قول و فعل کی حقیقت

قول وفعل میں تضاد رکھنے والے یوں تو ہرمعاشرے اور قوم میں موجود ہوتے ہیں لیکن غربت ، جہالت، خوئے غلامی ، فکری انتشار...

قول وفعل میں تضاد رکھنے والے یوں تو ہرمعاشرے اور قوم میں موجود ہوتے ہیں لیکن غربت ، جہالت، خوئے غلامی ، فکری انتشار والے اور مضبوط ارادوں سے محروم معاشروں میں ان کی فصل خوب پھلتی پھولتی ہے ایسے حالات میں عملی طور پر انھیں روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں ہوتا کیونکہ اس حمام میں سب ننگے ہوتے ہیں۔ ہمارے جیسے معاشرے نہ تین میں آتے ہیں نہ تیرہ میں۔ ہم نہ ٹھیک سے ظالم بن پائے اور نہ مظلوم ۔ پاکستان بنانے کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس میں شامل علاقوں کے لوگ پر امن، آزاد ،باہمی مساوات اور انصاف پر مبنی معاشرے میں اپنی تقدیروں کے اس طرح فیصلے کرسکیں کہ اس کی برکتوں سے سب برابر سے فیض یاب ہوں۔

اسمبلیوں ، اعلیٰ عہدوں یا مراعات یافتہ طبقوں کے لوگ اپنے اعمال کے لیے اللہ اور اس کے بندوں دونوں ہی کو جواب دہ ہوں، لیکن حالات ، قول وفعل کے تضاد ، مفادات کے لالچ، طاقت کے جنون اور ہوس زر نے اس معاشرے میں ہر کسی کو ایک دوسرے کا دشمن بنادیا۔ حکمران طبقہ کم وقت میں جھوٹ سچ کو ڈھال بناکر زیادہ سے زیادہ فائدے حاصل کرنے کے چکر میں بھول جاتا ہے کہ اس نے اپنی رعایا کے سامنے خدا کو حاضر ناظر جان کر کیا حلف اٹھایا تھا۔ پاکستان ایک ہے، اس کی آبادی میں صرف چند امراء ، وزراء ، سرمایہ دار ، جاگیردار اور وڈیرے رہ گئے ہیں جن کی ضروریات ہیں، خواہشات ہیں ۔ باقی عوام ان دو فیصد کے وعدوں پر زندگی کی جنگ لڑرہی ہے۔ ان کے قول کو فعل دیکھنے کے انتظار میں ہے۔

وہ ملک جس کے لیے اس قوم نے جان ومال کی قربانیاں دیں اسے یہ قوم چپ چاپ اپنی آنکھوں کے سامنے کنگال ہوتا دیکھ رہی ہے۔ اپنے ہاتھ کی کمائی اس قوم کے نصیب میں نہیں۔ کان کو جدھر سے بھی پکڑو ، ہاتھ میں کان ہی آتا ہے۔ بالکل اسی طرح ہماری محنت مختلف حیلوں بہانوں سے حکمرانوں کے لیے بے جا مصرف کا باعث بنی ہوئی ہے۔ ایک پاکستان ہے جو تقریبا پینسٹھ برسوں سے مختلف ہاتھوں سے لٹ رہا ہے اور ہر حکمران کے لیے ایک پارسل گیم بنا ہوا ہے۔ گزرے ہوئے برسوں میں اس چھوٹے سے خطے پر اقتدار پرستوں نے صرف ہوس اقتدار کے مزے لوٹے ہیں ۔ پاکستان کے وجود کی اصل غرض و غایت کو پس پشت ڈال کر ہر کا م کو گا ، گی ، گے کے منجدھار کے سپرد کردیا ہے۔ اسی قول و فعل کے تضاد نے ہمیں پینسٹھ برسوں میں بھی ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ملک ہونے کا شرف نہیں بخشا۔ پاکستان اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا میں گیارویں نمبر پر ہے لیکن خواندگی ، فی کس آمدنی ، تعلیم وصحت، توانائی کے ذرایع اور امن و امان کے حوالے سے اس کی پوزیشن ناقابل اطمینان ہے۔

ہم ایٹمی صلاحیت،افرادی قوت، معدنی وسائل، غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل افراد، میڈیکل سائنس اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے کم نہیں لیکن اتنا سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہم وہ نہ بن پائے جو ہمیں بننا چاہیے تھا۔ اس کی بڑی وجہ بھی ہمارے حکمرانوں کے قول و فعل کا تضاد ہی نظر آتی ہے۔ جاگیرداروں ، بیوروکریٹس اور آمروں کے گٹھ جوڑ سے جو معاشرہ بنا اور جس میں آگے چل کر وڈیرہ شاہی اور سرمایہ دار طبقہ بھی شامل ہوگیا ، ان سب نے اپنے مفادات کی خاطر عوام سے جھوٹ بولے اور ان کے حقوق کا استحصال کرنے کے لیے جو راستہ اختیار کیا ، اس پر اٹھتا ہوا ہر ہر قدم ہمیں منزل سے دور کرتا چلا گیا ۔


دھتکاری ہوئی قوم کو شارٹ میڈیم اور لانگ ٹرم پالیسیوں کے خواب دکھائے گئے ، آئین کو اصل شکل میں بحال کرنے کے دعوے کیے گئے ، غربت ، مہنگائی ، بیروزگاری ، سے نجات دلانے کے وعدے کیے گئے مگر قول و فعل کی حقیقت ہر بار اسی گا گی گے تک محدود رہی۔ ہمارے حکمران ذہنی اطمینان کی خاطر ارادی یا غیر ارادی طور پر ایسی حرکات کر جاتے ہیں جو عوام کے بحث کا موضوع بن جاتی ہے، اور پھر وہ بحث صرف بحث برائے بحث بن کر رہ جاتی ہے۔ کبھی دہشت گردی کے خاتمے کی بحث، کبھی مہنگائی و بیروزگاری کی بحث، کبھی آئین توڑنے کی بحث تو کبھی آئین کی بحالی کی بحث،کبھی پٹرول،گیس اور تیل کی بحث اور کبھی توانائی بحران کی بحث۔ لیکن ہوتا وہی ہے جو اندر کھاتے طے ہوچکا ہوتا ہے۔آج ہمارا حال یہ ہوچکا ہے کہ جو جماعت اقتدار میں ہوتی ہے وہ قائداعظم کی تصویر ایک طرف ہٹا کر اپنی جماعت کے لیڈر کی پورٹریٹ ہر مقام پر آویزاں کرتی ہے۔ پبلک پارکس ، ایئر پورٹس ، تفریحی مقامات ،سڑکوں اور مختلف اضلاع کے نام اپنی جماعت کے کرتا دھرتائو ں کے ناموں سے تبدیل کیے جارہے ہیں۔

بلاشبہ یہ صورتحال ان پاکستانیوں کے لیے انتہائی تکلیف کا باعث ہے، جنہوں نے قائداعظم کی قیادت میں بھرپور قربانیوں اور کسی بھی مخصوص قومیت سے بالاتر ہوکر ایک قوم ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے قیام پاکستان کے لیے جدوجہد کی۔بلٹ پروف گاڑیوں کے قافلوں میں سفر کرنے والے حکمران خود کو عوامی نمایندہ کہتے ہیں اور بے چاری عوام دفتروں،کارخانوں، سڑکوں حتیٰ کے اپنے گھروں تک میں دہشت گردی کے اثرات سے محفوظ نہیں ہے ۔ اس صورتحال میں حکمرانوں کا خود کو عوامی نمایندہ کہنا عوام کے ساتھ بھونڈا مذاق نہیں تو اورکیا ہے۔ حکمران غیر ملکی کمپنیوں اور ان کے آقائوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں بجلی دستیاب نہ ہونے کے باوجود مہنگی ہوتی جارہی ہے۔

یہی کمپنیاں اپنے نفعے کی خاطر ڈیمز کی تعمیر میں رکاوٹ ہیں ۔ وزیروں اور مشیروں کی بڑھتی ہوئی بے جا تعداد سوائے چاپلوسی اور ہر ماہ عوام کے دیے ہوئے ٹیکس سے کروڑوں کے نقصان کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ یہ بات اب راز نہیں رہی کہ پاکستان کو بیدردی سے کھایا جارہاہے۔ جو بھی برسراقتدار آتا ہے وہ اپنے پورے خوشامدی ٹولے کے ساتھ بے خوف وخطر پاکستان کی بنیادیں کھوکھلی کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔ ہر ڈالر کرپشن کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے نچلے عملے سے لے کر اوپر کے عملے تک سفر کرتا ہے ۔ ڈالر کے اس طویل سفر کا مقصد صرف اور صرف اقتدار وکرسی کا استحکام ہے۔ عوامی بہبود کے نام پر بیرونی قرضوں پر عیش و عشرت کرنے والے حکمران عوام میں بڑھنے والے خودکشی کے رجحان کو دیکھنے کے باوجود بھی معلوم نہیں اپنے چہروں پر بے فکری کی مسکراہٹ کیسے سجا لیتے ہیں ؟ اسمبلیوں میں تماشے کی کیفیت ہے ، ہر وقت ایک کچھڑی پکی رہتی ہے۔

عوام اپنے بنیادی حقوق اور ضرورتوں کے لیے ایڑیاں رگڑ رہے ہیں ۔ قوم کے نوجوان ملازمت کے حصول میں مسلسل ناکامیوں سے مایوسی کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں ۔ ملک دشمن عناصر ایسے ہی محروم اور استحصال شدہ نوجوانوں کی برین واشنگ اور معقول معاوضہ دے کر انھیں ملک و قوم کے خلاف باآسانی استعمال کررہے ہیں۔ مگر ہمارے حکمران نشستوں کے جھمیلوں سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ لوگ تبدیلی کے نعرے لگارہے ہیں مگر ایک ایسے معاشرے میں جہاں پانی کے کولر کے ساتھ رکھا ہوا گلاس زنجیر سے باندھنا پڑتا ہو، جہاں مسجد کے باہر رکھے ہوئے جوتوں اور چپلوں کی فکر نمازی کو اپنی آخرت سے زیادہ ہو، وہاں کسی بھی صدر یا وزیر اعظم کی تبدیلی سے کیا فرق پڑتا ہے۔ محب وطن عوام ملکی حالات کے غم میں گھل رہے ہیں۔ پوری قوم ایک شکستہ کشتی میں سوار ہے لیکن امید کی کرن ابھی باقی ہے ۔

مایوسی اور ناامیدی گناہ ہے ۔ وقت آئے گا جب ہماری آیندہ نسل اپنے مثبت کردار، اچھے افکار ، مثبت تحریکوں اور ایمان کی قوت سے سرشار ہوکر ہمارے جھکے ہوئے سر اونچے کریگی اور ہماری ڈولتی ہوئی کشتی کو پار لگائے گی۔ اس وقت صحیح معنوں میں ہمارا ملک خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی نہ پیئں مگر بتدریج انصاف کے تقاضے کچھ تو پورے ہو سکیں۔ بدامنی کی اس فضاء کو کچھ تو قرار آئے ۔آج کا پاکستان تو اندرونی خلفشار کا شکار ہوکر کب کا غیر مستحکم ہوچکا ہے۔ تمام صوبوں میں باغی عناصر کی موجودگی اپنا پتہ دے رہی ہے ایسے میں صرف نعروں کی حد تک تبدیلی کی باتیں کسی طرح بھی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ۔ حقیقی اور عملی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
Load Next Story