دو خط آخری حصہ
صدمے سے نڈھال لیکن بیٹے کو ساتھ لے جانے کا تہیہ کیے ہوئے زہرا حسین لاہور پہنچیں۔
حسن ناصر پر بھی یہ مصرعہ صادق آتا ہے کہ ''ڈھونڈوگے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم''، وہ ایک ایسے علاقے کی اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے جو برطانوی راج کے زیر انتداب ہونے کے باوجود اپنا سربراہ مملکت رکھتی تھی۔
''حضور نظام '' حیدرآباد دکن کے مولا وآقا تھے ۔ ان کی اپنی ٹکسال تھی جس میں سکے ڈھلتے تھے اور دکن کی وسیع وعریض سلطنت میں چلتے تھے ۔ حسن ناصر، نواب محسن الملک کے نواسے تھے ، نازونعم میں پلے ہوئے ۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ان کی تعلیم ہوئی تھی،انھیں ولایت روانہ کیا گیا تھا کہ وہ کیمبرج سے اعلیٰ تعلیم لے کر واپس آئیں۔
روشن اور کامیاب زندگی ان کے لیے کھلی ہوئی تھی لیکن ہونی کو بھلا کون روک سکا ہے۔ ان کے علاقے میں تلنگانہ تحریک اپنے عروج پر تھی، انقلابی شاعر مخدوم محی الدین کے اشعارگلیوں اور بازاروں میں گونجتے تھے۔ شعورکی آنکھیں کھلیں تو حسن ناصر ان انقلابی نوجوانوں کے نعروں کے اسیر ہوئے ۔ سبط حسن نے لکھا ہے کہ حسن ناصر سے ان کی پہلی ملاقات مئی 1948ء میں شہر بمبئی میں اور دوسری ملاقات جولائی 1948کے کراچی میں ہوئی تھی ۔
حسن ناصر اس وقت صرف 20 برس کے تھے لیکن کمیونسٹ پارٹی سے ان کی وابستگی اتنی گہری اور مستحکم تھی کہ پارٹی اور اس سے متعلق حلقوں میں وہ نہ صرف معروف تھے بلکہ ان کا بے حد احترام کیا جاتا تھا ۔ ان کی زندگی پر اسرارکے پردے میں چھپی رہی ۔ ان کی شہادت کے بارے میں جو تفتیش وتحقیق میجر اسحاق محمد نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کرکی، وہ کسی کارنامے سے کم نہیں ۔
بہت سے لوگوں کے لیے یہ بات قابل فہم نہیں کہ ایک پنجابی نے، ایک دکنی کمیونسٹ کی جرات اور جواں مردی ثابت کرنے کے لیے اپنی زندگی کے ماہ وسال کیوں داؤ پر لگادیے ۔ یہ بات بس وہی سمجھ سکتے ہیں جو کسی آدرش پر اپنی خوشیاں اور اپنی جان بھی قربان کردیتے ہیں ۔ یہ میجر اسحاق تھے جن کے ذریعے حسن ناصرکی ماں زہرا علمبردار حسین کو جواں سال بیٹے کے جان سے گزر جانے کی خبر ملی۔
صدمے سے نڈھال لیکن بیٹے کو ساتھ لے جانے کا تہیہ کیے ہوئے زہرا حسین لاہور پہنچیں۔ اس کے بعد قبر کشائی ہوئی ۔اس سے برآمد ہونے والی کسی ناقابل شناخت لاش کے بارے میں پولیس کا اصرار تھا کہ وہ ناصر کی ہے اور ماں کا اسے اپنے بیٹے کا جسد خاکی ماننے سے انکار اور پھر واپس حیدرآباد چلے جانا، ایک اندوہناک واقعہ ہے۔
