تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے
یہ گوری اس وقت نہایت پریشان تھی حیران تھی اشک فشاں تھی اور ناطقہ سربہ گریبان تھی اور بڑی شدت سے گریاں تھی۔
اگر چہ یہ وہ '' گوری '' نہیں جسے اقبال بانو نے کہا تھا کہ تیری پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے ۔ اس لیے تو لکھ سے بھی ایک درجہ پڑھ کر '' لہاکھ '' بھی تھم تھم کے چلے ۔ دنیا کو پتہ ہو ہی جائے گا ۔ بلکہ یہ وہ گوری ہے جسے فریدہ خانم نے دیکھ کر حیرت سے کہا تھا کہ
تو نے پیروں میں پائل تو باندھی نہیں
کیوں صدا آرہی ہے چھن چھن چھنننن
بلکہ یہ گوری اس وقت نہایت پریشان تھی حیران تھی اشک فشاں تھی اور ناطقہ سربہ گریبان تھی اور بڑی شدت سے گریاں تھی پہلے تو ہم اسے دیکھ کر گبھرائے کہ یہ کہیں وہ '' آوارگی '' نہ ہو ۔ جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ میں نے کہا تو کون ہے ۔ اس نے کہا آوارگی ۔ لیکن پھر یہ سوچ کر دل کو تسلی ہوئی کہ ہماری قسمت میں '' آوارگی '' کہاں؟ ہم نے اس کی بہن '' بے چارگی '' سے شادی کر رکھی ہے تب خیال آیا کہ یہ ضرور '' شب فراق '' ہوگی جسے فیض احمد فیض نے بڑے لاڈ سے پالا پوسا تھا ۔ اور اپنے '' اشکوں '' سے اس کی عاقبت سنواری تھی اور مومن خان مومن نے کہا تھا کہ
توکہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کرلے ہم توکل ملک عدم میں ، شب ہجراں ہوں گے
یہی سمجھ کر ہم نے اس سے کہا کہ آ اے شب فراق تجھے گھر ہی لے چلیں وہ ہمارے ساتھ ہولی اور واقعی پیروں میں پائل نہ ہونے اور'' لہاکھ '' تھم تھم کے چلنے کے باوجود چھننن چھن چھن کی صدا آرہی تھی ۔
گھر پہنچا کر جب ہم نے روشنی میں اسے دیکھا تو پتھر کے ہو کر رہ گئے ۔ ہزار ہزار پریانکائیں ، دیپکائیں، کرینائیں، کترینائیں، النیائیں اور عالیائیں کسی نے ایک ہی جگہ جمع کی ہوئی تھی اور پھر ان کے اوپر انجلیناؤں اور جولیاؤں کو پینٹ کر دیا تھا
یا رب اس شمع دل افروز کاشانۂ کیست
دل ماموفت ، پیر سید کہ جانانہ کیست
لیکن وہ اپنی اپنی سے لگنے کے باوجود غیروں کی طرح لگتی تھی، ایسا لگتا ہے کہ اسے کہیں دیکھا ہے اور اگر دیکھا نہیں تو سنا ضرور ہے یا کم از کم پڑھا تو ضرور ہے ۔ لیکن یاد آتے آتے یاد نہیں آرہی تھی اس لیے پوچھنا ہی پڑا کہ
یا رب آں شاوش ، ماہ رخ زہرہ جبیں
در بکتائے کہ وہ گوہر یک دانہ کیست
اس نے اچانک سر اٹھاتے ہوئے کہا تم نے مجھے پہچانا نہیں ہے، تعجب ہے کہ مجھ کو نہیں پہچانا ؟ عرض کیا پہچانا تو ہے لیکن نہیں بھی پہچانا ہے یعنی پہچان کر بھی نہ پہچانی ہی نہ پہچانی ہے ،
