کیا پاکستان کی فلم انڈسٹری بحران سے نکل سکے گی
نئی حکومت سے فلم انڈسٹری کی توقعات پوری ہوسکیں گی
پاکستان کی فلم انڈسٹری یوں تو گزشتہ کئی سالوں سے آخری سانسیں لے رہی ہے، لیکن گزشتہ پانچ سال میں جب فلم انڈسٹری کے لوگوں کو اس بات کی امید بلکہ یقین تھا کہ عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والی پیپلزپارٹی کی حکومت پاکستان کی فلم انڈسٹری کی گرتی ہوئی اس دیوار کو ضرور سہارا دے گی۔
شاید آخری سانس لیتی ہوئی اس انڈسٹری کوآکسیجن مل جائے لیکن وقت گزرتا گیا، امیدیں دم توڑتی گئیں اور آخر کار فلم انڈسٹری کو جھوٹی تسلیاں اور وعدوں پر زندہ رکھنے والی حکومت بھی سیاست کے افق سے غائب ہو گئی۔ فلم انڈسٹری کے بہت سے غریب ورکر اور ٹیکنیشنز جو ویران اسٹوڈیو کی وجہ سے پہلے ہی فاقوں کا شکار تھے، ان کی تمام امیدیں بھی دم توڑ گئیں۔ روٹی ،کپڑا اور مکان تو دور کی بات ہے ان کے سر پر کسی نے ہاتھ بھی نہ رکھا۔
یہ پاکستان فلم انڈسٹری کی بدقسمتی رہی کہ گزشتہ حکومت نے اس کی ترقی اور بقاء کے تو اقدامات نہ کیے، ہاں بھارتی فلموں کی مکمل سرپرستی کرتے ہوئے انھیں پاکستان میں بہترین پیسہ کمانے کے مواقع دیئے۔ بھارتی فلموں کے پاکستان کے سینما پر مکمل تسلط کے بعد پاکستانی فلمی صنعت کی امیدوں پر مزید پانی پھر گیا، پاکستان میں بھارتی کلچرکو زبردست فروغ حاصل ہوا۔ 2012ء میں کوئی بھی پاکستانی فلم سینماؤں پر ریلیز نہ ہو سکی،پاکستانی سینما مالکان نے پاکستانی فلموں کے بجائے بھارتی فلموں کی نمائش کو ترجیح دی۔
گزشتہ حکومت کے دور میں کلچر پالیسی کا نفاذ نہ ہوسکا، کسی وزیر کو پاکستان کی فلم انڈسٹری سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، یہاں تک گزشتہ دور میں چند ماہ کے لیے وزارت ثقافت کے وزیر کو تو فلم انڈسٹری کے مسائل کے بارے میں کچھ بھی معلومات نہیں تھیں، پاکستان کا فلم سنسر بورڈ بھارتی فلموں کو سنسر کرکے لاکھوں روپے کمانے میں مصروف رہا، دیگر محکموں کی طرح سنسر بورڈ میں بھی کرپشن عروج پر رہی۔ غیر اخلاقی، بیہودہ، عریاں اور فحش بھارتی فلموں کو نمائش کے لیے سنسر سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا، سنسر بورڈ کی کارکردگی ہمیشہ سوالیہ نشان رہی، پاکستان کی فلم انڈسٹری کے وفد نے متعدد بار حکومت کی اعلیٰ شخصیات سے ملاقات کی۔
انھوں نے بارہا مشکلات اور مسائل سے بھی آگاہ کیا، جس میں پاکستان میں بھارتی فلموں سے ہونے والے نقصانات سے بھی آگاہ کیا گیا، وفد کو ملاقات کے بعد یقین دہانیاں کرائی گئیں کہ حکومت فلم انڈسٹری کی مشکلات سے بخوبی آگاہ ہے اور جلد تمام مسائل حل ہوجائیں گے، سابق دور کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے فلم انڈسٹری کے لیے پانچ کروڑ روپے کی گرانٹ کاا علان بھی کیا لیکن وہ صرف اعلان ہی رہا۔ یوسف رضا گیلانی تو وزیر اعظم کے عہدے سے فارغ ہوگئے لیکن اس کے بعد رات گئی بات گئی والی مثال، فلم انڈسٹری کے لوگ ایک بار پھر مایوس ہوکر خاموش ہوگئے۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں سابق وفاقی وزیر فردوس عاشق اعوان نے بھی متعدد بارفلم انڈسٹری کے وفد سے ملاقات کی اور ان سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے بلند بانگ دعوے کیے لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری کے سینئر اداکار مصطفی قریشی جوجیالوں میں شامل رہے ہیں، انھوں نے صدر مملکت سے بھی ملاقات میں فلم انڈسٹری کے مسائل پر بات چیت کی لیکن قریب ترین جیالوں نے ان کی بات آگے نہ بڑھنے دی حالانکہ صدر مملکت کا کسی حد تک تعلق بھی فلم انڈسٹری سے رہا۔
