نئے صوبے پسماندگی کا حل نہیں
نیاصوبہ بنانے کے نتیجے میں جنوبی پنجاب ہی کے پھرسے چند استحصالی خاندانوں کے لیے حکومتی مراعات کا حصول آسان ہوجائے گا۔
پنجاب کی تقسیم کے حوالے سے کافی عرصے سے کوششیں ہو رہی ہیں ۔ پنجاب کو ضرور تقسیم کیا جائے مگر نسلی اور لسانی بنیادوں پر نہیں اور نہ ہی اس طریقے سے جس طریقے سے کہا جا رہا ہے کہ جنوبی پنجاب کو ایک الگ سرائیکی صوبہ بنا دیا جائے۔
الگ صوبہ بنانے سے عام عوام کو پھر بھی کوئی فائدہ نہیں ہونے والا، کیونکہ نیا صوبہ بنانے سے اس کے لیے گورنر اور وزیرِ اعلیٰ کے ساتھ ساتھ اسمبلی ممبران اور منسٹرزکی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا، جو قومی خزانے پر اک نئے بوجھ کا اضافہ ثابت ہوگا ۔ نیا صوبہ بنانے کے نتیجے میں جنوبی پنجاب ہی کے پھر سے چند استحصالی خاندانوں کے لیے حکومتی مراعات کا حصول آسان ہوجائے گا، کیونکہ اقتدار پر قابض ہوکر پھر سے وہی لوگ گورنر اور وزیرِ اعلیٰ کے عہدوں پر تعینات ہوکر ذاتی مفادات کی جنگ لڑنے لگ جائیں گے، بلکہ اقتدارکی یہ جنگ جنوبی پنجاب کے اندر بسنے والے با اثر خاندانوں میں آغاز ہو جائے گی ۔
نئے صوبے میں نئے وزیر اورگورنر کے ساتھ ساتھ ایک اسمبلی ہال کی عمارت بھی بنے گی اور اس میں ذیلی دفاترکو چلانے کے لیے بھی ملازم رکھے جائیں گے، سیکیورٹی اور تنخواہوں کے ساتھ ساتھ مراعات بھی درکار ہوں گی ۔ یہ بوجھ نتیجتاً قومی خزانے سے ہوتا ہوا عوام ہی کی جیب پر آپڑے گا۔ جنوبی پنجاب کو ایک الگ صوبہ بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے جواز یہ دیا جا رہا ہے کہ وہاں کی پسماندگی ختم نہیں ہوسکی ،کیونکہ وہ علاقے نظر انداز ہوتے رہے ہیں اور یہی جواز موجودہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب بزدارکو تعینات کرتے وقت ہمارے وزیر اعظم نے دیا تھا۔
وزیرِ اعلیٰ بزدار خود کو متعارف کراتے ہوئے بھی یہ کہہ رہے تھے کہ ہمارے علاقے میں بجلی تک موجود نہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر دورِ حکومت میں جنوبی پنجاب سے مرکزی حکومت میں نمایندے موجود رہے ہیں، بلکہ وزیر اعظم تک جنوبی پنجاب سے بر سرِ اقتدار رہے تھے تو پھرکیا وجہ تھی کہ اس علاقے کی پسماندگی دور نہ ہوسکی ؟ اس کا عمومی سیاسی جواب تو یہی ہے کہ سینٹرل پنجاب پر سارے ترقیاتی عطیات لگا دیے جاتے رہے ہیں، مگر میں سمجھتی ہوں کہ یہ جواز نیا صوبہ بنانے کے لیے ناکافی بھی ہے اور تسلی بخش بھی نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی ہر حکومت میں جب وہاں کے نمایندے موجود تھے تو وہ کسی نہ کسی حد تک تبدیلی لا سکتے تھے، تعمیراتی کام کرا سکتے تھے، مگر ایسا نہیں ہوا، جنوبی پنجاب ہی کیا دوسرے صوبوں میں بھی بہت سے علاقوں کا یہی حال ہے جو جنوبی پنجاب کا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں استحصالی اور مقتدر طبقات کبھی بھی ان افراد کی ترقی نہیں چاہتے جو ان کے زیر سایہ مجبور ہوکرکام کر رہے ہوں ۔ وہ کبھی نہیں چاہتے کہ مقامی لوگ باشعور ہوں ،ان کو کوئی سہولت دی جائے، ان کے لیے تعلیم کا حصول آسان بنایا جائے، کیونکہ باشعور افراد سب سے پہلے ذہنی غلامی سے انکار کرتے ہیں اور اپنے استحصالیوں کے چہرے پہچاننے لگتے ہیں ۔
اسی لیے استحصالی قوتیں کبھی یہ گوارا نہیں کیا کرتیں کہ ان کے مدِ مقابل کوئی موجود ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ جس جس علاقے میں چوہدری ازم، وڈیرہ ازم، سردار ازم یا پیر ازم موجود ہے ، اُس اُس علاقے میں پسماندگی ہے، اگر ہمارے وزیروں کی علاقائی تاریخ کو دیکھا جائے اور ان کی اپنی سیاسی تاریخ کو دیکھا جائے تو ہم یہ بآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ ان کے اپنے علاقوں میں تعلیم کے حوالے سے خصوصا کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا، خاص طور پرا سکولوں کی عدم موجودگی کی وجہ ہی یہ ہے کہ پسماندہ علاقوں کے چوہدری، وڈیرے اور سردار حکمران خود نہیں چاہتے کہ ان کے علاقوں میں علم کی روشنی پھیلے جو ان کے اپنے استحصالی بھیانک چہرے عوام پر عیاں کرسکتی ہے۔ تعلیم کے علاوہ بھی تقریباَ ہر سہولت سے ان علاقوں کو محروم رکھا جاتا ہے ، تاکہ وہ بنیادی سہولتوں کے حصول میں ہی ساری توانائیاں صرف کرتے رہیں اور اپنے استحصالیوں کی طرف دیکھنے کا ان کو موقع ہی نہیں ملے۔
جب کبھی بھی ان علاقوں کی پسماندگی پر تنقید ہوتی ہے تو ان علاقوں کی پسماندگی کی وجہ صوبوں کا منقسم نہ ہونا ٹھہرا دیا جاتا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ چھوٹے چھوٹے یونٹ با آسانی منظم کیے جاسکتے ہیں، مگر مسئلہ انتظامی امور میں خرابی کا ہے جسے ٹھیک کرنا ضروری ہے، اگر یہ ٹھیک نہ ہو تو نئے صوبے بنا کر بھی پسماندگی دور نہیں ہوگی، بلکہ استحصالیوں کو پسماندہ علاقوں میں مزیدکنٹرول ملے گا اور طاقت ملے گی ۔ جو وہاں کے عوام کو غلام بنائے رکھنے میں معاون ہوگی۔
پنجاب کو لسانی یا نسلی بنیادوں پر تقسیم کرکے نیا صوبہ بنانے کی بجائے، اس کو مشرقی پنجاب ، مغربی پنجاب ، شمالی پنجاب، جنوبی پنجاب اور وسطی پنجاب کے نام سے علاقوں کی تقسیم کرکے ان میں ذیلی دفاتر بنا کر پنجاب کے وسائل کی تقسیم کرکے ان دفاتر کے حوالے مقامی لوگوں کی فلاح و بہبود اور ترقیاتی کام کی ذمے داری سونپ دینی چاہیے ۔ اس عمل سے نہ صرف انتظامی امور میں آسانی پیدا ہوگی، بلکہ بہت سے مقامی افراد کو روزگار ملے گا۔جب ذیلی دفاتر کی ایڈمنسٹریشن میں مقامی افراد کی تعیناتیاں ہونگی تو وہاں کے لوگوں کی حقیقی ترقی ممکن ہوسکے گی۔ وسطیٰ پنجاب جو درحقیقت تمام ذیلی دفاترکا مرکز بھی ہوگا ، اسی میں پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ اور گورنر پنجاب کے دفاتر بھی قائم رہنے چاہیے ۔
