قائم مقام چیئرمین ایس ای سی پی کی تقرری کا نوٹیفکیشن معطل
طاہر محمود کی تقرری قانون کے مطابق نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلوں سے بھی متصادم ہے، عدالت
سیکیورٹیز ایکس چینج کمیشن آف پاکستان کے قائم مقام چیئرمین کی تقرری کا نوٹیفکیشن معطل کردیا گیا۔
عدالت نے قرار دیا کہ طاہر محمود کی قائم مقام چیئرمین کی حیثیت سے تقرری قانون کے مطابق نہیں اور یہ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے متصادم ہے۔ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو ایس ای سی پی کے قائم مقام چیئرمین کی تقرری کیخلاف ایس ای سی پی کے ڈپٹی ڈائریکٹر رانامصطفی نے درخواست دائر کی تھی۔
درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر مرتضی وہاب نے موقف اختیارکیا کہ ایس ای سی پی کے چیئرمین محمد علی کو سپریم کورٹ نے ہٹاتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ چیئرمین کی تقرری ایس ای سی پی ایکٹ کی دفعات 5، 6 اور 7 کو مدنظر رکھا جائے اور اس عہدے پر تقرری شفاف ہونی چاہیے تاہم نگراں حکومت نے ان ہدایات کو مدنظر نہیں رکھا اور 26 اپریل 2013 کو طاہر محمود کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا،اس نوٹیفکیشن میں انکی تقرری کی مدت بھی ظاہر نہیں کی گئی بلکہ سپریم کورٹ میں کرائی گئی یقین دھانی پر عمل شروع ہی نہیں کیا گیا۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ قائم مقام چیئرمین طاہرمحمود کیخلاف الزامات پر مبنی خبریں میڈیا میں آئی ہیں، حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں شفاف انداز میں تقرری کرنے کے بجائے متنازع پس منظر کے شخص کو اس اہم عہدے پر تعینات کردیا۔ فاضل بینچ نے مرتضی وہاب ایڈووکیٹ کے ابتدائی دلائل سننے کے بعد حکم امتناع جاری کرتے ہوئے طاہر محمود کی تقرری سے متعلق 26 اپریل کے نوٹیفکیشن پرعملدرآمد معطل کر دیا اور ڈپٹی اٹارنی جنرل پاکستان و ایس ای سی پی کو4 جون کے نوٹس جاری کر دیے۔
کمرہ عدالت میں موجود ایس ای سی پی کے وکیل واصف ریاض نے نوٹس کی تعمیل کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ انہیں آئینی درخواست اور اسکی ساتھ منسلک دستاویزات کی نقول فراہم کی جائیں۔ درخواست گزار کے وکیل نے یہ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرادی۔
عدالت نے قرار دیا کہ طاہر محمود کی قائم مقام چیئرمین کی حیثیت سے تقرری قانون کے مطابق نہیں اور یہ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے متصادم ہے۔ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو ایس ای سی پی کے قائم مقام چیئرمین کی تقرری کیخلاف ایس ای سی پی کے ڈپٹی ڈائریکٹر رانامصطفی نے درخواست دائر کی تھی۔
درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر مرتضی وہاب نے موقف اختیارکیا کہ ایس ای سی پی کے چیئرمین محمد علی کو سپریم کورٹ نے ہٹاتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ چیئرمین کی تقرری ایس ای سی پی ایکٹ کی دفعات 5، 6 اور 7 کو مدنظر رکھا جائے اور اس عہدے پر تقرری شفاف ہونی چاہیے تاہم نگراں حکومت نے ان ہدایات کو مدنظر نہیں رکھا اور 26 اپریل 2013 کو طاہر محمود کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا،اس نوٹیفکیشن میں انکی تقرری کی مدت بھی ظاہر نہیں کی گئی بلکہ سپریم کورٹ میں کرائی گئی یقین دھانی پر عمل شروع ہی نہیں کیا گیا۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ قائم مقام چیئرمین طاہرمحمود کیخلاف الزامات پر مبنی خبریں میڈیا میں آئی ہیں، حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں شفاف انداز میں تقرری کرنے کے بجائے متنازع پس منظر کے شخص کو اس اہم عہدے پر تعینات کردیا۔ فاضل بینچ نے مرتضی وہاب ایڈووکیٹ کے ابتدائی دلائل سننے کے بعد حکم امتناع جاری کرتے ہوئے طاہر محمود کی تقرری سے متعلق 26 اپریل کے نوٹیفکیشن پرعملدرآمد معطل کر دیا اور ڈپٹی اٹارنی جنرل پاکستان و ایس ای سی پی کو4 جون کے نوٹس جاری کر دیے۔
کمرہ عدالت میں موجود ایس ای سی پی کے وکیل واصف ریاض نے نوٹس کی تعمیل کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ انہیں آئینی درخواست اور اسکی ساتھ منسلک دستاویزات کی نقول فراہم کی جائیں۔ درخواست گزار کے وکیل نے یہ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرادی۔