کالا باغ ڈیم ہی کیوں

آج کل لوڈ شیڈنگ نے ملک بھر میں لوگوں کی زندگی اس قدر اجیرن کر رکھی ہے کہ بجلی کے ستائے لوگ آپس میں ہی ایک...


سارہ لیاقت June 02, 2013

آج کل لوڈ شیڈنگ نے ملک بھر میں لوگوں کی زندگی اس قدر اجیرن کر رکھی ہے کہ بجلی کے ستائے لوگ آپس میں ہی ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں ۔ پچھلی حکومتوں نے بڑے ڈیم بنانے کی بجائے کبھی چھوٹے پن بجلی کے منصوبوں اورکبھی کرایے کے بجلی گھروں کا سہارا ڈھونڈا جس کی وجہ سے آج یہ مسئلہ اس قدر شدت اختیار کر چکا ہے کہ کاروبار زندگی ہی چلانا دوبھر ہو گیا ہے ۔

میری نواز شریف سے صرف اتنی گزارش ہے کہ وقتی حل کی بجائے اس مسئلے کے دیر پا حل کے لیے مختلف تدابیر اختیار کی جائیں جن میں سب سے اہما بڑے پن بجلی کے منصوبے ہیں جو کہ نہ صرف عوام کے لیے قیمت کے حساب سے زیادہ سود مند ہیں بلکہ دیر پا بھی زیادہ ہیں ۔ انھی منصوبوں میں سے ایک کالا باغ ڈیم بھی ہے ۔کالا باغ ڈیم جو کہ اپنے آغاز میں ہی ایسا سیاست کی بھینٹ چڑھا کہ آج تک سیاست دانوں کے چنگل سے باہر نکل ہی نہیں سکا۔

کالا باغ ڈیم کی اہمیت اور افادیت کی بحث آج کوئی نئی نہیں ہے اور نا ہی اس کے بارے میں پائے جانے والے صوبوں کے تحفظات آج تک دور ہو سکے ہیں۔ یہ پن بجلی کا منصوبہ جو کہ کئی دہائیوں سے تنازعے کا شکار ہے اس کو میانوالی ڈسٹرکٹ میں واقع کالاباغ کے مقام پر بنایا جانا تھا ۔ 1984 میں اس کے بارے میں سب سے پہلے رپورٹ تیار کی گئی ۔جس میں اس کے معاشی فوائد اور تکنیکی باریکیوں کا جائزہ لیا گیا ۔پن بجلی کے اس منصوبے سے اندازہ تھا کہ 2400 میگاواٹ بجلی حاصل کی جا سکے گی جس کو بعد میں 3600 میگاواٹ تک بڑھا دیا جانا تھا اور اس کے بارے میں یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ اس وقت کا ایشیا کا سب سے بڑا پن بجلی گھر کا منصوبہ ہو گا ۔

اس کا تفصیلی ڈیزائن ، اس پہ آنے والی مجموعی لاگت کا تخمینہ اور دیگر باریک بینیوں کا جائزہ لینے کے لیے اس پہ مزید ڈھائی برس کا عرصہ لگایا گیا اور آخرکار 1987 کے درمیان میں اس منصوبے کی تمام کاغذی کارروائی مکمل کر لی گئی اور اب یہ کام کا آغاز کرنے کے لیے بالکل تیار تھا اندازہ یہی تھا کہ اس کو چھ سال میں مکمل کر لیا جائے گا اور یہ آیندہ 8 سے 10 سالوں میں اپنی لاگت پوری کر لے گا اور اس کا پہلا پیداواری یونٹ اپریل 1993 میں کام کا آغاز کر دے گا ۔ لیکن بدقسمتی سے اس منصوبے کو اپنے آغاز سے پہلے ہی انجام پر پہنچا دیا گیا اور کچھ اس طرح سے سیاست کی نذر ہوا کہ آج تک حل نہیں ہو سکا ۔

کالا باغ ڈیم کے بارے میں بہت سے ماہرین کا باہمی اتفاق ہے کہ نہ صرف یہ منصوبہ ملکی اور معاشی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے بلکہ اس میں تاخیر ساری قوم کے لیے ایک بڑے نقصان کا باعث بن رہی ہے ۔ باوجود اس کے کہ اب تک اس منصوبے پہ ایک ارب سے زائد کی رقم خرچ کی جا چکی ہے ہم آج بھی اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں سے آغاز کا سفر دکھائی دے رہا ہے اور نہ انجام کے بارے میں کچھ معلوم ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پچھلے چھبیس برسوں میں ہم صوبوں میں اتفاق رائے نہیں پیدا کر سکے ؟ یا پھر سیاست دانوں نے اپنے سیاسی دائو پیچ لڑاتے ہوئے ہمیں متفق نہیں ہونے دیا ؟ مختلف ادوار حکومت میں اس کو بنائے جانے کی بحث کا آغاز کیا گیا پر ہر بار محض لفاظی اور کاغذی کارروائی سے بات آگے نہ بڑھ سکی اور بڑے بڑے سیاست دان خواہش رکھنے کے باوجود ہار گئے ، پرویز مشرف ہو یا گیلانی کسی کی بھی ایک نہ چل سکی اور آخر 26 مئی 2008 میں راجہ پرویز اشرف نے اس منصوبے کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور اس کی جگہ کرایے کے بجلی گھروں اور چھوٹے تھرمل منصوبوں کو یہ سوچے بغیر زیادہ اہمیت دی جانے لگی کہ اس سے عوام کے لیے قیمت کے اعتبار سے بجلی کا حصول کس قدر مشکل ہو جائے گا ۔

کالا باغ ڈیم پہ اعتراض کرنے والوں کے لیے سب سے بڑی مثال منگلا اور تربیلا ڈیم کی ہے ان کے بنائے جانے پر بھی بہت واویلہ مچایا گیا تھا مگر آج تک ہم سب انھی پن بجلی گھروں کی وجہ سے سستی بجلی اور پانی کے ذخائر سے مستفید ہوتے رہے ہیں ۔ مگر پچھلے بیس سالوں میں سیاسی اونچ نیچ ، ہمارے لوگوں کی جہالت اور سیاست کے حواریوں نے کسی بھی بڑے منصوبے کا آغاز نہیں ہونے دیا جس کی وجہ سے آج نہ صرف بجلی اس قدر مہنگی ہو چکی ہے بلکہ بہت سے علاقوں میں تو دستیاب ہی نہیں ہے ۔ جس نے ہماری گھریلو اور معاشی زندگی پر بہت تلخ اثرات ڈالے ہیں اور اس کے علاوہ پچھلے کئی عرصے سے ہمیں نہ صرف پانی کی کمی کا سامنا ہے بلکہ خریف کی فصلوں کے لیے تو بعض اوقات پانی دستیاب ہی نہیں ہے ۔کالا باغ ڈیم سے صوبہ سرحد کا آٹھ لاکھ رقبہ زیر کاشت بنایا جا سکتا ہے ۔ اس سے سندھ میں خریف کی فصل کے لیے بھی پانی دستیاب ہو گا اور انڈس ڈیلٹا کی بیس لاکھ ایکڑ سیم زدہ زمین بھی قابل کاشت ہو سکے گی ۔ اس کے علاوہ سالانہ 1.6 ارب ڈالر کی سستی بجلی حاصل ہوسکے گی اور حکومت کی آمدنی میں بھی 15 فی صد اضافہ ہو گا ۔

