ملنگ چارلی کی باتیں اور یادیں

یہ زندگی کا عکس ہے جس دن رقص کرنا چھوڑ دیا آپ سمجھ لو ملنگ چارلی کا وہ آخری دن ہوگا۔

shabbirarman@yahoo.com

جس دن رقص کرنا چھوڑ دیا آپ سمجھ لو ملنگ چارلی کا وہ آخری دن ہوگا ۔ ملنگ چارلی نے یہ الفاظ ایک انٹرویو میں کہے تھے شاید انھوں نے بیماری کی وجہ سے رقص کرنا چھوڑ دیا تھا تبھی اس کی موت کی خبر مجھے ملی ، جی ہاں !علی اکبر المعروف ملنگ چارلی اب اس دنیا میں نہیں رہے ، ہفتہ15ستمبر 2018ء کو96سال کی عمر میں اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔ وہ کراچی اور لیاری کے مقبول ترین کامیڈین تھے۔

ملنگ چارلی1922ء میں لیاری کے علاقے کلاکوٹ میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے ان کے والد مزدور تھے جو بعد میں انڈین نیوی میں جمعہ دار مقرر ہوئے ۔ ملنگ چارلی تعلیم کے کسی مرحلے سے گزر نہ سکے وہ بے چین روح کی طرح بزرگوں کی درگاہوں اور خانقاؤں میں گھوم پھر کر وہ ایک نئی زندگی سے روشناس ہوا جو صوفیانہ اور فقیرانہ رنگ لیے ہوئے تھے ، یہیں سے فقیروں اور ملنگوں کے رقص سے متاثر ہوا ، چند عرصے بعد اس نے محسوس کیا کہ کسی بھی قسم کی موسیقی کی لے سے اس کے پاؤں خود بہ خود تھرکنے لگ جاتے تھے،ان ہی دنوں علی اکبر کو ملنگ چارلی کا لقب ملا اور مرتے دم تک وہ اسی نام سے پکارے اور پہچانے جانے لگے تھے ۔

ابتدائی دنوں میں اس نے محلے کے چند لڑکوں کے ساتھ مل کر شادی بیاہ کی محفلوں میں لوگوں کو تفریح بہم پہنچانا شروع کیا ، رقص کے ساتھ ساتھ اس نے لوگوں کو ہنسا نے کے لیے عجیب و غریب حرکتیں کرنے کا انداز اپنایا جہاں سے اس کے لقب کے ساتھ ایک اور لقب چارلی کا اضافہ ہوا جو اس وقت امریکا کے لازوال مزاحیہ فنکار چارلی چپلن سے متاثر ہوکر رکھا گیا تھا ۔ملنگ چارلی نے اپنے دوستوں غلام حسین اور شریف کے ساتھ مل کر چارلی گروپ بنایا جو بہت مقبول ہوا ۔ لیاری میں ہر خوشی کی تقریب میں چارلی گروپ کو بلایا جاتا تھا جو رقص اور مزاحیہ خاکے پیش کرتے تھے اور خوب داد وصول کرتے تھے ،اس گروپ کی شہرت شہر کراچی کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گئی ۔

ان دنوں ملنگ چارلی کی دوستی جون نامی ایک کرسچن سنگر سے ہوئی پھر اسے ایک وسیع حلقہ مل گیا جہاں سے اس نے ویسٹرن میوزک سے آشنائی حاصل کی اور مغربی انداز کے رقص کے رموز سیکھے جس میں اس نے مغربی ڈانس میں مزاحیہ پہلو شامل کیا جس سے اس کو Domic Dancerکا لقب ملا ۔علاوہ ازیں اس نے کلاسیکل رقص کے رموز بھی سیکھے ۔ اس طرح ملنگ چارلی نے بیک وقت بلوچی ، کلاسیکل ،ویسٹرن اور علاقائی فوک ڈانس میں مہارت حاصل کرنے کے علاوہ مزاحیہ فنکار کی حیثیت سے اپنا لوہا منوایا ۔ملنگ چارلی نے ایک ملاقات میں بتایا تھا کہ 1957ء میں کینیا (افریقہ ) کے شہر نیروبی میں آزاد آرٹس کی جانب سے سٹی ہال میں ایک ڈانس و میوزک ورائٹی پروگرام ہوا تھا جس میں پاک و ہند کے ٹاپ کے فنکاروں نے حصہ لیا تھا پاکستان سے جو فنکار گئے تھے۔

ان میں میں (ملنگ چارلی ) بھی شامل تھا جہاں میں نے کلاسیکل ڈانس کے ساتھ ساتھ بلوچی لیوا اور مزاحیہ ڈانس بھی پیش کیا تھا جس کو بیحد سراہا گیا تھا اس دوران نیروبی کے سٹی ہال میں انڈین کلاسیکل ڈانس کے مہا گروگوپی کرشن کے قدم چھونا چاہا تو گرو نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پہلے تو آشیر باد دی اور کہا کہ چارلی میرے ساتھ انڈیا چلو ، بہت کچھ حاصل کروگے ، میں (ملنگ چارلی ) نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں پاکستان میں ہی ٹھیک ہوں بس ! آپ کی آشیر باد ہی میرے لیے کافی ہے ۔ ملنگ چارلی نے اپنی یادداشت میں کہا تھا کہ کراچی میں پہلی نمائش گرومندر کے قریب لگی تھی اور اب یہ علاقہ پرانی نمائش کے نام سے معروف ہے ۔

اس نمائش کے دوران کراچی کے فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا میں نے بھی یہاں مختلف آئٹمز پیش کیے تھے یہیں سے کراچی کے مشہور فلم ہدایتکار شیخ حسن سے ملاقات ہوئی وہ مجھے ایسٹرن اسٹوڈیو لے چلا جہاں سے میری فلمی کیریئر کا آغاز ہوا ، کورس کے گانوں میں رقص کے علاوہ کچھ مزاحیہ اور ایکسٹرا کی حیثیت سے کردار ملا اس طرح کراچی اور لاہور کی کئی فلموں میں کام کیا ۔ ملنگ چارلی نے یہ بھی بتایا کہ انھوں نے بر صغیر کے پس منظر میں بننے والی ہالی وڈ کی فلم بھوانی جنکشن میں بھی کام کیا تھا میری دوستی پاکستان کے ممتاز بلوچ فلم اسٹار ساقی سے تھی جو مجھے لاہور لے گئے تھے جہاں ہم دونوں نے اس فلم میں کام کیا تھا اس فلم میں ہمارا کردار ایکسٹرا ہی تھا کبھی ہمیں لاہور ریلوے اسٹیشن کے قریب پٹریوں پر سلادیتے تھے ۔


کبھی ہم سے نعرہ بازی کرواتے تھے ، ساقی کو سات زبانوں پر عبور حاصل تھا وہ انگریزی روانی سے بولتے تھے ساقی کا کردار ایک مزدور لیڈرکا تھا، ہمیں اس فلم میں روز پانچ روپے ملتے تھے ، یہ سلسلہ دومہینے تک چلتا رہا ۔ ملنگ چارلی نے امریکا ، بھارت ، انگلینڈ ، کینیا ، مالٹا ، زنجبار، روس ، اٹلی اور بنگلہ دیش میں اپنے فن کا شاندار مظاہرہ کیا تھا اس نے پہلی سندھی فلم عمر ماروی کے علاوہ متعدد اردو اور سندھی فلموں میں کام کیا تھا جن میں شالا مار ، بھروسہ ، دل نے تجھے مان لیا ، کلب ڈانسر ، تیرے بغیر ، انقلاب ، اف یہ بیویاں ، ان داتا ، واہ رے زمانہ ، ہیرا پتھر ، سمندر ، بنجارن ، گاتا جائے بنجارہ ، مس 56، انوکھی ،دھڑکن ،جاگ اٹھا انسان ، دل والے ، بارے بجے ، محبوب مٹھا ، مہران جا موتی اور کئی دوسری فلمیں شامل ہیں۔

مزاحیہ اداکارلہری اور مزاحیہ اداکار نرالا کے ساتھ کے ساتھ مل کر اننوں نے کئی مزاحیہ کردار ادا کیے تھے۔ اس کی آخری فلم مہران جا موتی سندھی زبان میں تھی جو 1988ء میں ریلیز ہوئی تھی اس فلم میں انھوں نے کورس گیت گایا اداکاری کی اور ڈانس ماسٹر کی خدمات بھی دی اس فلم کے ہدایتکار شیخ حسن مرحوم تھے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس فلم میں راقم الحروف نے حمیرا چنا کے ہمراہ ایک کورس گانا بھی گایا تھا جس کے بول تھے اچ کلاچی ، کلاچی ڈس کلاچی ۔ یہ حمیرا چنا کا پہلا گانا تھا جس کی ریکارڈنگ نیشنل اسٹوڈیو کراچی میں ہوئی تھی۔ اسی فلم میں راقم نے ثانوی کردار بھی ادا کیا تھا ۔ ملنگ چارلی کا کہنا تھا کہ رقص زندگی کا عکس ہے موسیقی کی لے سن کر ہاتھ پاؤں میں جنبش سی پیدا ہوجاتی ہے ،یہی زندگی ہے ۔

