جناب موقع دیجیے بہت سے کھلاڑی حاضر ہیں

وزیراعلیٰ صاحب! کھیلوں کے مواقع نہ ہونے کے باعث نوجوان مسلسل غیر سماجی سرگرمیوں اور نشے کی لعنت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں


ایچ ایم کالامی September 22, 2018
یہاں کے نوجوان صرف ٹینس بال کے اوپر ٹیپ چڑھاکر کھیل سکتے ہیں، ہارڈ بال کا تصور ہی نہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

صبح سے شام تک لیپ ٹاپ میں دماغ کھپائی کے باعث جب ذہنی تناؤ کا شکار ہوتا ہوں تو آفس سے نکلتے ہی بائیک کو کک مارتا ہوں اور کالام کی میدانی جنگل کی طرف نکل جاتا ہوں۔ جب جنگل میں داخل ہوجاتا ہوں تو بائیک کے سائلنسر کی آواز پرندوں کی چہچہاہٹ میں معدوم ہوجاتی ہے۔ جب معطر ہواؤں سے لہلاتے درختوں کے پتوں پر نظر پڑتی ہے تو آفس کے بکھرے فائلوں کی جھنجٹ دماغ سے اڑن چُھو ہوجاتی ہے۔

اپنی کھال میں مست ہوکر ہولے ہولے اس میدان اس سنسان جنگل کے بیچ پہنچ جاتا ہوں جہاں اپنی ایک الگ دنیا بسی ہوتی ہے۔ جنگل کے بیچ میں ایک گول سبزہ زار میدان ہے، جہاں مقامی نوجوان دنیا و ما فیہا سے بے خبر کھیلوں میں مشغول رہتے ہیں۔

میں بھی کونے میں کسی درخت سے ٹیک لگاگر اس منظر میں غرق ہوجاتا ہوں اور دن بھر کی تھکان بھگاکر واپس لوٹ آتا ہوں۔

ابھی چند دنوں سے اس گراؤنڈ میں مقامی نوجوانوں نے کرکٹ ٹورنامنٹ بھی منعقد کروائی ہے۔ یہاں کے نوجوان صرف ٹینس بال کے اوپر ٹیپ چڑھاکر کھیل سکتے ہیں، ہارڈ بال کا تصور ہی نہیں۔ لیکن سہولیات کے فقدان کے باوجود بھی کرکٹ کے ایسے کھلاڑی موجود ہیں جن کے چھکے بلند آہنگ درختوں کے اوپر سے اس طرح نکل جاتے ہیں کہ گیند بشمکل نظر آتی ہے۔ بلکہ گلی کوچوں اور ایسے چھوٹے موٹےمیدانوں میں کھیلتے ہوئے کئی نوجوان اس حد تک اپنا لوہا منوا چکے ہیں کہ اب وہ پنڈی اور اسلام آباد کے اکیڈمیوں میں ضلعی اور صوبائی سطح کے میچ کھیل سکتے ہیں۔ اسی طرح فٹ بال، مارشل آرٹس اور دیگر کھیلوں میں بھی سوات کوہستان کے کئی نوجوان یدطولیٰ رکھتے ہیں؛ لیکن شومئی قسمت کہ کسی بھی کھیل میں حکومتی سطح کی حوصلہ افزائی نظر نہیں آتی۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سہولیات کے شدید فقدان کے باوجود ان پہاڑوں میں ایسے کرکٹرز، فٹ بالرز اور کک باکسر سے لے کر مارشل آرٹس کے تمام کھیلوں میں نام کمانے والے نوجوان موجود ہیں، جن کو اگر حکومتی سطح پر معمولی سرپرستی حاصل ہو تو ممکن ہے کہ وہ ملکی ٹیموں کو بھرپور سہارا دے سکتے ہیں۔ لیکن بارے اس کا بھی بیان ہوجائے کہ کھیل کی دنیا سے سیاست کے میدان تک سفر کرنے والی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت صوبہ خیبر پختونخوا میں ایسے نوجوانوں کے لیے اب تک کیا کرسکی ہے؟

قارئین کرام! آپ کو یاد ہو کہ نہ ہو، ہمیں یاد ہے زرا زرا سا نہیں، بلکہ پوری طرح یاد ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد تحریک انصاف حکومت نے ہر تحصیل کی سطح پر کھیلوں کے گراؤنڈ تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کے بعد پہلی دفعہ جب عمران خان صاحب نے وادی کالام کا دورہ کیا تو جہاز سے اترنے کے بعد جیسے ہی ان کی نظر وادی کالام کے ایک وسیع میدان پر پڑی تو انہوں نے فوراََ یہاں ایک عالمی سطح کا کرکٹ گراؤنڈ بنانے کا وعدہ کیا تھا، اس دورے کے دوران ان کے ساتھ سینئیر صحافی سلیم صافی صاحب بھی موجود تھے۔ شاید کبھی فرصت ملے تو وہ بھی اس دورے کی روداد قارئین کرام کو سناسکیں گے، مگر تادم تحریر اسٹیڈیم تو کجا، چھوٹے پیمانے کا کوئی گراؤنڈ بھی تعمیر نہ ہوسکا۔

سب سے دلچسپ بات یہ کہ موجودہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا جناب محمود خان گذشتہ دور حکومت میں صوبائی وزیر کھیل رہ چکے ہیں، مگر اب تک کتنے تحصیلوں میں اور کون کون سے علاقوں میں کھیلوں کے میدان آباد کرسکے، یہ سیدھا سادہ سوال شاید ان کی طعبعیت پر گراں گزرے، مگر ہم عوام کے پاس فریاد سنانے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ اس لیے سوات کوہستان کے چند علاقوں کے نوجوانوں کی فریاد ایک بار پھر ان کے گوش گزار کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔

آج سے غالباً دو سال قبل تحصیل بحرین کے گاؤں مانکیال کے نوجوان سراپا احتجاج تھے کہ وہ دریا کنارے پتھریلی زمین پر کھیل کے عاجز آچکے ہیں اور کھیلوں کے مواقع نہ ہونے کے باعث نوجوان مسلسل غیر سماجی سرگرمیوں اور نشے کی لعنت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں، ہم نے بار بار ان نوجوانوں کی فریاد کو نوک قلم پر لایا اور خوب اجاگر کیا، مگر کھیل کا محکمہ ٹس سے مس نہ ہوا؛ اور وہاں کے نوجوانوں کی حالت آج بھی جوں کی تو ہے۔

اس کے بعد ایک سال قبل کالام بیوٹی فیکیشن کے نام سے سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے ڈیڑھ ارب کا اک منصوبہ شروع کیا، جس میں ایک عدد کھیل کا میدان بھی تعمیر کرنا شامل تھا، مگر منصوبہ آخری مراحل میں داخل ہوچکا ہے اور کھیل کا کوئی میدان دور دور تک نظر نہیں آتا۔

اب پاکستان تحریک انصاف نے دہشت گردی کے ڈسے سواتی عوام کے دکھوں کا مداوا محمود خان کو وزارت اعلیٰ دے کر کیا ہے۔ جس سے مایوسی کے سائے مٹ چکے ہیں، امید کی کرنیں پھر سے روشن ہو ہوچکی ہیں۔ جناب محمود خان صاحب کے فرائض منصبی سنبھالنے کے بعد "ضلع اپر سوات" کے دیرینہ مطالبے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ، سوات کوہستان میں جنگلات کا تحفظ اور ٹمبر اسمگلنگ کی روک تھام پر فوری کام شروع کرنے کے بعد ہم بھی ہر مسئلے کو اس اعتماد کے ساتھ اپنے قلم کے ذریعے اجاگر کرنے کی ٹھان لیتے ہیں کہ اس پر "خپل وزیر اعلیٰ" ضرور نظرالتفات ڈالیں گے، اس لیے وزیر اعلیٰ صاحب، ایک نظر کھیلوں پر بھی!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں