ڈرون حملے اور زمینی حقائق

پاکستان کی نومنتخب جمہوری حکومت کو امریکی ڈرون حملوں سے پیدا شدہ سنگین داخلی صورتحال کے ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے۔

امریکا نے ڈرون ٹیکنالوجی افغانستان میں فوجیوں کی زمینی جنگ میں ممکنہ اموات سے بچائو کے لیے استعمال کی لیکن ان حملوں کا ٹارگٹ پاکستان کا قبائلی علاقہ بن گیا. فوٹو: اے ایف پی/ فائل

پاکستان کی نومنتخب جمہوری حکومت کو امریکی ڈرون حملوں سے پیدا شدہ سنگین داخلی صورتحال کے ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے ۔ اگرچہ بادی النظر میں ڈرون حملے پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کے خلاف اچانک نمودار ہونے والا مسئلہ نہیں ۔یہ جنرل پرویز مشرف کے عہد حکومت کے آخری دور میں شروع ہوئے اوراس کا تسلسل جاری ہے ۔ اب تک فاٹا کے مختلف علاقوں میں ان ڈروںحملوں میں بھاری ہلاکتیں ہوچکی ہیں جب کہ صدر بارک اوباما کے اس بیان کے بعد کہ پاکستان میں القاعدہ اور اس کے دہشت گردوں کے خلاف ڈرون حملے بدستور جاری رہیں گے پاکستان کی نو منتخب جمہوری حکومت کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں۔

اس امر میں کوئی شک نہیں کہ امریکا نے دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں ڈرون ٹیکنالوجی افغانستان میں امریکی فوجیوں کی زمینی جنگ میں ممکنہ اموات سے بچائو کے لیے استعمال کی لیکن ان حملوں کا ٹارگٹ پاکستان کا قبائلی علاقہ بن گیا، یہ علاقے چونکہ پاکستان کا حصہ ہیں، اس لیے یہ حملے پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کو متاثر کررہے ہیں، اس کے علاوہ اس حملوں سے عالمی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہورہی ہے۔پاکستان نے ان حملوں پر احتجاج بھی کیا لیکن امریکی انتظامیہ نے پاکستان جیسے قریبی اتحادی کے احتجاج کی کوئی پروا نہیں۔یوں اس مسئلے پر پاکستان اور امریکا کے درمیان عرصے سے اختلافات چلے آرہے ہیں۔ پاکستان نے ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے اقوام متحدہ کے چارٹر،عالمی قوانین اورپاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی قراردیا ہے،اس حوالے سے ن لیگ کے صدراور متوقع وزیراعظم پاکستان نوازشریف کا پیغام بھی امریکی سفارتخانے پہنچا دیا گیا ہے ۔

پاکستان کے متوقع وزیرِاعظم اورپاکستان مسلم لیگ ن کے صدر نوازشریف نے کہا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں حالیہ ڈرون حملہ اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قوانین اور پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔ یہ بات پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہی گئی جس میں نوازشریف نے پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں پرگہری تشویش اورمایوسی کااظہار کرتے ہوئے امریکی صدربارک اوباما کے خطاب کے کچھ روز بعد ڈرون حملہ کو افسوسناک قرار دیا ہے۔نواز شریف نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان بامقصد مشاورت اورباہمی تعاون ہوناچاہیے اور کسی یک طرفہ کارروائی سے گریزکیا جانا چاہیے ۔

چوہدری نثار نے کہا کہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ امریکا نے ڈرون حملے سے ان عناصرکو نشانہ بنایاجو قیام امن کے حق میں تھے۔ طالبان کی طرف سے حکومت سے مذاکرات ختم کرنے کااعلان تشویشناک ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ملکی سیاست میں خوش آئند تبدیلیوں اور آزادانہ جمہوری اہداف کی طرف بڑھتے ہوئے حکومتی ٹیم کو ابھی نئے اعصاب شکن مراحل کا سامنا ہوگا لیکن بنیادی حقائق اور ڈرون سے متعلق بحث وتمحیص میں اس بات کو نظر انداز نہ کیا جائے کہ اس عفریت کا تعلق افغانستان سے امریکی فوجیوں کے باحفاظت انخلا، افغانستان سمیت ا مریکہ کی خطے میں بالادستی ، عسکری ،تزویراتی،اقتصادی اور سامراجی مفادات اورگریٹ گیم سے ہے۔ڈرون حملے اور ان سے نمٹنے کے لیے خطے کی دھماکا خیز صورتحال ، قومی مفادات اور زمینی حقائق کو مد نظر رکھنا ضروری ہے، جذباتیت اور نعرہ بازی یا حکومت کو جو ابھی گھوڑے پر زین رکھنے کی تیاریوں میں ہے یہ کہہ کر مہمیز دینا کہ وہ ڈرون گرانے کی جوابی کارروائی کرے مناسب نہیں ہے۔