ملنگ چارلی نے بتایا تھا کہ میں بہت ہی غریب ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہوں میرے والد مزدور تھے لیکن مجھے تعلیم دلوانا چاہتے تھے تاکہ میں بہتر روزگار حاصل کرسکوں لیکن میرے مقدر میں کچھ اور لکھا تھا دو تین جماعت تک ہی پڑھ پایا آج تک پچھتاوا ہے کہ کیوں اپنی تعلیم مکمل نہیںکی ، لیاری کے بچوں کی طرح میں نے بھی گلیوں میں فٹبال کھینا شروع کیا لیکن ایک میچ میں پاؤں میں موچ آنے کی وجہ سے اس کھیل سے دستبردار ہوا ۔ آزاد مزاج تھا ، خوب گھومتا پھرتا تھا کبھی مزاروں پر کبھی درگاہوں پر ، میں خود بھی نہیں جانتا تھا مجھے کس چیز کی تلاش ہے ۔

قدرت پہلے مجھے ملنگوںکی دنیا میں لے گیاجہاں رہ کر ملنگ بن گیا پھر چارلیوں میں رہ کر چارلی بن گیا اور پھر ملنگ اور چارلی نے مل کر ایک ایسے فرد کو جنم دیا جس نے پریشان حال اور مصیبت زدہ لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ لانے کے لیے اچھل کود کو اپنا پیشہ بنایا ۔ فلم ڈائریکٹر شیخ حسن اور میڈم آزوری کی نظر مجھ پر پڑی تو انھوں نے شادی کی محفلوں سے نکال کر اسٹوڈیو پہنچا دیا ، فلموں کے ساتھ ثقافتی شو میں بھی حصہ لیتا رہا پھر اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور عکسی مفتی کی مہربانی سے دنیا کے کئی ملکوں کی سیر کی اور پاکستان کی نمایندگی کرتے ہوئے دیگر فنکاروں کے ساتھ اپنے فن کے نمونے پیش کیے بڑی پزیرائی ملی ۔

ملنگ چارلی نے بتایا تھا کہ میری خوش قسمتی تھی کہ اسلام آباد کی ایک تقریب میں عظیم رہنما اور اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ڈانس پروگرام کے بعد میرے کندھے پر تھپکی دی اور کہا کہ ویل ڈن چارلی ۔ عکسی مفتی صاحب برابر میں کھڑے تھے جو اسلام آباد میں ثقافتی ادارے کے سر براہ تھے بھٹوصاحب نے ان کو میرے بارے میں کچھ بتایا اور اس کے بعد سے ہر پاکستانی طائفہ جب ملک سے باہر جاتا تھا میں اس میں شامل ہوتا تھا ۔ میری مزید خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ کلاسیکل رقص کے مایہ ناز استاد گوپی کرشن سے کینیا میں ملاقات کی سعادت حاصل کی ، پاکستان میں کلاسیکل موسیقی رقص کے مایہ ناز استاد غلام حسین کھتک کی شاگردی میں کچھ کلاسیکل چیزیں سیکھیں ۔

ایک مرتبہ مجھے شرارت سوجھی میں نے ان کے سامنے مغربی طرز پر کلاسیکل رقص پیش کیا ۔ وہ غصے میں آگئے اور چھڑی لے کر میرے پیچھے بھاگے ۔ کیا زمانہ تھا ۔ ایک سوال کے جواب میں ملنگ چارلی نے کہا تھا کہ ملنگ چارلی نہ ریٹائرڈ ہوا ہے اور نہ ریٹائرڈ ہوگا جہاں کہیں موسیقی سنتا ہوں تو چلتے چلتے اور بیٹھے بیٹھے بھی ہاتھ پاؤں تھرکنے لگتے ہیں رقص ایک نہ ختم ہونے والی حرکت ہے ، یہ زندگی کا عکس ہے جس دن رقص کرنا چھوڑ دیا آپ سمجھ لو ملنگ چارلی کا وہ آخری دن ہوگا ۔ملنگ چارلی نے کہا کہ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کیا کھویا کیا پایا میں ان سے کہتا ہوں کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا ہی پڑتا ہے ۔

اس شوق نے مجھے تعلیم سے بے بہرہ کردیا ، ماں باپ کے بتائے ہوئے راستو ں پر چلنے سے محروم کردیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں نے ایسے فن سے آشنائی حاصل کی جو دنیا میں امن وآشتی کا پیغام دیتا ہے میں نے غمزدہ لوگوں کے لبو ں پر مسکراہٹ پیدا کی جس سے مجھے جو سکون ملتا تھا وہ میرے لیے کسی خزانے سے کم نہیں تھا ،اب میں آپ لوگوں پر چھوڑتا ہوں کہ میں نے کیا پایا اور کیا کچھ کھویا۔ نوجوانوں کے لیے میرا پیغام ہے کہ کوئی بھی فن یا پیشہ اختیار کرنے سے پہلے تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے ، ما ں باپ کا احترام کریں ، خود نمائی اور نمائشی انداز فکر سے اپنے کوبچائیں ، محنت کو اپنی عادت بنائیں ۔
Load Next Story