معاشی سمت کے تعین کی ضرورت

معاشی ماہرین نے بجٹ کو متوازن اورمہنگائی کے طوفان کی آمد کے خطرہ کو مسترد کردیا۔


Editorial September 20, 2018
معاشی ماہرین نے بجٹ کو متوازن اورمہنگائی کے طوفان کی آمد کے خطرہ کو مسترد کردیا۔ فوٹو: پی آئی ڈی

وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے مالی سال19-2018 کے آیندہ 9 ماہ کے لیے سپلیمنٹری فنانس بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا، وفاقی کابینہ نے منی بجٹ کی تجاویز کی منظوری دے دی۔ وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس ہوا جس میں وزیر خزانہ اسد عمر اور سیکریٹری خزانہ سمیت دیگر حکام نے بجٹ تجاویز پر ایف بی آر ٹیکس سلیبس اور گزشتہ دور میں دی گئی انکم ٹیکس چھوٹ پر بھی بریفنگ دی۔

بل میں1800 سی سی سے اوپر گاڑیوں پر ڈیوٹی10فیصد سے بڑھاکر 20فیصد کر دی گئی جب کہ سگریٹ پر مزید ٹیکس لگادیا گیا، نان فائلر کے لیے نئی گاڑی اور جائیداد خریدنے پر پابندی ختم کر دی گئی،وزیر اعظم،گورنرز کو رہائش اور کنوینس کی مد میںٹیکس استثنیٰ کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ای او بی آئی پنشن دس ہزار کرنے کی تجویز ہے ۔

معاشی ماہرین نے بجٹ کو متوازن اورمہنگائی کے طوفان کی آمد کے خطرہ کو مسترد کردیا ، تاہم صنعتکار برادری اور عوامی حلقوں نے مہنگائی کے سیلاب کا اندیشہ ظاہر کیا ہے، کاروباری حلقوں نے منی بجٹ پر کھلا تبصرہ نہیں کیا، وزیرمملکت حماد اظہر نے کہا کہ900 ارب کی پروجیکشن غلط تھی، حکومت نے معیشت کو بچایا ہے۔

ایف بی آر کی ری اسٹرکچرنگ کی جائے گی، پیپلز پارٹی نے حکومت کے منی بجٹ پر تحفظات کا اظہارکیا ہے ،پیپلز پارٹی کی مرکزی سیکریٹری اطلاعات ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ فنانس بل میں بالواسطہ ٹیکس بڑھا دیے گئے ہیں، نئی حکومت میں تبدیلی یہ آئی ہے کہ اسحاق ڈار کی جگہ اسد عمر آئے ہیں، فنانس بل سے مہنگائی کا طوفان آئیگا، ترقیاتی اخراجات کے اعداد وشمار میں غلط بیانی کی گئی۔

اسد عمر نے ضمنی مالیاتی بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ سابق حکومت کی جانب سے سالانہ 12لاکھ روپے آمدن پر ٹیکس استثنیٰ دیا تھا اس کو قائم رکھاگیا ہے،12سے چوبیس لاکھ والوںپر بھی ٹیکس ریٹ قائم رکھا ہے تاہم 30 سے 40لاکھ روپے آمدن پر ڈیڑھ لاکھ روپے فکسڈ ٹیکس ہوگا،اس کے علاوہ 20 فیصد ٹیکس بھی دینا ہوگا۔

انھوں نے کہاکہ کسان کی آسانی کے لیے کھاد کی ترسیل بڑھارہے ہیں، تمباکو پر ٹیکس بڑھا رہے ہیں، یوریاکی قیمتوں میں استحکام کے لیے 7 ارب روپے سبسڈی منظور کی گئی ہے، مزدوروں کے لیے 8 ہزار 276 گھر تعمیر کیے جائیں گے، برآمدی صنعت کے لیے خام مال سے ڈیوٹی ختم کریں گے،ایکسپورٹ انڈسٹری کے لیے 82 مصنوعات پر ڈیوٹی ختم کر رہے ہیں، پنجاب میںٹیکسٹائل ملز بند ہونے سے 5 لاکھ افراد بے روزگار ہوگئے ،اس لیے ٹیکسٹائل صنعت کو گیس کی مد میں44ارب روپے کا ریلیف دیا جائے گا، مہنگے فونز پر بھی ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ٹیکس بڑھائے بغیر 95 ارب روپے اضافی حاصل کریں گے، ریگولیٹری ڈیوٹی کی مد میں ایکسپورٹ انڈسٹری کو 5ارب کا ریلیف دے رہے ہیں۔ بینکنگ ٹرانزیکشن پر نان فائلر 0.6 فیصد ٹیکس اداکرے گا، اس وقت معیشت کی جو صورتحال ہے اس میں ضروری ہے کہ بجٹ میں تبدیلی کی جائے ، خسارہ 6.6فیصد پر پہنچ گیاہے ، صرف بجلی کے سیکٹر میں گزشتہ سال ساڑھے 4سو ارب ، گیس میں100ارب کاخسارہ ہوا، اس طرح آگے نہیں بڑھ سکتے۔ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں بیرونی قرضے60ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے ن لیگ کے دور میں95ارب ڈالر تک پہنچ گئے،اس وقت دو ماہ کی امپورٹ کے برابر ذخائر بھی نہیں بچے،اگر ہم نے فیصلے نہ کیے تو روپے کی قدر پر مزید اثرات پڑیں گے۔

جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا، وزیر خزانہ کے بقول یہ فیصلے اسی سمت ایک اشارہ ہیں ۔وزیر خزانہ کے مطابق قرضے28ہزار 300ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں،اس میں گردشی قرضوں کے 12سو ارب اور گیس کے گردشی قرضے بھی شامل ہیں، تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے منی بجٹ میں178ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کے باوجود رواں مالی سال 2018-19کے لیے مقرر کردہ ٹیکس وصولیوں کے ہدف میں45 ارب روپے کی کمی کیے جانیکا انکشاف ہواہے۔ رواں مالی سال کے لیے ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوںکا ہدف 4435 ارب روپے سے کم کرکے 4390 ارب روپے کردیا گیا ہے۔ ضمنی بجٹ میں2.1 فیصد کی فسکل ایڈجسٹمنٹ کی گئی ہے۔

اس کے باوجود کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اٹھارہ ارب ڈالر سے اکیس ارب ڈالر کے لگ بھگ رہنے کی توقع ہے۔ کابینہ کے اجلاس میں سپر ٹیکس سمیت 158 ارب کے نئے ٹیکس لگانے کی تجاویز پیش کی گئیں اور 305 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ میں کمی کی تجاویز بھی پیش کی گئیں۔

کابینہ کے اجلاس میں بجٹ خسارہ 6.6 فیصد کم کرکے پانچ فیصد تک لانے کی تجویز پر غور کیا گیا اور مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 5.1فیصد رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس کے علاوہ ترقیاتی بجٹ میں725ارب روپے کمی اور نان فائلر کی بینکنگ سے لین دین پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کی ہاؤس بزنس ایڈوائزی کمیٹی نے قومی اسمبلی کے موجودہ اجلاس کو ترمیمی مالیاتی بل پر سینیٹ کی جانب سے پیش کی جانے والی تجاویز آنے تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وفاقی وزیر تعلیم و قومی تربیت شفقت محمود نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے خسارہ کم دکھانے کے لیے 900 ارب کے خسارے کو چھپایا، مسلم لیگ (ن) کی حکومت 30 ہزار ارب روپے کا قرضہ چھوڑ کر گئی ہے۔ منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ فنانس بل میں ہم نے غریب کے لیے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا، ہر لحاظ سے متوازن بجٹ پیش کیا گیا ہے، انھوں نے کہا کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی، ویسے بھی آیندہ ماہ آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان کے دورہ پر آ رہی ہے۔

دریں اثنا اکنامک ایڈوائزری کونسل کے رکن ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں کبھی معاشی صورتحال اتنی خراب نہیں تھی جتنی آج ہے ، بجٹ کا خسارہ اور ہمارا بیرونی قرضہ بڑھتا گیا، تیسرا بڑا چیلنج اکنامک گروتھ کا تھا۔

ماہر معاشیات ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ ہمیں 9 ارب ڈالر سے کہیں زیادہ چاہیے، 18ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ لکھا ہوا ہے، آٹھ سے نو ارب ڈالر ہم نے قرض دینا ہے، چھبیس ارب ڈالر اگلے بارہ مہینے میں کم از کم چاہئیں، ان کی یہ بات قابل غور ہے کہ ہمیں31 ارب ڈالر چاہئیں جب کہ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جو پاکستان کو 31 ارب ڈالر دینے پر تیار ہوجائے، اس لیے آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔

پاکستان ان سات ملکوں میں شامل ہے جہاں امریکی ادویہ ساز کمپنیاں معمولی ٹیکس ادائیگی کرتی اور ٹیکسوں کی مد میں ان ترقی پذیر ملکوں کی معیشتوں کو سالانہ اوسطاً11کروڑ20لاکھ ڈالر سے محروم رکھتی ہیں۔

ملک ہمہ جہتی معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے، ایک طرف وزیراعظم غیر ملکی دورے پر ہیں کہ برادر اسلامی اور دوست ممالک سے معاشی معاونت حاصل کی جائے کہ قومی خوشحالی کے طے شدہ اہداف کی تکمیل ممکن ہوجائے، لیکن حکومت ابھی تک کوئی تخلیقی معاشی جست لگانے اور غیر معمولی اقتصادی بریک تھرو کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے، امید کی جانی چاہیے کہ قومی معیشت کو درپیش چیلنجوں سے حکومت نمٹنے کی ہر ممکن کوشش کریگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں