اوستہ محمد سے ڈیرہ بگٹی کی گلیوں تک دوسری قسط
ملک کو 50 فیصد سے زیادہ قدرتی گیس دینے والے شہر ’سوئی‘ کے باسی آج بھی لکڑیاں اور کوئلہ جلانے پر مجبور ہیں
ہماری گاڑی پٹ فیڈر کینال کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ پٹ فیڈر کینال کے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں کا ذریعہ معاش مال مویشی پالنا تھا جن کو چرانے کےلیے بچے جگہ جگہ نظر آ رہے تھے۔ پٹ فیڈر کینال کے اندرون میں چاول کی فصل لہلہا رہی تھی جبکہ بیرون کی جانب ایک نہ ختم ہونے والی بنجر زمین تھی۔ جیسے ہم نے پٹ فیڈر کینال کو الوداع کہا تو دوبارہ پاک فوج کی ایک چوکی آئی جس کو جانو بھیڑی پل (یار کا بحری جہاز پل) چوکی کے نام سے پکارا جاتا ہے جس پر انٹری کرانے کےلیے ایک لمبی لائن بنی ہوئی تھی۔ اس لائن میں ہم بھی کھڑے ہوگئے۔ آدھے گھنٹے کے بعد ہماری باری آئی۔
اس بلاگ کا پہلا حصہ پڑھنے کےلیے یہاں کلک کیجیے: اوستہ محمد سے ڈیرہ بگٹی کی گلیوں تک
ہم نے نام اپنا اور اپنے ساتھ سفر کرنے والے دوستوں کے شناختی کارڈ نمبر اور گاڑی نمبر اس چوکی پر دراج کروائے اور ساتھ میں منزل کا بھی پتا بتا دیا۔ اسی وقت پاک فوج کے جوان نے ہمارا سن کر حیران ہوگئے اور ہنستے ہوئے کہا کہ یہ کیسا نام ہے؟ میں نے جلدی سے بتایا کہ میرا نام افغانستان کے صدر کے نام سے متاثر ہوکر رکھا گیا ہے۔ اس طرح سوال اختتام پذیر ہوا اور ہم نے ایک گھنٹے کے بعد کچھی کینال کو عبور کرلیا جس کام آج تک مکمل نہیں ہوسکا ہے۔
ہم کچھ دیر کچھی کینال پر ٹھہرے اور ہم نے دوبارہ سفر کا آغاز کیا۔ ہماری اگلی منزل سوئی شہر تھا جہاں سے گیس پورے ملک میں جاتی ہے۔ یہاں اونچے نیچے روڈ بنے ہوئے تھے جن پر گاڑی پانی کی موجوں کی طرح لہریں کھاتی جارہی تھی۔
ہمارے سامنے ریت کے اونچے اونچے پہاڑ گزر رہے تھے۔ ہمارے سامنے سے خوبصورت پہاڑوں پر مشتمل قدرتی مناظر گزر رہے تھے۔
ویسے تو پورا بلوچستان بہت خوبصورت ہے مگر ڈیرہ بگٹی کی جانب جانے والے راستے انتہائی خوبصورت اور دیدہ زیب ہیں۔ مسلسل چار فوجی چیک پوسٹوں پر اپنے سفر کا اندراج کرانے کے بعد ہم سوئی شہر میں داخل ہوگئے۔
سوئی شہر میں داخل ہوتے ہی ہمارے نظروں کے سامنے پی پی ایل کمپنی تھی۔ یہ وہی پی پی ایل ہے جس سے 75 فیصد پاکستانی عوام کے چولہے جلتے ہے۔ پنجاب اپنے صوبے میں پیدا ہونے والی گندم دوسرے صوبوں میں جانے پر پابندی لگا دیتا ہے لیکن بلوچستان کی قدرتی گیس پاکستان کا قومی اثاثہ ہے مگر اس کی ترسیل کنٹرول کرنے پر یہاں کی صوبائی حکومت کا کوئی اختیار نہیں جو ایک افسوسناک عمل ہے۔
سوئی کے علاقے میں قدرتی گیس سب سے پہلے 1952 میں دریافت ہوئی تھی جو پورے پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی قدرتی گیس ملک بھرمیں گھریلو ایندھن کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ملک بھر کے کارخانوں میں بھی وسیع پیمانے پر یہی قدرتی گیس بطور ایندھن استعمال ہوتی ہے۔
پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ ایک معروف کمپنی ہے جو یہاں سے گیس نکالتی ہے۔ جب سے یہاں سے گیس نکلی ہے تو پی پی ایل کمپنی یہاں کے علاقائی نواب سے مختلف اوقات میں معاہدے طے کرتی چلی آرہی ہے۔ ان معاہدوں کی رو سے کمپنی گیس رائیلٹی کی ادائیگی، مقامی لوگوں کو کمپنی میں ملامتوں کی فراہمی، گیس، بجلی، پینے کا صاف پانی، اور صحت کی سہولیات کی فراہمی سمیت دیگر بنیادی سہولتیں دینے کی پابند ہے۔
ہم نے بہت کوشش کی کہ پی پی ایل کمپنی گھومی جائے مگر کوئی راستہ نہ ملا۔ معلوم ہوا کہ مقامی لوگ بھی اس کمپنی کو آج تک نہ گھوم سکے تو ہم خاک گھومیں گے۔ مقامی لوگوں کے بقول، اس جگہ میں داخلے کےلیے ایک پاس کی ضرورت ہوتی ہے جو عام لوگوں کو انتہائی مشکل سے دیا جاتی ہے کیونکہ وہ صرف ''خاص لوگوں'' کےلیے ہوتا ہے۔
ضلع ڈیرہ بگتی کی تحصیل سوئی کے مقام سے نکلنے والے قدرتی گیس، پاکستان کی گیس کی نصف سے زیادہ ضرورت پوری کرتی ہے اور ملک کی رگِ حیات سمجھی جاتی ہے۔ ہم اسی شہر میں پہنچ چکے تھے۔ ہمارے سامنے بچے اپنے گھر کےلیے سودا سلف لے رہے تھے جن کے پاؤں میں چپل بھی نہیں تھے۔ کچھ بچے چپل پہن کر گھوم رہے تھے اور کچھ بغیر چپل کے پتھریلی زمین پر چل رہے تھے۔
ہم جیسے ہی پاکستان ہاؤس کے سامنے سے گزرے تو ہمیں سرفراز بگٹی یاد آگئے۔ پاکستان ہاؤس میں سرفراز بگٹی رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ انہیں گزشتہ انتخابات میں نواب اکبر بگٹی کے فیملی ممبر نواب گہرام بگٹی سے شکست ہوگئی تھی اور انہوں نے باقاعدہ اپنی شکست کو تسلیم بھی کیا تھا لیکن پھر بھی سوئی شہر کے مقامی لوگوں کا ان پر اندھا اعتماد آج تک قائم ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سوئی میں سرفراز بگٹی کے والد غلام قادر مرحوم طویل عرصے سے قبائلی حیثیت سے مقیم رہے تھے۔ یہاں بیٹھ کر وہ ڈیرہ بگٹی کے لوگوں کے معاملات بلوچی رسوم و رواج کے مطابق نمٹاتے رہے۔ سوئی کے لوگ انہیں بڑی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
ان کے بعد سرفراز بگٹی کے بڑے بھائی جان محمد بگٹی سوئی میں مقیم ہیں اور بلوچی قبائلی انداز میں سوئی کے عوام کے درمیان موجود رہتے ہیں۔ آج بھی سوئی کے عوام کی سرفراز بگٹی سے بڑی توقعات رکھے ہوئے ہیں۔
سرفراز بگٹی کی رہائش گاہ کے سامنے سوئی شہر کے بچے ننگے پاؤں گھوم رہے تھے جن کی غربت ان کے لباس سے ظاہر تھی۔ یہ بچے کسی بڑی گاڑی والے کو نظر نہیں آرہے تھے... یہ بچے امیر بلوچستان کے غریب باسی تھے۔
جب بلوچستان کی محرومیوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو قدرتی گیس کی آمدن سے بلوچستان کو محروم رکھنے کو ایک بڑی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ قدرتی گیس، رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کی بے آب و گیاہ سرزمین کی واحد بڑی دولت ہے جسے استعمال میں لایا جارہا ہے۔ ضلع ڈیرہ بگٹی کے شہر سوئی کو حکومت پاکستان کی جانب سے ایک ''ماڈل سٹی'' بنانا چاہیے تھا مگر پی پی ایل کمپنی کے ظلم اور بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ سوئی کے شہری آج بھی کئی علاقوں میں لکڑیاں جلا نے پر مجبور ہیں۔ یہ وہ گیس ہے جس سے آج تک ہم بھی مستفید نہیں ہوسکے ہیں۔
سوئی شہر میں ایک ایئرپورٹ بھی ہے جو پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ اور دیگر اداروں کی پروازوں کےلیے استعمال کیا جاتا ہے مگر جس سے مقامی لوگ مستفید نہیں ہوسکتے۔
صوبہ بلوچستان کے حکمران طبقہ کو یہ شکایت بھی رہی ہے کہ 1973 میں گیس کی رائیلٹی کا تخمینہ عارضی طور پر 1953 کی آمدنی کی بنیاد پر لگایا گیا تھا۔
جس دن ہم بازار سے گزر رہے تھے تو اسکولوں کے بچے گلیوں اور بازاروں میں سودا سلف لینے میں مشغول تھے۔ سوئی کے عوام سہولیات سے محروم تھے۔ سوئی کے مقامی اسکول کے پیچھے ایک درخت کے ساتھ ریڑھی بندھی ہوئی تھی جس کے قریب بچے کھیل رہے تھے۔
سوئی کے بچے کھیلتے ہوئے مقامی نظم ''ماچکے بلوچانی'' ایک دوسرے کو سنا رہے تھے۔ اس نظم کا اردو متن کچھ اس طرح ہے (مقامی بچوں کے بقول یہ نظم تو صرف ایک دعا ہے، ہم نے اس دعا کا اردو ترجمہ کر ڈالا):
یہ نظم عبدالمجید گوادری نے 1967 میں لکھی تھی جو آج تک نظم بلوچستان کی خصوصی تقریبات میں اکثر پڑھی جاتی ہے۔ کچھ بچوں نے یہ نظم چودہ اگست کی وجہ سے یاد کی ہوئی تھی۔
ویسے تو سوئی شہر کی بہت سی چیزیں پورے ملک میں شہرت رکھتی ہے جن میں دودھ والی چائے بہت مشہور ہے۔ معلوم ہوا کہ یہاں اسکول کے بچے کھڑکی کھول کر بھاگ جاتے ہیں جبکہ مقامی لوگ ریلیف (اِمداد) کے بھی پیاسے ہیں؛ اور زکوٰۃ تک کے پیسے ہڑپ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ سوئی کے معذور افراد تو کسی سے بھی پیچھے نہیں، یہاں تک کہ سوئی میں ریڑھیاں تک زنجیروں سے باندھ دی جاتی ہیں جنہیں دیکھنے کے بعد آپ ضرور حیرت زدہ رہ جائیں گے۔ سوئی شہر میں کھتری کے ہاتھ سے بنی ہوئی سجی کا مزہ ہی الگ تھا۔ سوئی شہر میں ایک بہت پرانی اور بڑی مسجد بھی ہے جہاں سیکڑوں نمازی نماز ادا کرتے ہے۔
سوئی شہر میں صبح سے کب شام ہوگئی، کچھ پتا نہ چلا۔ شام پانچ بجے ڈیرہ بگٹی کی جانب چل پڑے تو راستے میں کیڈٹ کالج سوئی ہماری نظروں سے گزرا اور ساتھ ایک چیک پوسٹ آگئی جس پر ہم نے دوبارہ اپنے شناختی کارڈ سے لے کر گاڑی کے کاغذات تک کا اندراج کروایا اور ڈیرہ بگٹی کی طرف چل پڑے۔
ہمارے سامنے خوبصورت پہاڑ تھے اور ایک بورڈ بھی نظر سے گزرا جس پر صرف اتنا لکھا ہوا تھا:
سفر ابھی جاری ہے مرے دوست!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس بلاگ کا پہلا حصہ پڑھنے کےلیے یہاں کلک کیجیے: اوستہ محمد سے ڈیرہ بگٹی کی گلیوں تک
ہم نے نام اپنا اور اپنے ساتھ سفر کرنے والے دوستوں کے شناختی کارڈ نمبر اور گاڑی نمبر اس چوکی پر دراج کروائے اور ساتھ میں منزل کا بھی پتا بتا دیا۔ اسی وقت پاک فوج کے جوان نے ہمارا سن کر حیران ہوگئے اور ہنستے ہوئے کہا کہ یہ کیسا نام ہے؟ میں نے جلدی سے بتایا کہ میرا نام افغانستان کے صدر کے نام سے متاثر ہوکر رکھا گیا ہے۔ اس طرح سوال اختتام پذیر ہوا اور ہم نے ایک گھنٹے کے بعد کچھی کینال کو عبور کرلیا جس کام آج تک مکمل نہیں ہوسکا ہے۔
ہم کچھ دیر کچھی کینال پر ٹھہرے اور ہم نے دوبارہ سفر کا آغاز کیا۔ ہماری اگلی منزل سوئی شہر تھا جہاں سے گیس پورے ملک میں جاتی ہے۔ یہاں اونچے نیچے روڈ بنے ہوئے تھے جن پر گاڑی پانی کی موجوں کی طرح لہریں کھاتی جارہی تھی۔
ہمارے سامنے ریت کے اونچے اونچے پہاڑ گزر رہے تھے۔ ہمارے سامنے سے خوبصورت پہاڑوں پر مشتمل قدرتی مناظر گزر رہے تھے۔
ویسے تو پورا بلوچستان بہت خوبصورت ہے مگر ڈیرہ بگٹی کی جانب جانے والے راستے انتہائی خوبصورت اور دیدہ زیب ہیں۔ مسلسل چار فوجی چیک پوسٹوں پر اپنے سفر کا اندراج کرانے کے بعد ہم سوئی شہر میں داخل ہوگئے۔
سوئی شہر میں داخل ہوتے ہی ہمارے نظروں کے سامنے پی پی ایل کمپنی تھی۔ یہ وہی پی پی ایل ہے جس سے 75 فیصد پاکستانی عوام کے چولہے جلتے ہے۔ پنجاب اپنے صوبے میں پیدا ہونے والی گندم دوسرے صوبوں میں جانے پر پابندی لگا دیتا ہے لیکن بلوچستان کی قدرتی گیس پاکستان کا قومی اثاثہ ہے مگر اس کی ترسیل کنٹرول کرنے پر یہاں کی صوبائی حکومت کا کوئی اختیار نہیں جو ایک افسوسناک عمل ہے۔
سوئی کے علاقے میں قدرتی گیس سب سے پہلے 1952 میں دریافت ہوئی تھی جو پورے پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی قدرتی گیس ملک بھرمیں گھریلو ایندھن کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ملک بھر کے کارخانوں میں بھی وسیع پیمانے پر یہی قدرتی گیس بطور ایندھن استعمال ہوتی ہے۔
پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ ایک معروف کمپنی ہے جو یہاں سے گیس نکالتی ہے۔ جب سے یہاں سے گیس نکلی ہے تو پی پی ایل کمپنی یہاں کے علاقائی نواب سے مختلف اوقات میں معاہدے طے کرتی چلی آرہی ہے۔ ان معاہدوں کی رو سے کمپنی گیس رائیلٹی کی ادائیگی، مقامی لوگوں کو کمپنی میں ملامتوں کی فراہمی، گیس، بجلی، پینے کا صاف پانی، اور صحت کی سہولیات کی فراہمی سمیت دیگر بنیادی سہولتیں دینے کی پابند ہے۔
ہم نے بہت کوشش کی کہ پی پی ایل کمپنی گھومی جائے مگر کوئی راستہ نہ ملا۔ معلوم ہوا کہ مقامی لوگ بھی اس کمپنی کو آج تک نہ گھوم سکے تو ہم خاک گھومیں گے۔ مقامی لوگوں کے بقول، اس جگہ میں داخلے کےلیے ایک پاس کی ضرورت ہوتی ہے جو عام لوگوں کو انتہائی مشکل سے دیا جاتی ہے کیونکہ وہ صرف ''خاص لوگوں'' کےلیے ہوتا ہے۔
ضلع ڈیرہ بگتی کی تحصیل سوئی کے مقام سے نکلنے والے قدرتی گیس، پاکستان کی گیس کی نصف سے زیادہ ضرورت پوری کرتی ہے اور ملک کی رگِ حیات سمجھی جاتی ہے۔ ہم اسی شہر میں پہنچ چکے تھے۔ ہمارے سامنے بچے اپنے گھر کےلیے سودا سلف لے رہے تھے جن کے پاؤں میں چپل بھی نہیں تھے۔ کچھ بچے چپل پہن کر گھوم رہے تھے اور کچھ بغیر چپل کے پتھریلی زمین پر چل رہے تھے۔
ہم جیسے ہی پاکستان ہاؤس کے سامنے سے گزرے تو ہمیں سرفراز بگٹی یاد آگئے۔ پاکستان ہاؤس میں سرفراز بگٹی رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ انہیں گزشتہ انتخابات میں نواب اکبر بگٹی کے فیملی ممبر نواب گہرام بگٹی سے شکست ہوگئی تھی اور انہوں نے باقاعدہ اپنی شکست کو تسلیم بھی کیا تھا لیکن پھر بھی سوئی شہر کے مقامی لوگوں کا ان پر اندھا اعتماد آج تک قائم ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سوئی میں سرفراز بگٹی کے والد غلام قادر مرحوم طویل عرصے سے قبائلی حیثیت سے مقیم رہے تھے۔ یہاں بیٹھ کر وہ ڈیرہ بگٹی کے لوگوں کے معاملات بلوچی رسوم و رواج کے مطابق نمٹاتے رہے۔ سوئی کے لوگ انہیں بڑی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
ان کے بعد سرفراز بگٹی کے بڑے بھائی جان محمد بگٹی سوئی میں مقیم ہیں اور بلوچی قبائلی انداز میں سوئی کے عوام کے درمیان موجود رہتے ہیں۔ آج بھی سوئی کے عوام کی سرفراز بگٹی سے بڑی توقعات رکھے ہوئے ہیں۔
سرفراز بگٹی کی رہائش گاہ کے سامنے سوئی شہر کے بچے ننگے پاؤں گھوم رہے تھے جن کی غربت ان کے لباس سے ظاہر تھی۔ یہ بچے کسی بڑی گاڑی والے کو نظر نہیں آرہے تھے... یہ بچے امیر بلوچستان کے غریب باسی تھے۔
جب بلوچستان کی محرومیوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو قدرتی گیس کی آمدن سے بلوچستان کو محروم رکھنے کو ایک بڑی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ قدرتی گیس، رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کی بے آب و گیاہ سرزمین کی واحد بڑی دولت ہے جسے استعمال میں لایا جارہا ہے۔ ضلع ڈیرہ بگٹی کے شہر سوئی کو حکومت پاکستان کی جانب سے ایک ''ماڈل سٹی'' بنانا چاہیے تھا مگر پی پی ایل کمپنی کے ظلم اور بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ سوئی کے شہری آج بھی کئی علاقوں میں لکڑیاں جلا نے پر مجبور ہیں۔ یہ وہ گیس ہے جس سے آج تک ہم بھی مستفید نہیں ہوسکے ہیں۔
سوئی شہر میں ایک ایئرپورٹ بھی ہے جو پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ اور دیگر اداروں کی پروازوں کےلیے استعمال کیا جاتا ہے مگر جس سے مقامی لوگ مستفید نہیں ہوسکتے۔
صوبہ بلوچستان کے حکمران طبقہ کو یہ شکایت بھی رہی ہے کہ 1973 میں گیس کی رائیلٹی کا تخمینہ عارضی طور پر 1953 کی آمدنی کی بنیاد پر لگایا گیا تھا۔
