اقوام متحدہ کی قلت آب پر الارمنگ رپورٹ
نواز شریف کی اقتدار سے معزولی کے دو ہفتے بعد اگست 017 2 ء میں کینسر کی تشخیص ہوئی
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ کرہ ارض پر پانی کی کمی کا مسئلہ سنگین ہو رہا ہے۔ اگر حکومتوں نے واٹر مینجمنٹ نہ کی تو 2030ء تک اس قدرتی نعمت کی عالمی طلب پوری کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس حوالے سے عالمی شہرت یافتہ گلوبل واٹرنے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا کہ اگر دنیا کو پائیدار ترقی کے اہداف پورنے کرنا ہیں تو 2 018ء سے 30ء کے درمیان ہر سال ہونے والی واٹر اسٹرکچر پر عالمی سرمایہ کاری 450 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہونی چاہیے۔
ظاہر ہے کہ یہ ایک کثیر رقم ہے ،ترقی پذیراور غریب ممالک جو پہلے ہی معاشی بحران سے گزر رہے ہیں جیسے پاکستان ہے، اس کے لیے واٹر پالیسی پر ا ربوںڈالر مختص کرنا ناممکن ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ دنیا کے امیر ممالک سامنے آئیں جو اس ضمن میں غریب ملکوں کی مدد کریں۔ یہ تو وہ رقم ہے جو حکومتوں نے واٹر مینجمنٹ پر لگانی ہے جب کہ گلوبل واٹر نے کہا ہے کہ صرف حکومتیں ہی نہیں بلکہ نجی شعبہ کو بھی آئندہ بارہ سال تک 35 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ ایک امریکی میگزین فوربس نے کہا ہے کہ اس قت دنیا میں موجود تازہ پانی کا ستر فیصد حصہ خوراک کا عالمی شعبہ استعمال کر رہا ہے لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیا میں زراعت کو پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ کیونکہ پانی کی طلب اس کی رسد سے زیادہ ہے، بارشیں کم ہو رہی ہیں، موسم سرما میں برف باری بھی کم ہو رہی ہے۔
حدت ہر سال بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ آبی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ ماحولیاتی تبدیلی سے جو نقصان ہو چکا ہے یا مستقبل میں مزید اضافہ ہونے والا ہے اسی کے لیے 500 ارب ڈالر چاہیں تاکہ عالمی حدت پر قابو پایا جا سکے۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تو نہ صرف خوراک کی عالمی پیداوار میں بہت بڑے پیمانے پر کمی ہوگی بلکہ افریقہ' ایشیا' لاطینی امریکا کے بہت سے پس ماندہ خطوں کو خشک سالی اور اس کے نتیجے میں قحط سالی کا سامنا ہو گا۔ خشک سالی کوئی نئی چیز نہیں بلکہ یہ انسانی تاریخ میں ہزاروں سال سے ہوتی رہی ہے۔ لیکن ماضی کی اور آج کی خشک سالی اور قحط میں بڑا وقفہ تھا ۔ ماضی میں خشک سالی چین میں 1941ء میں رونما ہوئی جس کے نتیجے میں ایسا قحط پڑا کہ 30 لاکھ افراد بھوک سے ہلاک ہو گئے۔
اس سے پہلے امریکا اور کینیڈا میں 1930ء سے 1939ء کے درمیان ایسی خشک سالی رونما ہوئی کہ لاکھوں لوگوں کو دوسرے علاقوں میں ہجرت کرنی پڑی۔ایتھوپیا کی خشک سالی جو80ء کی دہائی کی ابتداء میں ہوئی اس میں لاکھوں افراد بھوک کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ آسٹریلیا کی خشک سالی میں لاکھوں مویشی ہلاک ہو گئے۔ براعظم افریقہ کے پانچ ممالک میں دس لاکھ سے زیادہ افراد اپنی جان سے گئے۔ ایسا ہی بہت بڑا خطرہ ہمارے سروں پر بھی منڈلا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی شدید ترین خشک سالی رونما ہو چکی ہے جس سے ہمارے ملک کے بیشتر لوگ واقف ہی نہیں۔ یہ 97ء سے 04ء کے درمیان بلوچستان میں ہوئی، یہ شدید اور طویل ترین خشک سالی کے 7سال تھے۔ اس خشک سالی کی وجہ سے ہزاروں مویشی اور دیگر جانور ہلاک ہو گئے۔ لاکھوں ایکڑ پر فصلوں کا خاتمہ ہو گیا اور باغات تباہ ہو گئے۔ جس کی وجہ سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے۔ آج کوئٹہ کا یہ حال ہے کہ ہاں زیر زمین پانی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پانی کی کمیابی کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ پر قائم پھلدار باغات کا خاتمہ ہو گیا۔ جب کہ بلوچستان میں خشک سالی کا خطرہ پھر سے منڈلا رہا ہے۔ سندھ میں تھر میں طویل خشک سالی جاری ہے ۔
زمین کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت کیوں بڑھ رہا ہے اس کی وجہ دنیا میں صنعتوں اور فیکٹریوں کی بہتات ہے۔ کوئی بھی ملک ترقی کی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔ صنعتی سرگرمیاں فضائی آلودگی میں اضافہ کر رہی ہیں ۔ جنگلات کسی بھی ملک میں 25 فیصد ہونے چاہیں لیکن ہمارے ملک میں اس کا تناسب صرف ڈھائی فیصد ہے۔ بارش کم ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جنگلات بہت کم ہیں۔ جو ہیں انھیں بے دردی سے کاٹا جا رہا ہے۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اگر ہم نے زمین کے درجہ حرارت کو کم کرنا ہے تو ہم زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں۔ یاد رہے صرف درخت لگانا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی حفاظت اور خبر گیری بھی کریں تا آنکہ وہ جوان ہو جائیں، اس طرح ہمارے زمین کو مناسب مقدار میں بارشیں مہیا ہو سکیں گی۔ کافی مقدار میں اناج میسر ہو گا تاکہ ہم صحت مند لمبی عمر پا سکیں۔
بیگم کلثوم ناز انتقال کر گئیں۔ انھوں نے طویل عرصہ بڑی بہادری سے کینسر جیسی خوفناک بیماری کا مقابلہ کیا۔ وہ ہارلے کلینک لندن میں زیر علاج رہیں جہاں دنیا کے بہترین طبی ماہر مہیا تھے لیکن موت سے کس کو رستگاری ہے۔ وہ ایک خالص گھریلو اور شوہر پرست خاتون تھیں۔ پوری زندگی شوہر اور اولا د کی خدمت میں گزار دی۔ دینی مزاج کی حامل خاتون دوبار وزیراعلیٰ تین بار وزیراعظم بننے والے شوہر کی بیوی ہونے کے باجود ان کے مزاج میں عاجزی و انکساری تھی، تکبر اور رعونت سے دور تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پانامہ کیس ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ کینسر نے اسی وقت سے ان کے اندر جڑ پکڑنی شروع کر دی۔
نواز شریف کی اقتدار سے معزولی کے دو ہفتے بعد اگست 017 2 ء میں کینسر کی تشخیص ہوئی۔ 11 ستمبر کو بیگم کلثوم نواز انتقال کر گئیں یعنی ''13ویں مہینے میں'' حالانکہ وینٹی لیٹر پر ہونے کے باوجود ان کی صحت کچھ دنوں کے لیے بہتر بھی ہوئی۔ نواز شریف اپریل 016ء 28 جولائی 017ء اور 13جولائی سے 018ء جب وہ جیل گئے ان کی آزمائش سخت سے سخت تر ہوتی گئی۔ جیل میں جیسے ہی ''8 واں ہفتہ ' ' مکمل ہوا وہ عارضی طور پر جیل سے باہر آ گئے یعنی پانامہ کے حوالے سے 2 سال 5 ماہ مکمل ہونے پر یعنی 5 ویں مہینے نے انھیں وقتی طور پر جیل سے باہر نکال دیا۔ اب اس سے بھی زیادہ اہم مہینے نومبر اور دسمبر ہیں کیونکہ ''فیز'' مکمل ہو رہا ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ ایک کثیر رقم ہے ،ترقی پذیراور غریب ممالک جو پہلے ہی معاشی بحران سے گزر رہے ہیں جیسے پاکستان ہے، اس کے لیے واٹر پالیسی پر ا ربوںڈالر مختص کرنا ناممکن ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ دنیا کے امیر ممالک سامنے آئیں جو اس ضمن میں غریب ملکوں کی مدد کریں۔ یہ تو وہ رقم ہے جو حکومتوں نے واٹر مینجمنٹ پر لگانی ہے جب کہ گلوبل واٹر نے کہا ہے کہ صرف حکومتیں ہی نہیں بلکہ نجی شعبہ کو بھی آئندہ بارہ سال تک 35 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ ایک امریکی میگزین فوربس نے کہا ہے کہ اس قت دنیا میں موجود تازہ پانی کا ستر فیصد حصہ خوراک کا عالمی شعبہ استعمال کر رہا ہے لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیا میں زراعت کو پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ کیونکہ پانی کی طلب اس کی رسد سے زیادہ ہے، بارشیں کم ہو رہی ہیں، موسم سرما میں برف باری بھی کم ہو رہی ہے۔
حدت ہر سال بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ آبی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ ماحولیاتی تبدیلی سے جو نقصان ہو چکا ہے یا مستقبل میں مزید اضافہ ہونے والا ہے اسی کے لیے 500 ارب ڈالر چاہیں تاکہ عالمی حدت پر قابو پایا جا سکے۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تو نہ صرف خوراک کی عالمی پیداوار میں بہت بڑے پیمانے پر کمی ہوگی بلکہ افریقہ' ایشیا' لاطینی امریکا کے بہت سے پس ماندہ خطوں کو خشک سالی اور اس کے نتیجے میں قحط سالی کا سامنا ہو گا۔ خشک سالی کوئی نئی چیز نہیں بلکہ یہ انسانی تاریخ میں ہزاروں سال سے ہوتی رہی ہے۔ لیکن ماضی کی اور آج کی خشک سالی اور قحط میں بڑا وقفہ تھا ۔ ماضی میں خشک سالی چین میں 1941ء میں رونما ہوئی جس کے نتیجے میں ایسا قحط پڑا کہ 30 لاکھ افراد بھوک سے ہلاک ہو گئے۔
اس سے پہلے امریکا اور کینیڈا میں 1930ء سے 1939ء کے درمیان ایسی خشک سالی رونما ہوئی کہ لاکھوں لوگوں کو دوسرے علاقوں میں ہجرت کرنی پڑی۔ایتھوپیا کی خشک سالی جو80ء کی دہائی کی ابتداء میں ہوئی اس میں لاکھوں افراد بھوک کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ آسٹریلیا کی خشک سالی میں لاکھوں مویشی ہلاک ہو گئے۔ براعظم افریقہ کے پانچ ممالک میں دس لاکھ سے زیادہ افراد اپنی جان سے گئے۔ ایسا ہی بہت بڑا خطرہ ہمارے سروں پر بھی منڈلا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی شدید ترین خشک سالی رونما ہو چکی ہے جس سے ہمارے ملک کے بیشتر لوگ واقف ہی نہیں۔ یہ 97ء سے 04ء کے درمیان بلوچستان میں ہوئی، یہ شدید اور طویل ترین خشک سالی کے 7سال تھے۔ اس خشک سالی کی وجہ سے ہزاروں مویشی اور دیگر جانور ہلاک ہو گئے۔ لاکھوں ایکڑ پر فصلوں کا خاتمہ ہو گیا اور باغات تباہ ہو گئے۔ جس کی وجہ سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے۔ آج کوئٹہ کا یہ حال ہے کہ ہاں زیر زمین پانی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پانی کی کمیابی کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ پر قائم پھلدار باغات کا خاتمہ ہو گیا۔ جب کہ بلوچستان میں خشک سالی کا خطرہ پھر سے منڈلا رہا ہے۔ سندھ میں تھر میں طویل خشک سالی جاری ہے ۔
زمین کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت کیوں بڑھ رہا ہے اس کی وجہ دنیا میں صنعتوں اور فیکٹریوں کی بہتات ہے۔ کوئی بھی ملک ترقی کی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔ صنعتی سرگرمیاں فضائی آلودگی میں اضافہ کر رہی ہیں ۔ جنگلات کسی بھی ملک میں 25 فیصد ہونے چاہیں لیکن ہمارے ملک میں اس کا تناسب صرف ڈھائی فیصد ہے۔ بارش کم ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جنگلات بہت کم ہیں۔ جو ہیں انھیں بے دردی سے کاٹا جا رہا ہے۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اگر ہم نے زمین کے درجہ حرارت کو کم کرنا ہے تو ہم زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں۔ یاد رہے صرف درخت لگانا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی حفاظت اور خبر گیری بھی کریں تا آنکہ وہ جوان ہو جائیں، اس طرح ہمارے زمین کو مناسب مقدار میں بارشیں مہیا ہو سکیں گی۔ کافی مقدار میں اناج میسر ہو گا تاکہ ہم صحت مند لمبی عمر پا سکیں۔
بیگم کلثوم ناز انتقال کر گئیں۔ انھوں نے طویل عرصہ بڑی بہادری سے کینسر جیسی خوفناک بیماری کا مقابلہ کیا۔ وہ ہارلے کلینک لندن میں زیر علاج رہیں جہاں دنیا کے بہترین طبی ماہر مہیا تھے لیکن موت سے کس کو رستگاری ہے۔ وہ ایک خالص گھریلو اور شوہر پرست خاتون تھیں۔ پوری زندگی شوہر اور اولا د کی خدمت میں گزار دی۔ دینی مزاج کی حامل خاتون دوبار وزیراعلیٰ تین بار وزیراعظم بننے والے شوہر کی بیوی ہونے کے باجود ان کے مزاج میں عاجزی و انکساری تھی، تکبر اور رعونت سے دور تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پانامہ کیس ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ کینسر نے اسی وقت سے ان کے اندر جڑ پکڑنی شروع کر دی۔
نواز شریف کی اقتدار سے معزولی کے دو ہفتے بعد اگست 017 2 ء میں کینسر کی تشخیص ہوئی۔ 11 ستمبر کو بیگم کلثوم نواز انتقال کر گئیں یعنی ''13ویں مہینے میں'' حالانکہ وینٹی لیٹر پر ہونے کے باوجود ان کی صحت کچھ دنوں کے لیے بہتر بھی ہوئی۔ نواز شریف اپریل 016ء 28 جولائی 017ء اور 13جولائی سے 018ء جب وہ جیل گئے ان کی آزمائش سخت سے سخت تر ہوتی گئی۔ جیل میں جیسے ہی ''8 واں ہفتہ ' ' مکمل ہوا وہ عارضی طور پر جیل سے باہر آ گئے یعنی پانامہ کے حوالے سے 2 سال 5 ماہ مکمل ہونے پر یعنی 5 ویں مہینے نے انھیں وقتی طور پر جیل سے باہر نکال دیا۔ اب اس سے بھی زیادہ اہم مہینے نومبر اور دسمبر ہیں کیونکہ ''فیز'' مکمل ہو رہا ہے۔