ذیلی دفاتر کو ان تمام امورکے اختیارات حاصل ہونے چاہیے جن کی وجہ سے دور دراز کے علاقوں سے مقامی افراد کو لاہور آنا پڑتا ہے، تاکہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں ہی ان سہولتوں سے فیضیاب ہوسکیں جن کی فراہمی کے نام پر جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی تجویز دی جا رہی ہے۔ مجموعی طور پر جو پنجاب کو وسائل مل رہے ہیں ،ان وسائل ہی کو تمام ذیلی دفاتر اور مقامی منتظمین میں تقسیم کیا جانا چاہیے۔ ایسا کرنے سے مرکزی حکومت پر مالی حوالے سے بوجھ نہیں پڑے گا اور انتظامی امور میں بھی بہتری لائی جاسکتی ہے۔دوسرے صوبوں سے بھی نئے صوبے پیدا کرنے کی بجائے ان کو مشرقی و مغربی حصوں میں تقسیم کرکے انتظامی امور کو آسان بنایا جائے، نہ کہ استحصالیوں کے لیے طاقت کے نئے مراکز نئے صوبوں کی شکل میں بنائے جائیں۔
اگر ہم پاکستان کے باہر ترقی یافتہ ممالک کا جائزہ لیں تو ان میں بھی یہی طریقہ کار ملتا ہے ۔ اس لیے پنجاب کی تقسیم ضرور کریں مگر ذیلی دفاتر بنا کر اور مشرقی، مغربی، شمالی، جنوبی پنجاب کے نام پر جو وسطی پنجاب سے جڑے ہوئے ہوں ، اس طرح اندرونی و بیرونی بدعنوان قوتوں کے لیے عوام کو لسانی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنا بھی مشکل ہو جائے گا جو بصورتِ دیگر آسان ہوتا ہے اور چند با اثر افراد تک اختیارات کا دائرہ محدود ہونے کی بجائے وسیع ہوگا جس میں عام عوام بھی ملازمتوں کی وجہ سے انتظامی امور اور ترقیاتی منصوبوں کا حصہ بن سکیں گے۔
الگ صوبہ بنانے سے عام عوام کو پھر بھی کوئی فائدہ نہیں ہونے والا، کیونکہ نیا صوبہ بنانے سے اس کے لیے گورنر اور وزیرِ اعلیٰ کے ساتھ ساتھ اسمبلی ممبران اور منسٹرزکی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا، جو قومی خزانے پر اک نئے بوجھ کا اضافہ ثابت ہوگا ۔ نیا صوبہ بنانے کے نتیجے میں جنوبی پنجاب ہی کے پھر سے چند استحصالی خاندانوں کے لیے حکومتی مراعات کا حصول آسان ہوجائے گا، کیونکہ اقتدار پر قابض ہوکر پھر سے وہی لوگ گورنر اور وزیرِ اعلیٰ کے عہدوں پر تعینات ہوکر ذاتی مفادات کی جنگ لڑنے لگ جائیں گے، بلکہ اقتدارکی یہ جنگ جنوبی پنجاب کے اندر بسنے والے با اثر خاندانوں میں آغاز ہو جائے گی ۔
نئے صوبے میں نئے وزیر اورگورنر کے ساتھ ساتھ ایک اسمبلی ہال کی عمارت بھی بنے گی اور اس میں ذیلی دفاترکو چلانے کے لیے بھی ملازم رکھے جائیں گے، سیکیورٹی اور تنخواہوں کے ساتھ ساتھ مراعات بھی درکار ہوں گی ۔ یہ بوجھ نتیجتاً قومی خزانے سے ہوتا ہوا عوام ہی کی جیب پر آپڑے گا۔ جنوبی پنجاب کو ایک الگ صوبہ بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے جواز یہ دیا جا رہا ہے کہ وہاں کی پسماندگی ختم نہیں ہوسکی ،کیونکہ وہ علاقے نظر انداز ہوتے رہے ہیں اور یہی جواز موجودہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب بزدارکو تعینات کرتے وقت ہمارے وزیر اعظم نے دیا تھا۔
وزیرِ اعلیٰ بزدار خود کو متعارف کراتے ہوئے بھی یہ کہہ رہے تھے کہ ہمارے علاقے میں بجلی تک موجود نہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر دورِ حکومت میں جنوبی پنجاب سے مرکزی حکومت میں نمایندے موجود رہے ہیں، بلکہ وزیر اعظم تک جنوبی پنجاب سے بر سرِ اقتدار رہے تھے تو پھرکیا وجہ تھی کہ اس علاقے کی پسماندگی دور نہ ہوسکی ؟ اس کا عمومی سیاسی جواب تو یہی ہے کہ سینٹرل پنجاب پر سارے ترقیاتی عطیات لگا دیے جاتے رہے ہیں، مگر میں سمجھتی ہوں کہ یہ جواز نیا صوبہ بنانے کے لیے ناکافی بھی ہے اور تسلی بخش بھی نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی ہر حکومت میں جب وہاں کے نمایندے موجود تھے تو وہ کسی نہ کسی حد تک تبدیلی لا سکتے تھے، تعمیراتی کام کرا سکتے تھے، مگر ایسا نہیں ہوا، جنوبی پنجاب ہی کیا دوسرے صوبوں میں بھی بہت سے علاقوں کا یہی حال ہے جو جنوبی پنجاب کا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں استحصالی اور مقتدر طبقات کبھی بھی ان افراد کی ترقی نہیں چاہتے جو ان کے زیر سایہ مجبور ہوکرکام کر رہے ہوں ۔ وہ کبھی نہیں چاہتے کہ مقامی لوگ باشعور ہوں ،ان کو کوئی سہولت دی جائے، ان کے لیے تعلیم کا حصول آسان بنایا جائے، کیونکہ باشعور افراد سب سے پہلے ذہنی غلامی سے انکار کرتے ہیں اور اپنے استحصالیوں کے چہرے پہچاننے لگتے ہیں ۔
اسی لیے استحصالی قوتیں کبھی یہ گوارا نہیں کیا کرتیں کہ ان کے مدِ مقابل کوئی موجود ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ جس جس علاقے میں چوہدری ازم، وڈیرہ ازم، سردار ازم یا پیر ازم موجود ہے ، اُس اُس علاقے میں پسماندگی ہے، اگر ہمارے وزیروں کی علاقائی تاریخ کو دیکھا جائے اور ان کی اپنی سیاسی تاریخ کو دیکھا جائے تو ہم یہ بآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ ان کے اپنے علاقوں میں تعلیم کے حوالے سے خصوصا کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا، خاص طور پرا سکولوں کی عدم موجودگی کی وجہ ہی یہ ہے کہ پسماندہ علاقوں کے چوہدری، وڈیرے اور سردار حکمران خود نہیں چاہتے کہ ان کے علاقوں میں علم کی روشنی پھیلے جو ان کے اپنے استحصالی بھیانک چہرے عوام پر عیاں کرسکتی ہے۔ تعلیم کے علاوہ بھی تقریباَ ہر سہولت سے ان علاقوں کو محروم رکھا جاتا ہے ، تاکہ وہ بنیادی سہولتوں کے حصول میں ہی ساری توانائیاں صرف کرتے رہیں اور اپنے استحصالیوں کی طرف دیکھنے کا ان کو موقع ہی نہیں ملے۔
جب کبھی بھی ان علاقوں کی پسماندگی پر تنقید ہوتی ہے تو ان علاقوں کی پسماندگی کی وجہ صوبوں کا منقسم نہ ہونا ٹھہرا دیا جاتا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ چھوٹے چھوٹے یونٹ با آسانی منظم کیے جاسکتے ہیں، مگر مسئلہ انتظامی امور میں خرابی کا ہے جسے ٹھیک کرنا ضروری ہے، اگر یہ ٹھیک نہ ہو تو نئے صوبے بنا کر بھی پسماندگی دور نہیں ہوگی، بلکہ استحصالیوں کو پسماندہ علاقوں میں مزیدکنٹرول ملے گا اور طاقت ملے گی ۔ جو وہاں کے عوام کو غلام بنائے رکھنے میں معاون ہوگی۔
پنجاب کو لسانی یا نسلی بنیادوں پر تقسیم کرکے نیا صوبہ بنانے کی بجائے، اس کو مشرقی پنجاب ، مغربی پنجاب ، شمالی پنجاب، جنوبی پنجاب اور وسطی پنجاب کے نام سے علاقوں کی تقسیم کرکے ان میں ذیلی دفاتر بنا کر پنجاب کے وسائل کی تقسیم کرکے ان دفاتر کے حوالے مقامی لوگوں کی فلاح و بہبود اور ترقیاتی کام کی ذمے داری سونپ دینی چاہیے ۔ اس عمل سے نہ صرف انتظامی امور میں آسانی پیدا ہوگی، بلکہ بہت سے مقامی افراد کو روزگار ملے گا۔جب ذیلی دفاتر کی ایڈمنسٹریشن میں مقامی افراد کی تعیناتیاں ہونگی تو وہاں کے لوگوں کی حقیقی ترقی ممکن ہوسکے گی۔ وسطیٰ پنجاب جو درحقیقت تمام ذیلی دفاترکا مرکز بھی ہوگا ، اسی میں پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ اور گورنر پنجاب کے دفاتر بھی قائم رہنے چاہیے ۔
ذیلی دفاتر کو ان تمام امورکے اختیارات حاصل ہونے چاہیے جن کی وجہ سے دور دراز کے علاقوں سے مقامی افراد کو لاہور آنا پڑتا ہے، تاکہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں ہی ان سہولتوں سے فیضیاب ہوسکیں جن کی فراہمی کے نام پر جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی تجویز دی جا رہی ہے۔ مجموعی طور پر جو پنجاب کو وسائل مل رہے ہیں ،ان وسائل ہی کو تمام ذیلی دفاتر اور مقامی منتظمین میں تقسیم کیا جانا چاہیے۔ ایسا کرنے سے مرکزی حکومت پر مالی حوالے سے بوجھ نہیں پڑے گا اور انتظامی امور میں بھی بہتری لائی جاسکتی ہے۔دوسرے صوبوں سے بھی نئے صوبے پیدا کرنے کی بجائے ان کو مشرقی و مغربی حصوں میں تقسیم کرکے انتظامی امور کو آسان بنایا جائے، نہ کہ استحصالیوں کے لیے طاقت کے نئے مراکز نئے صوبوں کی شکل میں بنائے جائیں۔
اگر ہم پاکستان کے باہر ترقی یافتہ ممالک کا جائزہ لیں تو ان میں بھی یہی طریقہ کار ملتا ہے ۔ اس لیے پنجاب کی تقسیم ضرور کریں مگر ذیلی دفاتر بنا کر اور مشرقی، مغربی، شمالی، جنوبی پنجاب کے نام پر جو وسطی پنجاب سے جڑے ہوئے ہوں ، اس طرح اندرونی و بیرونی بدعنوان قوتوں کے لیے عوام کو لسانی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنا بھی مشکل ہو جائے گا جو بصورتِ دیگر آسان ہوتا ہے اور چند با اثر افراد تک اختیارات کا دائرہ محدود ہونے کی بجائے وسیع ہوگا جس میں عام عوام بھی ملازمتوں کی وجہ سے انتظامی امور اور ترقیاتی منصوبوں کا حصہ بن سکیں گے۔