وہ تھوڑا سا طیش میں آکر بولی عجیب بد ذوق آدمی ہو میں ہی تو آج کی ملکہ عالم ہوں محبوبہ مجسم ہوں اور معشوقۂ ہر خاص و عام ہوں ،
میرا نام'' کرپشن '' ہے اب پہچانا ؟
گزارش کی کہ محترمہ میں بڑا شرمندہ ہوں در اصل میں ان '' السائل و المحروم ''بندوں میں سے ہوں جن کا گزر آپ کے اونچے ایوانوں میں ممکن ہی نہیں ہے ۔
بولی مجھے ایسے ہی بندے کی تلاش تھی میں اس وقت بڑے خطرے میں ہوں میرے سارے اعزا و اقارب دوست احباب نا جانے کس کے بہکاوے میں آکر مجھ سے لاتعلقی کا اعلان کر چکے ہیں، کر رہے ہیں اور کرتے چلے جا رہے ہیں حالانکہ چپکے چپکے مجھے بھی میسج کر رہے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں تم ہمارے ساتھ رہو ۔
گزارش کی محترمہ میں ایک عام عامی سا بندہ ہوں اگر کچھ ایسا اس اجمال کی تفصیل ہو جائے تو عنایت ہوگی۔
بولی مجھے اخباروں بیانوں جلسوں تقریروں اور سوشل میڈیا سے پتہ چلا ہے کہ اس وقت جو صاحبان بست و کشاد ہیں انھوں نے کہا ہے کہ وہ مجھے نہیں چھوڑیں گے ۔ سنا ہے تم نے ان سے بھی زیادہ '' چھوڑو'' ہو اس لیے پتہ کرو کہ واقعی وہ مجھے نہیں چھوڑیں گے ۔
ایک فلک شگاف تو نہیں لیکن چھت قہقہہ ہمارے منہ سے نکلا اور وہ ہمیں شرر بہار نگاہوں سے دیکھنے لگی ہم نے اس کے غصے کو میچور ہونے سے پہلے وضاحت کی کہ در اصل ہمیں ایک فلم کا منظر یاد آگیا تھا ۔ بولی مجھے بھی سناؤ یہ فلموں والے تمہارے پڑوسی ملک کی فلموں کے بارے میں بہت سنا ہے کہ ان میں میرے تذکرے بھی بہت ہوتے ہیں ۔سناؤ سناؤ کیا منظر تھا ؟ جس پر تمہیں ہنسی آئی ۔ اس نے بے صبری سے پوچھا ۔ عرض کیا اس فلم میں ایک تمہاری طرح کی طُرح دار لڑکی تھی، '' ارملا مار توڑ کر '' وہ ہماری طرح کی کاٹتے ہوئے بولی ۔ یہ نام تم کچھ غلط بتا رہے ہو شاید ۔ ارمیلا '' مار توڑ کر '' نہیں بلکہ کچھ اور
ہم سمجھ گئے کہ وہ غلط سمجھ گئی اس لیے سمجھایا کہ تم جو سمجھ رہی ہو وہ غلط سمجھ رہی ہو وہ ارمیلا اور ہے ۔ جو ماٹونڈ کر '' ہے بلکہ یہ ارمیلا مارتوڑ کر پولیس انسپکٹر تھی اور چونکہ اس میں بھی دوسرے پولیس والوں کی طرح '' مارتوڑ کر '' سیدھا کرنے کی عادت تھی اس لیے '' مار توڑ کر '' کہلاتی تھی۔
اچھا اچھا چلو '' مارتوڑ کر '' سیدھا کرنے والی پولیس تھی پھر ؟ پھر یوں ہوا کہ اس کے ایک بڑے افسر نے ایک بڑے مجرم کو پکڑنے کے لیے اسے بھیس بدلنے کو کہا اور اس کے آگے '' چور '' کبڑے رکھے وہ کچھ نہیں بلکہ بہت ہی چھوٹے تھے۔ ارمیلا ''مارتوڑ '' کرنے وہ کپڑے دیکھے تو بولی جناب اگر میں یہ کپڑے پہن لوں تو وہ مجرم تو کیا عام آدمی بھی مجھے نہیں چھوڑے گا۔ کہانی ختم ہوئی تو بولی، اس کا مطلب کیا ہوا ۔
عرض کیا ۔ محترمہ کرپشن بیگم سلمہٰ ۔ تم یہ جو اتنے حد اور حدود سے بھی زیادہ بے حجاب ہو گئی ہو اس میں تو تمہیں کوئی بھی نہیں چھوڑے گا اور تو اور خود میرا جی اس وقت چاہنے لگا ہے کہ تمہیں نہ چھوڑوں لیکن پرابلم یہ ہے کہ تمہیں پکڑوں کیسے ؟ کہ اس سے پہلے تجھ سے کبھی واسطہ نہیں پڑا ہے ۔وہ ناک بھوں چڑھا کر بولی ۔ میں آئی تھی کس لیے تمہارے پاس۔ اور تم نکلے کہاں؟ میں یہ رونا رونے تمہارے پاس آئی ہوں کہ یہ لوگ مجھے ہرگز ہرگز نہ ''چھوڑنے ''کے ارادے باندھ رہے ہیں ان کا کیا کروں کہاں جاؤں کہاں چھپوں ۔ کہ وہ تو مجھے نہ ''چھوڑنے '' پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔
اس کی اس حددرجہ نادانی پر ہمیں بھی غصہ آگیا، کیسی ڈفر کھوپڑی ہے۔ سچ کہا ہے کسی نے کہ حسینوں کے پاس زلفیں ہوتی ہیں عقل نہیں ہوتی پھر ہم نے اسے ذرا تفصیل سے سمجھایا اور جب وہ سمجھ گئی تو قلقاریاں مارتی ہوئی اور ناچتی تھرکتی ہوئی چلی گئی۔ یہ کہتے ہوئے کہ میں بھی کتنی نادان ہوں خواہ مخواہ ڈر رہی تھی ۔ اب آپ یہ ضرور پوچھیں گے کہ ہم نے اسے کیا سمجھایا۔ جسے وہ سمجھ گئی اور وہ نا سمجھ ابھی تک نہیں سمجھ رہی تھی ۔
سو ہم نے اسے '' نہ چھوڑنے '' کے صرف گر بتا دیے تھے اور کچھ نہیں کیا تھا ۔ اور اس کی خالی کھوپڑی میں بات آگئی کہ نہ چھوڑنے کا مطلب کیا ہے ؟ وہ نہیں جو وہ سمجھ بیٹھی تھی بلکہ وہ جو وہ نہیں سمجھ رہی تھی لیکن اب سمجھ گئی کہ وہ اسے نہیں چھوڑیں گے ۔ اس لیے '' لہاکھ '' تھم تھم چلنے کی نہیں بلکہ جم جم کر چلنے کی ضرورت ہے ۔
تو نے پیروں میں پائل تو باندھی نہیں
کیوں صدا آرہی ہے چھن چھن چھنننن
بلکہ یہ گوری اس وقت نہایت پریشان تھی حیران تھی اشک فشاں تھی اور ناطقہ سربہ گریبان تھی اور بڑی شدت سے گریاں تھی پہلے تو ہم اسے دیکھ کر گبھرائے کہ یہ کہیں وہ '' آوارگی '' نہ ہو ۔ جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ میں نے کہا تو کون ہے ۔ اس نے کہا آوارگی ۔ لیکن پھر یہ سوچ کر دل کو تسلی ہوئی کہ ہماری قسمت میں '' آوارگی '' کہاں؟ ہم نے اس کی بہن '' بے چارگی '' سے شادی کر رکھی ہے تب خیال آیا کہ یہ ضرور '' شب فراق '' ہوگی جسے فیض احمد فیض نے بڑے لاڈ سے پالا پوسا تھا ۔ اور اپنے '' اشکوں '' سے اس کی عاقبت سنواری تھی اور مومن خان مومن نے کہا تھا کہ
توکہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کرلے ہم توکل ملک عدم میں ، شب ہجراں ہوں گے
یہی سمجھ کر ہم نے اس سے کہا کہ آ اے شب فراق تجھے گھر ہی لے چلیں وہ ہمارے ساتھ ہولی اور واقعی پیروں میں پائل نہ ہونے اور'' لہاکھ '' تھم تھم کے چلنے کے باوجود چھننن چھن چھن کی صدا آرہی تھی ۔
