ہم کو آنا آنا ہے

وزیراعظم ہاؤس میں آیندہ آنے والا وزیراعظم رہے گا۔‘‘ وڈیرنی کی اس بات کو میں بھی مانوں گا

میرا وطن شدید مشکلات میں گھرا ہوا ہے، میری طرح کروڑوں عوام اسی فکر میں مبتلا ہیں۔ ہم غریبوں کا تو جینا مرنا اپنے وطن سے جڑا ہوا ہے۔ ہم غریب عوام اپنے وطن میں ہی جیتے ہیں، اسی وطن کے اسپتالوں میں ایڑیاں رگڑتے ہیں، اور مر کر اسی وطن کی مٹی میں دفن ہوجاتے ہیں۔ جہاں قبرستان میں جگہ ملے دفن ہوجاتے ہیں۔

مجھے اپنے وطن ہی کا غم ہے۔ میں اسی غم کے بارے میں لکھنا جانتا ہوں۔ مجھے اس غم سے چھٹکارا ملے تو کسی اور طرف دھیان دوں۔ یہ زمین اللہ میاں نے ''سب'' کے لیے بنائی تھی، اس زمین پر ''سب'' کا سانجھا حق ہے۔ مگر اللہ کی زمین پر چند گھرانوں نے قبضہ جمالیا ہے۔ اور اس مکروہ حرکت، اس گناہ عظیم کا الزام بھی اللہ پر لگاتے ہیں کہ ''یہ زمین ہمیں اللہ نے دی ہے۔'' تو یہ نعوذباللہ بھلا اللہ ایسا کام کیوں کرے گا۔ اس کے لیے تو اس کے سارے بندے ایک برابر ہیں، مگر یہ اللہ کی زمین پر ''قابض'' لوگ یقینا اللہ کو نہیں مانتے، یہ جو ''اللہ کے فضل و کرم' اللہ کا شکر ہے'' جیسے الفاظ اپنی گفتگو میں استعمال کرتے ہیں، یہ جھوٹے ہیں، فریبی ہیں۔ یہ تو خود اللہ بنے بیٹھے ہیں، فیصلے کرتے ہیں، اللہ کے بندوں کو سزائیں دیتے ہیں، اپنے جیل خانوں میں قید رکھتے ہیں، اللہ کے بندوں سے جبری مشقت لیتے ہیں، اپنی ملوں کے جلتے الاؤ میں اللہ کے بندوں کو پھینک دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں ''اللہ کا فضل ہے، اللہ کا شکر ہے'' مجھے لگتا ہے دراصل یہ ''اپنا فضل ہے، اپنا شکر ہے'' کہتے ہیں۔

خیرپور سندھ کی وڈیرنی نفیسہ شاہ کو سخت اعتراض ہے، وہ کہتی ہیں ''وزیراعظم ہاؤس، عمران خان کی جاگیر نہیں ہے، یہ حکومت پاکستان کی ملکیت ہے۔ وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی نہیں بنانا چاہیے، اگر عمران خان کو تعلیمی درس گاہ بنانی ہے تو اپنے محل بنی گالہ میں بنائے۔

وزیراعظم ہاؤس میں آیندہ آنے والا وزیراعظم رہے گا۔'' وڈیرنی کی اس بات کو میں بھی مانوں گا کہ بنی گالہ کو بھی چار کنال رہائش کے لیے رکھ کر باقی سارے رقبے پر تعلیمی، فلاحی ادارہ بنادیا جائے مگر میں اس بات پر بھی متفق ہوں کہ وڈیرنی نفیسہ شاہ بھی اپنی ضرورت سے زائد جائیداد غریبوں کو دے دے اور یہی بات اپنے ابا جان کو سمجھائے اور اپنے پارٹی لیڈروں کو بھی سمجھائے۔ نفیسہ شاہ صاحبہ! آنے والے وزیراعظم کی فکر مت کریں! غریبوں کی فکر کریں، سندھ کی فکر کریں ''مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں'' بہت ہی اچھی بات ہے مگر یہ جو تھر سے پھر خبر آئی ہے کہ ''دو بچے بھوکے مرگئے'' یہ کون مرے ہیں! اس مرگ کی فکر کون کرے گا؟ یہ جو سندھ میں نیلے، پیلے، کالے کپڑے پہنے غریب سندھی، سفید براق کپڑے پہنے وڈیروں، پیروں کے قدموں میں بیٹھتے ہیں، ان کی فکر کریں۔ یہ کب سفید کپڑے پہنیں گے، یہ کب وڈیرے کے قدموں سے اٹھ کر برابر بیٹھیں گے؟ میرا خیال ہے وڈیروں، پیروں نے تو یہ کام نہیں کرنا، یہ بے چارے غریب مر کر ہی سفید کپڑے پہنتے رہیں گے۔

اور ''اوپر'' جاتے رہیں گے۔ بھئی! میں کئی بار اعتراف کرچکا ہوں، پھر کہے دیتا ہوں، کہ مجھے یہی کچھ لکھنا آتا ہے۔ اور یہی کچھ لکھتا رہوں گا۔ جب تک اپنے وطن سے جاگیرداری، وڈیرہ شاہی، سرداری، خان داری، سرمایہ داری وغیرہ کا خاتمہ نہیں ہوجاتا۔


میں بتاتا چلوں کہ میرے وطن میں انقلاب عوامی انقلاب کی تحریک مسلسل جاری رہی ہے۔ اس تحریک کا پہلا شہید حسن ناصر تھا اور انقلاب کے رستے میں مرنے والوں کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے۔ نذیر عباسی، عامل کانسی اور وہ ہزاروں جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں آج سے تیس بتیس سال پہلے NSF کا سالانہ کونسل کا جلسہ تھا۔ اس کے میزبانوں میں نفیس صدیقی ایڈووکیٹ بھی شامل تھے۔ اس دن جلسے سے خطاب کرتے ہوئے معراج محمد خان نے کہا تھا ''مجھ سے سندھ کے سیاستدان وڈیرے پوچھتے ہیں کہ ''یہ جو انقلاب کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔ تو آپ بتائیں اس انقلاب کی رفتار کیا ہوگی؟ اس کا رخ کدھر ہوگا؟'' تو جناب تیس بتیس سال پہلے سے انقلاب کی دھمک صاف سنائی دینے لگی تھی۔

اور ابھی ماضی قریب 2009 میں عبدالستار ایدھی نے کراچی پریس کلب میں حبیب جالب امن ایوارڈ وصول کرتے ہوئے تقریر میں کہا تھا ''میں خونیں انقلاب دیکھ رہا ہوں۔'' اور اب یہ انقلاب ظالموں کے سروں پر بھوکے گدھوں کی صورت منڈلا رہا ہے۔ شاعر تو الہامی قوت کا حامل بھی ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا ہے تو یہ ہوکر بھی رہے گا: ''اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو/ کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو/ جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ روزی/ اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو/ سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ/ جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو''۔ اور فیض نے کہا ''جب تخت گرائے جائیں گے/ جب تاج اچھالے جائیں گے/ تب راج کرے گی خلق خدا/ ہم دیکھیں گے''۔ اور جالب نے کہا ''ہنسے گی سہمی ہوئی نگاہیں/ چمک اٹھیں گی وفا کی راہیں/ ہزار ظالم سہی اندھیرا/ سحر بھی لیکن قریب تر ہے/ قریب تر ہے''۔

یہ سب باتیں ہوکر رہیں گی۔ اب انقلاب آوے ای آوے۔ اس انقلاب میں بہت سے کارکنوں نے اپنی زندگیاں نچھاور کردیں۔ اپنے بال بچے رول دیے، اپنے گھر بار کی فکر چھوڑ کر خلق خدا کے دکھوں کو اپنالیا اور انقلاب کی چاہ میں، راہ میں چپ چاپ خاموشی سے مرگئے۔ دراصل یہ انقلاب ایسے ہی گمنام سے جاں نثاروں کے نام ہوگا۔ اور میرے وطن کے غیور لوگ ان جاں نثاروں کو ان کی جدوجہد کو ان کی قربانیوں کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ انقلاب آئے گا، ضرور آئے گا۔ میں نے یوم مئی کے حوالے سے ایک نظم لکھی تھی، مجھے اعزاز حاصل ہے کہ میں نے یہ نظم انقلابی عوامی شاعر خالد علیگ صاحب کی موجودگی میں سنائی تھی۔ اس کے آخری دو مصرعے لکھ رہا ہوں۔ میں نے ظالموں، جابروں کو للکارتے ہوئے نظم کا اختتام یوں کیا تھا: خالد علیگ نے ان آخری مصرعوں پر تائیداً ہاتھ اٹھائے تھے:

تم کو جانا جانا ہے

ہم کو آنا آنا ہے
Load Next Story