بچوں کی انوکھی بیماری
دماغ کی کارکردگی متاثر کر دینے والے مرض کا قصّہ۔
آٹزم یا آٹزم ڈس آرڈر ذہنی نشوو نما سے تعلق رکھنے والی ایک پیدائشی معذوری ہے جو بچے کی بولنے، لوگوں سے میل ملاپ کی صلاحیتوں اور اس کے رویے کو متا ثر کرتی ہے۔
آٹزم کاتعلق کچھ طبی کیفیتوں ہو سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے نہ تو ابھی تک آٹزم جنم لینے کی اصل وجہ معلوم ہوئی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی حتمی علاج دریافت ہو سکا۔گزشتہ سالوں میں آٹزم میں بتدریج اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ آٹزم کی سب سے واضح نشانیاں دو اور تین سال کی عمر کے درمیان بچے میں ظاہر ہوتی ہے۔
آٹزم کو 1943ء میں ڈاکٹر لیوکیز نے متعارف کرایا۔ یہ پیدائشی معذوری دنیا کے ہر خطے، رنگ و نسل، مذہب اور طبقے میں بلا امتیاز پائی جاتی ہے۔ آٹزم کی علامات بچوں میں پیدائش کے ابتدائی تین سالوں کے دوران کسی بھی وقت ظاہر ہوسکتی ہیں۔ کچھ بچے ابتدائی دو سالوں تک بولنے اور سیکھنے کے فطری عمل سے گزرتے ہیں مگر تین سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل ان صلاحیتوں کو بتدریج یا اچانک کھو دیتے ہیں۔ آٹزم دماغی نشوونما کے بے ترتیب حالت کو بھی کہتے ہیں۔ یہ بے ترتیب حالت کیوں اور کس وجہ سے ہوتی ہے، اس کی کوئی خاص وجہ ابھی تک پتہ نہیں چل سکی ۔
آٹزم نہ تو کوئی بیماری ہے اور نہ ہی لاپرواہی کی وجہ سے بچوں میں ظاہر ہوتی ہے اور نہ ہی پیدائش کے بعد بچوں کی دیکھ بھال، گھریلو حالات اور تربیت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ تحقیقات کے مطابق دنیا بھر میں ہر ڈیڑھ سو بچے میں سے ایک بچہ آٹسٹک ہے۔ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں میں آٹزم کی شرح زیادہ ہے۔ آٹزم میں مبتلا بچے بظاہر عام بچوں کی طرح نظر آتے ہیں مگر ان کا رویہ انہیں دوسرے بچوں سے مختلف بنا دیتا ہے۔
آٹزم کیونکہ دماغ کے ان حصوں پر اثر انداز ہوتا ہے جو بچوں میں قدرتی طور پر سیکھنے اور سمجھنے کی عام صلاحیت پیدا کرتے ہیں، اس لیے ان بچوں کو سکھانے کا عمل قدرے مختلف اور دشوار ہوتا ہے۔ آٹزم میں مبتلا بچوں کو تین طرح کے مسئلے درپیش ہوتے ہیں۔ سماجی یا سوشل، زبان اور بول چال اور اپنے رویے اور خیالات بیان کرنے میں مشکلات۔آٹزم میں مبتلا بچوں میں بعض دیگر مسائل بھی ہوسکتے ہیں۔ مثلاً دماغی صحت کے مسائل (بے چینی اور افسردگی)، ہائیپر ایکٹیوٹی ڈس آرڈر (ADHD) یعنی توجہ کی کمی اور حد سے زیادہ فعال ہونا، نیند نہ آنے کا مسئلہ، حرکات میں مشکلات (پھوہڑپن اور رعشہ) وغیرہ۔
آٹزم کی نمایاں علامات یہ ہیں۔ ً بات نہ کرنا یا بہت کم کرنا، اپنی دنیا بنا کر اس میں مگن رہنا، روزمرہ کی زندگی میں اگر کوئی تبدیلی آجائے اسے برداشت نہ کرنا، عام بچوں کی طرح کھلونوں سے نہ کھیلنا، بہت آہستہ یا بہت اونچا سننا، بے چین رہنا یا حرکت نہ کرنے کی خواہش رکھنا، ڈر، خوف اور خطرے کی سمجھ نہ رکھنا، بے مقصد رونا یا ہنسنا، بے مقصد چیزوں سے کھیلنے کی خواہش رکھنا، کسی کے چھونے سے الجھن کو ظاہر کرنا، بہت زیادہ بھاگ دوڑ کرنے میں مصروف رہنا اور بار بار ہاتھوں اور انگلیوں کی حرکت کرنا بغیر کسی مقصد کے تحت،آٹسٹک بچوں میں کچھ غیر معمولی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً ان کی یادداشت بہت اچھی ہوتی ہے اور ان میں ڈرائنگ بنانے کی خداداد صلاحیتیں ہوتی ہیں۔
آٹسٹک بچوں کو پڑھنے اور تعلیم حاصل کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا عام بچوں کو ہے۔ لہٰذا والدین کو چاہیے کہ وہ ان بچوں کی مدد کریں۔معذوری کی علامات کا جائزہ میڈیکل ٹیسٹ سے نہیں لیا جاسکتا لیکن بچوں کی عادات اور رویے کا بھر پور جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ امیج تھراپی سے بچوں کے بول چال کو بہتر بنایا جاسکتا اور ان کی مدد کا باعث بن سکتا ہے۔ معاشرے کا ان بچوں کی طرف مثبت رویہ ان کو بہتر بناسکتا ہے اور ان کی ذہنی حالت کو بھی بہتر بنانا ممکن ہے تاکہ وہ عام بچوں کی طرح گھلے ملے اور خوش رہے۔
آٹزم کی وجوہ
ماہرین کہتے ہیں کہ پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ بچے کے ساتھ ماں کا سرد رویہ اس کی بنیادی وجہ ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ بلکہ اس کے ہونے میں موروثی اور عصبی عوامل شامل ہیں۔ موروثی طور پر بھی یہ پتا نہیں چل سکا کہ کس جین کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ والدین کی بہت سی بیماریاں جن میں کینسر، ذیابیطس اور امراض قلب شامل ہیں، اس کی وجہ ہوسکتے ہیں۔ اس کی دوسری وجہ دماغی اعصاب میں خرابی ہے۔ ابھی یہ پتا نہیں چل سکا کہ دماغ کے کس حصے کی ساخت یا اس کے کس خاص حصے کی خرابی اس کا سبب بنتی ہے۔
بچوں کی بہتری کے لیے پروگرام
ان بچوں کی بہتری، ان کے علاج، تعلیم اور بحالی کے پروگراموں میں کسی ایک پروگرام کو حتمی اور بہترین نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ ہر بچہ اپنی ذات میں دوسرے سے منفرد ہوتا ہے۔ اس کی خاص ضروریات کے مطابق اس کی بحالی کا پروگرام ترتیب دیا جاتا ہے۔ ان میں سمعی تربیت، وٹامنز سے علاج، زبان دانی کی تربیت، موسیقی سے علاج، جسمانی تربیت، سماجی تربیت، روزمرہ زندگی کی مہارتیں، رویے کی درستگی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ ہر بچے کے متعلق خاص مسائل کی نشان دہی کریں اور اس کی روشنی میں اپنی ترجیحات طے کریں۔
والدین کے لیے ہدایات
بچے کے ساتھ محبت، پیار اور گرم جوشی کا رویہ رکھیں۔ سماجی تقریبات میں بچے کے ساتھ لے کر جائیں اور بچے کو خاندان، دوستوں اور ملنے جلنے والوں سے متعاف کرائیں۔ ان بچوں کے ساتھ عام بچوں ہی کی طرح سلوک کریں۔ بچہ جب سکول جانے کی عمر کو پہنچے تو اس کو قریبی خصوصی سکول یا عام سکول جہاں ان بچوں کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہو، وہاں داخل کرائیں۔ بچے کا نصاب اساتذہ کے ساتھ ان کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر بنایا جائے اور والدین کو چاہیے کہ سکول انتظامیہ سے رابطے میں رہیں تاکہ بچے کے ہر مثبت اور منفی پہلو پر بات ہوسکے۔
ایسے بچوں کو زندگی گزارنے کے لیے روزمرہ کے کام سکھانا، انہیں نت نئے تجربات کروانا، زندگی کی دوڑ میں دوسرے بچوں کے ساتھ مقابلہ کروانا، انہیں چھوٹی چھوٹی خوشیاں دینا، ان کی ہمت بندھانا، ان کی حوصلہ افزائی کرنا، انہیں بوجھ کی بجائے رحمت اور ذمہ داری سمجھنا ضروری اور والدین کے لیے بہت بڑی نیکی ہے۔
آٹزم کاتعلق کچھ طبی کیفیتوں ہو سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے نہ تو ابھی تک آٹزم جنم لینے کی اصل وجہ معلوم ہوئی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی حتمی علاج دریافت ہو سکا۔گزشتہ سالوں میں آٹزم میں بتدریج اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ آٹزم کی سب سے واضح نشانیاں دو اور تین سال کی عمر کے درمیان بچے میں ظاہر ہوتی ہے۔
آٹزم کو 1943ء میں ڈاکٹر لیوکیز نے متعارف کرایا۔ یہ پیدائشی معذوری دنیا کے ہر خطے، رنگ و نسل، مذہب اور طبقے میں بلا امتیاز پائی جاتی ہے۔ آٹزم کی علامات بچوں میں پیدائش کے ابتدائی تین سالوں کے دوران کسی بھی وقت ظاہر ہوسکتی ہیں۔ کچھ بچے ابتدائی دو سالوں تک بولنے اور سیکھنے کے فطری عمل سے گزرتے ہیں مگر تین سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل ان صلاحیتوں کو بتدریج یا اچانک کھو دیتے ہیں۔ آٹزم دماغی نشوونما کے بے ترتیب حالت کو بھی کہتے ہیں۔ یہ بے ترتیب حالت کیوں اور کس وجہ سے ہوتی ہے، اس کی کوئی خاص وجہ ابھی تک پتہ نہیں چل سکی ۔
آٹزم نہ تو کوئی بیماری ہے اور نہ ہی لاپرواہی کی وجہ سے بچوں میں ظاہر ہوتی ہے اور نہ ہی پیدائش کے بعد بچوں کی دیکھ بھال، گھریلو حالات اور تربیت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ تحقیقات کے مطابق دنیا بھر میں ہر ڈیڑھ سو بچے میں سے ایک بچہ آٹسٹک ہے۔ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں میں آٹزم کی شرح زیادہ ہے۔ آٹزم میں مبتلا بچے بظاہر عام بچوں کی طرح نظر آتے ہیں مگر ان کا رویہ انہیں دوسرے بچوں سے مختلف بنا دیتا ہے۔
آٹزم کیونکہ دماغ کے ان حصوں پر اثر انداز ہوتا ہے جو بچوں میں قدرتی طور پر سیکھنے اور سمجھنے کی عام صلاحیت پیدا کرتے ہیں، اس لیے ان بچوں کو سکھانے کا عمل قدرے مختلف اور دشوار ہوتا ہے۔ آٹزم میں مبتلا بچوں کو تین طرح کے مسئلے درپیش ہوتے ہیں۔ سماجی یا سوشل، زبان اور بول چال اور اپنے رویے اور خیالات بیان کرنے میں مشکلات۔آٹزم میں مبتلا بچوں میں بعض دیگر مسائل بھی ہوسکتے ہیں۔ مثلاً دماغی صحت کے مسائل (بے چینی اور افسردگی)، ہائیپر ایکٹیوٹی ڈس آرڈر (ADHD) یعنی توجہ کی کمی اور حد سے زیادہ فعال ہونا، نیند نہ آنے کا مسئلہ، حرکات میں مشکلات (پھوہڑپن اور رعشہ) وغیرہ۔
آٹزم کی نمایاں علامات یہ ہیں۔ ً بات نہ کرنا یا بہت کم کرنا، اپنی دنیا بنا کر اس میں مگن رہنا، روزمرہ کی زندگی میں اگر کوئی تبدیلی آجائے اسے برداشت نہ کرنا، عام بچوں کی طرح کھلونوں سے نہ کھیلنا، بہت آہستہ یا بہت اونچا سننا، بے چین رہنا یا حرکت نہ کرنے کی خواہش رکھنا، ڈر، خوف اور خطرے کی سمجھ نہ رکھنا، بے مقصد رونا یا ہنسنا، بے مقصد چیزوں سے کھیلنے کی خواہش رکھنا، کسی کے چھونے سے الجھن کو ظاہر کرنا، بہت زیادہ بھاگ دوڑ کرنے میں مصروف رہنا اور بار بار ہاتھوں اور انگلیوں کی حرکت کرنا بغیر کسی مقصد کے تحت،آٹسٹک بچوں میں کچھ غیر معمولی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً ان کی یادداشت بہت اچھی ہوتی ہے اور ان میں ڈرائنگ بنانے کی خداداد صلاحیتیں ہوتی ہیں۔
آٹسٹک بچوں کو پڑھنے اور تعلیم حاصل کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا عام بچوں کو ہے۔ لہٰذا والدین کو چاہیے کہ وہ ان بچوں کی مدد کریں۔معذوری کی علامات کا جائزہ میڈیکل ٹیسٹ سے نہیں لیا جاسکتا لیکن بچوں کی عادات اور رویے کا بھر پور جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ امیج تھراپی سے بچوں کے بول چال کو بہتر بنایا جاسکتا اور ان کی مدد کا باعث بن سکتا ہے۔ معاشرے کا ان بچوں کی طرف مثبت رویہ ان کو بہتر بناسکتا ہے اور ان کی ذہنی حالت کو بھی بہتر بنانا ممکن ہے تاکہ وہ عام بچوں کی طرح گھلے ملے اور خوش رہے۔
آٹزم کی وجوہ
ماہرین کہتے ہیں کہ پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ بچے کے ساتھ ماں کا سرد رویہ اس کی بنیادی وجہ ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ بلکہ اس کے ہونے میں موروثی اور عصبی عوامل شامل ہیں۔ موروثی طور پر بھی یہ پتا نہیں چل سکا کہ کس جین کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ والدین کی بہت سی بیماریاں جن میں کینسر، ذیابیطس اور امراض قلب شامل ہیں، اس کی وجہ ہوسکتے ہیں۔ اس کی دوسری وجہ دماغی اعصاب میں خرابی ہے۔ ابھی یہ پتا نہیں چل سکا کہ دماغ کے کس حصے کی ساخت یا اس کے کس خاص حصے کی خرابی اس کا سبب بنتی ہے۔
بچوں کی بہتری کے لیے پروگرام
ان بچوں کی بہتری، ان کے علاج، تعلیم اور بحالی کے پروگراموں میں کسی ایک پروگرام کو حتمی اور بہترین نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ ہر بچہ اپنی ذات میں دوسرے سے منفرد ہوتا ہے۔ اس کی خاص ضروریات کے مطابق اس کی بحالی کا پروگرام ترتیب دیا جاتا ہے۔ ان میں سمعی تربیت، وٹامنز سے علاج، زبان دانی کی تربیت، موسیقی سے علاج، جسمانی تربیت، سماجی تربیت، روزمرہ زندگی کی مہارتیں، رویے کی درستگی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ ہر بچے کے متعلق خاص مسائل کی نشان دہی کریں اور اس کی روشنی میں اپنی ترجیحات طے کریں۔
والدین کے لیے ہدایات
بچے کے ساتھ محبت، پیار اور گرم جوشی کا رویہ رکھیں۔ سماجی تقریبات میں بچے کے ساتھ لے کر جائیں اور بچے کو خاندان، دوستوں اور ملنے جلنے والوں سے متعاف کرائیں۔ ان بچوں کے ساتھ عام بچوں ہی کی طرح سلوک کریں۔ بچہ جب سکول جانے کی عمر کو پہنچے تو اس کو قریبی خصوصی سکول یا عام سکول جہاں ان بچوں کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہو، وہاں داخل کرائیں۔ بچے کا نصاب اساتذہ کے ساتھ ان کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر بنایا جائے اور والدین کو چاہیے کہ سکول انتظامیہ سے رابطے میں رہیں تاکہ بچے کے ہر مثبت اور منفی پہلو پر بات ہوسکے۔
ایسے بچوں کو زندگی گزارنے کے لیے روزمرہ کے کام سکھانا، انہیں نت نئے تجربات کروانا، زندگی کی دوڑ میں دوسرے بچوں کے ساتھ مقابلہ کروانا، انہیں چھوٹی چھوٹی خوشیاں دینا، ان کی ہمت بندھانا، ان کی حوصلہ افزائی کرنا، انہیں بوجھ کی بجائے رحمت اور ذمہ داری سمجھنا ضروری اور والدین کے لیے بہت بڑی نیکی ہے۔