موقع پر اعلان کیا تھا کہ وہ سائیکل کلچر کے فروغ کے لیے سالانہ 200 ملین (20 کروڑ) یورو کی امداد کریں گے مگر اس دعوے پر من وعن عمل نہیں ہوا جب کہ سائیکل چلانے والوں کی تعداد میں سالانہ 50 لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس طرح سے فرانسیسی عوام نیدر لینڈز کے مساوی نہیں ہو جائیں گے کیونکہ ابھی یہ ابتداء کی جا رہی ہے جو جلد ہی بڑھتے بڑھتے ہالینڈ کی سطح تک پہنچ جائے گی۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کے لیے بھی اس میں سبق بشرطیکہ وہ سیکھنا چاہیں۔
Load Next Story