جس دن ہم بازار سے گزر رہے تھے تو اسکولوں کے بچے گلیوں اور بازاروں میں سودا سلف لینے میں مشغول تھے۔ سوئی کے عوام سہولیات سے محروم تھے۔ سوئی کے مقامی اسکول کے پیچھے ایک درخت کے ساتھ ریڑھی بندھی ہوئی تھی جس کے قریب بچے کھیل رہے تھے۔
سوئی کے بچے کھیلتے ہوئے مقامی نظم ''ماچکے بلوچانی'' ایک دوسرے کو سنا رہے تھے۔ اس نظم کا اردو متن کچھ اس طرح ہے (مقامی بچوں کے بقول یہ نظم تو صرف ایک دعا ہے، ہم نے اس دعا کا اردو ترجمہ کر ڈالا):
ہم بلوچ فرزند ہیں، ہم بلوچ فرزند ہیں
ہمارے خوف سے زمین لرزتی ہے
ہمارے خوف سے قلعے لرز جاتے ہیں
ہم پہاڑی شیروں کے بیٹے ہیں
ہم بلوچ فرزند ہیں
ہم مہمان نواز ہیں
ہم پناہ دینے والے ہیں
قربانیوں کی بدولت ہم نے نام پیدا کیا ہے
ہم بجلی کی طرح آگے بڑھتے ہیں
ہم بلوچ فرزند ہیں
ہم اپنے باپ کے کندھے اور ماؤں کے ننگ و ناموس ہیں
ہم اپنے بھائیوں کے بازو اور بہنوں کی غیرت ہیں
ہم بلوچ فرزند ہیں
ہماری ماؤں نے جو خواب دیکھا ہے، وہ ضرور پورا ہوگا
ہم بلوچ فرزند ہیں، ہم بلوچ فرزند ہیں
ہم نے غیرت کا دودھ تلواروں کے سائے میں پیا ہے
ہماری آنکھوں سے خون ٹپکتا ہے، ہم شہیدوں کی قوم سے ہیں
ہم بلوچ فرزند ہیں، ہم بلوچ فرزند ہیں
ہم یتیموں، غریبوں اور لاچاروں کی مدد کرتے ہیں
ظلم کے محاصرے کو توڑیں گے
ظلم کا دور دوبارہ نہیں آئے گا
ہم بلوچ فرزند ہیں، ہم بلوچ فرزند ہیں
یہ نظم عبدالمجید گوادری نے 1967 میں لکھی تھی جو آج تک نظم بلوچستان کی خصوصی تقریبات میں اکثر پڑھی جاتی ہے۔ کچھ بچوں نے یہ نظم چودہ اگست کی وجہ سے یاد کی ہوئی تھی۔
ویسے تو سوئی شہر کی بہت سی چیزیں پورے ملک میں شہرت رکھتی ہے جن میں دودھ والی چائے بہت مشہور ہے۔ معلوم ہوا کہ یہاں اسکول کے بچے کھڑکی کھول کر بھاگ جاتے ہیں جبکہ مقامی لوگ ریلیف (اِمداد) کے بھی پیاسے ہیں؛ اور زکوٰۃ تک کے پیسے ہڑپ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ سوئی کے معذور افراد تو کسی سے بھی پیچھے نہیں، یہاں تک کہ سوئی میں ریڑھیاں تک زنجیروں سے باندھ دی جاتی ہیں جنہیں دیکھنے کے بعد آپ ضرور حیرت زدہ رہ جائیں گے۔ سوئی شہر میں کھتری کے ہاتھ سے بنی ہوئی سجی کا مزہ ہی الگ تھا۔ سوئی شہر میں ایک بہت پرانی اور بڑی مسجد بھی ہے جہاں سیکڑوں نمازی نماز ادا کرتے ہے۔
سوئی شہر میں صبح سے کب شام ہوگئی، کچھ پتا نہ چلا۔ شام پانچ بجے ڈیرہ بگٹی کی جانب چل پڑے تو راستے میں کیڈٹ کالج سوئی ہماری نظروں سے گزرا اور ساتھ ایک چیک پوسٹ آگئی جس پر ہم نے دوبارہ اپنے شناختی کارڈ سے لے کر گاڑی کے کاغذات تک کا اندراج کروایا اور ڈیرہ بگٹی کی طرف چل پڑے۔
ہمارے سامنے خوبصورت پہاڑ تھے اور ایک بورڈ بھی نظر سے گزرا جس پر صرف اتنا لکھا ہوا تھا:
''جیوے جیوے پاکستان، جیوے جیوے بلوچستان''
سفر ابھی جاری ہے مرے دوست!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