پیپلز پارٹی کی شکست اور مستقبل کا منظرنامہ

صدر آصف علی زرداری نے گزشتہ دنوں لاہور میں سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات میں ریٹرننگ افسران...

صدر آصف علی زرداری نے گزشتہ دنوں لاہور میں سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات میں ریٹرننگ افسران نے اہم کردار ادا کیا، اگر مجھے موجودہ الیکشن کے ریٹرننگ افسران مل جائیں تو دوبارہ صدارتی الیکشن جیت سکتا ہوں،ان کا کہنا تھا کہ صدارت سے استعفیٰ کیوں دوں، اپنی آئینی مدت پوری کروں گا۔ طالبان اور دہشت گردی کی وجہ سے پنجاب میں انتخابی مہم نہیں چلا سکے۔ انتخابات میں شکست تسلیم کرتے ہیں۔ الیکشن میں ایسا ماحول پیدا کیا گیا جس میں ہمیں پنجاب میں 40 سے 45 نشستوں پر الیکشن ہرایا گیا۔ صدر نے کہا کہ ہم اسی الیکشن میں25 یا 26 نشستوں کے لیے ایک اور بھٹو کی قربانی نہیں دے سکتے تھے۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ صرف بلاول ہی نہیں میرے تینوں بچے سیاست کریں گے۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ ہم بجلی کا بحران ختم نہیں کر سکے جس کا الیکشن میں نقصان ہوا۔ جب آٹھ آٹھ گھنٹے بجلی نہ دے پا رہے ہوں تو لوگ ہمیں کیوں ووٹ دیں گے۔ اگر عمران خاں کے پاس اکثریت ہو گی تو ہمیں ان کے اپوزیشن لیڈر بننے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے ایک سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی بیٹوں کو بچاتے دوسرے سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف عدالتوں کے چکر لگا کر خود کو بچاتے رہے اور مجھے خود ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد ایوان صدر تک محدود ہونا پڑا۔ یعنی اس الیکشن میں پیپلز پارٹی نے بغیر قیادت کے الیکشن میں حصہ لیا۔ تو پھر جیتتے کیسے؟۔ الیکشن میں پنجاب میں ہماری حکمت عملی کامیاب نہیں رہی۔

لاہور میں ہیں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ ہولڈرز سے خطاب کرتے ہوئے بھی صدر زرداری نے کہا کہ انتخابات میں سازش کے تحت پیپلز پارٹی کو ہرایا گیا۔ کچھ عالمی اور کچھ مقامی اداروں نے سازش کی۔ پیپلز پارٹی سے جو غلطیاں ہوئیں ان کا ازالہ کر یں گے۔سال کے آخر میں خود بھی میدان میں نکلوں گا۔ پوری تیاری کے ساتھ پارٹی کو فعال بنائیں گے کچھ جیالوں کو مفاہمت کی سیاست پسند نہیں۔ انھوں نے ٹکٹ ہولڈرز سے کہا کہ آپ لوگ بلاشبہ نامساعد حالات میں الیکشن لڑ رہے تھے مجھے ذاتی طور پر آپ سے ہمدردی ہے اور دوبارہ پنجاب میں واپس آئیں گے۔ صدر زرداری کی یہ تمام باتیں غور کے قابل ہیں' ان میں انھوں نے شکست کی وجوہات بھی بیاں کی ہیں اور مستقبل کی حکمت عملی بھی واضح کر دی ہے۔

پنجاب میں پیپلز پارٹی کی شکست غیر متوقع نہیں ہے لیکن اتنی بری شکست کی توقع بھی نہیں تھی' بہر حال اتنی بڑی شکست کے باوجود بظاہر زرداری صاحب مطمئن ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جو کچھ ہوا انھیں اس کا پہلے ہی سے علم تھا (الیکشن نتائج کے حوالے سے) دہشت گردوں کی دھمکیوں کے باوجود پنجاب خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں انتخابی مہم نہ چلانا یا نیم دلی سے چلانا لگتا ہے ان کے نزدیک وقت اور سرمایے کا ضیاع تھا۔ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ زرداری صاحب پیپلز پارٹی کے لیے گورباچوف ثابت ہوئے یا نہیں!!! صدر زرداری نے اپنی تقریر میں کوتاہیوں کا اعتراف بھی کیا جس میں سب سے اہم اعتراف یہ تھا کہ جب ہماری حکومت میں8 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہو گی تو عوام ہمیں ووٹ کیوں دیں گے۔ لیکن دوسری طرف صدر زرداری کے ایک نقاد بھی ان کے دور حکومت کے بہت سے اقدامات کو بہت بڑی کامیابیوں میں شمار کرتے ہیں۔ ان میں انتخابات کا انعقاد یقینی بنانا اور اس میں کوئی مداخلت نہ کرنا۔ انھوں نے بغیر کسی مداخلت کے پنجاب حکومت کو مدت مکمل کرنے دی۔ 18 ویں ترمیم' این ایف سی ایوارڈ' تمام اختیارات وزیر اعظم کو منتقل کرنا شامل ہیں۔


یہ بات بہت خوش آیند ہے کہ صدر زرداری نے الیکشن نتائج پر اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود جمہوریت کے استحکام کے لیے ان نتائج کو قبول کر لیا ہے اور میاں نواز شریف کو اپنے ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا ہے۔ اس خیر سگالی کا اظہار دونوں رہنمائوں نے چینی وزیر اعظم کو دیے گئے ظہرانے میں یہ کہہ کر کیا کہ (زرداری) میں تو میاں نواز شریف کو وزیر اعظم کہتا ہوں جب کہ نواز شریف نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا کہ ابھی انھوں نے وزیر اعظم کا منصب نہیں سنبھالا۔ اس موقع پر نواز شریف نے کہا کہ ہماری صدر زرداری سے ذاتی طور پر کوئی تلخیاں نہیں ہیں اور نہ ہی انھوں نے صدر کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔ نواز شریف نے مزید کہا کہ ہمیں اپنی ذات کے بجائے ملکی مفادات کو ترجیح دینا ہو گی۔ اگر ہم اپنی ذات کو سامنے رکھتے تو شاید آج یہ ملاقات نہ ہوتی۔

پاک بھارت دوستی ایجنڈا پیپلز پارٹی کا ہی ہے لیکن اس پر عمل درآمد نواز شریف کرنے جا رہے ہیں جس میں انھیں صدر زرداری اور پیپلز پارٹی کا بھرپور تعاون حاصل رہے گا۔ اس سے پہلے بھٹو بے نظیر زرداری سمیت جس نے بھی بھارت سے دوستی کی بات کی انھیں غدار قرار دے دیا گیا۔ نواز شریف جب پاک بھارت دوستی کے راستے پر چلیں گے تو کوئی ان کی حب الوطنی پر انگلی نہیں اٹھا سکے گا کیونکہ ان کو دائیں بازو کی حمایت حاصل ہو گی۔ اس لیے پاکستانی عوام کے ہر طبقہ فکر کو چاہیے کہ اس موقع پر جب ہمارے خطے کی تاریخ ایک نیا جنم لینے جا رہی ہے۔ سب مل کر نواز شریف کا ساتھ دیں جب کہ ان کے راستے میں قدم قدم پر بہت سی بارودی سرنگیں بچھی اور چھپی ہوئی ہیں۔

میاں نواز شریف نے بھارت کے حوالے سے غیر روایتی طرز عمل اختیار کر کے سخت گیر طبقے کو ناراض کیا ہے' میاں نواز شریف نے بڑی جرات سے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی پالیسی کا دفاع کیا ہے' اب وہ اقتدار سنبھالنے والے ہیں' انھیں بہت سے کام کرنے ہیں' وہ یقیناً پاکستانی سیاست کے روایت شکن حکمران ہوں گے جن کے اقدامات کی بدولت برصغیر پاک و ہند کی سیاست میں انقلابی تبدیلی آئے گی' ایسی تبدیلی جس کا چند برس پہلے تک خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔تاریخ کے اس موڑ پر خدانخواستہ نواز شریف کی ناکامی صرف ان کی ہی ناکامی نہیں ہو گی بلکہ ان افتادگان خاک کی ہو گی جو صدیوں سے کسی نجات دہندہ کے انتظار میں ہیں۔

7 سے 18 جون کا عرصہ عمران خان کی صحت میں مزید بہتری لے کر آئے گا۔

سیل فون: 0346-4527997
Load Next Story