ان کے والد حاکم علی زرداری (مرحوم) نے سندھی فلمیں بنائیں۔ وہ کراچی میں مشہور سنیما بمبینو کے مالک بھی رہے لیکن اس کے باوجود فلم انڈسٹری گزشتہ حکومت کی سرپرستی سے محروم رہی۔ فلم انڈسٹری کے لوگوں کا کہنا ہے پاکستان میں سب سے زیادہ ریونیو فلم انڈسٹری سے ملتا ہے اور سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والی فلم انڈسٹری ہی ہے، جسے آج تک انڈسٹری کا درجہ نہیں دیا گیا اور نہ ہی کسی قسم کی سہولتیں دی گئی۔
پاکستان کی فلم انڈسٹری کے ایک وفد نے جس میں سنگیتا، مصطفی قریشی،بہار بیگم،سید نور اور دیگر نامور شخصیات شامل تھیں، حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ہمیں پیسے نہیں چاہئیں ۔حکومت فلم انڈسٹری کو جدید سہولتیں فراہم کر دے جس میں جدید کیمرے، لیبارٹری اور دیگر چیزیں شامل ہیں، فراہم کردی جائیں تو ہم پاکستان میں اچھی اور معیاری فلمیں بنانے میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے۔
ہم اپنی مدد آپ کے تحت سرمایہ کاری کے لیے لوگوں کو اس طرف لے آئیں گے، لیکن افسوس پاکستان کی فلم انڈسٹری کی زبوں حالی پر گزشتہ حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی، اب جبکہ پاکستان میں گزشتہ دنوں انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے پاکستانی سیاست میں اہم تبدیلی آچکی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) نے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے۔ جلد نئی حکومت بننے جارہی ہے پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لوگوں کو ایک بار پھر امید کی کرن نظر آنے لگی ہے۔ اب ان کی تمام نظریں نئی حکومت پر لگی ہوئی ہیں۔
فلم انڈسٹری کے لوگوں کا کہنا ہے میاں نوازشریف اور شہباز شریف کو ان مشکلات اور مسائل سے آگاہ کریں گے۔ ہمیں امید ہے کہ نئی حکومت پاکستان کی فلم انڈسٹری کو ایک بار پھر اس بھنور سے نکالنے میں ہماری مدد کرے گی۔ ہمیں نئی حکومت سے بہت سی توقعات اور امیدیں وابستہ ہیں۔ نئی حکومت فلم انڈسٹری کے لیے جدید سہولتوں کی فراہمی، غریب ورکرز کی داد رسی، فلم انڈسٹری کے فروغ کے لیے فلم میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے (فلم فنانس کارپوریشن) کا قیام، آسان قرضوں کی سہولت، فنکاروں کے فلاح وبہبود کے لیے فنڈ، ان کے علاج معالجہ کی سہولت اور دیگر مسائل کے حل کرنے میں بھرپور تعاون کرے گی جبکہ کلچر پالیسی کا نفاذ، فلم سنسر بوڑد کی تشکیل نو اور سنسر بورڈ میں ایماندار اور قابل لوگوں کا تقرر، وزارت ثقافت کو مکمل اختیارات کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملنا قابل ذکر باتیں ہیں جس پر عملدرآمد سے پاکستان کی فلم انڈسٹری ایک نئی زندگی مل جائے گی۔ وہ کام جو گزشتہ حکومت پانچ سال کے دوران نہ کرسکی اگر نئی حکومت نے ان تمام معاملات پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پر خصوصی توجہ دی تو یہ پاکستان میں فلم انڈسٹری کی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
شاید آخری سانس لیتی ہوئی اس انڈسٹری کوآکسیجن مل جائے لیکن وقت گزرتا گیا، امیدیں دم توڑتی گئیں اور آخر کار فلم انڈسٹری کو جھوٹی تسلیاں اور وعدوں پر زندہ رکھنے والی حکومت بھی سیاست کے افق سے غائب ہو گئی۔ فلم انڈسٹری کے بہت سے غریب ورکر اور ٹیکنیشنز جو ویران اسٹوڈیو کی وجہ سے پہلے ہی فاقوں کا شکار تھے، ان کی تمام امیدیں بھی دم توڑ گئیں۔ روٹی ،کپڑا اور مکان تو دور کی بات ہے ان کے سر پر کسی نے ہاتھ بھی نہ رکھا۔
یہ پاکستان فلم انڈسٹری کی بدقسمتی رہی کہ گزشتہ حکومت نے اس کی ترقی اور بقاء کے تو اقدامات نہ کیے، ہاں بھارتی فلموں کی مکمل سرپرستی کرتے ہوئے انھیں پاکستان میں بہترین پیسہ کمانے کے مواقع دیئے۔ بھارتی فلموں کے پاکستان کے سینما پر مکمل تسلط کے بعد پاکستانی فلمی صنعت کی امیدوں پر مزید پانی پھر گیا، پاکستان میں بھارتی کلچرکو زبردست فروغ حاصل ہوا۔ 2012ء میں کوئی بھی پاکستانی فلم سینماؤں پر ریلیز نہ ہو سکی،پاکستانی سینما مالکان نے پاکستانی فلموں کے بجائے بھارتی فلموں کی نمائش کو ترجیح دی۔
گزشتہ حکومت کے دور میں کلچر پالیسی کا نفاذ نہ ہوسکا، کسی وزیر کو پاکستان کی فلم انڈسٹری سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، یہاں تک گزشتہ دور میں چند ماہ کے لیے وزارت ثقافت کے وزیر کو تو فلم انڈسٹری کے مسائل کے بارے میں کچھ بھی معلومات نہیں تھیں، پاکستان کا فلم سنسر بورڈ بھارتی فلموں کو سنسر کرکے لاکھوں روپے کمانے میں مصروف رہا، دیگر محکموں کی طرح سنسر بورڈ میں بھی کرپشن عروج پر رہی۔ غیر اخلاقی، بیہودہ، عریاں اور فحش بھارتی فلموں کو نمائش کے لیے سنسر سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا، سنسر بورڈ کی کارکردگی ہمیشہ سوالیہ نشان رہی، پاکستان کی فلم انڈسٹری کے وفد نے متعدد بار حکومت کی اعلیٰ شخصیات سے ملاقات کی۔
انھوں نے بارہا مشکلات اور مسائل سے بھی آگاہ کیا، جس میں پاکستان میں بھارتی فلموں سے ہونے والے نقصانات سے بھی آگاہ کیا گیا، وفد کو ملاقات کے بعد یقین دہانیاں کرائی گئیں کہ حکومت فلم انڈسٹری کی مشکلات سے بخوبی آگاہ ہے اور جلد تمام مسائل حل ہوجائیں گے، سابق دور کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے فلم انڈسٹری کے لیے پانچ کروڑ روپے کی گرانٹ کاا علان بھی کیا لیکن وہ صرف اعلان ہی رہا۔ یوسف رضا گیلانی تو وزیر اعظم کے عہدے سے فارغ ہوگئے لیکن اس کے بعد رات گئی بات گئی والی مثال، فلم انڈسٹری کے لوگ ایک بار پھر مایوس ہوکر خاموش ہوگئے۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں سابق وفاقی وزیر فردوس عاشق اعوان نے بھی متعدد بارفلم انڈسٹری کے وفد سے ملاقات کی اور ان سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے بلند بانگ دعوے کیے لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری کے سینئر اداکار مصطفی قریشی جوجیالوں میں شامل رہے ہیں، انھوں نے صدر مملکت سے بھی ملاقات میں فلم انڈسٹری کے مسائل پر بات چیت کی لیکن قریب ترین جیالوں نے ان کی بات آگے نہ بڑھنے دی حالانکہ صدر مملکت کا کسی حد تک تعلق بھی فلم انڈسٹری سے رہا۔
