حکومت کو سرکاری سطح پر فلمی میلوں کا انعقاد کرنا چاہیے

پاکستانی نژاد ہالی وڈ ڈائریکٹر ممتاز حسین کی ایکسپریس سے خصوصی گفتگو

فوٹو : فائل

ہمارے پاس ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے، بہت سے ذہین اور کام میں گہری دلچسپی رکھنے والے موجود ہیں مگر انھیں وہ ماحول نہیں مل رہا جن سے انھیں صلاحیتوں کے اظہار کا موقع مل سکے۔

فلم میکنگ کی بات کریں تو اس وقت پاکستان فلم انڈسٹری برائے نام ہی رہ گئی ہے جس کی بحالی کے لئے اگر ہم ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ وسائل اور ماحول دے دیں تو نہ صرف لوکل فلم انڈسٹری کو بحران سے نکالنے بلکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں متعارف کرا سکتے ہیں۔

ایسے باصلاحیت لوگوں میں ایک نام پاکستانی نژاد ہالی وڈ ڈائریکٹر ممتاز حسین کا بھی ہے، جنہوں نے ابتدائی تعلیم این سی اے سے حاصل کی مگر ایک آرٹسٹ ہونے کے ساتھ ان کے اندر ایک باصلاحیت ڈائریکٹر بھی تھا جس کو سامنے لانے کے لئے انھوں نے باقاعدہ کورسز کئے تاکہ وہ اس میدان میں بھی ایک ڈائریکٹر کی حیثیت سے فلم میکنگ کی بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان کو شناخت دے سکیں۔ ان دنوں وہ پاکستان کے مختصر دورے پر آئے ہوئے ہیں جہاں انھوں نے پہلی فیچر فلم ''آرٹ ایکول لو'' کی اسکریننگ کا بھی خصوصی طور پر اہتمام کیا۔



روزنامہ ایکسپریس سے ایک خصوصی نشست میں ڈائریکٹر ممتاز حسین نے کہاکہ پاکستا ن فلم انڈسٹری کی بحالی کیلئے حکومت کاتعاون ناگزیرہے۔ تکنیک کارو ں کو جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کوآرٹ فلموں کی فلموں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ وہ پاکستان کاامیج بہتر کرنے کیلئے امریکا میں مختصردورانیہ کی 6فلمیں بنا چکے ہیں۔

ان کی فیچر فلم ''آرٹ ایکول لو'' نے بین الاقوامی فلم فیسٹیولز میں کئی ایوارڈ ز حاصل کئے۔ ممتاز حسین نے بتایاکہ انھوں نے 1984ء کو این سی اے سے گرافک ڈیزائننگ میں گریجوایشن کیاجس کے بعد لندن، پیرس اور نیویارک میں آرٹ کے مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کی۔ نیویارک میں گرافک ڈیزائننگ میں ماسٹرڈگری حاصل کرنے کے بعد فلم میکنگ، ڈائریکشن، اسکرپٹ رائٹنگ، ایڈیٹنگ، تھری ڈی اینی میشن اور فلم سے وابستہ دیگر شعبوں کے الگ الگ کورسسز کئے۔ ان کاکہنا تھا کہ انھوں نے فلم میکنگ کاآغاز 2004ء میں نیویارک میں کیا۔

انھوں نے پہلی فلم ''انسائیڈ یو'' (Inside You) جلال الدین رومی پر بنائی جس کے بعد غلام عباس کے مشہور افسانہ ''اوورکوٹ'' سے ماخوذ انگریزی فلم ''پش بٹن فار'' (Push Button For)کی نمائش کی۔ نائن الیون کے بعد پاکستانیوں پر گزرنے والے حالات پر مبنی فلم ''بٹر فلائی سکریم'' (Butterfly Scream) وادی سندھ کی تہذیب پر فلم ''سول آف سولائزیشن'' (Soul of Civilization)اور اردو فلم ''یہ میرا پاکستان ہے'' ان کی کاوش ہے جن کا دورانیہ نصف گھنٹہ رکھاگیا تھا۔


