فطرت سے محرومی کا نوحہ
نئی حکومت کو جہاں بہت سارے مسائل درپیش ہیں وہاں معاشی مسئلہ بھی اُس کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔
یہی چاند تھا ، یہی سورج اور یہی موسم ہوا کرتے تھے ۔گرمی، سردی ، بہار اور خزاں کا بھی یہی عالم تھا،آندھی، بگولے، طوفان اور زلزلے بھی اپنے اپنے انداز سے ظاہر ہوکر فطرت کی حکمرانی کا اعلان کرتے ہوئے گزر جاتے اور انسان اپنے لٹے پٹے قافلوں کے ساتھ زمین کے کسی نئے کونے میں آباد ہوجاتا لیکن وہ مخلوق خدا کا اتنا دشمن شاید ہی کبھی رہا ہوگا، جتنا اب ہے۔
کہیں بھی آباد ہونے سے قبل وہ اس بات کا یقین ضرورکرتا تھا کہ میں جس مقام پر ڈیرا ڈال رہا ہوں ، اُس کے اردگرد کوئی سمندر، دریا ، چشمہ یا کنواں موجود ہے یا نہیں ۔کھلے میدانوں کے ساتھ اُسے ایسے جنگلات کی بھی ضرورت ہوتی جہاں وافر مقدار میں موجود درختوں کی شاخوں پر مختلف پرندے اور بل کھاتی گھاٹیوں میں ایسے جانور بھی موجود ہوں جن کے شکار سے وہ شکم بھرسکے اور ناہموار زمین کوکیاریوں اورکھیتوں کی شکل دینے کی بھی سعی کرتا کہ اُن میں اناج اگا سکے ۔
وقت گزرنے کے ساتھ اُس نے ہل سے ٹریکٹر اور بلڈوزر تک پہنچ کر راستے میں آنے والی چٹانوں کو بارود سے اڑانے تک کا سفر بھی طے کر لیا ، دریاؤں اور سمندروں کا سینہ چیرنے کے لیے کشتیاں، جہاز، بحری بیڑے اور سب میرین تک بنا ڈالیں اور نت نئی ایجادات کے ذریعے سمندر کے گہرے سینے میں دبے ان دفینوں تک پہنچ گیا جن کا تصور بھی محال تھا ۔ پہاڑوںکی وہ بلند چوٹیاں جن کوسفید برف نے صدیوں سے اپنی چادرمیں ڈھانپ رکھا تھا، انسان کے ہاتھوں ہی بے نقاب ہوئیں اور جن تک وہ نہ پہنچ سکا اُن کے دامن میں آگ کے ایسے الاؤ روشن کیے کہ دھوئیں اورگرمی کی حدت سے برسوں پرانی برف پگھل کر سمندر سے بغلگیر ہوگئی۔
یہ فسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ اپنی ضرورت کا غلام بن کر جب حیوان ناطق نے فطرت کے مقدس حجرے میں قدم رکھا تو خاندان میں کچھ ایسے بزرگ بھی موجود تھے، جنہوں نے اسے سمجھایا کہ یہ دنیا صرف انسانوں کے لیے نہیں بنی بلکہ جانوروں ، پرندوں، درختوں، دریاؤں، ستاروں اور سیاروں کی اجتماعی ملکیت ہے۔ اسے ایک ترتیب سے بنایا گیا ہے اوریہ ایسے نظام کے تابع ہے جوگھڑی کی سوئیوں کی طرح اپنے طے شدہ طریقے سے چل رہا ہے۔
زیادہ دورجانے کی ضرورت نہیں صرف تیس سال پیچھے پلٹ کر دیکھا جائے تو جنگلوں کی جوانی، دریاؤں کی روانی اور سمندروں کی جولانی کا یہ حال نہیں تھا جو اب نظر آرہا ہے ۔ چھوٹے چھوٹے کئی قدرتی چشمے ہی نہیں ملک کے مختلف علاقوں کی پہاڑیوں سے جنم لینے والی بہت ساری ندیاں ایسے گندے جوہڑوں میں تبدیل ہو چکی ہیں، جن کے قریب سے گزرنا بھی مشکل ہے۔ جن دریاؤں میں مچھلیوں کی کئی اقسام پائی جاتی تھیں، شکارکے نام پر ان میں بارود اور زہریلے مادوں سے وہ حملے کیے گئے کہ کیڑے مکوڑوں کا بھی نام ونشان مٹ گیا اور جنگلات کو اتنی بے دردی سے کاٹا گیا کہ نہ جانور رہے اور نہ پرندوں کی ٹولیاں اپنے آپ کو بچا سکیں ۔
ایک اندازے کے مطابق اگلے دس برسوں کے درمیان زمین کا درجہ حرارت مزید چار ڈگری تک بڑھ جائے گا اور ہمالیہ کے گلیشیر مزید تیزی سے پگھلنے لگیں گے، جسے دیکھتے ہوئے ماحولیاتی اداروں اور مقامی اہل دانش نے لوگوں سے یہ گزارش کی ہے کہ وہ پانی کو ضایع ہونے سے بچائیں، پہلے سے لگے درختوں کی حفاظت کریں اور نئے درخت لگا کر ماحول کو بہتربنانے میںاپنا کردار ادا کریں ۔
پچھلے کچھ عرصے سے ماحول کی بہتری کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے اور ماحولیات سے جڑے افراد تو عام لوگوں کومستقبل کی ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی پریشانیوں سے آ گاہ کر ہی رہے تھے لیکن اب حکومت بھی اس طرف خصوصی توجہ دے رہی ہے جسے دیکھتے ہوئے سوشل میڈیا اور اخبارات و جرائد کے ساتھ الیکٹرونک میڈیا بھی درختوں کی تعداد بڑھانے کے لیے میدان میں اتر چکا ہے مگر حکومت ہو یا عام سماجی افراد اور دانشور صرف پانی کے درست استعمال اور درختوں کے اضافے پر ہی زور دے رہے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ انسانی زندگی ہو، زمین کی کوکھ سے جنم لینے والے بیل بوٹے ہوں یا اس کے سینے پر پرورش پانے والے خوبصورت جانور پانی کے بغیر اپنی نسل برقرار نہیں رکھ سکتے لیکن جب ہم پرندوں اور جانوروں کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ شکارکے نام پر ان کی نسل کشی کرنے والوں کی نظر میں نہ تو کوئی مذہبی قید ہے اور نہ کوئی سماجی اور انسانی رویہ انھیں اس ظلم سے باز رکھ سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر ہمیں ایسی کئی تصویریں نظر آتی ہیں جن میں بے رحم شکاری انتہائی فرعونیت سے بندوق اٹھائے درجنوں معصوم جانوروں کی لاشوں کے ساتھ بیٹھے اپنی مردانگی کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اپنی دانست میں وہ ان مناظر کے ذریعے لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے سامنے جو بھی آئے گا اُس کا حشر ان معصوم پرندوں جیسا ہی ہو گا مگر وہ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ ان کے اس عمل سے نئی نسل اور بین الاقوامی برادری کو کیا پیغام جا رہا ہے ۔
اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کی ہماری پارلیمنٹ میں بیٹھے کچھ معزز نمایندے اور ملک کے بڑے بڑے اداروں میں کام کرنے والے کئی اہلکار خود بھی اس قتل عام کا حصہ رہ چکے ہیں اور ان کے ہاتھ بھی جانوروں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ۔ ان کا یہ عمل جاگیردارانہ معاشرے کی ان برائیوں میں شامل ہے جن پر افسوس کے بجائے فخرکیا جاتا ہے ۔
نئی حکومت کو جہاں بہت سارے مسائل درپیش ہیں وہاں معاشی مسئلہ بھی اُس کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ بہتر سے بہتر معالجین سے مشورہ کرنے کے باوجود بھی یہ درد شاید مزید پانچ سال تک برقرار رہے لیکن اس بیماری کے ساتھ اگر ماحولیات کی بہتری کی طرف قدم بڑھایا جا رہا ہے تو پانی اور درختوں کے بچاؤکے ساتھ جانوروں، پرندوں اور مچھلیوں کے بے دریغ قتل عام کی طرف بھی تھوڑی سی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
دیہی علاقوں میں رہنے والے بہت سارے ماحول دوست افراد ہماری اس بات کی گواہی دیں گے کہ حکومت کی بے توجہی اور جاگیردارانہ عیاشی کے تسلسل نے شکارکے نام پر جس بھونڈے کلچرکو مروج کیا ہے، اس کی وجہ سے کئی پرندوں اور جانوروں کی نسلیں ختم ہو چکی ہیں اور اب باقی ماندہ مخلوق اشرف المخلوقات سے ڈر ڈرکر جینے پر مجبور ہیں ۔
جانوروں کے ساتھ ہونے والے ظلم کی کہانی بہت طویل ہے مگر اس کی تازہ ترین مثال سیالکوٹ ائیر پورٹ سے بر آمد ہونے والے وہ دو سوکچھوے ہیں جنھیں بیرون ملک اسمگل کیا جا رہا تھا۔ دولت کی ہوس نے ہم سے قریبی رشتے تو پہلے ہی چھین لیے ہیں مگر ایسے واقعات کے بعد لگتا ہے جیسے ہم فطرت کے حسین وجمیل رشتوں سے بھی محروم ہو جائیں گے ۔