اس وقت جوش نہیںہوشمندی،دور اندیشی، وژن اور معاملہ فہمی سے کام لیاجائے ۔ ڈرون حملے جرگے بلا کر روکے نہیں جاسکتے ، اس کے لیے حکمراں درست اسٹریٹجی اور جرات مندانہ حکمت عملی وضع کریں ، ڈرون کے غیر قانونی اور غیر انسانی پہلوئوں کو مد نظر رکھتے ہوئے عالمی عدالت سے رجوع کرنے کا سوچیں ، سیاست دان پوائنٹ اسکورنگ نہ کریں۔ ٹھوس کام کرتے دکھائی دیں ،ورنہ امریکا تو گن بوٹ ڈپلومیسی اور '' گاجر اور چھڑی'' کی حکمت عملی کا عادی ہے۔۔ایک اطلاع کے مطابق نگراں وفاقی وزیر قانون احمر بلال صوفی نے کہا ہے کہ کوئی عالمی قانون ڈرون حملوں کی اجازت نہیں دیتا، پاکستان کے قانونی موقف پر تفصیلی پالیسی تیار کی ہے جو وزرات خارجہ کے حوالے کی جا رہی ہے۔امریکی وزرات خارجہ نے ڈرون حملوں کی جو قانونی قانونی توجیہات دی ہیں، اس کے جواب میں پالیسی تیار کی گئی ہے۔ در اصل امریکیوں کو قائل کرنا چاہیے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی مدد کرے ۔ڈرون سے اس کے خلاف نفرت بڑھتی جارہی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا یہ استدلال کہ امریکا القاعدہ اور طالبان کے ساتھ حالت جنگ میں ہے،اس لیے ڈرون حملے قانونی حیثیت رکھتے ہیں۔کیا کیری کو قائل کرنا مشکل ہے کہ پاکستان بھی تو حالت جنگ میں ہے، اس کی قربانیوں کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔نواز شریف یقیناً ڈرون مسئلے پر ابہام،تضاد اور تذبذب کے دلدل سے قوم اور سیاسی رہنمائوںکو نکالنے کی سعی کریں گے۔ یہ سرحدی جھڑپوں کا معاملہ نہیں پاکستان پر مسلط کردہ ایک لرزہ خیز تھیٹر آف وار ہے۔یہ جنگ پاکستان میں لائی گئی تو پھر کچھ نہیں بچے گا۔ وقت یہی ہے کہ ڈرون کے اونٹ کو پاکستانی خیمے میں گھسنے سے روکا جائے ۔ یہ کام نواز شریف کو کرنا ہی ہوگا ،قوم ان کے پیچھے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہوگی کیونکہ پاکستان امریکی پالیسیوں کی زد میں ہے ۔ امریکا کی حد تک درست ہوگا کہ ڈرون حملوں کے ذریعے صرف ان افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو امریکی سلامتی کے لیے انتہائی خطرہ ہوں ۔ان حملوں میں القاعدہ کے درجنوں، تربیت یافتہ کمانڈو، عہدیدار اور بم بنانے والے مارے جا چکے ہیں۔

ڈرون حملوں سے ہزاروں جانیں بچ گئیں جب کہ امریکی طیاروں ، ٹرانزٹ نظام اور افغانستان میں موجود امریکی اور یورپی فوجیوں کے خلاف کئی منصوبے ناکام بنائے جا چکے ہیں۔تاہم پاکستانی معیشت اور ہزاروں انسان دہشت گردی کی نذر ہوچکے ہیں ،بلوچستان میںشورش برپاہے۔خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کی دسترس سے کوئی محفوظ نہیں ۔کراچی مقتل بن چکا ہے، کراچی میں بدامنی کی لہربرقرار ہے،فائرنگ کے واقعات کے دوران ممتاز ماہرتعلیم اظفر رضوی سمیت مزید10افراد ہلاک جب کہ مختلف علاقوں سے6 لاشیں بھی ملیں۔ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس مشیرعالم نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ وقت آگیاہے کہ سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی اپنی ذمے داریاں نبھائیں، روشنیوںکا شہراس حال کوپہنچ گیاہے کہ ہم سب سہمے ہوئے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ شہر میں بے چہرہ قاتل گھوم رہے ہیں جب کہ ان قاتلوں سے سب آشناہیں،اگرہم اب بھی مصلحتوں سے کام لیتے رہے تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

ادھر پاکستان اورامریکا کے مابین سیکیورٹی، استحکام اورہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاملات پربات چیت ہوئی۔امریکی ہتھیاروں پرکنٹرول اورعالمی سیکیورٹی کے متعلق امریکی قائم مقام انڈرسیکریٹری روزگوٹ موئیلر اور اقوام متحدہ میں مستقل پاکستانی مندوب اورجنیوا میں دیگرعالمی تنظیموں نے پاکستان کے سفیر ضمیر اکرم کی مشترکہ سربراہی میں امریکا پاکستان سیکیورٹی اسٹرٹیجک استحکام اور عدم پھیلا ؤکے حوالے سے ورکنگ گروپ کا اجلاس یہاں ہوا ۔ اسی نوعیت کی نتیجہ خیز کثیر جہتی بات چیت ڈرون حملوں کی فوری روک تھام کے حوالے سے امریکیوں سے شروع کی جانی چاہیے تاکہ خطے میں امن قائم ہو اور خونریزی، دہشت گردی اور لاقانونیت سے پاکستان کی جان چھوٹے۔
Load Next Story