احسان عظیم صدیقی ایک گوہر آبدار…
29 مئی کی جھلستی دوپہر میں موت کی بلا نے اس ماہ تمام کو اپنی تمام تر ٹھنڈک و تراوٹ کے ساتھ نگل لیا جو اسم با مسمی۔۔۔
29 مئی کی جھلستی دوپہر میں موت کی بلا نے اس ماہ تمام کو اپنی تمام تر ٹھنڈک و تراوٹ کے ساتھ نگل لیا جو اسم با مسمی ''احسان عظیم'' تھا۔
وہ کیا گئے جیسے تمام تر رعنائیاں ان کے دم سے تھیں۔ اب صرف یادیں ہیں یا جدوجہد کی وہ کہانیاں جو ایوبی مارشل لاء سے شروع ہوکر تادم مرگ تک جاری رہیں۔ ایوبی مارشل لاء کا دور تھا، اچھے اچھے سیاست دان بھی میدان چھوڑ کر بھاگ گئے تھے ایسے میں ٹریڈ یونین چلانا گویا جلتی آگ میں چھلانگ لگانا تھا۔ وہ دور حیدر بخش جتوئی، شیخ عبدالمجید سندھی، جام صادق، کامریڈ عزیز سلام بخاری، واحد بشیر، عثمان بلوچ، کنیز فاطمہ، اعزاز نذیر، معراج محمد خان اور احسان عظیم جیسے جذبوں سے سرشار لوگوں سے بھرا تھا۔
قیام پاکستان کے بعد پھرتے پھرتے ہمارا خاندان 1949 میں کوٹری آکر آباد ہوا اور شیر دل خان میونسپل ہائی اسکول کے فرسٹ اسٹینڈرڈ میں والد محترم نے داخلہ لیا، جہاں محترم عبدالکریم بلوچ (سابقہ M.D پی ٹی وی) بھی زیر تعلیم تھے۔ اس کے بعد کی منزل اردو کالج تھی اور اولین شناسائی احفاظ الرحمن، رئوف وارثی اور نسیم شاد سے ہوئی جو بتدریج انور احسن صدیقی، واحد بشیر جیسے طلبا رہنماؤں تک پہنچی اور ان کے مشوروں پر انجمن طلبا مصنفین کی داغ بیل ڈالی اور انجمن کے واحد عہدے جنرل سیکریٹری کے لیے والد محترم کو چنا گیا۔ اس کی انتظامی کمیٹی میں واحد بشیر، رئوف وارثی، عبداﷲ علیم، اشتیاق طالب، شفیع ادبی، نسیم شاد، احفاظ الرحمن، شبی فاروقی اور نعیم آوری تھے۔
محترم والد صاحب نے کالج میں داخلے سے پہلے ہی ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا اور 1955-56 کی کراچی کے بیٹری مزدوروں کی تاریخ ساز اور کامیاب ہڑتال میں سرگرم حصہ لے چکے تھے۔ اسی کے بعد متحدہ مزدور فیڈریشن کے ساتھ سرگرم ہوگئے اور اسی دوران ہفتہ وار ''الفتح'' میں اپنی صحافت کا آغاز کیا جو دی نیوز بطور نمائندہ کوٹری اور کوئسٹ فار نالج بطور ایڈیٹر جاری رہا اور کوٹری جیسے چھوٹے علاقے سے رسالہ نکال کر یہ ثابت کیا کہ ''کوئسٹ'' پیسے کمانے کی مشین نہیں بلکہ یہ فروغ علم، آگہی کی مخصوص کوشش ہے۔
والد محترم کی ٹریڈ یونین سے وابستگی انھیں ان کے پرانے ساتھیوں کو انجمن ترقی پسند مصنفین کی طرف لے گئی۔ جہاں 2007 کے اپریل میں شنگریلا چائنیز ہوٹل ملتان میں انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کے قیام کی سترہویں تاریخ ساز سالگرہ کے موقع پر عبوری عہدیداروں کا انتخاب عمل میں لایا گیا جس کے مطابق صدر کامریڈ سوبھو گیان چندانی، جنرل سیکریٹری حمید اختر مرحوم اور سندھ کے صوبائی سیکریٹری کے لیے والد محترم کا انتخاب عمل میں آیا۔
ملتان شہر کے اس تاریخی سفر کے دوران ہی والد کو بیماری نے آن گھیرا اور بعد میں تشخیص کے ذریعے انکشاف ہوا کہ انھیں ہیپاٹائٹس "C" اور لیور میں سس یعنی کینسر ہے۔ والد نے جس شعبے کو چنا اس کو خوب اچھی طرح سمجھا، سیاست ہو یا صحافت۔ والد محترم صحافت کے ساتھ ساتھ تعلیم کے عزم کو بھی لے کر چلے اور اس مقصد کے لیے اہل کوٹری کے لیے ایک بامقصد شمع اسکول کی صورت میں جلا گئے ہیں جس کی لو کوٹری کے ہر گھر اور محلے کو روشن کررہی ہے۔ اور جس زمانے میں بیماری اپنے عروج پر تھی اور پیٹ سے پانی نکلوانا پڑتا تھا جب بھی اسکول کے معاملات اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے معاملات میں حصہ لیتے رہے تھے اور موت ہر لمحہ قریب تر آتی جارہی تھی۔ اور آخر کو اجل سے کون لڑسکتا ہے۔ اس لیے ہم صرف دیکھتے رہ گئے اور 29 مئی آپہنچا۔
والد صاحب تو حوالے قبر ہوئے، رہ گئے ہم اور حارث جنھیں وقت کا مرہم سہارا دے گیا اور کچھ ان مہربانوں کی عنایتوں کا جنھوں نے ہمارے غم میں آکر یا والد محترم کی یاد میں تعزیت کی۔
اب صرف میرے گھر کے آنگن میں والد محترم سے منسلک یادیں ہیں۔ انہی یادوں میں مجھے گھر کی چھت پر میر غوث بخش بزنجو تقریر کرتے نظر آتے ہیں۔ گھر کے آنگن میں میر علی احمد خان تالپور اور میر رسول بخش تالپور والد محترم سے گلے ملتے نظر آتے ہیں۔گھر کے ڈرائنگ روم میں تخت پر مولانا عزیز سلام بخاری والد کے ساتھ محو گفتگو نظر آتے ہیں اور گیراج کی طرف ایئر مارشل اصغر خان آتے دکھائی دیتے ہیں جن سے میں آٹو گراف لیتی ہوں۔ مگر اب یہ سب ماضی ہے جہاں والد محترم اور ممتاز مصور ظفر کاظمی (سندھ میوزیم) آمری میوزم کو جنم لیتا دیکھ رہے ہیں۔
ماضی کی یہ عظیم کہکشائیں اب افق کے اس پار ہیں جہاں جا کے واپس کوئی نہیں آتا۔ جہاں میں فون کرکے یہ بھی نہیں پوچھ سکتی کہ پپا! آپ کا سفر کیسا گزرا؟ آپ نے پرہیز تو کیا تھا ناں؟ اور جب وہ کہتے کہ نہیں سفر میں کیسا پرہیز تو میں کہوں اس لیے منع کیا تھا ناں آپ کو مگر آپ میری سنتے کہاں ہیں؟
وہ کیا گئے جیسے تمام تر رعنائیاں ان کے دم سے تھیں۔ اب صرف یادیں ہیں یا جدوجہد کی وہ کہانیاں جو ایوبی مارشل لاء سے شروع ہوکر تادم مرگ تک جاری رہیں۔ ایوبی مارشل لاء کا دور تھا، اچھے اچھے سیاست دان بھی میدان چھوڑ کر بھاگ گئے تھے ایسے میں ٹریڈ یونین چلانا گویا جلتی آگ میں چھلانگ لگانا تھا۔ وہ دور حیدر بخش جتوئی، شیخ عبدالمجید سندھی، جام صادق، کامریڈ عزیز سلام بخاری، واحد بشیر، عثمان بلوچ، کنیز فاطمہ، اعزاز نذیر، معراج محمد خان اور احسان عظیم جیسے جذبوں سے سرشار لوگوں سے بھرا تھا۔
قیام پاکستان کے بعد پھرتے پھرتے ہمارا خاندان 1949 میں کوٹری آکر آباد ہوا اور شیر دل خان میونسپل ہائی اسکول کے فرسٹ اسٹینڈرڈ میں والد محترم نے داخلہ لیا، جہاں محترم عبدالکریم بلوچ (سابقہ M.D پی ٹی وی) بھی زیر تعلیم تھے۔ اس کے بعد کی منزل اردو کالج تھی اور اولین شناسائی احفاظ الرحمن، رئوف وارثی اور نسیم شاد سے ہوئی جو بتدریج انور احسن صدیقی، واحد بشیر جیسے طلبا رہنماؤں تک پہنچی اور ان کے مشوروں پر انجمن طلبا مصنفین کی داغ بیل ڈالی اور انجمن کے واحد عہدے جنرل سیکریٹری کے لیے والد محترم کو چنا گیا۔ اس کی انتظامی کمیٹی میں واحد بشیر، رئوف وارثی، عبداﷲ علیم، اشتیاق طالب، شفیع ادبی، نسیم شاد، احفاظ الرحمن، شبی فاروقی اور نعیم آوری تھے۔
محترم والد صاحب نے کالج میں داخلے سے پہلے ہی ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا اور 1955-56 کی کراچی کے بیٹری مزدوروں کی تاریخ ساز اور کامیاب ہڑتال میں سرگرم حصہ لے چکے تھے۔ اسی کے بعد متحدہ مزدور فیڈریشن کے ساتھ سرگرم ہوگئے اور اسی دوران ہفتہ وار ''الفتح'' میں اپنی صحافت کا آغاز کیا جو دی نیوز بطور نمائندہ کوٹری اور کوئسٹ فار نالج بطور ایڈیٹر جاری رہا اور کوٹری جیسے چھوٹے علاقے سے رسالہ نکال کر یہ ثابت کیا کہ ''کوئسٹ'' پیسے کمانے کی مشین نہیں بلکہ یہ فروغ علم، آگہی کی مخصوص کوشش ہے۔
والد محترم کی ٹریڈ یونین سے وابستگی انھیں ان کے پرانے ساتھیوں کو انجمن ترقی پسند مصنفین کی طرف لے گئی۔ جہاں 2007 کے اپریل میں شنگریلا چائنیز ہوٹل ملتان میں انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کے قیام کی سترہویں تاریخ ساز سالگرہ کے موقع پر عبوری عہدیداروں کا انتخاب عمل میں لایا گیا جس کے مطابق صدر کامریڈ سوبھو گیان چندانی، جنرل سیکریٹری حمید اختر مرحوم اور سندھ کے صوبائی سیکریٹری کے لیے والد محترم کا انتخاب عمل میں آیا۔
ملتان شہر کے اس تاریخی سفر کے دوران ہی والد کو بیماری نے آن گھیرا اور بعد میں تشخیص کے ذریعے انکشاف ہوا کہ انھیں ہیپاٹائٹس "C" اور لیور میں سس یعنی کینسر ہے۔ والد نے جس شعبے کو چنا اس کو خوب اچھی طرح سمجھا، سیاست ہو یا صحافت۔ والد محترم صحافت کے ساتھ ساتھ تعلیم کے عزم کو بھی لے کر چلے اور اس مقصد کے لیے اہل کوٹری کے لیے ایک بامقصد شمع اسکول کی صورت میں جلا گئے ہیں جس کی لو کوٹری کے ہر گھر اور محلے کو روشن کررہی ہے۔ اور جس زمانے میں بیماری اپنے عروج پر تھی اور پیٹ سے پانی نکلوانا پڑتا تھا جب بھی اسکول کے معاملات اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے معاملات میں حصہ لیتے رہے تھے اور موت ہر لمحہ قریب تر آتی جارہی تھی۔ اور آخر کو اجل سے کون لڑسکتا ہے۔ اس لیے ہم صرف دیکھتے رہ گئے اور 29 مئی آپہنچا۔
والد صاحب تو حوالے قبر ہوئے، رہ گئے ہم اور حارث جنھیں وقت کا مرہم سہارا دے گیا اور کچھ ان مہربانوں کی عنایتوں کا جنھوں نے ہمارے غم میں آکر یا والد محترم کی یاد میں تعزیت کی۔
اب صرف میرے گھر کے آنگن میں والد محترم سے منسلک یادیں ہیں۔ انہی یادوں میں مجھے گھر کی چھت پر میر غوث بخش بزنجو تقریر کرتے نظر آتے ہیں۔ گھر کے آنگن میں میر علی احمد خان تالپور اور میر رسول بخش تالپور والد محترم سے گلے ملتے نظر آتے ہیں۔گھر کے ڈرائنگ روم میں تخت پر مولانا عزیز سلام بخاری والد کے ساتھ محو گفتگو نظر آتے ہیں اور گیراج کی طرف ایئر مارشل اصغر خان آتے دکھائی دیتے ہیں جن سے میں آٹو گراف لیتی ہوں۔ مگر اب یہ سب ماضی ہے جہاں والد محترم اور ممتاز مصور ظفر کاظمی (سندھ میوزیم) آمری میوزم کو جنم لیتا دیکھ رہے ہیں۔
ماضی کی یہ عظیم کہکشائیں اب افق کے اس پار ہیں جہاں جا کے واپس کوئی نہیں آتا۔ جہاں میں فون کرکے یہ بھی نہیں پوچھ سکتی کہ پپا! آپ کا سفر کیسا گزرا؟ آپ نے پرہیز تو کیا تھا ناں؟ اور جب وہ کہتے کہ نہیں سفر میں کیسا پرہیز تو میں کہوں اس لیے منع کیا تھا ناں آپ کو مگر آپ میری سنتے کہاں ہیں؟