پیکر خاکی اور عالم نور

گزشتہ کالموں میں تذکرہ کیا گیا کہ مشق تنفس نور سے کس طرح جسم کے اندر اور باہر سے روشنیاں پھوٹتی ہیں

گزشتہ کالموں میں تذکرہ کیا گیا کہ مشق تنفس نور سے کس طرح جسم کے اندر اور باہر سے روشنیاں پھوٹتی ہیں، رنگ برستے ہیں، اس سلسلے میں رئیس امروہوی کی کتاب 'لے سانس بھی آہستہ' سے مختلف لوگوں کے تجربات اور ان کے خطوط کے اقتباسات بھی پیش کیے گئے جنھوں نے دوران مشق خود کو انجانی نکہتوں اور خوشبوئوں سے معطر پایا۔ ان مشاہدات، تجربات اور احساسات کو پڑھ کر بار بار انسانی عقل سوال کرتی ہے کہ آخر یہ نور، یہ رنگ، یہ خوشبو، یہ بجلی، یہ حرارت اور یہ مقناطیسیت آدمی میں کہاں سے آئی؟ کیا ہمارے پیکر خاکی کے اندر نورانیت اور روحانیت کا کوئی بے کراں سمندر لہریں مار رہا ہے؟ کیا ہمارا قلب اور دماغ روشنی کا منبع ہے، خوش بو کا سرچشمہ ہے اور برقی مقناطیسیت کا طاقت گھر؟

بے شک ایسا ہی ہے۔ اگر انسانی وجود کی راکھ کو ذرا کریدا جائے تو عالم نور کی چنگاریاں اس میں چمکنے لگتی ہیں۔ ہم عام طور پر اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں، استعداد، قابلیتوں اور طاقتوں سے بے خبر رہتے ہیں اور بے خبر رہ کر ہی مر جاتے ہیں۔ لاکھ میں چند ہی افراد ایسے ہوں گے جنہیں یہ احساس ہو کہ وہ فقط آدم خاکی نہیں آدم نوری بھی ہیں۔ بے شک قدرت نے آدمی کا پتلا کھنکھناتی ہوئی سیاہ مٹی سے بنایا تھا۔ لیکن اس کالے کلوٹے پتلے میں اس نے نور سرمدی کی ایک ایسی ابدی و ازلی شمع روشن کر رکھی ہے کہ موت کی آندھی بھی اسے گل نہیں کرسکتی۔ اس جسم خاکی کے اندر جو چراغ جل رہا ہے اس کی لو کتنی ہی مدہم سہی تاہم صرف ایک اندھا ہی اس کے وجود سے انکار کرسکتا ہے۔

مشق تنفس نور کے طلبا اور طالبات کے تجربات اور احساسات کے اہم نکتوں پر ایک مرتبہ پھر نظر ڈالی جائے۔

(1) یہ مشق اور نصابِ تعمیر و تنظیم شخصیت کی تمام دوسری مشقیں شروع کرنے کے فوراً بعد مشق کرنے والے کو زبردست لاشعوری مزاحمت اور اندرونی بغاوت کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے اور بہت سے حضرات اسی مرحلے پر مشقوں سے دستبردار ہوجاتے ہیں۔

(2) ان مشقوں سے اندرونی دنیا کی ہر چیز جاگ اٹھتی ہے اور ہم اپنے سینے میں جذبات، احساسات، تصورات اور تمثیلوں (تصور) کی شکل میں جو کچھ چھپائے ہوئے ہیں وہ سب کچھ رفتہ رفتہ ذہن کی سطح پر نمودار ہوجاتا ہے۔

(3) یہ مشق شروع کرنے کے بعد خیالات بسا اوقات الجھ جاتے ہیں اور خواب گہرے اور پرمعنی ہوجاتے ہیں۔ یہ تمام نفس کی بیداری کی علامتیں ہیں۔

(4) جب سانس کی مشق کے ذریعے ہیجان آمیز جذبات رفتہ رفتہ خارج ہوجاتے ہیں تو نفس کو عجیب بشاشت اور ہلکے پن کا احساس ہوتا ہے اور آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ اس نے گویا از سر نو جنم لیا ہے۔

(5) سانس اور توجہ کی مشق جسمانی صحت کے لیے بے حد مفید ہے۔ معدے، جگر اور آنتوں پر اس کے صحت مندانہ اثرات پڑتے ہیں۔ ریاحی تکالیف (پیٹ پھولنا، قبض سو ہضمی وغیرہ) نمایاں افاقہ ہوجاتا ہے۔ آکسیجن کی فراوانی کے سبب خون میں سرخ و سفید ذرات (جو جسمانی صحت کے لیے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں) کی فراوانی ہونے لگتی ہے، چہرے پر نکھار آجاتا ہے، آنکھیں روشن ہوجاتی ہیں، نیند گہری اور خوش گوار ہوجاتی ہے، آواز میں کشش پیدا ہوجاتی ہے۔ بعض بری عادتیں (جلق، سگریٹ نوشی اور لکنت) خود بخود چھوٹ جاتی ہیں۔

(6) کردار سازی و تنظیم شخصیت کے طالب علم کو ہمیشہ یہ حقیقت سامنے رکھنی چاہیے کہ قبض و بسط کے مرحلوں سے گزارنا لازمی ہے۔ (قبض و بسط کی حالت پر روشنی ڈالی جاچکی ہے)

