وزیراعظم صاحب روڈ میپ دیجیے
درست ہے بقول وزیرعظم کہ آج مغربی جمہوریت میں شفافیت ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں ادارے مضبوط ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے ملک میں کرپش کو سب بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ احتساب کے بغیر ملک نہیں بچ سکتا، بیوروکریسی کو گھبرانے کی ضرورت نہیں، آزادی سے کام کرے، ہم آپ کے ساتھ ہونگے، ان کا کہنا تھا کہ بیوروکریٹ اگر کام نہیں کریگا تو ہم جتنی مرضی اچھی پالیسیاں بنائیں کامیاب نہیں ہونگی، بیوروکریسی کو سیاسی دبائو سے آزاد کرینگے، قرضوں پر ہر روز چھ ارب روپے کا سود ادا کر رہے ہیں، ملک چلانے کے لیے پیسہ نہیں ہے، چنانچہ انہون نے یقین دلایا کہ دو سال میں گورننس ٹھیک کر لی تو حالات بدل جائیں گے۔ وہ جمعہ کو وزیراعظم آفس میں سول سرونٹس سے خطاب کر رہے تھے جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور دیگر اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔
وزیراعظم نے بلاشبہ نوکرشاہی کے سامنے اپنا دل ہی نکال کے نہیں رکھا بلکہ ملکی تقدیر بدلنے کے عزم سے بیوروکریسی کے لازم و ملزوم ہونے کی تاریخی حقیقت بیان کر دی۔ آج ہم جس نوکرشاہی کو مطعون کرتے ہیں ان ہی سرکاری افسران نے بے سروسامانی کے عالم میں اس نوزائیدہ مملکت کی انتظامی، معاشی، سیاسی اور سماجی بنیاد رکھنے میں اپنا بے مثال کردار ادا کیا، جب کہ جدیدیت سے آشنا گلوبل ولیج میں کوئی آج سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی آزاد و خودمختار ملک قوم پرستانہ، اور عوام کی فلاح وبہبود کے ناگزیر دوستانہ جذبات و انتظامی خیرسگالی کے بغیر چل سکتا ہے۔
عمران خان نے یاد دلایا کہ جب ہمیں آزادی ملی تو اصولاً اس طرز عمل کو تبدیل کرنا چاہئے تھا۔ وزیراعظم کے اس استدلال سے شاید کسی کو انکار ہو کہ ہمیں نوآبادیاتی ذہنیت سے باہر نکلنا ہو گا مگر اس کام کے لیے بھی عزم مسلسل درکار ہے لیکن یہ کتنی عجیب ستم طریفی اور کتنا بڑا المیہ ہے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح نے جب 11 اگست 1947ء میں قانون ساز اسمبلی میں تقریر کی تو اس میں عدم مساوات، بیروزگاری، پسماندگی اور ناخواندگی وغیرہ کے عفریت کا ذکر کرتے ہوئے رشوت ستانی، ذخیرہ اندوزی، اقربا پروری اور سرکاری ملازمت کے حصول میں ناجائز ذرائع استعمال کرنیوالی ذہنیت کو ناسور اور سم قاتل قرار دیا تھا، بانی پاکستان نے امن و امان کے قیام، شہریوں کی زندگی اور املاک سمیت عقائد کی آزادی کے تحفظ اور فیئرپلے اور غیر جانبداری سے امور مملکت چلانے کا عہد لیا تھا۔
اس سیاق و سباق میں وزیراعظم کے کلمات اس امر کی ضرورت کا احساس دلاتے ہیں کہ ملک واقعی نہیں بچ سکتا اگر انصاف، روداری، انتظامی شفافیت اور میرٹ کی اقدار کا خیال نہ رکھا جائے اور کرپشن کا جن بوتل سے نکل کر رقص ابلیس کرتا رہے۔ سچ تو یہ ہے کہ غریبوں کی فلاح وبہبود کی لکار تو قائد کی تقریر میں موجود تھی۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ پاکستان نے اب تک جتنے قرضے لیے ہیں وہ دولت پیدا کرنے کے بجائے نقصان پر جا رہے ہیں، 10 برسوں میں قرضوں کا حجم 6 ٹریلین سے بڑھ کر 30 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا ہے۔
عمران خان نے یاد دلایا کہ جب ہمیں آزادی ملی تو اصولاً اس طرز عمل کو تبدیل کرنا چاہئے تھا۔ بجا ہے کوئی حکومت ایسا نہ کر سکی تاہم اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا، حکومت تبدیلی کے ایجنڈہ پر عمل کرے، نان ایشوز سے بچے۔ مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ منصوبہ بندی کا مقصد اور بنیاد آگے کی سوچ ہے۔ وزیراعظم کے مطابق پاکستان میں کم عمر بچوں کی شرح اموات زیادہ ہے، ڈلیوری کے دوران خواتین کی اموات کے اعداد وشمار خوفناک ہیں، اسی طرح ناقص غذائیت کی وجہ سے ہمارے 45 فیصد بچے ذہنی اور جسمانی نشوونما نہیں پاتے۔
وزیراعظم نے ترقی کے لیے سنگاپور ماڈل کی مثال دیتے ہوئے کہا ایک چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجود سنگاپور کی برآمدات 300 ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہیں، سنگاپور کی یونیورسٹیاں بین الاقوامی رینکنگ میں شامل ہیں۔ اسی سنگاپوری مرد خرد مند لی کوان یو کا کہنا تھا کہ میں ہیومن رائٹس واچ کی رہنمائی میں آگے نہیں بڑھتا ہوں، اگر مجھے قبر میں اتارتے ہوئے بھی خیال آیا کہ کچھ غلط ہوا ہے تو میں قبر سے باہر نکل آئونگا۔
درست ہے بقول وزیرعظم کہ آج مغربی جمہوریت میں شفافیت ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں ادارے مضبوط ہیں۔ اداراے مادر وطن میں بھی مضبوط ہونگے بشرطیکہ ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہے جب کہ ملکی سیاست کی ڈائنامکس اس کے برعکس رہیں لہٰذا اب ماضی کی نرگسیت سے سب باہر نکلیں۔ وزیراعظم کا انداز نظر صائب تھا کہ ماضی میں پاکستان کی بیوروکریسی اور سول سرونٹس کا معیار بلند تھا لیکن سیاسی مداخلت کی وجہ سے بیوروکریسی کی ترجیحات تبدیل ہو گئیں۔
وزیراعظم کی یہ اپیل کہ قوم دو سال گزارہ کرنیکا فیصلہ کر لے تو ملک میں اتنا پیسہ آئیگا کہ قرض اور بیروزگاری کے مسائل نہیں ہونگے اور پاکستان سرمایہ کاری اور سیاحوں کے لیے اہم ترین مرکز ہو گا مگر ان عزائم اور مہلت کی استدعا اس قوم سے کی جا رہی ہے جو نئی حکومت سے کسی معجزہ کی توقع رکھتی ہے کیونکہ پی ٹی آئی نے گزشتہ 22 سال کی سیاسی جدوجہد میں موجودہ سسٹم کی فرسودگی، کرپٹ انتظامی ڈھانچہ، عوام دشمن پالیسیوں کے غیر معمولی الزامات اور قرضوں کی بیساکھی کے خاتمہ کی بات کی تھی۔ اب ضرورت حکومتی شفاف روڈ میپ کی ہے۔
وزیراعظم نے بلاشبہ نوکرشاہی کے سامنے اپنا دل ہی نکال کے نہیں رکھا بلکہ ملکی تقدیر بدلنے کے عزم سے بیوروکریسی کے لازم و ملزوم ہونے کی تاریخی حقیقت بیان کر دی۔ آج ہم جس نوکرشاہی کو مطعون کرتے ہیں ان ہی سرکاری افسران نے بے سروسامانی کے عالم میں اس نوزائیدہ مملکت کی انتظامی، معاشی، سیاسی اور سماجی بنیاد رکھنے میں اپنا بے مثال کردار ادا کیا، جب کہ جدیدیت سے آشنا گلوبل ولیج میں کوئی آج سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی آزاد و خودمختار ملک قوم پرستانہ، اور عوام کی فلاح وبہبود کے ناگزیر دوستانہ جذبات و انتظامی خیرسگالی کے بغیر چل سکتا ہے۔
عمران خان نے یاد دلایا کہ جب ہمیں آزادی ملی تو اصولاً اس طرز عمل کو تبدیل کرنا چاہئے تھا۔ وزیراعظم کے اس استدلال سے شاید کسی کو انکار ہو کہ ہمیں نوآبادیاتی ذہنیت سے باہر نکلنا ہو گا مگر اس کام کے لیے بھی عزم مسلسل درکار ہے لیکن یہ کتنی عجیب ستم طریفی اور کتنا بڑا المیہ ہے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح نے جب 11 اگست 1947ء میں قانون ساز اسمبلی میں تقریر کی تو اس میں عدم مساوات، بیروزگاری، پسماندگی اور ناخواندگی وغیرہ کے عفریت کا ذکر کرتے ہوئے رشوت ستانی، ذخیرہ اندوزی، اقربا پروری اور سرکاری ملازمت کے حصول میں ناجائز ذرائع استعمال کرنیوالی ذہنیت کو ناسور اور سم قاتل قرار دیا تھا، بانی پاکستان نے امن و امان کے قیام، شہریوں کی زندگی اور املاک سمیت عقائد کی آزادی کے تحفظ اور فیئرپلے اور غیر جانبداری سے امور مملکت چلانے کا عہد لیا تھا۔
اس سیاق و سباق میں وزیراعظم کے کلمات اس امر کی ضرورت کا احساس دلاتے ہیں کہ ملک واقعی نہیں بچ سکتا اگر انصاف، روداری، انتظامی شفافیت اور میرٹ کی اقدار کا خیال نہ رکھا جائے اور کرپشن کا جن بوتل سے نکل کر رقص ابلیس کرتا رہے۔ سچ تو یہ ہے کہ غریبوں کی فلاح وبہبود کی لکار تو قائد کی تقریر میں موجود تھی۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ پاکستان نے اب تک جتنے قرضے لیے ہیں وہ دولت پیدا کرنے کے بجائے نقصان پر جا رہے ہیں، 10 برسوں میں قرضوں کا حجم 6 ٹریلین سے بڑھ کر 30 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا ہے۔
عمران خان نے یاد دلایا کہ جب ہمیں آزادی ملی تو اصولاً اس طرز عمل کو تبدیل کرنا چاہئے تھا۔ بجا ہے کوئی حکومت ایسا نہ کر سکی تاہم اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا، حکومت تبدیلی کے ایجنڈہ پر عمل کرے، نان ایشوز سے بچے۔ مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ منصوبہ بندی کا مقصد اور بنیاد آگے کی سوچ ہے۔ وزیراعظم کے مطابق پاکستان میں کم عمر بچوں کی شرح اموات زیادہ ہے، ڈلیوری کے دوران خواتین کی اموات کے اعداد وشمار خوفناک ہیں، اسی طرح ناقص غذائیت کی وجہ سے ہمارے 45 فیصد بچے ذہنی اور جسمانی نشوونما نہیں پاتے۔
وزیراعظم نے ترقی کے لیے سنگاپور ماڈل کی مثال دیتے ہوئے کہا ایک چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجود سنگاپور کی برآمدات 300 ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہیں، سنگاپور کی یونیورسٹیاں بین الاقوامی رینکنگ میں شامل ہیں۔ اسی سنگاپوری مرد خرد مند لی کوان یو کا کہنا تھا کہ میں ہیومن رائٹس واچ کی رہنمائی میں آگے نہیں بڑھتا ہوں، اگر مجھے قبر میں اتارتے ہوئے بھی خیال آیا کہ کچھ غلط ہوا ہے تو میں قبر سے باہر نکل آئونگا۔
درست ہے بقول وزیرعظم کہ آج مغربی جمہوریت میں شفافیت ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں ادارے مضبوط ہیں۔ اداراے مادر وطن میں بھی مضبوط ہونگے بشرطیکہ ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہے جب کہ ملکی سیاست کی ڈائنامکس اس کے برعکس رہیں لہٰذا اب ماضی کی نرگسیت سے سب باہر نکلیں۔ وزیراعظم کا انداز نظر صائب تھا کہ ماضی میں پاکستان کی بیوروکریسی اور سول سرونٹس کا معیار بلند تھا لیکن سیاسی مداخلت کی وجہ سے بیوروکریسی کی ترجیحات تبدیل ہو گئیں۔
وزیراعظم کی یہ اپیل کہ قوم دو سال گزارہ کرنیکا فیصلہ کر لے تو ملک میں اتنا پیسہ آئیگا کہ قرض اور بیروزگاری کے مسائل نہیں ہونگے اور پاکستان سرمایہ کاری اور سیاحوں کے لیے اہم ترین مرکز ہو گا مگر ان عزائم اور مہلت کی استدعا اس قوم سے کی جا رہی ہے جو نئی حکومت سے کسی معجزہ کی توقع رکھتی ہے کیونکہ پی ٹی آئی نے گزشتہ 22 سال کی سیاسی جدوجہد میں موجودہ سسٹم کی فرسودگی، کرپٹ انتظامی ڈھانچہ، عوام دشمن پالیسیوں کے غیر معمولی الزامات اور قرضوں کی بیساکھی کے خاتمہ کی بات کی تھی۔ اب ضرورت حکومتی شفاف روڈ میپ کی ہے۔