ان کی 2013ء میں بننے والی پہلی فیچر فلم ''آرٹ ایکول لو'' (Art=Love)) کا دورانیہ ڈیڑھ گھنٹہ ہے جسے رواں برس مختلف فلمی میلوں میں پیش کیا جا چکا ہے اور اسے ایوارڈز سے بھی نواز اگیا جن میںفلم فیسٹیول ہالی ووڈ، نواڈا فلم فیسٹیول، لوکرین انٹرنیشنل فلم فیسٹیول سوئٹزرلینڈ،جے پور انٹرنیشنل فلم فیسٹیول بھارت شامل ہیں جبکہ دہلی انٹر نیشنل فلم فیسٹیول کیلئے نامزد ہوچکی ہے۔



انھوں نے بتایا کہ یہ ایک سسپنس تھرل فلم ہے جس کی کہانی ایک ایسے مصور (پینٹر) کی ہے کہ جو جب بھی کوئی پینٹنگ بنانے لگتا ہے تو اسے عجیب وغریب سی آوازیں آتی ہیں، جس پر وہ بے حد پریشان ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں وہ ماہر نفسیات سے بھی مل کر اسے ساری صورتحال سے آگاہ کرتا ہے، مگر کوئی بھی اس کی بات ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔یہی سسپنس فلم بینوں کو وائنڈ اَپ تک بیٹھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ممتاز حسین نے بتایا کہ وہ فلمی میلوں میںاپنی فلم کی نمائش کرنے کے بعد اسے بین الاقوامی سطح پر ریلیز کریں گے۔

وہ فلم کی لاہور، کراچی اور اسلام میں اسکریننگ کیلئے مختصر دورے پر پاکستان آئے ہیں۔ فلم کی دنیا بھر کے سینما گھروںمیں باقاعدہ ریلیزکے دو ہفتے بعد وہ آسکر ایوارڈ کی نامزدگی کیلئے فلم کی رجسٹرڈ کرائیں گے کیونکہ آسکر میں اس وقت تک فلم نہیں بجھوائی جا سکتی جب تک فلم کی سینماؤں میں دو ہفتے تک نمائش نہ ہو جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ امریکا میں رہتے ہوئے اپنے ملک کا امیج بین الاقوامی سطح پر بہتر بنانے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں، اس لئے انہو ں نے اپنی ہر فلم کا موضوع پاکستان کو بنایا،

کیونکہ فلم میکنگ ایک ایسا ذریعہ ہے کہ جس کے ذریعے آپ اپنی ثقافت سمیت سوشل ایشوز اور مسائل کو پردۂ اسکرین پر دکھا سکتے ہیں۔ میں نے اپنے پراجیکٹس میں ہمیشہ پاکستان کے سوفٹ امیج کو ہی پیش کیا اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رکھنا چاہوں گا۔ ممتاز حسین نے کہا کہ وہ کوشش کریں گے کہ سال میں ایک بار پاکستان میں آکر فلم میکنگ کے حوالے سے این سی اے کے طلبہ کو ورکشاپس دیں۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پاکستانی بہت ذہین ہیں۔ اگر حکومت تعاون کرے تو یہ ہالی ووڈ کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان فلم انڈسٹر ی کو جدید مشینری فراہم کرے اور تکنیک کاروں کو سرکاری سطح پر امریکا میں فلم کے مختلف شعبوں میںکورسسز کرائے۔

حکومت پاکستان کوچاہیے کہ وہ آرٹ فلموں کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ فلمساز زیادہ سے زیادہ آرٹ موویز بنا کر فلم بینوں کی توجہ حاصل کریں اور ا س کے علاوہ حکومت کو چاہیے کہ وہ سرکاری سطح فلمی میلے کرائے جس سے مقابلے کی فضا پیدا ہوگی اور پاکستان میں بھی انٹرنیشنل لیول کی پروڈکشن شروع ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر انھیں کبھی موقع ملا تو وہ پاکستان میں بھی فلم بنائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو ہر سا ل حب الوطنی کے موضوعات پر فلمیں بنانے کیلئے فنڈز قائم کرنے چاہیئں تاکہ بھارتی الزام تراشیوں کا منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔ انھوںنے کہا کہ ثقافت اور تہذیب کے فروغ کے لئے حکومت کو اپنی پالیسوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔n
Load Next Story