عالمی کرنسی وار پانچواں حصہ

یہ قابل توجہ بات ہے 6 اکتوبر 1973 کو مصر اور شام مل کر اسرائیل پر حملہ کرتے ہیں

k_goraya@yahoo.com

یورپی ملکوں میں بے روزگاری، مہنگائی اور ان ملکوں پر قرضے در قرضے لاد دیے گئے تھے۔ معاشی بحران کے دباؤ سے نکلنے کے لیے فرانس کی حکومت نے مارچ 1971 کو امریکا سے 28 کروڑ 20 لاکھ امریکی ڈالر کے بدلے سونے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈ، بیلجیم کی حکومتوں نے بھی امریکا سے ڈالروں کے بدلے سونے کی ادائیگی کا مطالبہ کردیا۔

3 مئی 1971 سے 5 مئی 1971 کے دوران جرمنی بینکوں نے مقامی کرنسی Deusche Mark عوام کو 2 ارب ڈالروں کے بدلے ادا کیے۔ لیکن پھر مقامی کرنسی اور سونے کی مانگ موجود تھی۔ لیکن جرمنی مزید ادائیگی نہ کرسکنے کی پوزیشن میں تھا، جرمنی نے اسٹاک ایکسچینج بند کردی۔ اسی طرح نیدرلینڈ، سوئٹزرلینڈ، بیلجیم، آسٹریا نے بھی اسٹاک ایکسچینجز بند کردیں۔ امریکا پر سونے کی ادائیگیوں کے یورپی ملکوں کا دباؤ بڑھتا گیا تو امریکی صدر رچرڈ نکسن نے 15 اگست 1971 سے کاغذی ڈالر سے تعلق یا گولڈ معیار کو توڑنے کا اعلان کردیا اور ساتھ ہی امریکا یورپی ملکوں کو بلیک میل کرتے ہوئے یورپی ملکوں کی اشیا جو امریکا امپورٹ کر رہا تھا ان اشیا پر (درآمدی ٹیکس) سر ٹیکس 10 فیصد لگادیا۔

بحران زدہ یورپی ملکوں نے Smithsonian Agreement کرکے ڈالر کی قیمت میں کمی کرکے 35 ڈالر سے 38 ڈالر فی اونس کردی جو 9 فیصد تھی۔ اس عالمی کرنسی مارکیٹ جنگ میں ڈالر کی قیمت گرتی گئی۔ جنوری 1972 کو 49.25 ڈالر کا ایک اونس سونا ہوگیا۔ یاد رہے جو امریکا چین کے خلاف 1950 کوریا کا اتحادی تھا اور ہمیشہ چین کا مخالف رہا تھا۔

فروری 1972 کو امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجر نے پاکستان کے راستے خفیہ دورہ کیا اور امریکی صدر رچرڈ نکسن نے ذوالفقار علی بھٹو کے توسط سے چین کا دورہ کرکے چین کے سامنے جھک کر دوستی کی بھیک مانگی تھی۔ آج وہی امریکا چین و دیگر ملکوں کو دھمکیاں اور آنکھیں دکھا رہا ہے۔ تمام ملکوں نے مل کر پھر 1971 میں Basket of Currencies یعنی ایک SDR کے برابر 1.0857 ڈالر کرکے کاروبار شروع کردیا تھا۔ عالمی سطح پر امریکی کاغذی ڈالر جو کھربوں میں امریکا نے پوری دنیا میں پھیلائے ہوئے تھے ان کی نکاسی سے امریکا ڈیفالٹ ہونے سے بچ سکتا تھا۔ امریکا نے سعودی عرب کو استعمال کرتے ہوئے تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم OPEC سے ہٹ کر خاص عربوں کی تنظیم AOPEC 1967 بنوانے میں کامیاب ہوا تھا۔ اس تنظیم کو بنوانے میں سعودی آئل منسٹر شیخ احمد ذکی یمنی نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ یہ تنظیم جون 1971 کو مکمل ہوئی تھی۔ اس دوران امریکی ڈالر مسلسل عالمی مارکیٹ میں دھکے کھا کر گرتا جا رہا تھا۔


یہ قابل توجہ بات ہے 6 اکتوبر 1973 کو مصر اور شام مل کر اسرائیل پر حملہ کرتے ہیں، اس کا جواز یہ بتایا جاتا ہے کہ اسرائیل نے جون 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں جن عرب علاقوں پر قبضہ کیا تھا ان کی واپسی کے لیے جنگ کی جا رہی ہے۔ لطف کی بات ہے کہ اس جنگ کو اقوام متحدہ کے 22 اکتوبر 1973 یہ جنگ بند کرادی تھی۔ اس اقوام متحدہ کے ادارے کی جانبداری دیکھیے کہ اس نے ہی کشمیریوں کی رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں کو آزادی سے جینے کا حق دینے کا کہا اور آج انڈیا آئے روز کشمیریوں کا قتل عام کر رہا ہے۔

امریکا اور تمام یورپ خاموش ہیں؟ اسرائیل سے جنگ کو جواز بناکر سعودی عرب اور دوسرے عرب ملکوں نے یورپی ملکوں کی تیل سپلائی میں کٹوتی شروع کردی۔ اس تیل کے بائیکاٹ نے تمام یورپی ملکوں کو پریشانی سے دوچار کردیا اور تیل کی قیمتیں بڑھانا شروع کردیں۔ 1972 میں 2.54 ڈالر کا ایک بیرل تیل تھا۔ 1976 میں تیل 1.30 ڈالر فی بیرل تھا۔ اس طرح عربوں نے 1974 تک تیل کی قیمتوں میں 796 فیصد اضافہ کردیا تھا۔ OPEC کے تمام ممالک جو 13 تھے ان کا تیل ریونیو 1970 میں 7 ارب 52 کروڑ60 لاکھ ڈالر تھا اور 1980 میں 2 کھرب 64 ارب 2 کروڑ51 لاکھ ڈالر ہوچکا تھا۔

دس سال میں 13 ملکوں کی آمدنی میں 3 ہزار 4 سو 8 فیصد اضافہ ہوچکا تھا۔ اور امریکا اس پر خوش تھا کہ تمام یورپی ملکوں سے کاغذی ڈالروں کا غیر پیداواری اخراجاتی بوجھ AOPEC کی تنظیم کو استعمال کرکے خارج کرچکا تھا اور عربوں نے پھر سارا سرمایہ امریکی بینکوں میں سرمایہ کاری کے لیے لگایا اور امریکی منڈیوں کی اشیا خریدیں۔ امریکا کا اسلحہ خریدا۔ امریکا کی خارجہ معاشی پالیسیوں نے ہمیشہ دوسرے ملکوں کو زچ کیا ہے۔ امریکی فطرت ہے کہ اس پر جوتا پڑتا ہے تو پاؤں بھی چاٹتا ہے۔

جیساکہ فروری 1972 میں چین کے قدموں میں جاکر ڈھیر ہوگیا تھا۔ لیکن اسی امریکا نے اپنے محسن ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران مئی 1972 کو پاکستانی روپے کی قیمت میں 4.762 روپے سے 11.031 روپے کا ڈالر کردیا تھا۔ یعنی روپے کی قیمت میں 132 فیصد کمی کردینے سے ملکی تمام معیشت 80 فیصد نسبت سے پیچھے چلی گئی تھی۔ بجٹ خسارے میں چلا گیا۔ صنعتی کلچر تباہ ہوگیا۔ حسب سابق ایکسپورٹرز نے غیر ملکی منڈی مقابلے میں کم سے کم ڈالر ریٹ پر اشیا فروخت کرکے اپنی ذاتی تجارت کو نفع میں بدل لیا اور ان ڈالروں پر 1972-73 میں جو 2 کروڑ ڈالر سرپلس تجارت پر ملک میں ڈالر ٹریڈنگ میں فی ڈالر 6.27 روپے یعنی 12 کروڑ 54 لاکھ روپے حاصل کرلیے تھے اور ملکی صنعتی کلچر کی لاگتیں بڑھنے سے ملکی اشیا غیر ملکی اشیا کے مقابلے میں مہنگی ہوگئیں اور مالی سال 1973-74 میں تجارتی خسارہ 3 ارب 31 کروڑ80 لاکھ روپے (33 کروڑ60 لاکھ ڈالر) ہوگیا تھا۔

(جاری ہے)
Load Next Story