نیا ہجری سال 1440

مشکل کی اس گھڑی میں اپنے دینی بھائیوں کا بھرپور ساتھ دینا پوری دنیائے اسلام کا فرض بنتا ہے۔


Shakeel Farooqi September 18, 2018
[email protected]

LONDON: اسلامی ہجری سال 1440 کا آغاز ایسے پر آشوب دور میں ہو رہا ہے، جب عالم اسلام شدید مصائب میں گھرا ہوا ہے اور بے شمار مشکلات سے دوچار ہے۔ دنیا کے مختلف علاقوں اور خطوں میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ مسلمان خود بھی گروہوں ، فرقوں اور ذاتوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ بقول اقبال:

فرقہ بندی ہے کہیں اورکہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں مسلمان زوال کا شکار نہیں۔ شام میں مسلمانوں کا قتل عام عرصہ دراز سے جاری ہے جس کے رکنے کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے۔ فلسطینی مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں جس پر عرب لیگ اور او آئی سی نے بھی چپ سادھی ہوئی ہے جب کہ اقوام متحدہ محض تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ انسانی حقوق کے ٹھیکیدارگونگے بنے ہوئے ہیں۔ لے دے کر صرف پاکستان ہی رہ گیا ہے جو مظلوم فلسطینی مسلمان بھائیوں کی حمایت میں اپنی آواز بار بار بلند کرتا رہتا ہے۔

اس سے بڑھ کر بھلا اورکیا ہوسکتا ہے کہ اس نے آج تک یہودیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جس کی پاداش میں یہودی لابی اس کے خلاف نت نئی سازشیں تیار کرتی رہتی ہے اور اسے بدنام کرنے کا کوئی موقع اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دیتی۔ پاکستان کے بہت سے مسائل کی جڑ بھی یہی یہودی لابی ہے جسے امریکی انتظامیہ پر پورا غلبہ حاصل ہے۔ اقوام متحدہ اس کے مختلف ادارے بھی اسی لابی کے اشاروں پرکام کرتے ہیں ۔

بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ کشمیرکی صورتحال بھی کم وبیش فلسطین جیسی ہے۔ جہاں بھارت امریکی اور یہودی گٹھ جوڑ کی شے پر مظلوم اور نہتے کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے اور ایک سوچے سمجھے مذموم منصوبے کے تحت ان کی ظالمانہ نسل کشی کر رہا ہے۔ کشمیرکی آزادی کی جدوجہد کرنے والے کشمیری نوجوانوں کو نہایت بے دردی کے ساتھ انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بناکر شہید کیا جا رہا ہے اور ظلم و ستم کی ایک گھناؤنی اور مکروہ تاریخ رقم کی جا رہی ہے، لیکن جذبہ حریت سے سرشار کشمیری نوجوان بھارتی جبروتشدد کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے ہر آن پہلے سے زیادہ پرعزم ہوکر نعرہ زن ہیں۔

باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم

سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا

اس کے علاوہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں پر بھی عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے اور گؤ رکھشا کے نام پر انھیں آئے دن شہید کیا جا رہا ہے۔ نہ ان کی جان محفوظ ہے اور نہ ان کا مال۔ ان کے ساتھ اچھوتوں سے بھی بدتر سلوک کیا جا رہا ہے۔

ان کی حیثیت تیسرے درجے کے شہری سے بھی کم تر ہے۔ روزگارکے دروازے ان پر بند کردیے گئے ہیں۔ بھارت کی دوسری بڑی اکثریت ہونے کے باوجود فوج جیسے اہم اداروں میں ان کی نمایندگی صفرکے برابر ہے۔ بھارت کے دیگر سرکاری محکوموں کا بھی کم و بیش یہی حال ہے۔ ان محکموں میں مسلمانوں کا بھرتی ہونا محال ہے۔ سچ پوچھیے تو بھارت کا جمہوری نظام اور اس کا سیکولر ازم سب سے بڑا فراڈ ہے ۔ اس کھلے فراڈ کے بارے میں اس کے سوائے اورکیا کہا جاسکتا ہے:

دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

انگریزی کی یہ کہاوت کہ Give the dog a bad name and then kill him بھارتی مسلمانوں پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔ انھیں ٹارگٹ کرنے کے لیے ان کے خلاف کوئی بھی الزام لگایا جاسکتا ہے۔ حتیٰ کہ انھیں '' پاکستانی ایجنٹ '' بھی کہہ دیا جاتا ہے۔

برصغیرکی تقسیم کے بعد بھارت میں ہونے والے مسلم کش فسادات ہندو تنگ نظری کا سب سے بڑا ثبوت ہیں۔ پاکستان کا معرض وجود میں آنا بھی اسی تنگ نظری کا نتیجہ ہے ۔ اب یہ تنگ نظری ''ہندو توا '' کے گھناؤنے نعرے کی صورت میں بالکل برہنہ ہوکر سامنے آچکی ہے ۔ ''ہندو توا'' کے پرچارک ہندو بنگالی لکھاری بن کم چندر چٹر جی نے اپنی مذموم تصنیف ''آنند مَٹھ'' میں جو ہرزہ سرائی مسلمانوں کے خلاف کی تھی، وہ اب بھارت میں حقیقت کا روپ دھار کر ننگی ناچ رہی ہے۔

سال گزشتہ 1439 ہجری دنیا بھرکے مسلمانوں کے لیے زبوں حالی کا سال تھا ۔ اس سال مسلمانوں پر زمین مزید تنگ کردی گئی۔ میانمار (برما) کے مسلمانوں پر اس سال ہولناک مظالم ڈھائے گئے ۔ روہنگیا مسلمانوں کو ہزاروں کی تعداد میں شہید کیا گیا اور ان کی خواتین کے ساتھ انسانیت سوز زیادتی اور بدسلوکی کی گئی، مظالم کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ جن لوگوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لے رکھی ہے وہ بھی پناہ گزیں کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان بے چاروں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، ان کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔

سب سے زیادہ قابل رحم حالت ان بے چاری زچہ عورتوں کی ہے جو زیادتی کا نشانہ بنائی گئی ہیں۔ ان مظلوموں کا کوئی والی و مددگار نہیں۔ ان کے لیے جینا بھی عذاب ہے۔ نئے ہجری سال میں بھی روہنگیا مسلمانوں کو امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔ عالم اسلام بھی ان کے ساتھ بے نیازی کا برتاؤ کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کو جنگی جرائم تو قرار دے دیا لیکن ان مظلوموں کی آبادکاری پر تاحال کوئی توجہ نہیں دی ہے۔

یہ زبانی جمع خرچ لاحاصل اور بے سود ہے۔ محض اخلاقی حمایت سے ان بے آسرا لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ ان مظلوموں کو دامے، درمے، سخنے ہر طرح کی مدد کی ضرورت ہے۔ انھیں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے دو وقت کی روٹی، تن ڈھانپنے کے لیے کپڑوں اور سر چھپانے کے لیے سائبان درکار ہے۔ انھیں اب تک جو امداد موصول ہوئی ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ بقول اقبال:

سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم

بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے

مشکل کی اس گھڑی میں اپنے دینی بھائیوں کا بھرپور ساتھ دینا پوری دنیائے اسلام کا فرض بنتا ہے کیونکہ مسلم امہ کی حیثیت ایک جسد اور خاندان جیسی ہے، مگر نہایت افسوس کا مقام ہے کہ مسلم دنیا نے اپنے ان بھائیوں کے حوالے سے انتہائی بے مروتی اور بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے ۔

البتہ پاکستان اور ترکی دو ایسے مسلم ممالک ہیں جنھوں نے اس معاملے میں ہمدردی کا مظاہرہ کیا ہے جس میں ترکی کے صدر اردگان کی جانب سے کی گئی، پیش رفت قابل ذکر اور لائق تحسین ہے۔ امید ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان بھی ترکی کے صدر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے روہنگیا مظلومین کی امداد کے سلسلے میں پیش قدمی کریں گے۔

پاکستان کے لیے مدینے کی ریاست کو رول ماڈل قرار دینے والے وزیر اعظم عمران خان سے یہ توقع کرنا فطری امر ہے۔ پاکستان کی نئی حکومت کی یہ بھی خواہش ہے کہ دو اہم برادر مسلم ممالک سعودی عرب اور ایران کے درمیان موجود فاصلے اس کی بے لوث ثالثی کے ذریعے قربتوں میں بدل جائیں، اگر اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ایسا ممکن ہوگیا تو نئے ہجری سال کے حوالے سے یہ ایک بہت بڑی تاریخی پیش رفت ہوگی۔ اس سے نہ صرف متعلقہ ممالک کو فائدہ حاصل ہوگا بلکہ پوری مسلم امہ کو بڑی زبردست اور غیر معمولی قوت اور بالادستی حاصل ہوگی جس کے نتیجے میں علامہ اقبال کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے میں بھی بڑی مدد حاصل ہوگی:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشغر

آئیے ہم سب مل کر خلوص دل سے اپنے رب سے یہ دعا کریں کہ یہ نیا ہجری سال وطن عزیز پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا سال ہو اور اس سال میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ بحال ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