2010 میں آنے والے سیلاب نے ہمار ی سوچ سے اور ہمارے اندازے سے کئی گنا زیادہ تباہی مچائی تھی اور ان کڑے حالات نے ہمیں ان امور پہ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا جو کہ ماضی میں کبھی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے ، تو کبھی قومیت پرستوں نے ہمیں آگے بڑھنے کا موقع ہی نہیں دیا تھا ۔ کالا باغ ڈیم بھی ان تلخ حقیقتوں میں سے ایک ہے جس نے ہمارے ذہنوں میں لفظ کاش چھوڑ دیا ، وہ تمام اعتراضات جو کہ سیاست دان اپنی سیاست چمکانے کے لیے اٹھایا کرتے تھے قدرت نے ہمیں ان کے جوابات تو اس سیلاب کی تباہی کے ذریعے دے دیے تھے ، لیکن اس کے باوجود پتا نہیں کیوں ہم اپنے پہ بیتے جانے والی قیامت سے سبق نہیں حاصل کر پائے ۔ اس وقت کے وزیر اعظم گیلانی صاحب کا بیان کہ '' اگر آج کالا باغ ڈیم بنا ہوتا تو شاید اتنے بڑے پیمانے پہ تباہی نہ ہو تی '' ایک امید کا دیا بن کے جگمگایا لیکن اس دیے کو خود غرض سیاست دانوں نے روشن ہونے سے پہلے ہی بجھا دیا اور بالآخر ہمیشہ کی طرح گیلانی صاحب اپنے کہے کی تردید کرنے بیٹھ گئے اور فرمانے لگے کہ کالا باغ ڈیم کی خاطر تین صوبوں کو ناراض نہیں کر سکتے ۔

صوبہ سرحد کے پچھلی حکومت کے وزیر اعلیٰ نے اس منصوبے کی بھرپور مخالفت کی،ان کے جو اعتراضات تھے ان میں سے سب سے اہم یہ تھا کہ کالا باغ ڈیم سے نوشہرہ ڈوب جائے گا جو کہ اس کے بغیر بھی 2010 میں آنے والے سیلاب میں ڈوب گیا تھا اگر اس وقت ڈیم ہوتا تو شاید اتنی زیادہ تباہی نہ ہوتی ۔ ہماری زمینں بنجر ہو جائیں گی ، سیم پھیل جائے گا ۔ اسی طرح سندھ کا یہ کہنا ہے کہ ہمارے حصے کا پانی پنجاب لے جائے گا ان اعتراضات اور تحفظات کے جوابات آبی ماہرین اور انجینئرز کئی مرتبہ دے چکے ہیں لیکن اس کے باوجود اس منصوبے کی اہمیت کے پیش نظر ہم ایک دفعہ پھر سے تمام ماہرین کو میڈیا کے سامنے لا کر بٹھا سکتے ہیں جو کہ نہ صرف سیاست دانوں کے بلکہ عوام کے ذہنوں سے اٹھنے والے سوالات اور ان کے تحفظات دور کر کے لوگوں کو شاید اس کی اہمیت اور ملک کے لیے اس کی ضرورت کا احساس دلانے میں کامیاب ہو جائیں ۔

میری اپنے تمام سیاست دانوں اور خاص طور پر حکمرانوں سے پر زور اپیل ہے کہ خدارا ! اب وقت آ گیا ہے اپنی اپنی ذات کے حصار سے باہر آ کر ذرا ملک کا بھی تو سوچیں آج اگر ہمارے ذہنوں میں کاش کی خلش موجود ہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ آیندہ آنے والے نقصانات پر ہماری آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہ کر پائیں ۔آج ہمیں ایک فرد نہیں ایک قوم ہو کے سوچنا ہے کیونکہ ہماری قومی سوچ ہی ہمیں نہ صرف ان مسائل کا حل دے سکے گی بلکہ دور نظر آنے والی منزل کی گرد بھی صاف کر دے گی ۔ آئیے آج ہم سب کالاباغ ڈیم کو ممکن بنا کر اپنے ملک کو ترقی کے راستے کی طرف لے کر جانے کا پہلا قدم اٹھائیں منزل اوجھل ضرور ہے پر منزل کا نشان ابھی کھویا نہیں ۔۔۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں