جذبہ یا جارحیت…
نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کا تدارک ضروری ہے
کہا جاتا ہے کہ نوجوان خون اور ان کا جوش و جذبہ کسی بھی ملک و قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتا ہے اور کسی بھی قوم کی بہتری و ترقی کا انحصار اس سرمائے کے درست استعمال اور ملکی معاملات میں بھر پور شرکت پر ہوتا ہے۔
خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں اس سرمائے کی فراوانی ہے۔ پاکستان کی نوجوان نسل جوش و ولولے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی مگر نوجوانوں کے اندر پنپتا یہ جذبہ، مناسب رہنمائی اور مواقع نہ ملنے کی صورت میں جارح مزاجی اور شدت پسندی بھی اختیار کر سکتا ہے، جیسا کہ ہمارے معاشرے میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ اس لیے نوجوانوں میں پایا جانے والا یہ جذبہ ایک طرف قابل تحسین ہے تو دوسری طرف لمحہ فکریہ بھی۔ ایک طرف اس نسل کا اپنے ملک و وطن کے لیے کچھ کرگزرنے کا جذبہ ہے تو دوسری طرف اس جنون کو راستہ نہ ملنے کی وجہ سے جارحیت کی طرف راغب ہونا بھی امر حقیقی ہے۔ اس پس منظر میں ہم کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کیسے اس سرمائے کو ملک کے لیے مفید اور کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔
ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا جب ہم نے پاکستان کی نوجوان نسل کو سیاست میں دلچسپی لیتے دیکھا۔ نہایت خوش آئند سوچ تھی کہ نوجوان اپنے ووٹ کی طاقت سے ملک کو بدلنا چاہتے ہیں۔ سیاسی عمل میں نوجوانوں کی فعالیت کے پیش نظر تقریباً تمام جماعتوں نے اپنے انتخابی منشوروں اور انتخابی مہم میں نوجوانوں کو خصوصی اہمیت دی۔ اب جبکہ انتخابی عمل اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانوں میں ملک کی تعمیر و ترقی کے جذبے کو ماند نہ پڑنے دیا جائے اور ان کی توانائیوں کو معاشرے کی بہتری اور اصلاح کے لیے استعمال کیا جائے۔ اگر اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نوجوان نسل کی اب بھی درست سمت میں رہنمائی نہ کی گئی تو اس کا منفی نتیجہ بھی نکل سکتا ہے۔
آج کا نوجوان اپنے اندر ایک پورا طوفان چھپائے ہوئے ہے۔ اس طوفان کو راستہ نہ ملنے کے سبب ہماری نوجوان نسل اضطراب اور مسائل کا شکار ہورہی ہے۔ آج کی نسل کسی بھی میدان میں اپنی رائے کا نہ صرف خیر مقدم چاہتی ہے بلکہ ہر میدان میں اپنی شمولیت کو بھی ممکن طور پر یقینی بنانا چاہتی ہے اور بناتی ہے۔ سیاست کا گورکھ دھندہ ہو یا بات ہو فیشن کی، ملکی مسائل ہوں یا تعلیمی میدان، معیشت کا موضوع ہو یا چاہے بات ہو کھیل کی دنیا کی، ہر میدان میں نوجوان نسل اپنی شرکت اور جذبے کا بھر پور اور واضح اظہار کرتی ہے اور اس حوالے سے ان کا کردار اور جوش و جذبہ لائق تحسین ہے۔ اس لیے اہم بات یہ کہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں نوجوانوں کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے بھرپور مواقع دئیے جائیں اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ پاکستان کی ترقی کا دارومدار نوجوان نسل کے جوش و جذبے پر ہی منحصر ہے۔ ہمیں اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس مثبت جذبے کو جارحیت میں بدلنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے اور نوجوانوں میں پیدا ہونے والی شدت پسندی کی کیا وجوہات ہیں۔
تحقیق اور مشاہدے سے یہ بات ثابت ہے کہ جنونیت اور شدت پسندی کا شکار وہ لوگ ہیں جن کا زیادہ وقت ٹی وی، ویڈیو گیمز، کمپیوٹر، فلموں، ڈراموں یا سوشل میڈیا پر گزرتا ہے۔ آج کل کی فلموں، ڈراموں، اداکاروں اور ٹیکنالوجی کی دوڑ نے نوجوان نسل کو اپنی اندھی تقلید پر لگا دیا ہے جس کی وجہ سے ان کی سمجھ بوجھ کی صلاحیت ماند پڑگئی ہے۔ کیبل کلچر اور غیر ملکی میڈیا نے ہماری سماجی اقدار اور خاندانی نظام میں بگاڑ کا جو عمل ایک عشرے قبل شروع کیا تھا، اس کے مضر اثرات آج کی نوجوان نسل میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ اس سب میں بہت بڑا حصہ پاکستانی میڈیا کا بھی ہے۔ان فلموں ڈراموں نے پاکستانی کلچر پر تو کاری ضرب لگائی ہی ہے مگر نوجوان نسل کو ذہنی مفلوج بھی بنا دیا ہے۔ فلموں اور ڈراموں کی رنگینیوں کو اصل زندگی میں شامل کرنے کے لیے آج کی نسل اضطراب کا شکار ہورہی ہے۔ یہی ذہنی دبائو، احساس کمتری اور خود کو دوسروں سے بہتر بنانے کا شوق جنونیت کی طرف راغب کرتا ہے۔
میڈیا کے طے کردہ پیمانوں کے مطابق خود کوبہتر سے بہتر بناکر پیش کرنے کی کوشش میں نوجوان نسل اپنی اصلیت اور پہچان کھوتی جارہی ہے۔ اس مقابلے بازی کی دوڑ میں دوسروں کو نیچا دکھانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ کسی پسندیدہ کھلاڑی کی بات ہو یا پسندیدہ شخصیت کی، پسندیدہ اداکار ہو یا پسندیدہ کھیل، اس پسندیدگی میں یہ نسل خود کو اس سطح پر لے جاتی ہے، جہاں کسی قسم کی تنقید بھی اس کو ناگوار گزرتی ہے۔ دراصل آج کی نسل خود کو عقل کل سمجھتی ہے۔ وہ درحقیقت نہیں جانتی کہ وہ کیا نہیں جانتی۔ مگر وہ سمجھتی ہے کہ جو کچھ وہ جانتی ہے وہی درست ہے۔ مگر یہ انقلاب راتوں رات نہیں آیا۔ اس جارحیت اورجنوں خیزی کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہیں۔ کون جانے کہ اس کی وجہ صحیح سمت کا تعین نہ ہونا ہے یا کسی مناسب پلیٹ فارم کی عدم دستیابی، تربیت کا فقدان ہے یا مذہب سے دوری۔ وطن عزیز میں ٹیلنٹ کی کمی ہے نہ ہی جذبے کی، کمی صرف درست سمت کی رہنمائی کی ہے۔
یہ سب رویے خود اعتمادی کی کمی، احساس کمتری یا جلاپے کی بنا پر تشکیل پاتے ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ نوجوان نسل کا نمائندہ شدت پسندی میں اتنا آگے بڑھ چکا ہے کہ ایثار، رواداری، صبرو تحمل اور برداشت جیسے رویے اس کے لیے انجان ہیں۔ گھریلو سطح ہو یا باہر کی دنیا، نوجوان نسل کا دائرہ کار اس کی ''میں'' تک محدود ہوگیا ہے۔ اس ''میں'' کا خاتمہ دراصل معاشرے کی ترقی کی پہلی سیڑھی ثابت ہوگی۔ اگر ہم اس مسئلے پر قابو پانا چاہتے ہیں تو ہمیں نوجوان نسل کو قومی سوچ کے تحت مل جل کر کام کرنے اور ''ہم ایک ہیں'' کے رویے کو فروغ دینے کا درس دینا ہوگا۔
