ٹیکس اصلاحات صرف ’’سسٹم‘‘ بہتر کر لیں

پاکستان کی مالیاتی مشکلات کی سب سے بڑی وجہ سرکاری مشینری کی ٹیکس جمع کرنے کی ناقابل اعتبار صلاحیت ہے۔

ali.dhillon@ymail.com

گزشتہ حکومت نے مئی جون کے بجائے اپریل ہی میں بجٹ پیش کیا تو یہی خیال کیا جا رہا تھا کہ الیکشن کے بعد نئی حکومت اس بجٹ پر نظر ثانی کرے گی اور اپنا الگ بجٹ پیش کرے گی۔ بالکل ویسا ہی ہوا ۔تحریک انصاف کی حکومت نے نیا نظرثانی شدہ بجٹ پیش کر دیا۔ جس میں نئی ٹیکس اصلاحات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ صاحب حیثیت افراد پر ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے ۔

وزیر خزانہ اسد عمر نے وزیراعظم، وزرا اور گورنرز کو ٹیکس سے حاصل استثنیٰ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب ان اعلیٰ حکام سے بھی ٹیکس لیا جائے گا، مہنگے موبائل فونز ، سگریٹ مہنگی گاڑیاں، زیادہ تنخواہ لینے والے افراد، نان فائلرز پر بھی ٹیکس بڑھا دیا گیاہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ وفاقی حکومت نے ٹیکس اصلاحات کے لیے لائحہ عمل تیار کر لیا ہے۔ اصلاحاتی لائحہ عمل کے تحت فیڈرل بورڈ آف ریونیو FBRکو ختم کر کے اس کی جگہ نیشنل ٹیکس اتھارٹی قائم کی جائے گی۔

پاکستان کی مالیاتی مشکلات کی سب سے بڑی وجہ سرکاری مشینری کی ٹیکس جمع کرنے کی ناقابل اعتبار صلاحیت ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو بھی ہے۔ ادھر صوبائی اور وفاق کی سطح پر درجنوں ادارے ہیں جو پیداوار،تجارت، درآمد برآمد، خدمات، خریدوفروخت، تنخواہوں اور املاک پر ٹیکس وصول کر رہے ہیں۔ ان اداروں کے ہوتے ہوئے ہر سال پاکستان میں 5000 ارب روپے بدعنوانی کی نذر ہو جاتے ہیں۔

آزادی کے بعد انڈیا اور پاکستان نے Undiveded ٹیکس ایڈاپٹ کر لیا تھا، جس کا نام انکم ٹیکس ایکٹ 1922 تھا۔ پھر پاکستان نے 32سال بعد اپنا ٹیکس کا قانون بنایا، جس کا نام انکم ٹیکس آرڈیننس 1979 تھا۔ 2000 ء تک یہی قانون چلتا رہا۔2001 ء میں ایک نیا قانون متعارف کرایا گیا، جس کا نام انکم ٹیکس آرڈینیس 2001 ہے، اس کے بعد سابقہ حکومت نے فنانس ایکٹ 2018ء ایکٹ متعارف کرایا ۔یہاں ٹیکس کے لیے دو اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں، جن کی وضاحت ناگریز ہے۔

ایک''ایکٹ''اور دوسرا ''آرڈیننس'' ہے، ایکٹ ایسا قانون ہے جو پارلیمنٹ پاس کرتی ہے یعنی ملک کا وزیر اعظم پاس کرتا ہے اور ''آرڈیننس'' وہ قانون جسے صدر مملکت جاری کرتا ہے۔ پاکستان میں ٹیکس کے حوالے سے جتنے بھی قوانین پاس ہوئے ہیں وہ صدارتی نظام کے تحت ہوئے ہیں۔ جس سے بڑے ٹیکس چوروں کو فائدہ دیا جاتا رہا۔

نئی حکومت کے اصلاحاتی پروگرام میں عوام کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش دکھائی دیتی ہے۔ شہریوں کو ان کی آمدن کے حساب سے مخصوص ایک ہی ٹیکس کی ادائیگی خوشگوار ثابت ہو سکتی ہے تاہم بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ود ہولڈنگ ٹیکس کا بہت زیادہ استعمال ٹیکس تنازعات کا باعث بن سکتا ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے فعال اور تیز رفتار ٹیکس ٹربیونلز کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ لہٰذا حکومت ٹیکس اصلاحات متعارف کراتے ہوئے ٹیکس ٹربیونلز کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ بھی کرے تو نئے تنازعات سے احسن طور پر نمٹا جا سکتا ہے۔


پاکستان میں سالانہ 600سے 800 ارب روپیہ اسمگلنگ کی وجہ سے ٹیکس میں شامل نہیں ہو پاتا۔ لگ بھگ 700ارب روپیہ انڈر انوائسنگ کی وجہ سے سرکاری خزانے میں جمع نہیں ہو رہا۔بلاشبہ بہت سے لوگ ٹیکس سے متعلقہ دستاویزات پیچیدہ اور گنجلک ہونے کے باعث ٹیکس نہیں دیتے۔

ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ترقی یافتہ ممالک جن میں امریکا سر فہرست ہے اس میں ٹیکسوںکی وصولی کا راز کیا ہے؟ اس کا جواب ہے کہ وہاں لوگ دیانتداری سے اپنا انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ امریکا میں انکم ٹیکس دہندگان کی تعداد 100فیصد ہے اور شرح ٹیکس دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ چین اور یورپین ممالک میں بھی بچوں بوڑھوں کے علاوہ ہر فرد اور ادارہ انکم ٹیکس ادا کرتا ہے۔

بھارت ہم سے غریب اور کم وسائل کا ملک ہے جہاں 40%عوام فٹ پاتھوں اور پارکوں میں رات بسر کرتے ہیں۔ وہاں انکم ٹیکس دہندگان کی تعداد2کروڑ ہے جو انکم ٹیکس کا گوشوارہ داخل کرتے ہیں۔گویا کل آبادی کا 2فیصد حصہ ٹیکس دہندہ ہیں۔ جب کہ پاکستان میں2000ء میں انکم ٹیکس دہندگان کی تعداد 33لاکھ تھی جواب2018میں گھٹ کر20لاکھ رہ گئی ہے جو کل آبادی کا صرف ایک فیصد بنتی ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

بہرکیف حکومت کی اپنی ترجیحات ہیں وہ اگر وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں فروخت کرکے اپنے وسائل بڑھانا چاہتی ہے تو اس کی مرضی ہے لیکن ٹیکس نیٹ کو منطقی اصولوں کے تحت وسیع کیے بغیر طویل المدت مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ ٹیکس کا بنیادی اصول یہ ہونا چاہیے کہ امرا سے وصول کیا جائے اور غریبوں پر خرچ کیا جائے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو حکومت بھی نکتہ چینی سے بچی رہے گی اور مطلوبہ مقاصد بھی حاصل ہو جائیں گے۔ بالواسطہ ٹیکسوں کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے اور براہ راست ٹیکسوں میں معقول اضافہ کرکے اگر ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔

وزیراعظم عمران خان یہ دعویٰ بار بار کرتے رہے ہیں کہ اگر اوپر دیانتدار آدمی بیٹھا ہو تو لوگ خوشی سے ٹیکس دیں گے اب چونکہ یہ شرط پوری ہو گئی ہے اس لیے انھیں اتنے براہِ راست ٹیکس لگا دینے چاہئیں کہ ٹیکسوں کا موجودہ ہدف دو یا تین گنا بڑھ جائے لیکن ترمیم شدہ بجٹ میں رکھی گئی شرح نمو کا ہدف تو کم کر دیا گیا ہے، ٹیکس جمع کرنے کا ہدف فی الحال نہیں بڑھایا گیا حالانکہ اشیائے تعیش پر ٹیکس لگا کر ٹیکسوں کی آمدنی میں اضافہ ممکن ہے لیکن ہدف یہ ہونا چاہیے کہ غریب پر کم از کم ٹیکس لگے۔

سو ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلی بات ایف بی آر اور اس کے تمام ذیلی اداروں بشمول انکم ٹیکس میں تنظیم نو کرکے سسٹم کو بہتر بنایا جائے۔ اگر سسٹم مضبوط ہوگا تو ٹیکس دینے والوں کی شرح خود بخود بڑھ جائے گی۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ 1980ء تک ٹیکس اداروں میں بھرتی ہونے والے افراد کو باقاعدہ امتحانات کے ذریعے ملازمت دی جاتی تھیں مگر بعد میں یہ شرط ختم کرکے سیاسی بھرتیاں شروع ہوگئیں جس سے ٹیکس اداروں میں رشوت کو فروغ ملا۔ لہٰذا محکمہ انکم ٹیکس اور ایف بی آر کے تمام دیگر ذیلی ملحقہ اداروں کے افسران اور اسٹاف کے لیے محکمانہ امتحانات حسب سابقہ لازمی قرار دیے جائیں۔ ویلتھ ٹیکس ایکٹ 1962ء بحال کیا جائے۔ اس کے نفاذ سے ہر پاکستانی پر چیک اینڈ بیلنس قائم ہو گا۔ جس سے کالے دھن سے اثاثوں میں اضافہ کی نشاندہی ہو سکے گی جو قابل مواخدہ ہو گا۔

انکم ٹیکس گوشوارے (ریٹرن) کو سادہ آسان بنایا جائے جو قومی زبان اردو میں ہو جسے کم تعلیم یافتہ تاجر خود سمجھ سکے اور پر کر سکے۔ ٹیکس چوری کی اطلاع دینے والوں کو حسب سابق ٹیکس چھپانے والے سے وصول ہونے والی ٹیکس کی رقم کا 25فیصد انعام دیا جائے۔اگر ایسا کر دیا گیا تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ہمیں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، امریکی امداد، چینی قرضے، سعودی عرب یا کسی دوسرے ملک کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
Load Next Story