فن کار صحت کارڈ
کوشش اور امید کرنی چاہیے کہ یہ سلسلہ اپنے منطقی اور لازمی نتیجے پر پہنچے۔
مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں میں سوشل سیکیورٹی کے تحت ہر شہری کو علاج کی مفت سہولت، اعلیٰ درجے کے سرکاری اسپتالوں میں مہیا کی جاتی ہے۔ سو وہاں سرے سے کسی مخصوص گروہ یا شعبے کے بارے میں صحت کی سہولیات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ بقول شاعر، ''تری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے'' اب دیکھا جائے تو یہ نظام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کا آغاز چودہ سو برس قبل عرب کے صحرائوں میں ہوا تھا کہ وہاں ایک ایسی حکومت قائم ہوئی جس نے یتیموں، بچوں، بوڑھوں، بیروزگاروں اور معذورین کے لیے ایسے خصوصی وظائف کا اجراء کیا جسکے تحت انھیں بیت المال سے تمام مطلوبہ سہولتیں مہیا کی جاتی تھیں۔
یہاں اس بات کا ذکر صرف تاریخ کو اس کے صحیح تناظر اور پس منظر میں رکھ کر دیکھنے کے لیے کیا جارہا ہے یعنی مقصد یہ ثابت کرنا نہیں کہ دنیا میں ہر اچھا کام مسلمانوں نے ہی شروع کیا تھا۔ یورپ کی تحریک اصلاح علوم اور نشاۃ ثانیہ کے بعد انسانی حقوق اور عوامی فلاح کے کام حکومتوں کی ذمے داریوں میں شامل ہوتے چلے گئے اور یوں ہمارا بھولا ہوا سبق کسی اور نے یاد کرلیا۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ دیر سے ہی سہی اب ہمارے معاشروں میں بھی انکی تقلید کا رواج بڑھ رہا ہے اور عوام کے بنیادی اور شہری حقوق کے حوالے سے کچھ اچھے پروگرام سامنے آرہے ہیں۔ انہی میں سے ایک ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجراء ہے جسکے ذریعے غریب، بے سہارا اور کم وسیلہ لوگ علاج معالجے کی مفت اور معیاری سہولیات حاصل کرسکیں گے۔ خیبر پختونخوا کے بعد اب دوسرے صوبوں میں بھی اس طرح کے کارڈ ہر شہری کو مہیا کرنے کے پروگرام بنائے جارہے ہیں جو یقینا ایک خوش آئند اور اچھی بات ہے کہ فی الوقت تعلیم کی طرح ہمارے صحت کے معاملات بھی شدید انتشار اور بے توجیہی کا شکار ہیں۔
الحمرا آرٹس کونسل کی طرف سے چیئرمین اور ڈائریکٹر برادران توقیر ناصر اور ذوالفقار زلفی کا پیغام ملا کہ حکومت پنجاب کا شعبہ اطلاعات اور کلچر اس ضمن میں فن کار کارڈ کا اجراء کرنا چاہ رہا ہے تاکہ فنون لطیفہ، شعر و ادب اور پرفارمنگ آرٹس سے وابستہ فنکاروں کے لیے حکومت کی طرف سے علاج معالجے کی سہولت مہیا کی جا سکے اور اس ضمن میں ایک میٹنگ کا اہتمام کیا گیا تاکہ اس خیال کو عملی شکل دی جاسکے اور اس کے لیے کوئی باقاعدہ طریقۂ کار متعین کیا جا سکے۔
سب سے زیادہ خوشی مجھے اس محفل میں مصوری کے استاد اور متحرک عوامی شخصیت میاں اعجاز الحسن کو دیکھ کر ہوئی کہ تقریباً 40 برس قبل انھوں نے ہی پہلی بار آرٹسٹس ایکویٹی قائم کرنے کا نہ صرف تصور دیا تھا بلکہ مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو اس مہم میں شامل کرکے اسکا ایک بنیادی ڈھانچہ بنانے کی کوشش بھی کی تھی۔ میں ان دنوں پنجاب آرٹ کونسل میں ڈیپوٹیشن پر ادب اور ڈرامے کے شعبے کا ڈپٹی ڈائریکٹر تھا اور ان لوگوں میں سے تھا جو فنکاروں کے حقوق اور انکی بہبود کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔
وہ ایکویٹی بھی کئی دیگر تنظیموں کی طرح اندرونی تضادات اور مفادات کے ٹکرائو کی وجہ سے ابتدا ہی میں انتشار کا شکار ہوگئی لیکن یہ سوال اپنی جگہ پر قائم رہا کہ بڑھتی ہوئی عمر یا کسی اور وجہ سے عملی طور پر کام نہ کر سکنے کے باعث ہمارے بہت سے بڑے فنکار اور ان کے ساتھ دیگر درجوں کے بیشمار فنکار ایسے طبی مسائل میں مبتلا ہیں جو انتہائی تکلیف دہ ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال بھی نہیں۔
یہاں تک کہ بیماری کی صورت میں ان کے پاس علاج معالجے کے وسائل تک مہیا نہیں ہوتے اور یوں نہ صرف وہ بہت کس مپرسی کی حالت میں زندہ رہتے ہیں بلکہ اکثر اوقات بہت برے حالات میں اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔ ایک بہت بڑے لوک فن کار اور موسیقی میں اپنی مثال آپ حامد علی بیلا کی ایک بات آج تک تیر کی طرح میرے دل میں چبھتی ہے کہ کئی برس پہلے جب میں نے ریڈیو کی نوکری سے ریٹائرمنٹ اور حکومت کی طرف سے صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی یعنی Pride of Performance ملنے کے بعد ان سے ان کا حال پوچھا تو معلوم ہوا کہ انھیں صرف چھ روپے پنشن ملتی ہے اور وہ زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے اس عمر میں اپنے رنگ ساز بیٹے کے ساتھ رنگ کی بالٹی پکڑ کر بطور معاون کام کرتے ہیں اور اس دوران میں سرکاری میڈل کو گلے میں پہن کر رکھتے ہیں۔
فلم انڈسٹری اور آرٹ سے متعلق دیگر شعبوں میں زوال کے باعث ہمارے بیشمار فنکار اور ٹیکنیشنز بیروزگاری اور بیماری کا شکار ہیں۔ ایسے میں انکی فلاح اور دیکھ بھال کے لیے جو بھی اچھا اور تعمیری کام کیا جائے وہ بہت توصیف اور تائید کا متقاضی ہے۔ سو یہ آرٹسٹ ہیلتھ کارڈ کا منصوبہ بھی لائق تعریف ہے کہ فنکاروں کے تمام تر مسائل نہ سہی مگر انکی ایک بہت اہم ضرورت یعنی طبی سہولیات کی بروقت اور بلاقیمت فراہمی ان کے لیے کسی غیبی امداد سے کم نہیں۔
ادویہ کی ہوشربا گرانی اور طرح طرح کی بیماریوں کی فراوانی کے باعث اس وقت پورا معاشرہ ایک امتحانی صورتحال میں مبتلا ہے کہ گھر کے بجٹ کا ایک خاصا بڑا حصہ اس مد میں خرچ ہو جاتا ہے۔ پرائیویٹ اسپتال مریض کی کھال کھینچنے پر تلے ہوئے ہیں جب کہ سرکاری اسپتالوں میں بھی علاج کی معیاری سہولیات کی کمی کے ساتھ ساتھ مختلف حیلوں اور بہانوں سے اخراجات کا ایک سلسلہ جاری رہتا ہے۔
جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا تھا کہ اصولی طور پر یہ سہولت ہر شہری کو مہیا ہونی چاہیے۔ سو اس فنکار صحت کارڈ کو اس اچھی سوچ کا نقطہ آغاز سمجھنا چاہیے اور کوشش اور امید کرنی چاہیے کہ یہ سلسلہ اپنے منطقی اور لازمی نتیجے پر پہنچے اور پاکستان کا ہر شہری اس سے غیر مشروط طور پر مستفیض ہو سکے۔
یہاں اس بات کا ذکر صرف تاریخ کو اس کے صحیح تناظر اور پس منظر میں رکھ کر دیکھنے کے لیے کیا جارہا ہے یعنی مقصد یہ ثابت کرنا نہیں کہ دنیا میں ہر اچھا کام مسلمانوں نے ہی شروع کیا تھا۔ یورپ کی تحریک اصلاح علوم اور نشاۃ ثانیہ کے بعد انسانی حقوق اور عوامی فلاح کے کام حکومتوں کی ذمے داریوں میں شامل ہوتے چلے گئے اور یوں ہمارا بھولا ہوا سبق کسی اور نے یاد کرلیا۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ دیر سے ہی سہی اب ہمارے معاشروں میں بھی انکی تقلید کا رواج بڑھ رہا ہے اور عوام کے بنیادی اور شہری حقوق کے حوالے سے کچھ اچھے پروگرام سامنے آرہے ہیں۔ انہی میں سے ایک ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجراء ہے جسکے ذریعے غریب، بے سہارا اور کم وسیلہ لوگ علاج معالجے کی مفت اور معیاری سہولیات حاصل کرسکیں گے۔ خیبر پختونخوا کے بعد اب دوسرے صوبوں میں بھی اس طرح کے کارڈ ہر شہری کو مہیا کرنے کے پروگرام بنائے جارہے ہیں جو یقینا ایک خوش آئند اور اچھی بات ہے کہ فی الوقت تعلیم کی طرح ہمارے صحت کے معاملات بھی شدید انتشار اور بے توجیہی کا شکار ہیں۔