جاتے جاتے وہ اپنے بیٹے کے دوستوں سے یہ کہہ گئیں کہ ''ہر انسان کی زندگی کا اپنی ذات کے علاوہ بھی مقصد ہونا چاہیے ورنہ وہ انسان نہیں ۔ بعض مقاصد ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں جان کی بازی لگانی ہوتی ہے ۔ میرے بیٹے کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا ۔ میں بہت دنوں سے یہ جانتی تھی ۔کئی برسوں سے جی کڑا کیے رکھا ۔ بالآخر وہ لمحہ آگیا جو ٹل نہیں سکتا تھا ۔ میری بات چھوڑئیے ۔ البتہ حسن ناصر خوشی قسمت تھا کہ اگر اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکا۔ تو اس کے لیے جان دے دینے کی سعادت تو پالی۔''
کسی کو حسن ناصر کے آخری دنوں اور شہادت کے بارے میں سب کچھ جاننے کی خواہش ہو تو وہ میجر اسحاق محمد کی کتاب '' حسن ناصر کی شہادت '' کا مطالعہ کرے ۔ رونگٹے کھڑے کردینے والے واقعات ۔ یقین نہیں آتا کہ انسان ، شرفِ انسانیت سے اس حد تک بھی گرسکتا ہے ۔
حسن ناصر کے بارے میں پولیس کا اصرار تھا کہ وہ اپنی ماں کا خط پڑھ کر اس قدر دل گرفتہ ہوا کہ اس نے خود کشی کرلی جب کہ میجر اسحاق محمد اور ناصر کے دوسرے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ کسی کمیونسٹ کا اس طرح دل برداشتہ ہونا ممکن ہی نہیں کہ وہ خودکشی کا ارتکاب کر لے ۔ یاد رہے کہ چند دن پہلے حسن ناصر نے جیل لائبریری سے History of Saracensمنگوائی تھی اور اسے پڑھ رہے تھے ۔ روزانہ کے اخبارات (سنسر شدہ) کا مطالعہ بھی ان کا روزمرہ تھا۔ یہ تمام واقعات ''حسن ناصر کی شہادت'' اور کامران اژدر علی کی کتاب ''سرخ سلام'' میں مل جاتے ہیں ۔ یہ اس شخص کی زندگی کا منظرنامہ ہے جو برصغیر کی کمیونسٹ تحریک میں ایک لیجنڈ کی حیثیت اختیار کرگیا۔
ان سے مارکسزم کی تعلیم لینے والے محمد علی ملباری کا کہنا تھا کہ حسن ناصر نے ایک پرولتاریہ پارٹی کے قیام کے لیے خود کو وقف کردیا تھا ۔ حسن ناصر کراچی میں لگ بھگ دس سال رہے ۔ انھوں نے اپنا زیادہ تر وقت زیر زمین رہنے اور سیکیورٹی اداروں سے مسلسل بچنے میں گزارا تھا ۔ محمد علی کا کہنا تھا کہ حسن ناصرکا کوئی مستقل گھر نہیں تھا اور ان کے کھانے پینے اور سونے جاگنے کا نظام بے ضابطہ اور بے قاعدہ تھا ۔ محمد علی کے مطابق ''وہ گلی میں ملنے والی سادہ ترین غذا کھا لیا کرتے تھے، انھیں پارک کے بنچ ، پارٹی آفس کے فرش یا مزدوروں کے کوارٹروں میں ، جہاں بھی تھوڑی سی جگہ ملتی وہ وہیں سوجایا کرتے تھے۔''
1950ء کی دہائی کے اوائل میں حسن ناصر اپنی قید کے دوران نہ صرف قیدیوں بلکہ جیل کے عملے میں بھی کافی مقبول تھے ۔ انٹرویو کے دوران محمد علی ملباری نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ اسے 1950ء کی دہائی کے ابتدائی دنوں میں گرفتار کرکے جب کراچی سینٹرل جیل بھیجا گیا اور وہاں کے غیر سیاسی قیدیوں کو یہ معلوم ہوا کہ میں حسن ناصرکا دوست ہوں تو انھوں نے مجھ سے اضافی عزت اور احترام سے پیش آنا شروع کردیا ۔ قیدیوں کے علاوہ جیل کے محافظ بھی ان کا پورا خیال رکھا کرتے تھے ۔
تاہم ، کراچی کے پولیس لاک اپ اور کراچی سینٹرل جیل میں رہنا ، لاہور قلعے میں رہنے سے مختلف بات رہی ہوگی کیونکہ لاہور قلعہ اس وقت دہشت ناک سی آئی ڈی اور انٹیلی جنس بیوروکا مرکز ہوا کرتا تھا ۔ حسن ناصر ، جیل حکام کے احکامات کی مزاحمت کرسکتے تھے لیکن لاہور قلعے میں ایسے مطالبات ، مزاحمت کے زمرے میں آتے تھے جس کا مفہوم یہ تھا کہ سرکش قیدی کو نظم وضبط میں لانے کے لیے مزید تشدد اور ایذار سانی کی ضرورت ہے ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ حسن ناصر نے یہاں خاموشی اختیار کرلی ہوگی اور کچھ بولنے سے گریزکیا ہوگا ۔ایک قیدی ہمیشہ خاموش رہ کر (یا تشدد سے بے ہوش ہوکر خاموشی میں چلا جاتا ہے ) ، قیدی اپنے اوپر موت سے مشابہت رکھنے والی خاموش طاری کرلیتے ہیں جو اس کے جسم کے لیے آخری خطرہ ہوتی ہے ۔ اس خاموشی کے جواب میں اکثر ایذا رسانی کی شدت میں اضافہ کردیا جاتا ہے ۔ اس معاملے میں خاموشی ، اعتراف جرم اور بامعنی زبان میں بیانیے کی عدم موجودگی کے مترادف تھی ۔ اس لیے تشدد کا مقصد یہ تھا کہ جس قیدی کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے وہ تکلیف اور اذیت کے باعث قابل سماعت آوازیں نکال سکے۔ ان حوالوں سے حسن ناصر کی موت ، اس کے رفیقوں اور خاندان کا نقصان تھا لیکن یہ خود تشدد اور ایذا رسانی کی ایک آخری حد بھی بن گئی ... ایک بولنے والا جسم جس سے امکانی طور پر اعتراف جرم کرایا جاسکتا تھا اب دنیا میں موجود نہیں تھا ۔
ریاستی تشدد سے حسن ناصر کی شہادت کی خبر ملک بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی ۔ یہ پاکستان میں قرۃ العین حیدر کے قیام کے آخری دن تھے ۔ وہ '' آگ کا دریا '' اور '' سیتا ہرن'' لکھ چکی تھیں اور اپنا ناولٹ ''ہاؤسنگ سوسائٹی'' مکمل کررہی تھیں ۔ انھیں حسن ناصر جیسے کرداروں سے ہمیشہ گہری دلچسپی رہی ۔ اس کا اندازہ ان کے بعد کے افسانے ''چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا '' سے لگایا جاسکتا ہے ۔ قرۃ العین حیدر، حسن ناصر کے نام اور ان کی روپوشی کی زندگی سے واقف تھیں ۔
''ہاؤسنگ سوسائٹی'' کا ''سلیمان'' جسے انھوں نے بہارکے ایک قحط زدہ گاؤں میں پیدا ہونے والے باپ کا بیٹا بتایا ہے ۔ اک آدرش وادی، ایک کمیونسٹ جو روپوشی کی زندگی گزار رہا تھا اور پاکستان پہنچ کر سندھی سیکھ رہا تھا ۔ عشق میں گرفتار تھا ، عشقِ بشر اور عشقِ ثریا ۔ اور نہیں جانتا تھا کہ اس پر تشدد کرنے والے اس کے ساتھ کیا کچھ کریں گے ۔ اس کی دونوں ہتھیلیوں میں میخیں ٹھونک دیں گے ۔ پھر اس تشدد پر دبیز پردہ ڈالنے کے لیے اس کی موت کو خودکشی بیان کریں گے لیکن لوگوں کو یہ کیسے سمجھایا جائے کہ آدرش وادی خودکشی نہیں کرتے۔ حسن ناصر بدترین تشدد سہہ کر رخصت ہوئے اور اپنے پیچھے ایک روشن لکیر چھوڑ گئے ۔
''حضور نظام '' حیدرآباد دکن کے مولا وآقا تھے ۔ ان کی اپنی ٹکسال تھی جس میں سکے ڈھلتے تھے اور دکن کی وسیع وعریض سلطنت میں چلتے تھے ۔ حسن ناصر، نواب محسن الملک کے نواسے تھے ، نازونعم میں پلے ہوئے ۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ان کی تعلیم ہوئی تھی،انھیں ولایت روانہ کیا گیا تھا کہ وہ کیمبرج سے اعلیٰ تعلیم لے کر واپس آئیں۔
روشن اور کامیاب زندگی ان کے لیے کھلی ہوئی تھی لیکن ہونی کو بھلا کون روک سکا ہے۔ ان کے علاقے میں تلنگانہ تحریک اپنے عروج پر تھی، انقلابی شاعر مخدوم محی الدین کے اشعارگلیوں اور بازاروں میں گونجتے تھے۔ شعورکی آنکھیں کھلیں تو حسن ناصر ان انقلابی نوجوانوں کے نعروں کے اسیر ہوئے ۔ سبط حسن نے لکھا ہے کہ حسن ناصر سے ان کی پہلی ملاقات مئی 1948ء میں شہر بمبئی میں اور دوسری ملاقات جولائی 1948کے کراچی میں ہوئی تھی ۔
حسن ناصر اس وقت صرف 20 برس کے تھے لیکن کمیونسٹ پارٹی سے ان کی وابستگی اتنی گہری اور مستحکم تھی کہ پارٹی اور اس سے متعلق حلقوں میں وہ نہ صرف معروف تھے بلکہ ان کا بے حد احترام کیا جاتا تھا ۔ ان کی زندگی پر اسرارکے پردے میں چھپی رہی ۔ ان کی شہادت کے بارے میں جو تفتیش وتحقیق میجر اسحاق محمد نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کرکی، وہ کسی کارنامے سے کم نہیں ۔
بہت سے لوگوں کے لیے یہ بات قابل فہم نہیں کہ ایک پنجابی نے، ایک دکنی کمیونسٹ کی جرات اور جواں مردی ثابت کرنے کے لیے اپنی زندگی کے ماہ وسال کیوں داؤ پر لگادیے ۔ یہ بات بس وہی سمجھ سکتے ہیں جو کسی آدرش پر اپنی خوشیاں اور اپنی جان بھی قربان کردیتے ہیں ۔ یہ میجر اسحاق تھے جن کے ذریعے حسن ناصرکی ماں زہرا علمبردار حسین کو جواں سال بیٹے کے جان سے گزر جانے کی خبر ملی۔
صدمے سے نڈھال لیکن بیٹے کو ساتھ لے جانے کا تہیہ کیے ہوئے زہرا حسین لاہور پہنچیں۔ اس کے بعد قبر کشائی ہوئی ۔اس سے برآمد ہونے والی کسی ناقابل شناخت لاش کے بارے میں پولیس کا اصرار تھا کہ وہ ناصر کی ہے اور ماں کا اسے اپنے بیٹے کا جسد خاکی ماننے سے انکار اور پھر واپس حیدرآباد چلے جانا، ایک اندوہناک واقعہ ہے۔
جاتے جاتے وہ اپنے بیٹے کے دوستوں سے یہ کہہ گئیں کہ ''ہر انسان کی زندگی کا اپنی ذات کے علاوہ بھی مقصد ہونا چاہیے ورنہ وہ انسان نہیں ۔ بعض مقاصد ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں جان کی بازی لگانی ہوتی ہے ۔ میرے بیٹے کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا ۔ میں بہت دنوں سے یہ جانتی تھی ۔کئی برسوں سے جی کڑا کیے رکھا ۔ بالآخر وہ لمحہ آگیا جو ٹل نہیں سکتا تھا ۔ میری بات چھوڑئیے ۔ البتہ حسن ناصر خوشی قسمت تھا کہ اگر اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکا۔ تو اس کے لیے جان دے دینے کی سعادت تو پالی۔''
