امیدوں کو موت نہیں آتی

ہم بھی ناممکن کو ممکن کر سکتے ہیں بس ہمیں پہلے اپنے خوف اور مایوسی کوقتل کرنا ہوگا۔


Aftab Ahmed Khanzada September 19, 2018
[email protected]

اگر میں کہوں کہ پاکستان جلد ہی ایک خو شحال،کامیاب ملک ہوگا، تو ہوسکتا ہے، آپ ہنس پڑیں، اسے آپ دیوانے کاخواب قرار دے دیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دنیا میں ہمیشہ ناممکن ممکن ہوتا آیا ہے۔

ایک روز ایڈیسن کو خیال میں آیاکہ بجلی سے روشنی پیدا کی جا سکتی ہے۔ انسان خدا جانے کب سے رات کو دن بنانے میں کوشاں چلا آرہا تھا، اس نے ہر اس شخص کومنیلو پارک آنے کی دعوت دی جو اس کے ایجاد کردہ بلب کو دیکھنے کا خواہاں تھا۔ 1880ء کے نوروز پر ہزاروں افراد منیلو پارک پہنچے وہاں اسٹیشن سے تجربہ گاہ تک سیکڑوں لیمپ دو تاروں میں لٹکے ہوئے سٹرک کے دونوں طرف روشن تھے پھر ایڈیسن نے فیصلہ کیا کہ وہ نیویارک کے پورے علاقے کے لیے سب سے پہلے بجلی کی روشنی مہیا کرے گا۔

آخر ایک بجلی گھر تعمیر کیا گیا نو سو عمارتوں میں تار لگا دیے تھے اور چودہ ہزار لیمپ جا بجا روشن ہوئے۔ نیویارک ہیرالڈ نے لکھا ''بجلی کے ہزاروں لیمپ سیکڑوں عمارتوں پر لگا دیے تھے، شہرہ آفاق موجد کے اشارے پر سوئچ دبایا گیا توگیس کی مدہم روشنی کے بجائے ایک مستقل روشنی ہوگئی جس میں ہر شخص گھنٹوں تک پڑھ لکھ سکتا تھا، یہ تمام مصنوعی روشنیوں سے بہتر تھی جس شے کو غیر ممکن قرار دیا جا رہا تھا۔

منیلو پارک کے ساحر نے اسے ایک عام حقیقت بنا دیا، گویا بجلی کا دور شروع ہو گیا'' نیویارک کے تمام باسی بازاروں میں نکل آئے تا کہ بجلی کی روشنی دیکھیں۔ جب وہ 1869ء کو بوسٹن سے بذریعہ جہاز پہنچا تھا تو اس کے پاس پیسے ہی نہ تھے کہ کچھ خرید سکے۔ لیکن اس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ الیگزانڈر گرے ام بیل، ولیم فریس گرین، چارلز اے پارسز، جان ہاگڈ ڈنلپ،گولی ایلمو مارکونی، ولبر اور اور ول رائیٹ، ہنری فورڈ، لارڈ ردر فرڈ، جان لوگی، سر فرینک وٹل اور سر رابرٹ واٹسن واٹ ان سب شخصیات نے تنہا ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے۔

یاد رکھیں حرکت میں برکت ہے سکوت میں موت ہے رک جانے والے مارے جاتے ہیں۔ برک نے کہا تھا ''سب کچھ ایک خواب سے شروع ہوتا ہے'' عقل و خرد اور امید وہ چیزیں ہیں جن کی آج ہمیں ضرورت ہے جب گوتھس نے روم کو تخت و تاراج کیا تو روم تنگ و تاریک گائوں میں تبدیل ہو گیا۔ جب ہم اس بات پر غورکرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہاں کے لوگوں نے مایوس ہو کر ہتھیار ڈال دیے تھے خوف کے مارے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا تھا ۔ بالکل ہمارے حال کی طرح ۔

کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم نے بھی مایوس ہو کر ہتھیار ڈال دیے ہیں اور خوف کے مارے آگے بڑھنے سے انکارکر رہے ہیں جوکچھ بچ گیا ہے اسے کسی صورت دائو پر لگانے کے لیے تیار نہیں ہیں، ہمیں ناممکن پر یقین ہے ممکن پر نہیں، لوگ اور لوگوں کا ہجوم دو مختلف چیزیں ہیں جب لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے مقصد سے ہٹ جاتی ہے اور عقل وخرد ، امید ، آگہی اور اپنے آئیڈیل سے بیگانہ ہو جاتی ہے تو لوگوں کا یہ جم غفیرایک ہجوم میں بدل جاتا ہے مقصد کے بغیر لوگ ایک ایسا ہجوم بن جاتے ہیں ، جن میں ہر ایک اپنی ذات کے لیے زندہ رہتا ہے ۔

اس کے سامنے صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ اپنی خواہشات نفسانی کی تکمیل کس طرح کرنی ہے اور بس ۔ یاد رکھیں لوگوں کا بے مقصد اور بے منزل ہجوم ہر وقت اپنی ہوس کی پوجا کا متمنی رہتا ہے ، یہ ہجوم نا چاہتے ہوئے اس نظام کو بچانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے ، جو پہلے ہی مر چکا ہوتا ہے وہ اپنی ساری توانائی اسے دوبارہ زندہ کرنے کے لیے لگا رہا ہوتا ہے یہ انوکھا وقت دنیا میں صرف ہم پر ہی نہیں آیا ہے ہم سے پہلے تمام ترقی یافتہ ، خوشحال اورکامیاب ممالک پر آ چکا ہے ۔

انگلینڈ میں انیسویں صدی میں معاشی استحصال، سیاسی جبر ، ناانصافیوں اور مظالم کی حقیقی تصاویر ہمیں اس دورکے ادیبوں کی تحریروں میں ملتی ہیں، ایلیٹ ایک پسماندہ اور ذلتوں کے مارے خاندان کی منظرکشی کرتے ہوئے کہتا ہے ''جب خاندان ذلت کی گہرائیوں میں گر گیا تو اپنی جائیداد اونے پونے داموں نیلام کرنا پڑی۔ باپ مایوسی کی حالت میں نشے کا عادی ہو گیا اور ماں نے غصے اور ذہنی انتشار کا شکار ہو کر اپنے بیٹے کو مار ڈالا ، بہن غربت اور مایوسی سے تنگ آ کر اپنی عصمت بیچنے پر مجبور ہو گئی''۔

اس نظم کا اختتام ان سطروں پر ہوتا ہے''او خدایا روٹی کسی قدر مہنگی ہے اور خون کس قدر سستا ہے'' تھامس ہڈ نے 1844ء میں شرٹ پر ایک نظم میں کہا کہ ''جب تم مرغ کی اذان سنو تو کام ،کام ، کام یہاں تک کہ تاروں کی لو تمہارے خون سے چمکنے لگے جو لوگ اس شرٹ کو پہنتے ہیں انھیںکیا معلوم کہ اس کی قیمت کتنی بھاری ہے'' اسی طرح چار لس ڈکنز اور تھیکرے نے اپنے ناولوں میں انگلیڈ کے پسے ہوئے طبقات کی نمایندگی کی جب کہ بالزاک زولا اور وکٹر ہیوگو نے اپنی تحریروں میں اس دورکے فرانس کی نقشہ کشی کی ۔

تمام تر ناانصافیوں ، ذلتوں کے باوجود وہاں کے لوگوں نے خواب دیکھنا بند نہیں کیے۔ ناممکن کو ناممکن نہیں مانا اور آخر ناممکن کو ممکن کر دکھایا سب سے پہلے انھوں نے اپنے خوف اور مایوسی کو تختہ دار پر لٹکا دیا پھر تاریخ بن گئے۔

ہم بھی ناممکن کو ممکن کر سکتے ہیں بس ہمیں پہلے اپنے خوف اور مایوسی کوقتل کرنا ہوگا، اپنے خوابوں پر یقین اور بھروسہ کرنا ہو گا او ر پھر ہم بھی ایک ترقی یافتہ، خوشحال اورکامیاب قوموں کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے۔ آئیں ! اپنے آپ پر یقین اور بھروسہ کریں اورنئی امید کو زندہ کریں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں