فکر اقبال میں انسانی مسائل کا حل
علامہ اقبال نے عورت کے ضمن میں انتہائی بصیرت افروز خیالات کا اظہار کیا ہے۔
علامہ اقبال کے عقیدت مندوں میں ایک نام ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کا ہے وہ علامہ کی شخصیت اور فکر و فن کے مختلف پہلوئوں پرکئی کتابوں کے مصنف اور مرتب ہیں۔ اور یہی نہیں، انھوں نے اقبال شناسوں پر بھی کتابیں مرتب کی ہیں۔ ان کی ایک کتاب جس کا عنوان ''چند ہم عصر اقبال شناس'' ہے، ان سمیت ایک سو چھ اقبال شناسوں کا ذکر ہے۔ ابھی ڈھائی ماہ پہلے ان کی ایک کتاب ''فکر اقبال میں انسانی مسائل کا حل'' کے عنوان سے بک کارنر، جہلم نے شایع کی ہے۔
ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم لکھتے ہیں ۔''تہذیب جدید آج جن مسائل میں گھری ہوئی ہے، ان کی عکاسی اقبال ایک عرصہ پہلے کرچکے ہیں۔ جدید طرز معاشرت، زندگی، لائحہ عمل اورکشمکش انقلاب کے لیے اقبال کے عمیق افکار انسانیت کے لیے باعث رہنمائی رہیںگے۔ اقبال کا آفاقی پیغام امن، سلامتی، عظمتِ انسانی جیو اور جینے دو، اخلاقی، سماجی، معاشی، سیاسی اور حرکی پہلوئوں پر گھومتا ہے، عصر حاضر میں انسانیت کو جو مسائل در پیش ہیں فکر اقبال میں ان مسائل کا حل موجود ہے۔ اقبال کی شاعری اور نثر نے عصر حاضر کے ظلمت کدوں کو نور میں بدل ڈالا ہے۔ ان کے لفظ چاند اور سورج کی روشنی سے مزین ہیں۔ نیر تاباں، صبح درخشاں، حبِ غریباں، چراغِ رہ نورداں، نگہ بلند، سخن دلنواز، جان پر سوز ایسے اوصاف کا ذخیرہ بصیرتِ اقبال کا طرۂ امتیاز ہیں۔
ملے گا منزلِ مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
اس سال اپریل میں منعقد ہونے والی قومی اقبال کانفرنس کا عنوان انسانیت کو درپیش چیلنج اور فکر اقبال تھا۔ اس عنوان کے تحت جو موضوعات آتے ہیں۔ پروفیسر تبسم نے اپنی اس کتاب میں ان پر اظہار خیال کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ''ان موضوعات کو نسلِ نو تک پہنچانے سے پہلے افکار اقبال فہم اور تشریح ضروری ہے۔ دنیا آج جن مسائل میں گھری ہوئی ہے ان کے حل میں علامہ اقبال کے اجتہادی پہلوکا مطالعہ بھی بہت ضروری ہے، وقت ایک نقطے پر مرکوز نہیں، ہر آنے والا کل نئی دعوت رکھتا ہے۔ علامہ کے ''تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ'' کے خطبات عصرِ حاضر کے بہت سے عوامل پر روشنی ڈالتے ہیں، ان خطبات کے عمیق مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ علامہ اقبال نے اسمبلی کے ذریعے اجتماعی اجتہاد کا جو تصور پیش کیا وہ عہد خلفائے راشدین سے لیا کیونکہ خلافِ راشدہ کے دور میں امت کے تمام اجتماعی امور باہمی مشوروں سے طے کیے جاتے تھے۔''
ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی کتاب میں عصر حاضرکے بدلتے ہوئے حالات کی کچھ عکاسی ملتی ہے۔ انسانیت کو درپیش مسائل کا جستہ جستہ تذکرہ اور ان کے حل کی عملی شکل بھی شامل ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اقبال کا شعور نفس اور شعور ذات انسانیت کو دعوت دے رہا ہے کہ ہم نئی نسل کے مستقبل کا تحفظ کریں۔ دنیا تیسری عالمگیر جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ دہشتگردی، خشک سالی، قحط، اقربا پروری، لسانی، گروہی، مذہبی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، مفادات، تعصبات، فرقہ واریت، حسد وبغض اور خود غرضی نے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، انسانیت انعکاس نور، علم اور جذبات کا آئینہ ہے انسان جذبہ الفت سے نورِ ِخرد حاصل کر کے انسانیت کی معراج پر پہنچا ہے، انسان کو انسانیت اور آدمی کو آدمیت کی دولت سے مالا مال کرنے کے لیے کلام اقبال آج کا انسان اپنا اقبال بلند کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال کا جدید تہذیب کے بارے میں زاویہ نظر قرآن پاک کا مطالعہ، فطرت کا تجزیہ اورکائنات کے اسرارو رموز سمجھنے کی دعوت ہے۔ خدا ، خودی اورکائنات پر غوروخوض کرنے کی دعوت اقبال کے ہاں جا بجا ملتی ہے۔ اقبال سمجھتے ہیں کہ تسخیر کائنات کا جذبہ انسان کی ترقی کا ضامن ہے۔ اقبال کے نزدیک یورپ نے اسلامی تہذیب کی اس روح کو پاکر جو تہذیب برپا کی وہ در اصل اسلامی تہذیب کی اصل روح ہی کی توسیع تھی مگر یورپی تہذیب چونکہ شعور نبوت سے ہم آہنگ نہ تھی اس لیے وہ مادی قوت اور ٹیکنالوجی کے سحر میں الجھ کر اپنی بنیادی غائیت اور مقصد سے محروم ہوکر اندھی میکانیکی قوت کی اسیر ہو گئی۔
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکارکی دنیا میں سفر کر نہ سکا
علامہ اقبال کے معاشی نظریات کا ذکر کرتے ہوئے ، ڈاکٹر تبسم لکھتے ہیں کہ علامہ نے اپنے خطبہ الٰہ آباد میں مسلمانوں کے لیے معاشی میدان میں ترقی کو لازمی قرار دیا۔ وہ مسلمانوں کے سیاسی اور معاشی دونوں طرح کے حقوق کا تحفظ چاہتے تھے۔ قائد اعظم کے نام ایک خط میں وہ لکھتے ہیں۔ ''روٹی کا مسئلہ روز بروز شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ مسلمان محسوس کر رہے ہیں کہ گزشتہ سو سال سے ان کی معاشی حالت مسلسل گرتی جا رہی ہے۔'' ایک اور خط میں علامہ لکھتے ہیں۔ میری قوت اور جستجو صرف اس چیز پر مرکوز رہتی ہے کہ ایک جدید معاشرتی نظام تلاش کیا جائے جس کا واحد مقصد ذات پات، رتبہ و درجہ، رنگ و نسل کے تمام امتیازات کو مٹا دیتا ہو۔
ڈاکٹر ہارون الرشید لکھتے ہیں۔ ''علامہ اقبال کے اقتصادی نظریات کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ انسان کی ترقی فلاح و بہبود اور اجتہادی فکر کے حامل نظریات تھے۔ وہ کسی ایک وقت یا کسی ایک پیریڈ کے لیے نہیں سوچ رہے تھے بلکہ ان کی سوچ عالمگیریت کا درجہ رکھتی تھی وہ انسان کی اقتصادی ضروریات کو آنے والے وقت کے لیے بھی ضروری خیال کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کے اقتصادی نظریات کو آج کے دور میں بھی دیکھا جائے تو وہ ہمارے معاشی مسائل کے راستے کشادہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ وہ اپنے اشعار میں ان نظریات کو برملا اظہار کرتے ہیں ۔ علامہ کا نظریہ انقلاب جہاں روحانی قوت کا متقاضی ہے وہاں مادی ترقی کی دعوت بھی دیتا ہے ستاروں پر کمندیں ڈالنے کے لیے ساز و سامان کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ زندگی کی شب تاریک کو منور کرنے کے لیے مادی وسائل بہت ضروری ہیں۔ علمی اور عملی زندگی کی تکمیل کے بغیر مستحکم معاشرے کی تشکیل ممکن نہیں۔''
''صنفی مسائل کا حل فکر اقبال کی روشنی میں'' کے عنوان سے ڈاکٹر تبسم لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال کی بصیرت ہر شعبۂ زندگی پر محیط رہی۔ انھوں نے ماضی کے جھروکوں سے تجربات کشید کر کے اور اپنے عہد کے حالات سے مستقبل کے لیے امیدوں اور خدشات کا کینوس تیار کیا۔ ان کے تصور میں مرد و زن کے لا تعداد مسائل موجود تھے۔ انھوں نے اپنے افکار کو صنعتی مسائل کے لیے بھی مختص کیا۔
علامہ اقبال نے عورت کے ضمن میں انتہائی بصیرت افروز خیالات کا اظہار کیا ہے وہ عورت کے حقوق کے بارے میں ہر اس بات کی تردید کرتے ہیں جو اسلام کے خلاف ہو اور ہر اس بات کی تائید کرتے ہیں جس کا اسلام حکم دیتا ہے۔ ان کی نظر میں عورت قابل صد احترام ہے جو اسلام کی روح کو سمجھتی ہو اور اپنی زندگی اسلام کے سانچے میں ڈھال کر گزارنا چاہتی ہو۔
ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم لکھتے ہیں۔ اقبال ایک آفاقی شاعر ہیں ان کی شاعری کی بنیاد ایک ایسے فلسفۂ حیات پر ہے جو عالمگیر ہے جو ازل سے ابد تک رہے گا اور جو نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ عالم انسانی کے لیے رحمت ہے۔ فلاح کا راستہ ہے جن لوگوں نے اقبال کو محض ایک قوم یا طبقے کا شاعر سمجھ لیا ہے وہ ان کے کلام کی آفاقیت کو سمجھے ہی نہیں۔ ایک وقت آئے گا جب دنیا ان کے اس مقام کو پہچان لے گی ۔