وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے

اس پس منظر میں پیرس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے سال 2018-19 انتہائی اہم ہیں


محمود عالم September 17, 2018
[email protected]

یہ حقیقت ہے کہ پیرس میں ہونے والے ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدہ کو یقینی بنانے کے لیے ترقی پذیر اور غریب ملکوں نے جو فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے کم سے کم ذمے دار ہیں، اپنے تحفظات کے باوجود ترقی یافتہ ملکوں سے زیادہ بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ پیرس معاہدے کے مطابق رواں صدی کے اختتام تک عالمی درجہ حرارت کو دو ڈگری سے کم اور ممکنہ حد تک 1.5 ڈگری تک محدود کیا جائے گا۔

پیرس معاہدے کے نفاذ سے قبل نیویارک میں 48 کم ترقی یافتہ ملکوں کے اتحاد کا کہنا تھا کہ وہ معاہدے کے نفاذ کا خیر مقدم تو کرتے ہیں لیکن وہ اس امر سے بھی واقف ہیں کہ امریکا، چین اور یورپی یونین کی صنعتی سرگرمیوں کے نتیجے میں آنے والے 50 برسوں میں عالمی درجہ حرارت میں مزید 3 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوجائے گا، جس کے باعث متعدد غریب ملک کسی بھی طرح کی زندگی گزارنے کے لیے ناقابل برداشت ہوجائیں گے۔

48 صفحات سے زائد پر مشتمل طویل المدتی منصوبے پیرس معاہدہ کا مسودہ 4 سال کی مسلسل کوششوں کے بعد تیار کیا گیا تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس مسودہ میں 900 جگہوں پر نشانات کے ذریعے واضح کیا گیا تھا کہ ان امور پر اختلاف رائے موجود ہے، اس وقت بھی سب سے زیادہ اعتراضات ترقی پذیر ملکوں جن میں چین، بھارت، پاکستان، سعودی عرب، ملائیشیا سمیت دیگر ملک شامل تھے، نے اٹھائے جب کہ جزائر سے تعلق رکھنے والے ملکوں کا کہنا تھا کہ اگر درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری کا اضافہ ہوا تو اس کے نتیجے میں سطح سمندر میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے وہ ڈوب جائیں گے۔ پیرس معاہدے کے اہم نکات میں یہ بات شامل تھی کہ معاہدے میں طے کردہ اہداف کا اطلاق 2020 سے شروع ہوگا، ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایک سو ارب ڈالر سالانہ کی امداد بھی 2020 سے فراہم کی جائے گی، اس میں بتدریج اضافہ بھی کیا جائے گا۔

اس پس منظر میں پیرس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے سال 2018-19 انتہائی اہم ہیں۔ رواں سال عالمی ماحولیاتی کانفرنس (Cop 24)، 2 سے 14 دسمبر تک پولینڈ کے شہر کاؤووٹسے میں منعقد ہورہی ہے۔ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں پیرس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے کسی متفقہ مسودہ کی منظوری کے لیے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی تھائی لینڈ کے شہر بینکاک میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جو رواں مہینے 4 سے 9 ستمبر تک جاری رہی۔ بینکاک کانفرنس میں 196 ملکوں کے 2 ہزار سے زائد مندوبین شریک ہوئے۔

اس کانفرنس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ عالمی مندوبین پیرس معاہدے کے نفاذ کی تیاریوں کے لیے رہنما اصول مرتب کریں، خاص طور پر عالمی سطح پر کاربن کے بڑھتے ہوئے اخراج کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں کی جانے والی پیش قدمی کا مسودے کے علاوہ دنیا کی وہ اقوام جو سمندر کے کنارے آباد ہیں ان کی بقا اور مدد کے لیے رہنما اصول بنانے، ترقی پذیر اور غریب ملکوں کو موسمیاتی تبدیلی کی جنگ لڑنے کے لیے دی جانے والی امداد کے معاملات سرفہرست تھے، لیکن امیر ملکوں کی جانب سے روایتی بے حسی اور ہٹ دھرمی کا رویہ اپنائے جانے کے باعث بینکاک کانفرنس ناکامی سے دوچار ہوگئی۔

صورتحال کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کانفرنس کے اختتام پر ہونے والی پریس بریفنگ میں اقوام متحدہ فریم ورک کنونشن آن کلائیمیٹ چینج کی ایگزیکٹو سیکریٹری پیٹریشا نے کہا ''مسائل بہت زیادہ تھے، ان پر پیش رفت ہوسکتی تھی لیکن کچھ بھی حتمی نہیں ہوسکا''۔ انھوں نے مزید کہا کہ ترقی پذیر ملکوں کو ترقی یافتہ ملکوں کی جانب سے دی جانے والی امدادی رقوم کے بارے میں تحفظات ہیں۔ واضح رہے کہ کانفرنس میں بڑی تعداد میں وہ ممالک شامل تھے جنھوں نے پیرس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ امریکا پیرس معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کرچکا ہے لیکن وہ اب بھی ہونے والی ہر بات چیت میں ایک پارٹی کے طور پر شامل ہورہا ہے۔

ماحولیاتی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وہ ترقی یافتہ ملکوں کی جانب سے فراہم کیے جانے والے سرمایہ اور ٹیکنالوجی میں حصہ نہ لے کر پیرس معاہدے کے حوالے سے ہونے والے بین الاقوا می تعاون کو کمزور کررہا ہے جب کہ بینکاک کانفرنس کی ناکامی میں بھی امریکی کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکی ریاستیں اور عوام موسمیاتی تبدیلی کے ایجنڈے اور پیرس معاہدے کے معاملے میں بہت زیادہ تقسیم ہیں۔ کئی امریکی ریاستیں، کثیرالقومی کمپنیوں کے سی ای او، سول سوسائٹی سمیت عوام کی غالب اکثریت پیرس معاہدے کی بھرپور حمایت کررہے ہیں۔

پیرس معاہدے کا سب سے اہم جز یہ تھا کہ امیر ممالک ترقی پذیر اور غریب ملکوں کی مالی امداد کریں گے جو موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں رونما ہونے والی قدرتی آفات سے نبرد آزما ہیں۔ امیر ملکوں نے اس ضمن میں اربوں ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن غریب ممالک اس کا انتظار ہی کررہے ہیں۔

196 ملکوں کے 2 ہزار سے زائد مندوبین پیرس معاہدے میں ترتیب دیے گئے قواعد و ضوابط کو عملی جامہ پہنانے کے متفقہ مسودے کو ترتیب دینے کے لیے بینکاک میں جمع ہوئے تھے جس میں وہ ناکام ہوئے۔ اس کے فوری بعد دنیا بھر میں 90 سے زائد ملکوں میں احتجاجی مظاہرے، جلسے اور ریلیاں منعقد کی گئیں۔ اس ضمن میں سب سے بڑا مظاہرہ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہوا، جس میں شرکاء کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن، برسلز میں واقع یورپی پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے بھی زبردست احتجاج کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیووگوٹیریس کی آواز بھی اس احتجاج میں شامل رہی۔ مظاہرین پیرس معاہدے پر عملدرآمد کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔

آئندہ ہفتے امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان فرانسسکو میں منعقد ہونے والی کلائیمیٹ ایکشن سمٹ جس میں دنیا بھر سے ہزاروں گورنرز، میئر، کمپنیوں کے سربراہان، سول سوسائٹی کے رہنما جمع ہورہے ہیں، جو پیرس معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے عالمی رہنماؤں اور پالیسی سازوں پر دباؤ بڑھائیں گے۔ توقع کی جارہی ہے کہ اس سمٹ کے موقع پر بھی لاکھوں لوگ سڑکوں پر آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں گے۔

پیرس معاہدے پر دستخط کرنے والے تمام ملکوں کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ معاہدہ میں طے کیے جانے والے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے آپس میں مل بیٹھ کر اپنے اپنے عہد کے مطابق 2020 تک تمام معاہدوں کو عملی شکل دیتے ہوئے اس پر عمل درآمد شروع کردیں۔

اگر اقوام عالم 2 دسمبر سے پولینڈ میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس (Cop 24) میں کسی متفقہ لائحہ عمل پر نہیں پہنچ پاتی تو پیرس معاہدے پر کئی سوالات کھڑے ہوسکتے ہیں، اس معاہدے کو نافذ کرنے کی راہ میں بنیادی رکاوٹ وہ سرمایہ اور ٹیکنالوجی ہے جس کا وعدہ امیر ملکوں نے کیا تھا، جو غریب ملکوں کو فراہم کی جائے گی۔ یہ ممالک سیلاب، گرمی کی شدید لہر، سطح سمندر میں اضافے، سپر اسٹورم، اور ان جیسے دیگر سنگین موسمیاتی مسائل سے نبرد آزما ہیں۔

گلوبل وارمنگ کی ذمے دار اقوام کو اپنا طرز عمل تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ پیرس معاہدے کو بچانے کے لیے وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں