کراچی کے تشویشناک رہائشی مسائل
سرکاری زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ سے کروڑوں روپے رشوت لینے والے تو بالکل محفوظ ہیں۔
کراچی جس طرح ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اس طرح شہر قائد میں رہائشی مسئلہ بھی انتہائی تشویشناک صورتحال اختیار کرچکا ہے اور شہر کنکریٹ کا ایک وسیع جنگل بن کر رہ گیا ہے، جس میں سب سے اہم کردار سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی۔ (کے ڈی اے) سابقہ سٹی حکومت اور بلدیہ عظمیٰ کا رہا ہے۔ مصطفیٰ کمال کی سٹی حکومت میں جہاں شہر میں ترقیاتی کام ہوئے تھے وہاں رہائشی لاقانونیت کا جو ریکارڈ قائم ہوا تھا اس کی سزا بے گناہ لوگ اب بھگت رہے ہیں اور چائنا کٹنگ کے نام پر جو لوٹ کھسوٹ کی گئی تھی ۔
اس کے نتیجے میں اربوں، کھربوں روپے کمالینے والے مزے میں رہے کیونکہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی وہ محفوظ ہے اور بہت کم لوگ گرفت میں آئے ، اکثریت نے اپنی سیاسی وفاداری تبدیل کرکے کہیں سے تحفظ حاصل کرلیا اور ڈسے ہوئے مظلوم اب ناحق سزا بھگت رہے ہیں۔
کراچی کے رفاحی اور فلاحی پلاٹوں پر غیر قانونی بات نہیں جو دو تین عشروں کے دوران ناجائز قابضین کے ہتھے چڑھے۔ بعض ایس ٹی پلاٹ جہاں اسکول، اسپتال، کالج، پارک، پلے گراؤنڈ قائم ہونا تھے وہ سرکاری اداروں سندھ کچی آبادی، بلدیہ عظمیٰ کراچی، سندھ ریونیو بورڈ، کے ڈی اے ودیگر کے لیز کرنے سے رہائشی علاقوں کی شکل اختیار کرچکے ہیں جہاں بجلی، گیس کے کنکشن قانونی طور پر لگوائے گئے اور وہ متنازعہ علاقوں میں قانونی بھی بھاری رشوت کے عوض کرائے گئے۔
واٹر بورڈ نے رشوت اور سیاسی اثر پر وہاں فراہمی و نکاسی آب کی لائنیں بھی بچھائیں۔ ایسے علاقوں میں تین عشروں قبل قبضہ یا بغیرکاغذات خریدے گئے، ہزاروں روپے کے چھوٹے پلاٹ لاکھوں کے اور بڑے پلاٹ کروڑوں روپے کی مالیت کے ہوچکے ہیں۔ مرحوم جام صادق پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت میں جب وزیر بلدیات تھے تو انھوں نے سرکاری پلاٹ فیاضی سے عطا کیے تھے اور ایس ٹی پلاٹ سرکاری اداروں کے حوالے کیے تھے اور باقی کسر سرکاری اداروں کے افسروں نے پوری کردی تھی۔ اس وقت کی حکومت نے کچی آبادیوں کو مستقل کرایا تھا، شہر کی لیز آبادیوں میں بے شمار ایسے گوٹھ موجود ہیں جو بعد میں سرکاری اداروں نے لیز کردیے تھے۔
حال ہی میں چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کراچی کے دورے میں کورنگی میں مکانات کی مسماری روک دی ہے جس کے مکینوں نے چیف جسٹس کی آمد پر پر احتجاج کیا تھا، جس پر چیف جسٹس نے سائلین سے درخواستیں لینے کا حکم دیا تھا اور متاثرین سے چیمبر میں ملاقات بھی کی تھی۔ سائلین نے فاضل چیف جسٹس کو بتایاکہ کے ڈی اے نے نوٹس دیے ہیں کہ یہ گھر چائنا کٹنگ پر بنے ہوئے ہیں۔ سائلین کا کہنا تھا کہ اب یہ گھر غیر قانونی بتائے جارہے ہیں تو پھر ہمیں زمین کی الاٹمنٹ کیوں دی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے معاملے کا تفصیلی جائزہ لینے اور قانون کے مطابق بنے گھروں کو مسمار نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی اور کے ڈی اے کو مسماری سے روک کر رپورٹ طلب کرلی ہے۔
ایک ماہ میں متعلقہ محکموں سے اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ یہ معاملہ کراچی میں صرف کورنگی کا نہیں ہے بلکہ سپریم کورٹ کے حکم پر کے ڈی اے، کے ایم سی، ایس بی سی اے اور متعلقہ ڈی ایم سیز نے بھی غیر قانونی طور پر بنائے گئے شادی ہال بڑی تعداد میں ختم کرائے ۔ چند سال قبل ایم کیو ایم کی دشمنی میں اس وقت کے وزیر بلدیات شرجیل میمن نے شادی ہال اپنی موجودگی میں مسمار کرائے تھے جو ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی ملکیت تھے ۔ ان رہنماؤں کو توقع تھی کہ وہ وقت آنے پر انھیں بحال کرالیںگے مگر ایسا نہیں ہوا اور عدالتی حکم پر گزشتہ سال کے آخر میں مزید شادی ہال گرائے گئے تھے اورکراچی کے مختلف علاقوں میں لوگوں کے گھر گرانے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور اب بھی بہت سی آبادیاں ایسی ہیں جن کو مسماری کا خوف ہے حالانکہ ان میں بہت سے آبادیاں مختلف محکموں کی طرف سے لیز ہیں ۔
کراچی کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم اور دیہی علاقوں میں پیپلزپارٹی والوں نے سرکاری اراضی پر غیر قانونی آبادیاں قانون کی آڑ میں تعمیر کرائیں وہاں تعمیرات کرائی دیہی علاقوں میں گوٹھوں کے نام پر تعمیرات ہوئیں مگر اب شہر میں ایسے علاقے چائنا کٹنگ قرار دے دیے گئے ہیں۔ دیہی علاقوں میں ایسا نہیں ہے کیونکہ وہاں پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک ہے جہاں گوٹھ مستقل کردیے گئے مگر شہری علاقوں میں جہاں ایم کیو ایم کا ووٹ بینک تھا وہاں ایم کیو ایم کے افسروں سے بھرے ہوئے سرکاری اداروں کے ڈی اے، کے ایم سی وغیرہ میں صرف مال کمانے پر توجہ مرکوز رکھی گئی۔
گھر و پلاٹ کی خریداری کے لیے متعلقہ سرکاری اداروں کی تصدیق ضروری ہوتی ہے اور تصدیق کرنے والے اداروں میں وہی لوگ تصدیق کرتے تھے جنھوں نے چائنا کٹنگ کے غیر قانونی پلاٹ جعلی طور پر قانونی بناکر فروخت کراکر مال بنایا تھا۔
سرکاری زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ سے کروڑوں روپے رشوت لینے والے تو بالکل محفوظ ہیں اور ان کے ہاتھوں غیر قانونی پلاٹ لاکھوں روپے خرچ کرکے حاصل کرکے وہاں گھر بنانے والے عام لوگ عذاب میں آئے ہوئے ہیں جب کہ قانونی کارروائی تو جعلی الاٹمنٹ کرنے والوں کے خلاف ہونی چاہیے کیونکہ اصل ملازم اور غیر قانونی کاموں کے ذمے دار وہی افسران ہیں، غریب عوام نہیں کہ الاٹمنٹ کے باوجود ان کے گھر مسمار ہوں۔