سندھ کا سیاسی مستقبل
سندھ میں پیپلزپارٹی نے سید قائم علی شاہ کو تیسری بار وزیراعلیٰ مقرر کرکے عوامی اور سیاسی حلقوں کو حیران کردیا ہے...
سندھ میں پیپلزپارٹی نے سید قائم علی شاہ کو تیسری بار وزیراعلیٰ مقرر کرکے عوامی اور سیاسی حلقوں کو حیران کردیا ہے اور لوگ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ قائم علی شاہ میں ایسی کون سی صلاحیت اور خوبی ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے انھیں سندھ کی وزارت اعلیٰ کے تیسری بار قابل سمجھا۔ قائم علی شاہ کے وزیراعلیٰ بنانے میں صدر زرداری کی کون سی مصلحت کار فرما ہے، یہ تو وہی جانتے ہیں۔
مگر عوام صدر مملکت کے اس فیصلے سے مایوس ہوئے ہیں کیونکہ قائم علی شاہ کی گزشتہ حکومت میں ہونے والی مبینہ کرپشن، اراضی کے اسکینڈلز، بیڈ گورننس، لاقانونیت، بد امنی، قتل وغارت گری، سیاسی جماعتوں کی عسکری ونگ، بھتہ خوری کا فروغ، غیر قانونی تعیناتیاں اور ترقیاں، لاکھوں روپے کے عوض سرکاری ملازمتوں کی فراہمی، ہر محکمے میں خلاف ضابطہ بھرتیاں، پیپلز امن کمیٹی کی سرکاری سرپرستی، اقربا پروری و دیگر معاملات کا شور اٹھتا رہا۔ اس کے باوجود قائم علی شاہ تیسری بار وزیراعلیٰ بنادیا جانا، اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کے پاس ان کا متبادل نہیں ہے۔ یہ فیصلہ پی پی کے ارکان اسمبلی سے کب تک ہضم ہوگا، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ مگر پی پی کے ارکان کا وفاداریاں برقرار رکھنے کا ریکارڈ اتنا اچھا نہیں ہے کیونکہ ماضی میں سندھ میں پی پی کی اکثریت کے باوجود جام صادق علی، سید مظفر شاہ اور لیاقت علی جتوئی نے پی پی کے ارکان اسمبلی توڑ کر ہی اپنی اپنی حکومت بنائی تھی۔
18ویں آئینی ترمیم کے بعد پارٹی سے وفادار رہ کر ہی ارکان اسمبلی بھی برقرار رہ سکتے ہیں۔ مگر فارورڈ بلاک کا راستہ ابھی کھلا ہے۔ صدر زرداری جب تک ایوان صدر میں ہیں جب تک تو ممکن ہے کہ قائم علی شاہ کو کوئی پریشانی نہ ہو اور مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت بھی اپنے وفاقی مسائل میں الجھی رہے ۔ مگراب سندھ حکومت کو وہ خوشگوار حالات میسر نہیں رہیںگے جو قائم علی شاہ کی گزشتہ حکومت میں تھے۔ قائم علی شاہ نہ پہلے مضبوط وزیراعلیٰ تھے نہ اب ثابت ہوسکتے ہیں۔ سندھ میں پہلے بھی وزارت اعلیٰ پس پردہ رہ کر کوئی اور چلایا کرتے تھے اور شاہ صاحب کو ڈمی وزیراعلیٰ کہا جاتا تھا ۔
پہلے بھی سندھ کو کوئی مضبوط وزیراعلیٰ نہیں دیا گیا تھا اور اب بھی سندھ کو ایک ایسا کمزور وزیراعلیٰ دیا ہے جس کی حکومت کو وفاقی حکومت کی سرپرستی تو کیا جائز مدد بھی حاصل نہیں ہوگی۔
قائم علی شاہ کے مقابلے میں پنجاب میں ایک بااختیار متحرک اور دن رات بھاگ دوڑ کرنے والا وزیراعلیٰ ہوگا کہ جس نے وفاق کی مدد نہ ملنے کے باوجود کام کرکے دکھایا اور پنجاب سے ن لیگ کو اکثریت دلائی۔ کے پی کے میں تحریک انصاف کی پہلی بار حکومت قائم ہوئی ہے اور اس کے وزیراعلیٰ کو عمران خان کے ویژن کے مطابق کام کرکے دکھانا ہوگا۔ خیبر پختونخوا کے سبکدوش ہونے والے اسپیکر نے نئے ارکان کی حلف برداری میں اپنی اے این پی حکومت میں ہونے والی شدید کرپشن کا اعتراف کیا ہے اور اپنی حکومت کی ناکامیوں کو بھی تسلیم کیا ہے مگر سندھ میں صورتحال یکسر مختلف ہے، جہاں تاج حیدر جیسا رہنما بھی اپنی سابق حکومت کی کوئی غلطی ماننے کو تیار نہیں ہے۔ سندھ میں چونکہ پیپلزپارٹی نے اکثریت حاصل کی ہے اس لیے پیپلزپارٹی مطمئن ہے کیونکہ 2013 کے انتخابات میں صرف سندھ سے ہی کامیابی ملی ہے جب کہ باقی تین صوبوں نے پیپلزپارٹی کو اس کی ناقص کارکردگی کی سزا دے کر مسترد کردیا ہے۔ مگر پی پی اپنی یہ ناکامی ماننے کو تیار نہیں ہے اور روایتی الزامات لگاکر اپنے جیالوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
سندھ میں پیپلزپارٹی کے پاس وزارت اعلیٰ کے لیے ایک مضبوط امیدوار آغا سراج درانی تھے جو صدر زرداری کے انتہائی قریبی دوست بھی ہیں مگر انھیں وزیراعلیٰ کے بجائے اسپیکر بنایا گیا ہے۔ جن کے والد آغا صدر الدین درانی بھی سندھ اسمبلی کے اسپیکر رہ چکے ہیں۔ آغا سراج کا تعلق بڑے جاگیردار اور سیاسی اثر ورسوخ رکھنے والے خاندان سے ہے مگر نہ جانے انھیں کیوں وزارت اعلیٰ کے قابل نہیں سمجھا گیا جب کہ وہ متحدہ کے لیے بھی قابل قبول ہوسکتے ہیں، کیونکہ وہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سے مختلف مزاج کے حامل ہیں۔
سندھ میں اس بار وزیراعلیٰ لاتعداد وزیر اور مشیر بھی نہیں رکھ سکیںگے، کیونکہ 18 ویں ترمیم کے بعد ایسا ممکن نہیں ہے کہ پہلے کی طرح اپنوں کو نوازنے کے لیے جو چاہیں کر گزریں۔ سندھ میں اب مسلم لیگ ن کی پوزیشن 2008 جیسی نہیں ہے اور نہ اب وہ تنہائی کا شکار ہے۔ مسلم لیگ نے انتخابات سے قبل سندھ کے قوم پرستوں سے توقعات وابستہ کی تھیں اور متحدہ سے خود کو لا تعلق رکھا تھا۔ وہ پالیسی بھی اب وزیراعظم نواز شریف کو تبدیل کرنا ہوگی کیونکہ وہ اب پورے ملک کے انتظامی سربراہ ہوںگے اور لا تعداد مسائل میں گھرے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی اور سندھ کے بعض علاقوں سے متحدہ کو بھی قابل قدر مینڈیٹ ملا ہے اور متحدہ ملک کی چوتھی بڑی پارٹی کی حیثیت سے اپنی پوزیشن برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ جسے وفاق کی طرف سے مکمل نظر انداز کیے جانے سے کراچی کی صورتحال کو بہتر نہیں بنایا جاسکے گا۔
سندھ میں پہلے سندھ نیشنل فرنٹ اور اب این پی اور پیپلزمسلم لیگ وفاقی جماعت مسلم لیگ ن میں ضم ہوچکی ہیں اور ضلع ٹھٹھہ کا شیرازی خاندان بھی ن لیگ میں شامل ہوچکا ہے اور پیپلزپارٹی سے ناراض سیاسی شخصیات کے پاس مسلم لیگ فنکشنل اور ن لیگ میں شمولیت کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ جب کہ فنکشنل لیگ سندھ کی تیسری پارٹی ہے جسے عوام نے متحدہ کے بعد زیادہ نشستیں دی ہیں اور وہ بھی وفاقی حکومت میں شامل ہوگی۔ جماعت اسلامی، جے یو آئی، اے این پی اور جے یو پی ایوانوں سے باہر ہیں اور صرف تحریک انصاف کے پاس چند نشستیں ہیں جو نہ متحدہ سے مل سکتی ہے، نہ پی پی سے اور اسے تنہا رہنا پڑے گا۔ متحدہ کے بغیر سندھ میں حکومت آسانی سے چلانا پی پی کے لیے ممکن نہیں ہوگا اور اسے متحدہ کو اپنے ساتھ رکھنا ہوگا۔ اور اگر کراچی اور سندھ میں امن نہ رہا تو گورنر راج کی تلوار پی پی کی حکومت پر لٹکتی رہے گی جس سے محفوظ رہنے کے لیے پی پی کو دور اندیشی اور سوچ سمجھ کر حکومت چلانا ہوگی، کیونکہ وفاق پھر وفاق ہے۔