جنرز کی کاٹن زونز میں گنے کی کاشت پر فوری پابندی لگانے کا مطالبہ
چینی کی پیداوارپہلے ہی فاضل، 33فیصد برآمدپر اربوں کاریبیٹ دیناپڑتا ہے، احسان الحق
ملک کے روئی کی درآمدات پرسالانہ اربوں ڈالر زرمبادلہ اورلاکھوں ملین ایکڑ پانی کی بچت کے لیے کاٹن جنرزفورم نے کاٹن زونز میں گنے کی کاشت پر فوری طور پرپابندی عائد کرنے کی تجویز دے دی ہے۔
کاٹن جنرز فورم کے چیئرمین احسان الحق نے بتایا کہ وفاقی حکومت کے مذکورہ اقدام سے کپاس کے علاوہ دیگر فصلوں اور پھلوں کی کاشت بڑھنے سے خوردنی تیل، دالوں اور مختلف پھلوں کی درآمدات بھی انتہائی محدود ہوجائیں گی جو زرمبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافے کاباعث بنیں گی۔
انہوں نے کہا کہ کاٹن کراپ اسیسمنٹ کمیٹی کے حالیہ تخمینے کے مطابق رواں سال پاکستان میں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار 10.847 ملین بیلز متوقع ہیں جو کہ ملکی ضروریات سے تقریباً 40 لاکھ بیلز کم ہیں جو کہ اب ٹیکسٹائل ملز کو درآمد کرنا پڑیں گی جس پر اربوں ڈالر زرمبادلہ خرچ ہو گا۔
احسان الحق نے کہا کہ وفاقی حکومت نے کئی سال قبل کاٹن زونز میں نئی شوگر ملز کے قیام یا پہلے سے موجودہ شوگر ملزکی پیداواری صلاحیت میں اضافے پر پابندی عائد کی تھی مگر پچھلی کئی حکومتوں کے نرم رویے کے باعث پاکستان کے سب سے بڑے کاٹن زونز رحیم یار خان اور گھوٹکی میں کئی نئی شوگر ملز کے قیام کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود شوگر ملزکی پیداواری صلاحیت میں بھی کئی گنا اضافہ ہونے سے نہ صرف پاکستان میں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار میں کئی لاکھ بیلز کمی واقع ہو چکی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ گنے کی زیادہ کاشت کے باعث پیدا ہونے والی منفی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث کپاس کا معیار بھی خراب ہونے سے ملکی کاٹن ایکسپورٹس میں کمی واقع ہو رہی ہے جبکہ اس کے علاوہ گنے کی فصل کو دیگر فصلوں کے مقابلے میں پانی بھی کئی سو گنا زیادہ چاہیے ہوتا ہے جس سے ہمارے پانی کے مسائل بھی دن بدن بڑھ رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں سالانہ تقریباً 75 لاکھ ٹن چینی پیدا ہو رہی ہے جبکہ ہماری سالانہ کھپت تقریباً50 لاکھ ٹن ہے اور کسانوں کے نام پر فالتو چینی کی برآمد پر حکومت شوگر ملز مالکان کو سالانہ اربوں روپے سبسڈی بھی ادا کرتی ہے جو ملکی خزانے پر ایک بڑا بوجھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ چینی کی درآمد پر اس وقت ریکارڈ 66 فیصد ٹیکسز عائد کیے گئے ہیں جنہیں کم سے کم کر کے چینی درآمد کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ شوگر مالکان کی اجارہ داری ختم ہو سکے۔
کاٹن جنرز فورم کے چیئرمین احسان الحق نے بتایا کہ وفاقی حکومت کے مذکورہ اقدام سے کپاس کے علاوہ دیگر فصلوں اور پھلوں کی کاشت بڑھنے سے خوردنی تیل، دالوں اور مختلف پھلوں کی درآمدات بھی انتہائی محدود ہوجائیں گی جو زرمبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافے کاباعث بنیں گی۔
انہوں نے کہا کہ کاٹن کراپ اسیسمنٹ کمیٹی کے حالیہ تخمینے کے مطابق رواں سال پاکستان میں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار 10.847 ملین بیلز متوقع ہیں جو کہ ملکی ضروریات سے تقریباً 40 لاکھ بیلز کم ہیں جو کہ اب ٹیکسٹائل ملز کو درآمد کرنا پڑیں گی جس پر اربوں ڈالر زرمبادلہ خرچ ہو گا۔
احسان الحق نے کہا کہ وفاقی حکومت نے کئی سال قبل کاٹن زونز میں نئی شوگر ملز کے قیام یا پہلے سے موجودہ شوگر ملزکی پیداواری صلاحیت میں اضافے پر پابندی عائد کی تھی مگر پچھلی کئی حکومتوں کے نرم رویے کے باعث پاکستان کے سب سے بڑے کاٹن زونز رحیم یار خان اور گھوٹکی میں کئی نئی شوگر ملز کے قیام کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود شوگر ملزکی پیداواری صلاحیت میں بھی کئی گنا اضافہ ہونے سے نہ صرف پاکستان میں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار میں کئی لاکھ بیلز کمی واقع ہو چکی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ گنے کی زیادہ کاشت کے باعث پیدا ہونے والی منفی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث کپاس کا معیار بھی خراب ہونے سے ملکی کاٹن ایکسپورٹس میں کمی واقع ہو رہی ہے جبکہ اس کے علاوہ گنے کی فصل کو دیگر فصلوں کے مقابلے میں پانی بھی کئی سو گنا زیادہ چاہیے ہوتا ہے جس سے ہمارے پانی کے مسائل بھی دن بدن بڑھ رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں سالانہ تقریباً 75 لاکھ ٹن چینی پیدا ہو رہی ہے جبکہ ہماری سالانہ کھپت تقریباً50 لاکھ ٹن ہے اور کسانوں کے نام پر فالتو چینی کی برآمد پر حکومت شوگر ملز مالکان کو سالانہ اربوں روپے سبسڈی بھی ادا کرتی ہے جو ملکی خزانے پر ایک بڑا بوجھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ چینی کی درآمد پر اس وقت ریکارڈ 66 فیصد ٹیکسز عائد کیے گئے ہیں جنہیں کم سے کم کر کے چینی درآمد کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ شوگر مالکان کی اجارہ داری ختم ہو سکے۔