16 بچوں کا جلنا

گذشتہ دنوں گجرات کے علاقے منگو وال میں ایک اسکول وین میں آگ لگنے کے باعث 16 بچے اور ایک خاتون ٹیچر زندہ جل گئے۔


Moosa Raza Afandi June 01, 2013
[email protected]

گذشتہ دنوں گجرات کے علاقے منگو وال میں ایک اسکول وین میں آگ لگنے کے باعث 16 بچے اور ایک خاتون ٹیچر زندہ جل گئے۔ خبر کے مطابق وین بچوں کو لے کر منگووال جارہی تھی کہ کوٹ فتح کے قریب اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ حادثہ وین میں رکھا پٹرول لیک ہونے کے باعث پیش آیا۔ دو بچوں نے چھلانگیں لگا کر جان بچائی۔ ہلاک ہونیوالوں میں گیارہ لڑکے اور پانچ لڑکیاں شامل ہیں۔ خبر کے مطابق ڈرائیور گرفتار کر لیا گیا تھا لیکن اسکول انتظامیہ غائب تھی۔

کہتے ہیں خدا دشمن کو بھی اُولاد کا غم نہ دے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے اندوہناک حادثات کا کسی دشمن کے ساتھ بھی ہونا ناقابل تصور ہوتا ہے۔ جو مصیبت اور بلا ان والدین پر ٹوٹی ہے جن کے بچے جل کر راکھ ہوگئے ہیں۔ صرف وہی جانتے ہیں کہ قیامت کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ پشتو میں کہتے ہیں کہ پرایا غم برف کی مانند ٹھنڈا ہوتا ہے۔ بظاہر اخبارات کے ذریعے اور ٹیلیویژن کے کیمروںکے ذریعے بین کرتی مائوں بہنوں اور غم سے نڈھال ٹوٹے ہوئے بزرگوں کو دیکھ کر اس کرب کا اندازہ لگانا خاصہ مشکل کام ہے جس سے وہ بدنصیب گزر رہے ہیں۔

یہ بھی خبر ہے کہ زخمی بچوں نے بتایا کہ انھیں گاڑی میں پٹرول کی بُو آرہی تھی جس پر ڈرائیور کو خبردار کیا گیا لیکن اس نے اُن کی ایک نہ سنی۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد آگ نے وین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کے بعد دو بچوں نے وین کی کھڑکی سے چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی۔ ایک اور دل دہلادینے والی خبر یہ بھی ہے جس کے مطابق سی این جی ایسوسی ایشن کے صدر غیاث پراچہ نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ گجرات اسکول وین میں کھلے پائپ کے ذریعے پٹرول استعمال کیا جا رہا تھا جو کہ انتہائی خطرناک تھا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ گجرات وین میں آگ گیس سلنڈر پھٹنے سے نہیں لگی بلکہ پٹرول لیک ہونے کے باعث لگی۔اب ساری کہانی آپ کے سامنے ہے۔ آپ کو خدا سلامت رکھے۔

امن وسکون میں رکھے اور ان بد نصیب خاندانوں کی طرح کے عذاب سے بچائے رکھے۔ پھر بھی کیا یہ سوچنے کا مقام نہیں ہے کہ آیا ایسا کیوں ہوا؟۔ کیا یہ حکومت کا قصور تھا؟ کیا یہ مقامی انتظامیہ کا قصور تھا؟ کیا یہ اسکول انتظامیہ کا قصور تھا؟ کیا یہ صرف ایک فرد ڈرائیور کا قصور تھا؟ یا یہ سب کا قصور تھا۔ اگر یہ سب کا قصور تھا تو کیا اس شرمناک اور وحشت ناک واقعے کے بعد سب ٹھیک ہوجائیں گے؟ کیا افراد اور اداروں نے اس واقعے کے بعد توبہ کر لی ہے؟ نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور نا ہی ہوگا۔ کیونکہ یہ کوئی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہ تھا۔

اسی سال یعنی دوہزار تیرہ کے اندر کم از کم ویگنوں میں گیس سلنڈر پھٹنے سے آگ لگنے اور آگ سے جھلس کر ہلاک ہو جانے والے کم از کم بارہ واقعات ملک کے مختلف حصوں میں ہوچکے ہیں۔ کیا ان کا کوئی نتیجہ برآمد ہوا؟ نہیں کیوں نہیں؟ اس لیے کہ ایسے بے شمار واقعات میںسے ایک واقعہ سمجھ کر کچھ ہی دنوں بعد بھلا دیا جاتا ہے۔ زندگی پھر اسی ڈگر پر رواں دواں ہوجاتی ہے جس ڈگر پر اس قسم کے واقعات سے پہلے رواں دواں تھی۔ زندگی تو صرف ان چند لوگوں کی برباد ہوتی ہے جن کے ساتھ یہ حادثہ پیش آتا ہے۔ انھیں پھر کوئی مسکراتے نہیں دیکھ پاتا۔