نوجوانوں میں جوش و جذبے اور جنونیت و شدت پسندی اور اس کی وجوہات کے حوالے سے جب مختلف جامعات کے طلبا و طالبات سے بات کی گئی تو انہوں نے متفرق خیالات کا اظہار کیا۔ UMT کے صہیب صدیقی کے مطابق نوجوان نسل کی جنونیت بے راہ روی کے باعث ہے، جس کی اصل وجہ مذہب سے دوری ہے۔ جامعہ کراچی کی طوبیٰ معراج کا کہنا تھا کہ نوجوان نسل کی شدت پسندی طبقاتی فرق کا نتیجہ ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کی وجیہہ کہتی ہیں کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ نوجوان نسل شدت پسند ہے۔ پنجاب کالج کے محسن نعمان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کا جوش و جذبہ خوش آئند ہے۔ لاہور کالج کی حفصہ خواجہ کے مطابق نوجوان نسل اپنے مستقبل کے بارے میں تحفظات کا شکار ہے، اس لیے ایسا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ I.B.A کے سعد خان کا کہنا تھا کہ نوجوان نسل اپنے اندر کچھ کرگزرنے کا جذبہ رکھتی ہے مگر اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے ان کے پاس کوئی مناسب پلیٹ فارم نہیں ہے۔ کنیئرڈ کالج کی عفرا یاسر کے مطابق یہ مذہب سے دوری کا نتیجہ ہے۔ نجم الثاقب کا کہنا تھا کہ یہ سب کم وقت میں زیادہ پانے کی ریس کی بدولت ہے۔
دیکھا جائے تو نوجوانوں کے رویے میں سختی اور مزاج میں شدت پسندی لانے میں یہ تمام عوامل اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ سوچا جائے کہ نوجوان نسل کو صحیح راستے پر کس طرح گامزن کرنا ہے۔ اس کے لیے ملک کی معیشت کو مضبوط بنانا ہوگا۔ ملک کی معاشی حالت کے سنبھلنے کے بعد نوجوان نسل اپنے مستقبل کے لیے بہتر فیصلے کرسکتی ہے۔ نوجوان سسٹم کی تبدیلی چاہتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ ایسا کیونکر ممکن ہو گا۔ ہماری نوجوان نسل کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں جو ان کی رہنمائی کرے۔ مگر خود کوئی بارش کا پہلا قطرہ بننے کو تیار نہیں۔ نوجوان نسل اس اندھی تقلید سے کس طرح پیچھا چھڑا سکتی ہے، اس کا فیصلہ خود اس نسل کو ہی کرنے دیتے ہیں۔ ہمارا اپنی نسل کے لیے یہی پیغام ہے کہ محنت اور مثبت کوشش کی بدولت ہی اقوام کی تقدیریں بدلی جاسکتی ہیں کیونکہ ''عمل'' سے زندگی بنتی ہے...
خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں اس سرمائے کی فراوانی ہے۔ پاکستان کی نوجوان نسل جوش و ولولے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی مگر نوجوانوں کے اندر پنپتا یہ جذبہ، مناسب رہنمائی اور مواقع نہ ملنے کی صورت میں جارح مزاجی اور شدت پسندی بھی اختیار کر سکتا ہے، جیسا کہ ہمارے معاشرے میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ اس لیے نوجوانوں میں پایا جانے والا یہ جذبہ ایک طرف قابل تحسین ہے تو دوسری طرف لمحہ فکریہ بھی۔ ایک طرف اس نسل کا اپنے ملک و وطن کے لیے کچھ کرگزرنے کا جذبہ ہے تو دوسری طرف اس جنون کو راستہ نہ ملنے کی وجہ سے جارحیت کی طرف راغب ہونا بھی امر حقیقی ہے۔ اس پس منظر میں ہم کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کیسے اس سرمائے کو ملک کے لیے مفید اور کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔
ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا جب ہم نے پاکستان کی نوجوان نسل کو سیاست میں دلچسپی لیتے دیکھا۔ نہایت خوش آئند سوچ تھی کہ نوجوان اپنے ووٹ کی طاقت سے ملک کو بدلنا چاہتے ہیں۔ سیاسی عمل میں نوجوانوں کی فعالیت کے پیش نظر تقریباً تمام جماعتوں نے اپنے انتخابی منشوروں اور انتخابی مہم میں نوجوانوں کو خصوصی اہمیت دی۔ اب جبکہ انتخابی عمل اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانوں میں ملک کی تعمیر و ترقی کے جذبے کو ماند نہ پڑنے دیا جائے اور ان کی توانائیوں کو معاشرے کی بہتری اور اصلاح کے لیے استعمال کیا جائے۔ اگر اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نوجوان نسل کی اب بھی درست سمت میں رہنمائی نہ کی گئی تو اس کا منفی نتیجہ بھی نکل سکتا ہے۔
آج کا نوجوان اپنے اندر ایک پورا طوفان چھپائے ہوئے ہے۔ اس طوفان کو راستہ نہ ملنے کے سبب ہماری نوجوان نسل اضطراب اور مسائل کا شکار ہورہی ہے۔ آج کی نسل کسی بھی میدان میں اپنی رائے کا نہ صرف خیر مقدم چاہتی ہے بلکہ ہر میدان میں اپنی شمولیت کو بھی ممکن طور پر یقینی بنانا چاہتی ہے اور بناتی ہے۔ سیاست کا گورکھ دھندہ ہو یا بات ہو فیشن کی، ملکی مسائل ہوں یا تعلیمی میدان، معیشت کا موضوع ہو یا چاہے بات ہو کھیل کی دنیا کی، ہر میدان میں نوجوان نسل اپنی شرکت اور جذبے کا بھر پور اور واضح اظہار کرتی ہے اور اس حوالے سے ان کا کردار اور جوش و جذبہ لائق تحسین ہے۔ اس لیے اہم بات یہ کہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں نوجوانوں کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے بھرپور مواقع دئیے جائیں اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ پاکستان کی ترقی کا دارومدار نوجوان نسل کے جوش و جذبے پر ہی منحصر ہے۔ ہمیں اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس مثبت جذبے کو جارحیت میں بدلنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے اور نوجوانوں میں پیدا ہونے والی شدت پسندی کی کیا وجوہات ہیں۔
تحقیق اور مشاہدے سے یہ بات ثابت ہے کہ جنونیت اور شدت پسندی کا شکار وہ لوگ ہیں جن کا زیادہ وقت ٹی وی، ویڈیو گیمز، کمپیوٹر، فلموں، ڈراموں یا سوشل میڈیا پر گزرتا ہے۔ آج کل کی فلموں، ڈراموں، اداکاروں اور ٹیکنالوجی کی دوڑ نے نوجوان نسل کو اپنی اندھی تقلید پر لگا دیا ہے جس کی وجہ سے ان کی سمجھ بوجھ کی صلاحیت ماند پڑگئی ہے۔ کیبل کلچر اور غیر ملکی میڈیا نے ہماری سماجی اقدار اور خاندانی نظام میں بگاڑ کا جو عمل ایک عشرے قبل شروع کیا تھا، اس کے مضر اثرات آج کی نوجوان نسل میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ اس سب میں بہت بڑا حصہ پاکستانی میڈیا کا بھی ہے۔ان فلموں ڈراموں نے پاکستانی کلچر پر تو کاری ضرب لگائی ہی ہے مگر نوجوان نسل کو ذہنی مفلوج بھی بنا دیا ہے۔ فلموں اور ڈراموں کی رنگینیوں کو اصل زندگی میں شامل کرنے کے لیے آج کی نسل اضطراب کا شکار ہورہی ہے۔ یہی ذہنی دبائو، احساس کمتری اور خود کو دوسروں سے بہتر بنانے کا شوق جنونیت کی طرف راغب کرتا ہے۔
میڈیا کے طے کردہ پیمانوں کے مطابق خود کوبہتر سے بہتر بناکر پیش کرنے کی کوشش میں نوجوان نسل اپنی اصلیت اور پہچان کھوتی جارہی ہے۔ اس مقابلے بازی کی دوڑ میں دوسروں کو نیچا دکھانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ کسی پسندیدہ کھلاڑی کی بات ہو یا پسندیدہ شخصیت کی، پسندیدہ اداکار ہو یا پسندیدہ کھیل، اس پسندیدگی میں یہ نسل خود کو اس سطح پر لے جاتی ہے، جہاں کسی قسم کی تنقید بھی اس کو ناگوار گزرتی ہے۔ دراصل آج کی نسل خود کو عقل کل سمجھتی ہے۔ وہ درحقیقت نہیں جانتی کہ وہ کیا نہیں جانتی۔ مگر وہ سمجھتی ہے کہ جو کچھ وہ جانتی ہے وہی درست ہے۔ مگر یہ انقلاب راتوں رات نہیں آیا۔ اس جارحیت اورجنوں خیزی کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہیں۔ کون جانے کہ اس کی وجہ صحیح سمت کا تعین نہ ہونا ہے یا کسی مناسب پلیٹ فارم کی عدم دستیابی، تربیت کا فقدان ہے یا مذہب سے دوری۔ وطن عزیز میں ٹیلنٹ کی کمی ہے نہ ہی جذبے کی، کمی صرف درست سمت کی رہنمائی کی ہے۔
یہ سب رویے خود اعتمادی کی کمی، احساس کمتری یا جلاپے کی بنا پر تشکیل پاتے ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ نوجوان نسل کا نمائندہ شدت پسندی میں اتنا آگے بڑھ چکا ہے کہ ایثار، رواداری، صبرو تحمل اور برداشت جیسے رویے اس کے لیے انجان ہیں۔ گھریلو سطح ہو یا باہر کی دنیا، نوجوان نسل کا دائرہ کار اس کی ''میں'' تک محدود ہوگیا ہے۔ اس ''میں'' کا خاتمہ دراصل معاشرے کی ترقی کی پہلی سیڑھی ثابت ہوگی۔ اگر ہم اس مسئلے پر قابو پانا چاہتے ہیں تو ہمیں نوجوان نسل کو قومی سوچ کے تحت مل جل کر کام کرنے اور ''ہم ایک ہیں'' کے رویے کو فروغ دینے کا درس دینا ہوگا۔
نوجوانوں میں جوش و جذبے اور جنونیت و شدت پسندی اور اس کی وجوہات کے حوالے سے جب مختلف جامعات کے طلبا و طالبات سے بات کی گئی تو انہوں نے متفرق خیالات کا اظہار کیا۔ UMT کے صہیب صدیقی کے مطابق نوجوان نسل کی جنونیت بے راہ روی کے باعث ہے، جس کی اصل وجہ مذہب سے دوری ہے۔ جامعہ کراچی کی طوبیٰ معراج کا کہنا تھا کہ نوجوان نسل کی شدت پسندی طبقاتی فرق کا نتیجہ ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کی وجیہہ کہتی ہیں کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ نوجوان نسل شدت پسند ہے۔ پنجاب کالج کے محسن نعمان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کا جوش و جذبہ خوش آئند ہے۔ لاہور کالج کی حفصہ خواجہ کے مطابق نوجوان نسل اپنے مستقبل کے بارے میں تحفظات کا شکار ہے، اس لیے ایسا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ I.B.A کے سعد خان کا کہنا تھا کہ نوجوان نسل اپنے اندر کچھ کرگزرنے کا جذبہ رکھتی ہے مگر اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے ان کے پاس کوئی مناسب پلیٹ فارم نہیں ہے۔ کنیئرڈ کالج کی عفرا یاسر کے مطابق یہ مذہب سے دوری کا نتیجہ ہے۔ نجم الثاقب کا کہنا تھا کہ یہ سب کم وقت میں زیادہ پانے کی ریس کی بدولت ہے۔
دیکھا جائے تو نوجوانوں کے رویے میں سختی اور مزاج میں شدت پسندی لانے میں یہ تمام عوامل اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ سوچا جائے کہ نوجوان نسل کو صحیح راستے پر کس طرح گامزن کرنا ہے۔ اس کے لیے ملک کی معیشت کو مضبوط بنانا ہوگا۔ ملک کی معاشی حالت کے سنبھلنے کے بعد نوجوان نسل اپنے مستقبل کے لیے بہتر فیصلے کرسکتی ہے۔ نوجوان سسٹم کی تبدیلی چاہتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ ایسا کیونکر ممکن ہو گا۔ ہماری نوجوان نسل کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں جو ان کی رہنمائی کرے۔ مگر خود کوئی بارش کا پہلا قطرہ بننے کو تیار نہیں۔ نوجوان نسل اس اندھی تقلید سے کس طرح پیچھا چھڑا سکتی ہے، اس کا فیصلہ خود اس نسل کو ہی کرنے دیتے ہیں۔ ہمارا اپنی نسل کے لیے یہی پیغام ہے کہ محنت اور مثبت کوشش کی بدولت ہی اقوام کی تقدیریں بدلی جاسکتی ہیں کیونکہ ''عمل'' سے زندگی بنتی ہے...