کراچی تا خیبر سب کو مساوی بجلی فراہم کی جائے چیف جسٹس
کوئی بھی واپڈا کی آنکھ کا تارا نہیں ہونا چاہیے،عدالتی احکام نہ ماننے والوں کو جیل جانا پڑیگا
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ کیے جانے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور این ٹی ڈی سی کے ایم ڈی کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ عدالت کے احکام نہ ماننے والوں کو جیل جانا پڑے گا۔
غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے عوام بے حال اورصنعتیں بند ہورہی ہیں۔ صدر، وزیراعظم اور چیف جسٹس سمیت کوئی بھی واپڈا کی آنکھ کا تارا نہیں ہونا چاہیے۔ خیبر سے کراچی تک سب کو مساوی بجلی ملنی چاہیے۔ ملک میں بجلی موجود ہے مگر غلط تقسیم ہونے کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں۔ 30فیصد بجلی کی کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ عدالت نے بجلی سپلائی کرنے والی تمام کمپنیوں کے سربراہان کو آج یکم جون کو ایم ڈی این ٹی ڈی سی کے ساتھ ویڈیو میٹنگ منعقد کرنے کا حکم دیا ہے۔ جس میں چیئرمین ارسااور وزارت پانی و بجلی کے سیکریٹری بھی شریک ہوں گے اور عدالتی احکام پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد کیلیے مشترکہ جواب تیار کر کے رجسٹرار سپریم کورٹ کے پاس آج ہی جمع کرایا جائے گا۔
عدالت نے واضح کیا ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کی پابند ہیں اور اس سلسلے میں کوئی بہانہ قابل قبول نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تو ایم ڈی این ٹی ڈی سی ضرغام اسحاق پیش ہوئے۔ عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ بجلی کی گھریلو اور صنعتی مساوی تقسیم کے عدالتی فیصلے پر اب تک عمل کیوں نہیں ہوا تو ایم ڈی نے بتایا کہ تقسیم کار کمپنیوں اور این ٹی ڈی سی میں رابطے کے فقدان کے باعث ایسا نہیں ہو سکا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے صرف ایک واپڈا کا ادارہ تھا اور سب اچھا تھا۔ اب کئی کمپنیاں آ گئی ہیں اور مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔
پرائیویٹ کمپنیوں کو معلوم ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کرا سکتا۔ عدالتی مداخلت کے بغیر عوام کے مسائل حل نہیں ہونگے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ملک میں کتنی بجلی پیدا کی جا رہی ہے اور شارٹ فال کتنا ہے۔ ضرغام اسحاق نے بتایا کہ ملک میں 12 ہزار 3 سو 51 میگا واٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے جبکہ ملک میں بجلی کی مجموعی طلب 15 ہزار میگا واٹ ہے۔ شارٹ فال 3 ہزار 8 سو میگا واٹ کے لگ بھگ ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ 30فیصد بجلی کی کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لکھ کر دیں کہ کمپنیاں کام نہیں کر رہیں، آپ کچھ نہیں کر سکتے تو گھر چلے جائیں۔
دریں اثناچیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ منشیات کا سارا دھندہ اے این ایف کی ناک کے نیچے ہوتاہے،جدھر دیکھیں،تباہی پھیرکربیٹھے ہوئے ہیں۔آج تک منشیات فروشوںکے کسی سرغنے کو نہیں پکڑاگیا۔چیف جسٹس نے یہ ریمارکس ایک منشیات فروش صغیر حسین کوعمرقیدکی سزا کم کرکے 6سال کرنے کے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اے این ایف کی اپیل کی سماعت کے دوران دیے۔
غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے عوام بے حال اورصنعتیں بند ہورہی ہیں۔ صدر، وزیراعظم اور چیف جسٹس سمیت کوئی بھی واپڈا کی آنکھ کا تارا نہیں ہونا چاہیے۔ خیبر سے کراچی تک سب کو مساوی بجلی ملنی چاہیے۔ ملک میں بجلی موجود ہے مگر غلط تقسیم ہونے کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں۔ 30فیصد بجلی کی کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ عدالت نے بجلی سپلائی کرنے والی تمام کمپنیوں کے سربراہان کو آج یکم جون کو ایم ڈی این ٹی ڈی سی کے ساتھ ویڈیو میٹنگ منعقد کرنے کا حکم دیا ہے۔ جس میں چیئرمین ارسااور وزارت پانی و بجلی کے سیکریٹری بھی شریک ہوں گے اور عدالتی احکام پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد کیلیے مشترکہ جواب تیار کر کے رجسٹرار سپریم کورٹ کے پاس آج ہی جمع کرایا جائے گا۔
عدالت نے واضح کیا ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کی پابند ہیں اور اس سلسلے میں کوئی بہانہ قابل قبول نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تو ایم ڈی این ٹی ڈی سی ضرغام اسحاق پیش ہوئے۔ عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ بجلی کی گھریلو اور صنعتی مساوی تقسیم کے عدالتی فیصلے پر اب تک عمل کیوں نہیں ہوا تو ایم ڈی نے بتایا کہ تقسیم کار کمپنیوں اور این ٹی ڈی سی میں رابطے کے فقدان کے باعث ایسا نہیں ہو سکا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے صرف ایک واپڈا کا ادارہ تھا اور سب اچھا تھا۔ اب کئی کمپنیاں آ گئی ہیں اور مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔
پرائیویٹ کمپنیوں کو معلوم ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کرا سکتا۔ عدالتی مداخلت کے بغیر عوام کے مسائل حل نہیں ہونگے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ملک میں کتنی بجلی پیدا کی جا رہی ہے اور شارٹ فال کتنا ہے۔ ضرغام اسحاق نے بتایا کہ ملک میں 12 ہزار 3 سو 51 میگا واٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے جبکہ ملک میں بجلی کی مجموعی طلب 15 ہزار میگا واٹ ہے۔ شارٹ فال 3 ہزار 8 سو میگا واٹ کے لگ بھگ ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ 30فیصد بجلی کی کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لکھ کر دیں کہ کمپنیاں کام نہیں کر رہیں، آپ کچھ نہیں کر سکتے تو گھر چلے جائیں۔
دریں اثناچیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ منشیات کا سارا دھندہ اے این ایف کی ناک کے نیچے ہوتاہے،جدھر دیکھیں،تباہی پھیرکربیٹھے ہوئے ہیں۔آج تک منشیات فروشوںکے کسی سرغنے کو نہیں پکڑاگیا۔چیف جسٹس نے یہ ریمارکس ایک منشیات فروش صغیر حسین کوعمرقیدکی سزا کم کرکے 6سال کرنے کے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اے این ایف کی اپیل کی سماعت کے دوران دیے۔