الحمرا آرٹس کونسل کی طرف سے چیئرمین اور ڈائریکٹر برادران توقیر ناصر اور ذوالفقار زلفی کا پیغام ملا کہ حکومت پنجاب کا شعبہ اطلاعات اور کلچر اس ضمن میں فن کار کارڈ کا اجراء کرنا چاہ رہا ہے تاکہ فنون لطیفہ، شعر و ادب اور پرفارمنگ آرٹس سے وابستہ فنکاروں کے لیے حکومت کی طرف سے علاج معالجے کی سہولت مہیا کی جا سکے اور اس ضمن میں ایک میٹنگ کا اہتمام کیا گیا تاکہ اس خیال کو عملی شکل دی جاسکے اور اس کے لیے کوئی باقاعدہ طریقۂ کار متعین کیا جا سکے۔
سب سے زیادہ خوشی مجھے اس محفل میں مصوری کے استاد اور متحرک عوامی شخصیت میاں اعجاز الحسن کو دیکھ کر ہوئی کہ تقریباً 40 برس قبل انھوں نے ہی پہلی بار آرٹسٹس ایکویٹی قائم کرنے کا نہ صرف تصور دیا تھا بلکہ مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو اس مہم میں شامل کرکے اسکا ایک بنیادی ڈھانچہ بنانے کی کوشش بھی کی تھی۔ میں ان دنوں پنجاب آرٹ کونسل میں ڈیپوٹیشن پر ادب اور ڈرامے کے شعبے کا ڈپٹی ڈائریکٹر تھا اور ان لوگوں میں سے تھا جو فنکاروں کے حقوق اور انکی بہبود کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔
وہ ایکویٹی بھی کئی دیگر تنظیموں کی طرح اندرونی تضادات اور مفادات کے ٹکرائو کی وجہ سے ابتدا ہی میں انتشار کا شکار ہوگئی لیکن یہ سوال اپنی جگہ پر قائم رہا کہ بڑھتی ہوئی عمر یا کسی اور وجہ سے عملی طور پر کام نہ کر سکنے کے باعث ہمارے بہت سے بڑے فنکار اور ان کے ساتھ دیگر درجوں کے بیشمار فنکار ایسے طبی مسائل میں مبتلا ہیں جو انتہائی تکلیف دہ ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال بھی نہیں۔
یہاں تک کہ بیماری کی صورت میں ان کے پاس علاج معالجے کے وسائل تک مہیا نہیں ہوتے اور یوں نہ صرف وہ بہت کس مپرسی کی حالت میں زندہ رہتے ہیں بلکہ اکثر اوقات بہت برے حالات میں اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔ ایک بہت بڑے لوک فن کار اور موسیقی میں اپنی مثال آپ حامد علی بیلا کی ایک بات آج تک تیر کی طرح میرے دل میں چبھتی ہے کہ کئی برس پہلے جب میں نے ریڈیو کی نوکری سے ریٹائرمنٹ اور حکومت کی طرف سے صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی یعنی Pride of Performance ملنے کے بعد ان سے ان کا حال پوچھا تو معلوم ہوا کہ انھیں صرف چھ روپے پنشن ملتی ہے اور وہ زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے اس عمر میں اپنے رنگ ساز بیٹے کے ساتھ رنگ کی بالٹی پکڑ کر بطور معاون کام کرتے ہیں اور اس دوران میں سرکاری میڈل کو گلے میں پہن کر رکھتے ہیں۔
فلم انڈسٹری اور آرٹ سے متعلق دیگر شعبوں میں زوال کے باعث ہمارے بیشمار فنکار اور ٹیکنیشنز بیروزگاری اور بیماری کا شکار ہیں۔ ایسے میں انکی فلاح اور دیکھ بھال کے لیے جو بھی اچھا اور تعمیری کام کیا جائے وہ بہت توصیف اور تائید کا متقاضی ہے۔ سو یہ آرٹسٹ ہیلتھ کارڈ کا منصوبہ بھی لائق تعریف ہے کہ فنکاروں کے تمام تر مسائل نہ سہی مگر انکی ایک بہت اہم ضرورت یعنی طبی سہولیات کی بروقت اور بلاقیمت فراہمی ان کے لیے کسی غیبی امداد سے کم نہیں۔
ادویہ کی ہوشربا گرانی اور طرح طرح کی بیماریوں کی فراوانی کے باعث اس وقت پورا معاشرہ ایک امتحانی صورتحال میں مبتلا ہے کہ گھر کے بجٹ کا ایک خاصا بڑا حصہ اس مد میں خرچ ہو جاتا ہے۔ پرائیویٹ اسپتال مریض کی کھال کھینچنے پر تلے ہوئے ہیں جب کہ سرکاری اسپتالوں میں بھی علاج کی معیاری سہولیات کی کمی کے ساتھ ساتھ مختلف حیلوں اور بہانوں سے اخراجات کا ایک سلسلہ جاری رہتا ہے۔
جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا تھا کہ اصولی طور پر یہ سہولت ہر شہری کو مہیا ہونی چاہیے۔ سو اس فنکار صحت کارڈ کو اس اچھی سوچ کا نقطہ آغاز سمجھنا چاہیے اور کوشش اور امید کرنی چاہیے کہ یہ سلسلہ اپنے منطقی اور لازمی نتیجے پر پہنچے اور پاکستان کا ہر شہری اس سے غیر مشروط طور پر مستفیض ہو سکے۔