میں سمجھتا تھا کہ ہمارے اُستادوں اور اُستانیوں میں ذمے داری کی وہ لگن ناپید ہے جو یورپ اور امریکا کے اُستادوں اور اُستانیوں میں پائی جاتی ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکا کے ایک اسکول میں دو دہشت گردوں نے ایک اسکول کے معصوم بچوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی جس کے نتیجے میں خاصی تعداد میں بہت چھوٹے چھوٹے بچے مارے گئے۔ انہی بچوں کو بچاتے ہوئے ان کی ایک ٹیچر نے گولیاں اپنے سینے پر کھا لیں اور اپنے شاگردوں پر خود کو قربان کر دیا۔ میرا خیال تھا کہ ذاتی اغراض و مقاصد کو اولین درجہ عطا کرنے والے اس معاشرہ میں امریکی اُستانی کی مثال ملنا مشکل کام ہوگا۔

لیکن آفرین ہے اس 22 سالہ سمیعہ نذیر پر جس نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے چند بچوں کو جلتی وین سے باہر نکالا اور اسی دوران خود جھلس کر ہلاک ہوگئی۔ اُسے جس قدر سلام کیے جائیں جس قدر سلیوٹ کیے جائیں جتنی توپوں کی سلامی دی جائے کم ہے کیونکہ قوم کی اس عظیم بیٹی نے جاتے جاتے ایک بات کو بڑے بھرپور طریقے سے واضح کیا ہے کہ ''ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں۔ اس بچی کے ماں باپ قابل فخر ہیں جنھوں نے ایسی مایہ ناز بچی کو جنم دیا۔ حتیٰ کہ دنیا بھر میں دہشت گردی کی پہچان بن جانے والی وہ بدنصیب پاکستانی قوم بھی قابل فخر ہے جس نے ایسی بیٹی کو پالا پوسا تاکہ اس کی قربانی اس کی سربلندی کا باعث بن سکے۔ کیا اس غریب کی بیٹی کو کوئی تمغہ کوئی ستارہ کوئی انعام ملے گا؟

ہمارا شیوہ بن چکا ہے کہ ہر بات کی ذمے داری حکومت پر ڈال دیتے ہیں اور اس ذمے داری کی ادائیگی کے بعد خود کو اہم ترین واقعات اور بد ترین حادثات سے مبرا سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کسی ادارے کا سربراہ کبھی اپنے ادارے کی ناقص کارکردگی کے باعث مستعفی نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنے کو اس سے بری الذمہ سمجھتا ہے۔ ہماری مائیں اپنے غنڈے اور مجرم بچوں کو بھی بے گناہ اور مصعو م سمجھتی ہیں بیویاں اپنے بے وفا شوہروں کو بھی لاکھوں میں ایک سمجھتی ہیں، ہر شاگرد بعض اُوقات اپنے لالچی اور نالائق استاد کو بھی قابل احترام سمجھتا ہے۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور شاید اسی طرح جاری رہے گا جب تک ہم یہ فیصلہ نہ کرلیں کہ نہ ظلم کرئیں گے اور نہ ہی اپنے پر ظلم ہونے دینگے۔ جب تک یہ فیصلہ نہ کرلیں کہ خود ٹھیک ہوجائیں بجائے اس کے کہ دوسروں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں۔

جب تک ہم دروازہ کھٹکنے پر بچوں کو کہیں گے کہ کہہ دو کہ ابا گھر پر نہیں ہے، ہم اسی طرح ذلیل وخوار ہوتے رہیں گے کیونکہ اپنے بچے کو جھوٹ کی تعلیم دیکر اُس سے عزت کی توقع کرنا عبث ہوگا۔ کیا ویگنیں جلنا چھوڑ دینگی؟ کبھی نہیں کیونکہ ویگنیں اُس وقت تک ضرور جلتی رہیں گی جب تلک ان پر سفر کرنے والے ان کی دیکھ بھال نہیں کرتے۔ جب تک انھیں کرائے پر لینے والے اُن کی صحیح حالت میں ہونے کی تصدیق نہیں کرتے جب تلک اسکولوں کی انتظامیہ انھیں پرائے بچوں کے استعمال کے بجائے اپنے بچوں کے استعمال کے قابل نہیں سمجھنے لگ جاتے۔ جب تک ایسا نہ ہوگا ویگنیں جلتی رہیںگی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ویگنیں اس وقت تک ضرور جلتی رہیں گی جب تک ہم بچوں کی قیمتیں لگاتے رہیں گے۔ ہم نے چونکہ جلنے والے بچوں کی پانچ پانچ لاکھ روپے قیمت لگا دی ہے اس لیے ویگنوں کا مسلسل جلنا اور زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔

خدا ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں