انصاف یوں ہوتا ہے…
خبر ہے کہ 33 سال کے بعد ایک فریادی اور ظلم کے شکار کو انصاف مل گیا ہے۔ خوشی کی بات یہ کہ دیر آید درست آید کے
خبر ہے کہ 33 سال کے بعد ایک فریادی اور ظلم کے شکار کو انصاف مل گیا ہے۔ خوشی کی بات یہ کہ دیر آید درست آید کے مصداق انصاف کا بول بالا اور آخر کار ظلم کا منہ کالا ہوگیا اور دکھ کی بات یہ کہ انصاف کا وہ طالب اس دنیا سے کب کا بے انصافی کا ہجو پڑھتا ہوا رخصت ہو چکا ہے۔ اس واقعے سے کیا ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں انصاف ناپید ہے بلکہ فوری طور پر تو بالکل ناپید ہے، اگر انصاف ملتا بھی ہے تو بہت سی منتوں مرادوں اور صبر کے کٹھن مراحل سے گزرنے کے بعد۔ کیا انصاف کی فراہمی اتنی ہی مشکل ہونی چاہیے؟ کیا انصاف کی فراہمی میں غیر ضروری طوالت بذات خود ایک المیہ نہیں؟ کیا انصاف کی فراہمی میں اتنی ہی تاخیر ہونی چاہیے جتنی پاکستانی معاشرے اور قانون میں ہے؟ کیا انصاف اتنا مہنگا ہونا چاہیے جتنا پاکستان میں ہے؟ ہوتا کیا ہے، انصاف مانگنے والے کی جیب انصاف مانگتے مانگتے خالی ہوجاتی ہے لیکن اسے پھر بھی انصاف نہیں ملتا اور وقت پر ملنا تو ...!!
ایک صاحب واقف کار ہیں جو ایک سر کاری محکمہ میں اچھی پوسٹ پر فائز تھے اور صاف و شفاف نوکری کے اٹھائیس سال پورے کرنے والے تھے کہ ایک نادانستہ غلطی کی پاداش میں محکمے سے برخاست کردیے گئے، عدالت میں آخری امید کے ساتھ گئے اور کئی سال گزرنے کے بعد ابھی تک کیس لگنے کے منتظر ''بائولے'' سے زندگی کے ایام پورے کررہے ہیں۔ انصاف کے طالب گھر کے واحد کفیل کے معاشی حالات کس ڈگر پر اور کس ڈگر سے چل رہے ہیں اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ ایک بزرگ نے اپنی گزر اوقات کے لیے دکان کرایہ پر لگا رکھی تھی، کرایہ دار سال کا کرایہ اور بجلی کے بل ادا کیے بغیر نو دو گیارہ ہوگیا، قانون پسند بزرگ نے قانون پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے حق کے حصول کے لیے کیس کردیا، دو سال سے زائد عرصہ تک عدالتوں میں دھکے کھاتے رہے، اس کیس میں وکیل کو چھ ہزار فیس ادا کی اور جب اتنی کلفتوں کے بعد فیصلہ آیا تو کرایہ دار کو دو ہزار ادا کرنے کا حکم صادر کیا گیا۔ وہ دن اور آج کا دن وہ بزرگ ایک نظر اپنے فیصلے پر اور ایک نظر اٹھا کر آسمان پر ڈالتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ انصاف کی طلب کی ''بیماری'' میں پورا پاکستان مبتلا ہے۔ معاشرتی اور سماجی ناہمواری کے ''سمبل'' اس معاشرے میں آپ کو ہر دوسرے قدم پر ایسے مظلوم اور فریادی ملیں گے جو کسی نہ کسی ظلم کا شکار ہیں لیکن انصاف ان کی پہنچ سے کوسوں دور ہے۔ وکلا کی فیسیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔ یاد رکھیے اس معاشرے میں ہمیشہ شیر ٹھیک اور بکری ہمیشہ غلط کا قانون رادھا کی طرح ناچا کرتا ہے، جہاں انصاف کی عدم فراہمی کا علم ساتویں آسمان پر لہراتا ہو اور جس معاشرے میں انصاف مہنگا کھلونا ہو۔ معاشرے میں استحکام، ترقی اور خوش حالی چاہیے تو ہاری، مزارع اور عام شہری کو اس کے گھر کی دہلیز پر انصاف فراہم کیجیے بلکہ فوراً انصاف کی فراہمی کے احکام صادر کیجیے۔
حکمرانوں سے منصفوں تک سب کو انصاف کی فوری فراہمی کے لیے کر دار ادا کرنا ہوگا۔ اگر محکوموں، مظلوموں اور جبر کے زخم خوردہ کو 33،33 سال بعد انصاف ملے گا پھر جبر، ظلم، معاشرتی اور سماجی ناہمواری کے قصے روز جنم لیں گے۔ انصاف کا قتل، انصاف کی فراہمی میں تاخیر بھی گردانی جاتی ہے۔ انصاف کی فراہمی پر یہ مقولہ ''گل ویلے دی، پھل موسم دا'' صد فی صد درست لاگو ہوتا ہے، جب انصاف کی فراہمی اور تیز رفتار ''روانی'' معاشرے میں رواج پائے گی، خود رو انداز میں جرائم کی شرح اور ظلم و جبر کے واقعات میں نہ صرف کمی واقع ہوگی بلکہ جرائم پیشہ اور سماج دشمن عناصر کی ٹانگیں بھی جرم کے ارتکاب سے قبل کانپا کریں گی۔ اب کیا ہورہا ہے؟ انصاف کی سست روی اور قانون میں سقم کی وجہ سے طاقتور طبقات ہر جرم بڑی دیدہ دلیری سے کرتے ہیں اور الٹا اس پر فخر بھی کرتے ہیں؟ یہ الٹا کلیہ کیوں ہمارے ملک اور معاشرے میں رائج ہے؟ انصاف کی فراہمی میں برسوں لگ جاتے ہیں۔
معاشرے میں قانون کی اجارہ داری کب ہوگی؟ اس وقت جب انصاف سستا ہوگا اور جلد ملے گا۔ ہمارے معاشرے میں انصاف کی فراہمی میں وہ سرعت نہیں جو ہونی چاہیے۔ انصاف پسند معاشرہ وہ کہلائے گا جس میں خالی جیب والے کو بھی بروقت انصاف مل سکے۔ ہمارے ہاں بھاری جیبوں والے تو اپنی مرضی کا انصاف حاصل کر پاتے ہیں لیکن غربت کی سزا میں مبتلا پاکستانیوں کی اکثریت جلد انصاف کی فراہمی کی نعمت سے محروم ہے۔ گلتے سڑتے اور انصاف انصاف کی صدائیں بلند کرتے عام شہری ظلم کا شکار ہوکر مظلومیت کا کفن اوڑھ کر رزق خاک ہوجاتے ہیں۔ جواب روز محشر ہم سب نے دینا ہے اور اس گھڑی ہم کیا کریں گے، جب مظلوم کا ہاتھ حاکموں کے گریبانوں پر ہوگا۔ کب ایسا نظام اس ملک میں لاگو ہوگا جس میں بکری بے خوف و خطر شیر کے ساتھ ایک گھاٹ پر پانی پیے گی۔ کب اس ملک میں انصاف کے وہ ضابطے لاگو ہوں گے جب عام شہری کو 33 سال میں نہیں بلکہ 33 دنوں میں انصاف ملے گا؟؟
ایک صاحب واقف کار ہیں جو ایک سر کاری محکمہ میں اچھی پوسٹ پر فائز تھے اور صاف و شفاف نوکری کے اٹھائیس سال پورے کرنے والے تھے کہ ایک نادانستہ غلطی کی پاداش میں محکمے سے برخاست کردیے گئے، عدالت میں آخری امید کے ساتھ گئے اور کئی سال گزرنے کے بعد ابھی تک کیس لگنے کے منتظر ''بائولے'' سے زندگی کے ایام پورے کررہے ہیں۔ انصاف کے طالب گھر کے واحد کفیل کے معاشی حالات کس ڈگر پر اور کس ڈگر سے چل رہے ہیں اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ ایک بزرگ نے اپنی گزر اوقات کے لیے دکان کرایہ پر لگا رکھی تھی، کرایہ دار سال کا کرایہ اور بجلی کے بل ادا کیے بغیر نو دو گیارہ ہوگیا، قانون پسند بزرگ نے قانون پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے حق کے حصول کے لیے کیس کردیا، دو سال سے زائد عرصہ تک عدالتوں میں دھکے کھاتے رہے، اس کیس میں وکیل کو چھ ہزار فیس ادا کی اور جب اتنی کلفتوں کے بعد فیصلہ آیا تو کرایہ دار کو دو ہزار ادا کرنے کا حکم صادر کیا گیا۔ وہ دن اور آج کا دن وہ بزرگ ایک نظر اپنے فیصلے پر اور ایک نظر اٹھا کر آسمان پر ڈالتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ انصاف کی طلب کی ''بیماری'' میں پورا پاکستان مبتلا ہے۔ معاشرتی اور سماجی ناہمواری کے ''سمبل'' اس معاشرے میں آپ کو ہر دوسرے قدم پر ایسے مظلوم اور فریادی ملیں گے جو کسی نہ کسی ظلم کا شکار ہیں لیکن انصاف ان کی پہنچ سے کوسوں دور ہے۔ وکلا کی فیسیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔ یاد رکھیے اس معاشرے میں ہمیشہ شیر ٹھیک اور بکری ہمیشہ غلط کا قانون رادھا کی طرح ناچا کرتا ہے، جہاں انصاف کی عدم فراہمی کا علم ساتویں آسمان پر لہراتا ہو اور جس معاشرے میں انصاف مہنگا کھلونا ہو۔ معاشرے میں استحکام، ترقی اور خوش حالی چاہیے تو ہاری، مزارع اور عام شہری کو اس کے گھر کی دہلیز پر انصاف فراہم کیجیے بلکہ فوراً انصاف کی فراہمی کے احکام صادر کیجیے۔
حکمرانوں سے منصفوں تک سب کو انصاف کی فوری فراہمی کے لیے کر دار ادا کرنا ہوگا۔ اگر محکوموں، مظلوموں اور جبر کے زخم خوردہ کو 33،33 سال بعد انصاف ملے گا پھر جبر، ظلم، معاشرتی اور سماجی ناہمواری کے قصے روز جنم لیں گے۔ انصاف کا قتل، انصاف کی فراہمی میں تاخیر بھی گردانی جاتی ہے۔ انصاف کی فراہمی پر یہ مقولہ ''گل ویلے دی، پھل موسم دا'' صد فی صد درست لاگو ہوتا ہے، جب انصاف کی فراہمی اور تیز رفتار ''روانی'' معاشرے میں رواج پائے گی، خود رو انداز میں جرائم کی شرح اور ظلم و جبر کے واقعات میں نہ صرف کمی واقع ہوگی بلکہ جرائم پیشہ اور سماج دشمن عناصر کی ٹانگیں بھی جرم کے ارتکاب سے قبل کانپا کریں گی۔ اب کیا ہورہا ہے؟ انصاف کی سست روی اور قانون میں سقم کی وجہ سے طاقتور طبقات ہر جرم بڑی دیدہ دلیری سے کرتے ہیں اور الٹا اس پر فخر بھی کرتے ہیں؟ یہ الٹا کلیہ کیوں ہمارے ملک اور معاشرے میں رائج ہے؟ انصاف کی فراہمی میں برسوں لگ جاتے ہیں۔
معاشرے میں قانون کی اجارہ داری کب ہوگی؟ اس وقت جب انصاف سستا ہوگا اور جلد ملے گا۔ ہمارے معاشرے میں انصاف کی فراہمی میں وہ سرعت نہیں جو ہونی چاہیے۔ انصاف پسند معاشرہ وہ کہلائے گا جس میں خالی جیب والے کو بھی بروقت انصاف مل سکے۔ ہمارے ہاں بھاری جیبوں والے تو اپنی مرضی کا انصاف حاصل کر پاتے ہیں لیکن غربت کی سزا میں مبتلا پاکستانیوں کی اکثریت جلد انصاف کی فراہمی کی نعمت سے محروم ہے۔ گلتے سڑتے اور انصاف انصاف کی صدائیں بلند کرتے عام شہری ظلم کا شکار ہوکر مظلومیت کا کفن اوڑھ کر رزق خاک ہوجاتے ہیں۔ جواب روز محشر ہم سب نے دینا ہے اور اس گھڑی ہم کیا کریں گے، جب مظلوم کا ہاتھ حاکموں کے گریبانوں پر ہوگا۔ کب ایسا نظام اس ملک میں لاگو ہوگا جس میں بکری بے خوف و خطر شیر کے ساتھ ایک گھاٹ پر پانی پیے گی۔ کب اس ملک میں انصاف کے وہ ضابطے لاگو ہوں گے جب عام شہری کو 33 سال میں نہیں بلکہ 33 دنوں میں انصاف ملے گا؟؟