گھر پہنچا کر جب ہم نے روشنی میں اسے دیکھا تو پتھر کے ہو کر رہ گئے ۔ ہزار ہزار پریانکائیں ، دیپکائیں، کرینائیں، کترینائیں، النیائیں اور عالیائیں کسی نے ایک ہی جگہ جمع کی ہوئی تھی اور پھر ان کے اوپر انجلیناؤں اور جولیاؤں کو پینٹ کر دیا تھا
یا رب اس شمع دل افروز کاشانۂ کیست
دل ماموفت ، پیر سید کہ جانانہ کیست
لیکن وہ اپنی اپنی سے لگنے کے باوجود غیروں کی طرح لگتی تھی، ایسا لگتا ہے کہ اسے کہیں دیکھا ہے اور اگر دیکھا نہیں تو سنا ضرور ہے یا کم از کم پڑھا تو ضرور ہے ۔ لیکن یاد آتے آتے یاد نہیں آرہی تھی اس لیے پوچھنا ہی پڑا کہ
یا رب آں شاوش ، ماہ رخ زہرہ جبیں
در بکتائے کہ وہ گوہر یک دانہ کیست
اس نے اچانک سر اٹھاتے ہوئے کہا تم نے مجھے پہچانا نہیں ہے، تعجب ہے کہ مجھ کو نہیں پہچانا ؟ عرض کیا پہچانا تو ہے لیکن نہیں بھی پہچانا ہے یعنی پہچان کر بھی نہ پہچانی ہی نہ پہچانی ہے ،
وہ تھوڑا سا طیش میں آکر بولی عجیب بد ذوق آدمی ہو میں ہی تو آج کی ملکہ عالم ہوں محبوبہ مجسم ہوں اور معشوقۂ ہر خاص و عام ہوں ،
میرا نام'' کرپشن '' ہے اب پہچانا ؟
گزارش کی کہ محترمہ میں بڑا شرمندہ ہوں در اصل میں ان '' السائل و المحروم ''بندوں میں سے ہوں جن کا گزر آپ کے اونچے ایوانوں میں ممکن ہی نہیں ہے ۔
بولی مجھے ایسے ہی بندے کی تلاش تھی میں اس وقت بڑے خطرے میں ہوں میرے سارے اعزا و اقارب دوست احباب نا جانے کس کے بہکاوے میں آکر مجھ سے لاتعلقی کا اعلان کر چکے ہیں، کر رہے ہیں اور کرتے چلے جا رہے ہیں حالانکہ چپکے چپکے مجھے بھی میسج کر رہے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں تم ہمارے ساتھ رہو ۔
گزارش کی محترمہ میں ایک عام عامی سا بندہ ہوں اگر کچھ ایسا اس اجمال کی تفصیل ہو جائے تو عنایت ہوگی۔
بولی مجھے اخباروں بیانوں جلسوں تقریروں اور سوشل میڈیا سے پتہ چلا ہے کہ اس وقت جو صاحبان بست و کشاد ہیں انھوں نے کہا ہے کہ وہ مجھے نہیں چھوڑیں گے ۔ سنا ہے تم نے ان سے بھی زیادہ '' چھوڑو'' ہو اس لیے پتہ کرو کہ واقعی وہ مجھے نہیں چھوڑیں گے ۔
ایک فلک شگاف تو نہیں لیکن چھت قہقہہ ہمارے منہ سے نکلا اور وہ ہمیں شرر بہار نگاہوں سے دیکھنے لگی ہم نے اس کے غصے کو میچور ہونے سے پہلے وضاحت کی کہ در اصل ہمیں ایک فلم کا منظر یاد آگیا تھا ۔ بولی مجھے بھی سناؤ یہ فلموں والے تمہارے پڑوسی ملک کی فلموں کے بارے میں بہت سنا ہے کہ ان میں میرے تذکرے بھی بہت ہوتے ہیں ۔سناؤ سناؤ کیا منظر تھا ؟ جس پر تمہیں ہنسی آئی ۔ اس نے بے صبری سے پوچھا ۔ عرض کیا اس فلم میں ایک تمہاری طرح کی طُرح دار لڑکی تھی، '' ارملا مار توڑ کر '' وہ ہماری طرح کی کاٹتے ہوئے بولی ۔ یہ نام تم کچھ غلط بتا رہے ہو شاید ۔ ارمیلا '' مار توڑ کر '' نہیں بلکہ کچھ اور
ہم سمجھ گئے کہ وہ غلط سمجھ گئی اس لیے سمجھایا کہ تم جو سمجھ رہی ہو وہ غلط سمجھ رہی ہو وہ ارمیلا اور ہے ۔ جو ماٹونڈ کر '' ہے بلکہ یہ ارمیلا مارتوڑ کر پولیس انسپکٹر تھی اور چونکہ اس میں بھی دوسرے پولیس والوں کی طرح '' مارتوڑ کر '' سیدھا کرنے کی عادت تھی اس لیے '' مار توڑ کر '' کہلاتی تھی۔
اچھا اچھا چلو '' مارتوڑ کر '' سیدھا کرنے والی پولیس تھی پھر ؟ پھر یوں ہوا کہ اس کے ایک بڑے افسر نے ایک بڑے مجرم کو پکڑنے کے لیے اسے بھیس بدلنے کو کہا اور اس کے آگے '' چور '' کبڑے رکھے وہ کچھ نہیں بلکہ بہت ہی چھوٹے تھے۔ ارمیلا ''مارتوڑ '' کرنے وہ کپڑے دیکھے تو بولی جناب اگر میں یہ کپڑے پہن لوں تو وہ مجرم تو کیا عام آدمی بھی مجھے نہیں چھوڑے گا۔ کہانی ختم ہوئی تو بولی، اس کا مطلب کیا ہوا ۔
عرض کیا ۔ محترمہ کرپشن بیگم سلمہٰ ۔ تم یہ جو اتنے حد اور حدود سے بھی زیادہ بے حجاب ہو گئی ہو اس میں تو تمہیں کوئی بھی نہیں چھوڑے گا اور تو اور خود میرا جی اس وقت چاہنے لگا ہے کہ تمہیں نہ چھوڑوں لیکن پرابلم یہ ہے کہ تمہیں پکڑوں کیسے ؟ کہ اس سے پہلے تجھ سے کبھی واسطہ نہیں پڑا ہے ۔وہ ناک بھوں چڑھا کر بولی ۔ میں آئی تھی کس لیے تمہارے پاس۔ اور تم نکلے کہاں؟ میں یہ رونا رونے تمہارے پاس آئی ہوں کہ یہ لوگ مجھے ہرگز ہرگز نہ ''چھوڑنے ''کے ارادے باندھ رہے ہیں ان کا کیا کروں کہاں جاؤں کہاں چھپوں ۔ کہ وہ تو مجھے نہ ''چھوڑنے '' پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔
اس کی اس حددرجہ نادانی پر ہمیں بھی غصہ آگیا، کیسی ڈفر کھوپڑی ہے۔ سچ کہا ہے کسی نے کہ حسینوں کے پاس زلفیں ہوتی ہیں عقل نہیں ہوتی پھر ہم نے اسے ذرا تفصیل سے سمجھایا اور جب وہ سمجھ گئی تو قلقاریاں مارتی ہوئی اور ناچتی تھرکتی ہوئی چلی گئی۔ یہ کہتے ہوئے کہ میں بھی کتنی نادان ہوں خواہ مخواہ ڈر رہی تھی ۔ اب آپ یہ ضرور پوچھیں گے کہ ہم نے اسے کیا سمجھایا۔ جسے وہ سمجھ گئی اور وہ نا سمجھ ابھی تک نہیں سمجھ رہی تھی ۔
سو ہم نے اسے '' نہ چھوڑنے '' کے صرف گر بتا دیے تھے اور کچھ نہیں کیا تھا ۔ اور اس کی خالی کھوپڑی میں بات آگئی کہ نہ چھوڑنے کا مطلب کیا ہے ؟ وہ نہیں جو وہ سمجھ بیٹھی تھی بلکہ وہ جو وہ نہیں سمجھ رہی تھی لیکن اب سمجھ گئی کہ وہ اسے نہیں چھوڑیں گے ۔ اس لیے '' لہاکھ '' تھم تھم چلنے کی نہیں بلکہ جم جم کر چلنے کی ضرورت ہے ۔