بیگم کلثوم نواز ایک باہمت خاتون
بے پناہ قائدانہ صلاحیتوں کے ہوتے پارٹی نے ان سے کیوں فائدہ نہیں اٹھایا۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اہلیہ، بیگم کلثوم کی میت کوگزشتہ جمعے کی شام جاتی امرا میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔ نماز جنازہ شریف میڈیکل سٹی ، رائیونڈ میں ادا کی گئی جہاں ان کا جسد خاکی لاہور ایئر پورٹ سے لایا گیا تھا ۔ ہزاروں لوگوں نے ان کی تدفین میں شرکت کی جن میں مسلم لیگ نوازکے علاوہ دوسری سیاسی پارٹیوں کے کارکن اور رہنما بھی شامل تھے۔
بیگم کلثوم نے 11 ستمبرکو لندن کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں وفات پائی ۔ ان کی پہلی نماز جنازہ جمعرات کو لندن میں ادا کی گئی جس کے بعد میت پی آئی اے کے ایک طیارے کے ذریعے جمعے کی صبح لاہور پہنچی ۔ لوگ علی الصبح جاتی امرا پہنچنا شروع ہوگئے تھے ۔ شریف میڈیکل سٹی گراؤنڈ کو دو حصوں میں تقسیم کرکے وی آئی پیزکے لیے عام لوگوں سے الگ انتظام کیا گیا تھا ۔ خاردار تار لگائے جانے کے باوجود انھیں زبردست رش کے باعث گراؤنڈ تک پہنچنے میں سخت مشکل پیش آئی جوکھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ لوگوں کوگاڑیاں پارک کرنے کے بعد دوکلو میٹر پیدل چل کر آنا پڑا۔
میت کے ساتھ گراؤنڈ پہنچنے کے بعد ، نواز شریف اور شہباز شریف نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ نمازجنازہ کے لیے صفیں بنالیں اور ان کے قریب آنے کی کوشش نہ کریں مگر جذباتی کارکنوں نے ، جو وی آئی پیزکے لیے مخصوص حصے میں داخل ہوچکے تھے اور اپنے لیڈر (نواز) کی ایک جھلک دیکھنا چاہتے تھے، ان کی ایک نہ سنی ۔ مولانا طارق جمیل نے امامت کی۔ بعد ازاں میت کی تدفین کے لیے روانگی کے وقت انتہائی جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔
جذبات سے مغلوب کارکن بیگم کلثوم کی میت لے جانے والی ایمبولینس سے لپٹ کر ''مادر جمہوریت الوداع ، الوداع'' کے نعرے لگا رہے تھے۔ وہ وین کے ساتھ چلتے ہوئے جاتی امرا جانا چاہتے تھے، جہاں مرحومہ کو بعد میں سپرد خاک کردیا گیا، لیکن شریف خاندان کی سیکیورٹی نے انھیں روک دیا کیونکہ خاندان کے علاوہ کسی کو بھی وہاں جانے کی اجازت نہ تھی۔
زاروقطار روتے ہوئے ایک کارکن اقبال احمد خان نے کہا ''میں عظیم خاتون کے جنازے میں شریک ہونے کے لیے صبح سویرے ننکانہ صاحب سے یہاں پہنچا تھا، لیکن مجھے اس بات کا بہت دکھ ہے کہ میں میاں صاحب کو نہیں دیکھ سکا ، میرا لیڈر بے گناہ ہے، اسے جیل میں نہیں ہونا چاہیے'' مسلم لیگ نوازکے ایک اور جاں نثارکارکن حافظ حمزہ اختر نے بتایا کہ وہ وی آئی پیزکے لیے مخصوص حصے میں داخل ہوکر پارٹی کے قائد سے مصافحہ کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا ۔اس نے کہا ''میں نے کبھی میاں صاحب کو اس قدر غمگین نہیں دیکھا، یوں لگا جیسے بیگم صاحبہ کی وفات کے بعد وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں، ان کی صحت بھی اچھی نہیں، ن لیگ کا ہرکارکن ان کے لیے دکھی ہے اور ان کی جیل سے رہائی کے لیے دعاگو ہے۔''
بیگم کلثوم کو جاتی امرا میں واقع شریف خاندان کے قبرستان میں ان کے سسر میاں شریف اور برادر نسبتی عباس شریف کی قبروں کے پاس سپرد خاک کیا گیا۔ قبل ازیں مرحومہ کے صاحبزادوں حسن اور حسین نے جمعرات کو لندن میں اپنے چچا شہباز شریف کے ساتھ ان کی نماز جنازہ ادا کی، چونکہ وہ خود شریف خاندان کے خلاف کرپشن کے ریفرنسز میں اشتہاری قراردیے جانے کے باعث پاکستان نہیں آئے، اس لیے انھوں نے اپنی بیگمات اور بچوں کو جاتی امرا بھیجا تھا۔
اگست 2017ء میں بیگم صاحبہ کے گلے میں کینسر کی تشخیص ہونے کے بعد پچھلے 13 مہینوں کے دوران ان کے کئی آپریشن اور کیمو تھراپی سیشنز ہوئے تھے۔ جون کے وسط میںدل کا دورہ پڑنے کے بعد انھیں زندگی بچانے والی مشین پر منتقل کردیا گیا تھا ۔ اگست کے پہلے ہفتے میں حالت سنبھلنے پر انھیں وینٹی لیٹر سے ہٹا دیا گیا لیکن 9 ستمبر کو ان کی حالت پھر بگڑگئی اور وہ 11 ستمبر کو وفات پاگئیں۔
مرحومہ کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے والے ممتاز لوگوں میں سابق صدر ممنون حسین، سابق وزرائے اعظم شاہد خاقان عباسی، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف، پی ایم ایل کیو کے قائدین چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی، قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر، سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی، پنجاب کے گورنر چوہدری سرور، اے این پی کے لیڈر غلام احمد بلور، ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار اور خالد مقبول صدیقی، سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی، سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، پی پی پی کے رہنما خورشید شاہ اور قمر زماں کائرہ، ن لیگ کے چیئرمین راجہ ظفر الحق ، رانا ثناء اللہ اور بیگم کلثوم کی کتاب ''جبر اور جمہوریت'' کے ایڈیٹر محمد مہدی شامل تھے ۔ بعد میں شام کو پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے، ترک وزیرخارجہ نے جاتی امرا پہنچ کر نواز شریف سے ان کی اہلیہ کی وفات پر تعزیت کی۔
معزول وزیر اعظم، ان کی صاحبزادی مریم اور داماد کیپٹن محمد صفدر پیر کی شام 4 بجے تک پیرول پر رہا کیے گئے تھے۔ اڈیالہ جیل سے ان کی رہائی بدھ کی شام عمل میں آئی تھی جہاں وہ ایون فیلڈ اپارٹمینٹ ریفرنس میں سنائی گئی اپنی بالترتیب دس، سات اور دو سال قید کی سزائیں کاٹ رہے تھے۔
کلثوم نواز کتنی باہمت اور حوصلہ مند خاتون تھیں ، اس کا اندازہ اس صبر و استقامت سے کیجیے جس سے انھوں نے تمام مصائب جھیلے۔ ان کی وفات سے شریف خاندان میں ایسا خلاء پیدا ہوگیا ہے، جو شاید ہی کبھی پر ہوسکے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے ۔ سینئر صحافی عباس ناصر، بیگم صاحبہ کے عزم وحوصلے کے حوالے سے ایک واقعہ کا ذکرکرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اکتوبر 1999ء میں فوجی بغاوت کے بعد ، جس کے نتیجے میں ان کے شوہرکو پہلے معزول اور پھر قید کیا گیا، جب وہ پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت کر رہی تھیں، بی بی سی میں ان کے ساتھی شفیع نقی جامعی نے ان کا ایک انٹرویو کیا۔
اس روز بیگم کلثوم لاہور میں اپنی پارٹی کے احتجاجی مظاہرے میں شریک تھیں اور ان کا انٹرویو شام کو نشر ہونے والے اردو پروگرام سیربین میں شامل کیا جانا تھا۔ شفیع کے قریب پہنچنے پر انھوں نے کہا ''شاید میں زیادہ دیر زندہ نہ رہوں کیونکہ میں نے گرفتاری سے بچنے کے لیے خود کو کارکے اندر لاک کر لیا ہے۔'' پولیس نے ان کی کار مین روڈ سے ہٹانے کے لیے کرین طلب کر رکھی تھی تاکہ جلوس کو منتشر کرنے کے لیے کارروائی کی جاسکے۔ قبل ازیں وہ پولیس کا گھیرا توڑکر ماڈل ٹاؤن سے وہاں پہنچی تھیں۔
ناصرکہتے ہیں کہ وہ انٹرویو ریکارڈ کرنے کے لیے اس وقت اسٹوڈیو میں تھے، اور آج 18 سال بعد ان کے لیے بیگم صاحبہ کے کہے ہوئے اصل الفاظ دہرانا تو مشکل ہے تاہم وہ اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ وہ انٹرویو کے دوران پوچھے گئے، سوالات کے کسی منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح نپے تلے جواب دے رہی تھیں اور انھیں زبردست عزم و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ وہ کہتے ہیں میں حیران ہوں کہ بے پناہ قائدانہ صلاحیتوں کے ہوتے پارٹی نے ان سے کیوں فائدہ نہیں اٹھایا اور انھیں پارٹی لیڈروں کی پہلی صف میں کیوں جگہ نہیں دی۔
شاید عملی سیاست سے دور رہنا ان کا اپنا فیصلہ تھا کیونکہ وہ خاندان کی دیکھ بھال کے لیے گھر میں اپنی موجودگی کو زیادہ ضروری سمجھتی تھیں۔ صحافی کے بقول اگر ان کی صحت اجازت دیتی تو موجودہ حالات میں وہ اپنے شوہر کی جگہ پارٹی کی قیادت کرنے کے لیے آگے بھی آسکتی تھیں اور ایسی صورت میں ملک کی سیاسی صورتحال کچھ اور ہوتی۔ بیگم کلثوم کو ذاتی طور پر جاننے والے بتاتے ہیں کہ وہ حد درجہ مہربان وذہین خاتون تھیں، انھیں ادب وشاعری سے لگاؤ اور اردو زبان پر مکمل عبور حاصل تھا۔
بیگم کلثوم نے 11 ستمبرکو لندن کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں وفات پائی ۔ ان کی پہلی نماز جنازہ جمعرات کو لندن میں ادا کی گئی جس کے بعد میت پی آئی اے کے ایک طیارے کے ذریعے جمعے کی صبح لاہور پہنچی ۔ لوگ علی الصبح جاتی امرا پہنچنا شروع ہوگئے تھے ۔ شریف میڈیکل سٹی گراؤنڈ کو دو حصوں میں تقسیم کرکے وی آئی پیزکے لیے عام لوگوں سے الگ انتظام کیا گیا تھا ۔ خاردار تار لگائے جانے کے باوجود انھیں زبردست رش کے باعث گراؤنڈ تک پہنچنے میں سخت مشکل پیش آئی جوکھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ لوگوں کوگاڑیاں پارک کرنے کے بعد دوکلو میٹر پیدل چل کر آنا پڑا۔
میت کے ساتھ گراؤنڈ پہنچنے کے بعد ، نواز شریف اور شہباز شریف نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ نمازجنازہ کے لیے صفیں بنالیں اور ان کے قریب آنے کی کوشش نہ کریں مگر جذباتی کارکنوں نے ، جو وی آئی پیزکے لیے مخصوص حصے میں داخل ہوچکے تھے اور اپنے لیڈر (نواز) کی ایک جھلک دیکھنا چاہتے تھے، ان کی ایک نہ سنی ۔ مولانا طارق جمیل نے امامت کی۔ بعد ازاں میت کی تدفین کے لیے روانگی کے وقت انتہائی جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔
جذبات سے مغلوب کارکن بیگم کلثوم کی میت لے جانے والی ایمبولینس سے لپٹ کر ''مادر جمہوریت الوداع ، الوداع'' کے نعرے لگا رہے تھے۔ وہ وین کے ساتھ چلتے ہوئے جاتی امرا جانا چاہتے تھے، جہاں مرحومہ کو بعد میں سپرد خاک کردیا گیا، لیکن شریف خاندان کی سیکیورٹی نے انھیں روک دیا کیونکہ خاندان کے علاوہ کسی کو بھی وہاں جانے کی اجازت نہ تھی۔
زاروقطار روتے ہوئے ایک کارکن اقبال احمد خان نے کہا ''میں عظیم خاتون کے جنازے میں شریک ہونے کے لیے صبح سویرے ننکانہ صاحب سے یہاں پہنچا تھا، لیکن مجھے اس بات کا بہت دکھ ہے کہ میں میاں صاحب کو نہیں دیکھ سکا ، میرا لیڈر بے گناہ ہے، اسے جیل میں نہیں ہونا چاہیے'' مسلم لیگ نوازکے ایک اور جاں نثارکارکن حافظ حمزہ اختر نے بتایا کہ وہ وی آئی پیزکے لیے مخصوص حصے میں داخل ہوکر پارٹی کے قائد سے مصافحہ کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا ۔اس نے کہا ''میں نے کبھی میاں صاحب کو اس قدر غمگین نہیں دیکھا، یوں لگا جیسے بیگم صاحبہ کی وفات کے بعد وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں، ان کی صحت بھی اچھی نہیں، ن لیگ کا ہرکارکن ان کے لیے دکھی ہے اور ان کی جیل سے رہائی کے لیے دعاگو ہے۔''
بیگم کلثوم کو جاتی امرا میں واقع شریف خاندان کے قبرستان میں ان کے سسر میاں شریف اور برادر نسبتی عباس شریف کی قبروں کے پاس سپرد خاک کیا گیا۔ قبل ازیں مرحومہ کے صاحبزادوں حسن اور حسین نے جمعرات کو لندن میں اپنے چچا شہباز شریف کے ساتھ ان کی نماز جنازہ ادا کی، چونکہ وہ خود شریف خاندان کے خلاف کرپشن کے ریفرنسز میں اشتہاری قراردیے جانے کے باعث پاکستان نہیں آئے، اس لیے انھوں نے اپنی بیگمات اور بچوں کو جاتی امرا بھیجا تھا۔
اگست 2017ء میں بیگم صاحبہ کے گلے میں کینسر کی تشخیص ہونے کے بعد پچھلے 13 مہینوں کے دوران ان کے کئی آپریشن اور کیمو تھراپی سیشنز ہوئے تھے۔ جون کے وسط میںدل کا دورہ پڑنے کے بعد انھیں زندگی بچانے والی مشین پر منتقل کردیا گیا تھا ۔ اگست کے پہلے ہفتے میں حالت سنبھلنے پر انھیں وینٹی لیٹر سے ہٹا دیا گیا لیکن 9 ستمبر کو ان کی حالت پھر بگڑگئی اور وہ 11 ستمبر کو وفات پاگئیں۔
مرحومہ کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے والے ممتاز لوگوں میں سابق صدر ممنون حسین، سابق وزرائے اعظم شاہد خاقان عباسی، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف، پی ایم ایل کیو کے قائدین چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی، قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر، سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی، پنجاب کے گورنر چوہدری سرور، اے این پی کے لیڈر غلام احمد بلور، ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار اور خالد مقبول صدیقی، سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی، سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، پی پی پی کے رہنما خورشید شاہ اور قمر زماں کائرہ، ن لیگ کے چیئرمین راجہ ظفر الحق ، رانا ثناء اللہ اور بیگم کلثوم کی کتاب ''جبر اور جمہوریت'' کے ایڈیٹر محمد مہدی شامل تھے ۔ بعد میں شام کو پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے، ترک وزیرخارجہ نے جاتی امرا پہنچ کر نواز شریف سے ان کی اہلیہ کی وفات پر تعزیت کی۔
معزول وزیر اعظم، ان کی صاحبزادی مریم اور داماد کیپٹن محمد صفدر پیر کی شام 4 بجے تک پیرول پر رہا کیے گئے تھے۔ اڈیالہ جیل سے ان کی رہائی بدھ کی شام عمل میں آئی تھی جہاں وہ ایون فیلڈ اپارٹمینٹ ریفرنس میں سنائی گئی اپنی بالترتیب دس، سات اور دو سال قید کی سزائیں کاٹ رہے تھے۔
کلثوم نواز کتنی باہمت اور حوصلہ مند خاتون تھیں ، اس کا اندازہ اس صبر و استقامت سے کیجیے جس سے انھوں نے تمام مصائب جھیلے۔ ان کی وفات سے شریف خاندان میں ایسا خلاء پیدا ہوگیا ہے، جو شاید ہی کبھی پر ہوسکے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے ۔ سینئر صحافی عباس ناصر، بیگم صاحبہ کے عزم وحوصلے کے حوالے سے ایک واقعہ کا ذکرکرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اکتوبر 1999ء میں فوجی بغاوت کے بعد ، جس کے نتیجے میں ان کے شوہرکو پہلے معزول اور پھر قید کیا گیا، جب وہ پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت کر رہی تھیں، بی بی سی میں ان کے ساتھی شفیع نقی جامعی نے ان کا ایک انٹرویو کیا۔
اس روز بیگم کلثوم لاہور میں اپنی پارٹی کے احتجاجی مظاہرے میں شریک تھیں اور ان کا انٹرویو شام کو نشر ہونے والے اردو پروگرام سیربین میں شامل کیا جانا تھا۔ شفیع کے قریب پہنچنے پر انھوں نے کہا ''شاید میں زیادہ دیر زندہ نہ رہوں کیونکہ میں نے گرفتاری سے بچنے کے لیے خود کو کارکے اندر لاک کر لیا ہے۔'' پولیس نے ان کی کار مین روڈ سے ہٹانے کے لیے کرین طلب کر رکھی تھی تاکہ جلوس کو منتشر کرنے کے لیے کارروائی کی جاسکے۔ قبل ازیں وہ پولیس کا گھیرا توڑکر ماڈل ٹاؤن سے وہاں پہنچی تھیں۔
ناصرکہتے ہیں کہ وہ انٹرویو ریکارڈ کرنے کے لیے اس وقت اسٹوڈیو میں تھے، اور آج 18 سال بعد ان کے لیے بیگم صاحبہ کے کہے ہوئے اصل الفاظ دہرانا تو مشکل ہے تاہم وہ اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ وہ انٹرویو کے دوران پوچھے گئے، سوالات کے کسی منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح نپے تلے جواب دے رہی تھیں اور انھیں زبردست عزم و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ وہ کہتے ہیں میں حیران ہوں کہ بے پناہ قائدانہ صلاحیتوں کے ہوتے پارٹی نے ان سے کیوں فائدہ نہیں اٹھایا اور انھیں پارٹی لیڈروں کی پہلی صف میں کیوں جگہ نہیں دی۔
شاید عملی سیاست سے دور رہنا ان کا اپنا فیصلہ تھا کیونکہ وہ خاندان کی دیکھ بھال کے لیے گھر میں اپنی موجودگی کو زیادہ ضروری سمجھتی تھیں۔ صحافی کے بقول اگر ان کی صحت اجازت دیتی تو موجودہ حالات میں وہ اپنے شوہر کی جگہ پارٹی کی قیادت کرنے کے لیے آگے بھی آسکتی تھیں اور ایسی صورت میں ملک کی سیاسی صورتحال کچھ اور ہوتی۔ بیگم کلثوم کو ذاتی طور پر جاننے والے بتاتے ہیں کہ وہ حد درجہ مہربان وذہین خاتون تھیں، انھیں ادب وشاعری سے لگاؤ اور اردو زبان پر مکمل عبور حاصل تھا۔