(7) سانس کی منظم مشق کے ذریعے ہم جو ''روح حیات'' اپنے اندر جذب کرتے ہیں وہ برقی مقناطیسی توانائی کی طرح محسوس ہوتی ہے، مثلاً رگ و پے میں بجلیاں سی دوڑنا، جھٹکے لگنا، گرمی کا احساس، پسینہ آنا، جسم کا جھنجھنانا، سنسناہٹ کا احساس، دماغ پر ضرب سی لگنا، یہ محسوس ہونا کہ جسم پر چیونٹیاں سی رینگ رہی ہیں۔

(8) ان مشقوں سے اعصاب اتنے حساس ہوجاتے ہیں کہ بعض اوقات کپڑوں کا بوجھ بھی ناگوار ہونے لگتا ہے۔

(9) سانس کی مشق کے زیر اثر جسم پر ذہن کی تحریک سے عجیب عجیب کیفییں طاری ہوجاتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ میں لمبا اور چوڑا ہوتا جارہا ہوں یا وزن غائب ہوگیا ہے، یا خلا میں پرواز کر رہا ہوں یا ہوا میں کہیں معلق ہوں، یا فضا میں تحلیل ہورہا ہوں، یا یہ کہ میں جسم سے باہر نکل پڑوں گا وغیرہ وغیرہ۔

(10) اگر ترک حیوانات یعنی گوشت، مچھلی اور انڈا چھوڑ کر سانس کی مشق کی جائے تو اس کے اثرات میں سو گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ مشقیں خالی پیٹ کی جائیں تو سبحان اﷲ، روزے میں سانس کی مشق کی بدولت نشہ سا طاری ہوجاتا ہے، آنکھیں اوپر کو چڑھ جاتی ہیں، آدمی گرد و پیش سے چند لمحے کے لیے غافل ہوجاتا ہے، رگ رگ میں سرور و کیف کی لہریں دوڑنے لگتی ہیں۔


(11) سانس کی مشقوں سے رفتہ رفتہ مکمل ذہنی صحت نصیب ہوجاتی ہے، ذہن کی گتھیاں سلجھ جاتی ہیں، دماغ تازہ اور طبیعت چاق و چوبند ہوجاتی ہے، حافظہ بہتر ہونے لگتا ہے، جذباتی دبائو گھٹ جاتا ہے، اعصاب تنائو (جیسے ستار کے تار سے ہوتے ہیں) سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ مشق تنفس نور کرنے والا، دل و دماغ کی کشمکش سے نجات پاکر حقیقت پسندانہ نظر سے زندگی کا جائزہ لینے کے قابل ہوجاتا ہے، سکون قلب پیدا ہوجاتا ہے، کبھی کبھی انجانی خوشی کے پھول سینے میں کھلنے لگتے ہیں، طبیعت نازک ہوجاتی ہے۔

(12) ان مشقوں کے ذریعے اکثر حضرات کو یہ بھی نادر تجربہ ہوتا ہے کہ میں بیک وقت دو جگہ موجود ہوں، آنکھیں بند ہوتے ہی نئے نئے مناظر سامنے آتے ہیں اور بہت سے لوگوں میں بے غرض مذہبی رجحان اور روحانی ادراک پیدا ہوجاتا ہے۔

(13) جن لوگوں کے مزاج میں شعریت ہوتی ہے، ان کی موزوں طبعی میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ مختصر یوں سمجھیے کہ جس شخص میں جسم قسم کا جوہر چھپا ہوا ہوتا ہے اس کے اظہار کے امکانات رونما ہونے اور تخلیقی صلاحیتیں بیدار ہونے لگتی ہیں۔

(14) نف جسمی امراض میں یہ مشقیں نفس اور جسم دونوں کے لیے بے حد فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں۔

(15) نورانی سانس (کی مشق) کے بعض طلبا کو پراسرار خوشبوئوں اور اجنبی مہک کا احساس ہوتا ہے۔

(16) سانس کی جاروب کشی سے نفس اس قدر صاف و شفاف ہوجاتا ہے کہ طالب علم یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے نفس کے اندر خود اس کے جیسا کوئی گھسا بیٹھا ہے۔

(17) جب سانس کھینچنے اور خارج کرنے میں نور کی آمد و شد کا تصور پختہ ہوجائے تو نس نس سے روشنی کے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں، یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم بجائے خود مجسمہ رنگ و نور ہیں، سرتاپا روشنی ہیں۔ سانس اندر کھینچتے ہی جسم کے اندر برقی قمقمے سے جگمگانے لگتے ہیں، نفس کی تاریک کوٹھڑی منور ہوجاتی ہے، دل و دماغ میں چاند سورج سے طلوع ہوجاتے ہیں۔

(18) روشنیوں کے ساتھ طرح طرح کے رنگ نظر آتے ہیں، سرخ، زرد، نیلا، بنفشی، سیاہ وغیرہ وغیرہ گویا انسانی روح پر قوس قزاح جگمگانے اور شفق مسکرانے لگتی ہے۔

(20) استغراق کی حالت میں طرح طرح کی شکلیں نظر آتی ہیں، یہ گمان ہوتا ہے کہ ہم روحوں سے ملاقات کر رہے ہیں، نہ صرف یہ کہ طرح طرح کے جلوے نظر آتے ہیں بلکہ سماعت کی حس اس قدر چوکنی ہوجاتی ہے کہ نہ سنائی دینے والی آواز بھی سنائی دے جاتی ہے۔

یہ فقط شورش ہوا تو نہیں

کوئی مجھ کو پکارتا تو نہیں

(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں

www.facebook.com/shayan.tamseel)
Load Next Story