ان کے والد حاکم علی زرداری (مرحوم) نے سندھی فلمیں بنائیں۔ وہ کراچی میں مشہور سنیما بمبینو کے مالک بھی رہے لیکن اس کے باوجود فلم انڈسٹری گزشتہ حکومت کی سرپرستی سے محروم رہی۔ فلم انڈسٹری کے لوگوں کا کہنا ہے پاکستان میں سب سے زیادہ ریونیو فلم انڈسٹری سے ملتا ہے اور سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والی فلم انڈسٹری ہی ہے، جسے آج تک انڈسٹری کا درجہ نہیں دیا گیا اور نہ ہی کسی قسم کی سہولتیں دی گئی۔
پاکستان کی فلم انڈسٹری کے ایک وفد نے جس میں سنگیتا، مصطفی قریشی،بہار بیگم،سید نور اور دیگر نامور شخصیات شامل تھیں، حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ہمیں پیسے نہیں چاہئیں ۔حکومت فلم انڈسٹری کو جدید سہولتیں فراہم کر دے جس میں جدید کیمرے، لیبارٹری اور دیگر چیزیں شامل ہیں، فراہم کردی جائیں تو ہم پاکستان میں اچھی اور معیاری فلمیں بنانے میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے۔
ہم اپنی مدد آپ کے تحت سرمایہ کاری کے لیے لوگوں کو اس طرف لے آئیں گے، لیکن افسوس پاکستان کی فلم انڈسٹری کی زبوں حالی پر گزشتہ حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی، اب جبکہ پاکستان میں گزشتہ دنوں انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے پاکستانی سیاست میں اہم تبدیلی آچکی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) نے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے۔ جلد نئی حکومت بننے جارہی ہے پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لوگوں کو ایک بار پھر امید کی کرن نظر آنے لگی ہے۔ اب ان کی تمام نظریں نئی حکومت پر لگی ہوئی ہیں۔
فلم انڈسٹری کے لوگوں کا کہنا ہے میاں نوازشریف اور شہباز شریف کو ان مشکلات اور مسائل سے آگاہ کریں گے۔ ہمیں امید ہے کہ نئی حکومت پاکستان کی فلم انڈسٹری کو ایک بار پھر اس بھنور سے نکالنے میں ہماری مدد کرے گی۔ ہمیں نئی حکومت سے بہت سی توقعات اور امیدیں وابستہ ہیں۔ نئی حکومت فلم انڈسٹری کے لیے جدید سہولتوں کی فراہمی، غریب ورکرز کی داد رسی، فلم انڈسٹری کے فروغ کے لیے فلم میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے (فلم فنانس کارپوریشن) کا قیام، آسان قرضوں کی سہولت، فنکاروں کے فلاح وبہبود کے لیے فنڈ، ان کے علاج معالجہ کی سہولت اور دیگر مسائل کے حل کرنے میں بھرپور تعاون کرے گی جبکہ کلچر پالیسی کا نفاذ، فلم سنسر بوڑد کی تشکیل نو اور سنسر بورڈ میں ایماندار اور قابل لوگوں کا تقرر، وزارت ثقافت کو مکمل اختیارات کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملنا قابل ذکر باتیں ہیں جس پر عملدرآمد سے پاکستان کی فلم انڈسٹری ایک نئی زندگی مل جائے گی۔ وہ کام جو گزشتہ حکومت پانچ سال کے دوران نہ کرسکی اگر نئی حکومت نے ان تمام معاملات پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پر خصوصی توجہ دی تو یہ پاکستان میں فلم انڈسٹری کی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