کسی کو حسن ناصر کے آخری دنوں اور شہادت کے بارے میں سب کچھ جاننے کی خواہش ہو تو وہ میجر اسحاق محمد کی کتاب '' حسن ناصر کی شہادت '' کا مطالعہ کرے ۔ رونگٹے کھڑے کردینے والے واقعات ۔ یقین نہیں آتا کہ انسان ، شرفِ انسانیت سے اس حد تک بھی گرسکتا ہے ۔
حسن ناصر کے بارے میں پولیس کا اصرار تھا کہ وہ اپنی ماں کا خط پڑھ کر اس قدر دل گرفتہ ہوا کہ اس نے خود کشی کرلی جب کہ میجر اسحاق محمد اور ناصر کے دوسرے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ کسی کمیونسٹ کا اس طرح دل برداشتہ ہونا ممکن ہی نہیں کہ وہ خودکشی کا ارتکاب کر لے ۔ یاد رہے کہ چند دن پہلے حسن ناصر نے جیل لائبریری سے History of Saracensمنگوائی تھی اور اسے پڑھ رہے تھے ۔ روزانہ کے اخبارات (سنسر شدہ) کا مطالعہ بھی ان کا روزمرہ تھا۔ یہ تمام واقعات ''حسن ناصر کی شہادت'' اور کامران اژدر علی کی کتاب ''سرخ سلام'' میں مل جاتے ہیں ۔ یہ اس شخص کی زندگی کا منظرنامہ ہے جو برصغیر کی کمیونسٹ تحریک میں ایک لیجنڈ کی حیثیت اختیار کرگیا۔
ان سے مارکسزم کی تعلیم لینے والے محمد علی ملباری کا کہنا تھا کہ حسن ناصر نے ایک پرولتاریہ پارٹی کے قیام کے لیے خود کو وقف کردیا تھا ۔ حسن ناصر کراچی میں لگ بھگ دس سال رہے ۔ انھوں نے اپنا زیادہ تر وقت زیر زمین رہنے اور سیکیورٹی اداروں سے مسلسل بچنے میں گزارا تھا ۔ محمد علی کا کہنا تھا کہ حسن ناصرکا کوئی مستقل گھر نہیں تھا اور ان کے کھانے پینے اور سونے جاگنے کا نظام بے ضابطہ اور بے قاعدہ تھا ۔ محمد علی کے مطابق ''وہ گلی میں ملنے والی سادہ ترین غذا کھا لیا کرتے تھے، انھیں پارک کے بنچ ، پارٹی آفس کے فرش یا مزدوروں کے کوارٹروں میں ، جہاں بھی تھوڑی سی جگہ ملتی وہ وہیں سوجایا کرتے تھے۔''
1950ء کی دہائی کے اوائل میں حسن ناصر اپنی قید کے دوران نہ صرف قیدیوں بلکہ جیل کے عملے میں بھی کافی مقبول تھے ۔ انٹرویو کے دوران محمد علی ملباری نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ اسے 1950ء کی دہائی کے ابتدائی دنوں میں گرفتار کرکے جب کراچی سینٹرل جیل بھیجا گیا اور وہاں کے غیر سیاسی قیدیوں کو یہ معلوم ہوا کہ میں حسن ناصرکا دوست ہوں تو انھوں نے مجھ سے اضافی عزت اور احترام سے پیش آنا شروع کردیا ۔ قیدیوں کے علاوہ جیل کے محافظ بھی ان کا پورا خیال رکھا کرتے تھے ۔
تاہم ، کراچی کے پولیس لاک اپ اور کراچی سینٹرل جیل میں رہنا ، لاہور قلعے میں رہنے سے مختلف بات رہی ہوگی کیونکہ لاہور قلعہ اس وقت دہشت ناک سی آئی ڈی اور انٹیلی جنس بیوروکا مرکز ہوا کرتا تھا ۔ حسن ناصر ، جیل حکام کے احکامات کی مزاحمت کرسکتے تھے لیکن لاہور قلعے میں ایسے مطالبات ، مزاحمت کے زمرے میں آتے تھے جس کا مفہوم یہ تھا کہ سرکش قیدی کو نظم وضبط میں لانے کے لیے مزید تشدد اور ایذار سانی کی ضرورت ہے ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ حسن ناصر نے یہاں خاموشی اختیار کرلی ہوگی اور کچھ بولنے سے گریزکیا ہوگا ۔ایک قیدی ہمیشہ خاموش رہ کر (یا تشدد سے بے ہوش ہوکر خاموشی میں چلا جاتا ہے ) ، قیدی اپنے اوپر موت سے مشابہت رکھنے والی خاموش طاری کرلیتے ہیں جو اس کے جسم کے لیے آخری خطرہ ہوتی ہے ۔ اس خاموشی کے جواب میں اکثر ایذا رسانی کی شدت میں اضافہ کردیا جاتا ہے ۔ اس معاملے میں خاموشی ، اعتراف جرم اور بامعنی زبان میں بیانیے کی عدم موجودگی کے مترادف تھی ۔ اس لیے تشدد کا مقصد یہ تھا کہ جس قیدی کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے وہ تکلیف اور اذیت کے باعث قابل سماعت آوازیں نکال سکے۔ ان حوالوں سے حسن ناصر کی موت ، اس کے رفیقوں اور خاندان کا نقصان تھا لیکن یہ خود تشدد اور ایذا رسانی کی ایک آخری حد بھی بن گئی ... ایک بولنے والا جسم جس سے امکانی طور پر اعتراف جرم کرایا جاسکتا تھا اب دنیا میں موجود نہیں تھا ۔
ریاستی تشدد سے حسن ناصر کی شہادت کی خبر ملک بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی ۔ یہ پاکستان میں قرۃ العین حیدر کے قیام کے آخری دن تھے ۔ وہ '' آگ کا دریا '' اور '' سیتا ہرن'' لکھ چکی تھیں اور اپنا ناولٹ ''ہاؤسنگ سوسائٹی'' مکمل کررہی تھیں ۔ انھیں حسن ناصر جیسے کرداروں سے ہمیشہ گہری دلچسپی رہی ۔ اس کا اندازہ ان کے بعد کے افسانے ''چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا '' سے لگایا جاسکتا ہے ۔ قرۃ العین حیدر، حسن ناصر کے نام اور ان کی روپوشی کی زندگی سے واقف تھیں ۔
''ہاؤسنگ سوسائٹی'' کا ''سلیمان'' جسے انھوں نے بہارکے ایک قحط زدہ گاؤں میں پیدا ہونے والے باپ کا بیٹا بتایا ہے ۔ اک آدرش وادی، ایک کمیونسٹ جو روپوشی کی زندگی گزار رہا تھا اور پاکستان پہنچ کر سندھی سیکھ رہا تھا ۔ عشق میں گرفتار تھا ، عشقِ بشر اور عشقِ ثریا ۔ اور نہیں جانتا تھا کہ اس پر تشدد کرنے والے اس کے ساتھ کیا کچھ کریں گے ۔ اس کی دونوں ہتھیلیوں میں میخیں ٹھونک دیں گے ۔ پھر اس تشدد پر دبیز پردہ ڈالنے کے لیے اس کی موت کو خودکشی بیان کریں گے لیکن لوگوں کو یہ کیسے سمجھایا جائے کہ آدرش وادی خودکشی نہیں کرتے۔ حسن ناصر بدترین تشدد سہہ کر رخصت ہوئے اور اپنے پیچھے ایک روشن لکیر چھوڑ گئے ۔